ایک آدمی نے فریب دیتے ہوئے اپنے آپ کو سنی مذہب ظاہر کرکے ایک سنی عورت سے نکاح کرلیا۔ جب عورت کو معلوم ہوا کہ یہ شیعہ ہے تو اس سے نفرت کرنے لگی۔ کیا عورت کو فسخِ نکاح کا اختیار ہے یا نہیں؟
اس صورت میں عورت کو اختیار ہے۔ درمختار میں ہے کہ اگر مرد نے بتایا کہ وہ آزاد ہے یا سنی ہے یا حق مہر دے سکتا ہے یا خرچ پورا کرسکتا ہے، لیکن اس کے خلاف ثابت ہوا، مثلاً وہ حرام زادہ نکلا تو عورت کو اختیار ہوگا۔ (محمد محفوظ اللہ پانی پتی ) (الدرالمختار ۳ ؍۵۰۱)
یہ جواب صحیح ہے، کیونکہ ناکح نے اپنے آپ کو سنی قرار دیا اور اس کا یہ جملہ نکاح کے لیے شرط تھا، جب شرط مفقود ہوگئی تو مشروط بھی ختم ہوگیا۔ (مہر) محمد عبدالرب، سید محمد نذیر حسین، محمد قطب الدین خان۔ محمد لطف اللہ۔
پہلا جواب سوال کے مطابق نہیں ہے، کیونکہ سوال یہ نہیں کہ سنی کا نکاح شیعہ سے جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ سوال اختیار کا ہے اور مجیب نے اگرچہ درمختار کی عبارت کے ضمن میں اختیار کا لفظ لکھا ہے، لیکن درمختار کی یہ عبارت یہاں صحیح نہیں بیٹھتی کہ عورت مقدمہ کرکے نکاح فسخ کراسکتی ہے۔
اور دوسرا جواب غلط ہے، اس لیے کہ شرط مشروط معاملات میں ہوتے ہیں نہ کہ نکاح وغیرہ میں۔ دمیاطی نے لکھا ہے کہ اگر نکاح میں ایسی شرط لگائے جو نکاح کے مخالف ہو تو نکاح صحیح ہو جائے گا اور شرط باطل ہو جائے گی، اس لیے کہ نکاح شروط فاسدہ سے باطل نہیں ہوتا۔ (محمد عبدالحی)
اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ جواب اول و دوم پر معترض کا اعتراض غفلت کی بنا پر ہے یا شاید یہ مقصد ہو کہ میں سید نذیر حسین پر اعتراض کروں اور اس سے فخر مقصود ہو، ورنہ جواب اول عین مطابق سوال ہے اور جواب ثانی بالکل درست ہے۔ اور تیسرے جواب کی دوسری وجہ کہ جس کو معترض نے صحیح کہا ہے، وہ اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتی، جب تک کہ جواب اول و دوم کو صحیح نہ تسلیم کرلیا جائے، ورنہ جواب سوال مذکور میں یہ وجہ محض ناکافی اور بے معنی ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ ایک آدمی نے فریب سے اپنے آپ کو سنی المذہب ظاہر کیا اور سنی عورت سے نکاح کرلیا۔ عورت جب اس کے شیعہ ہونے پر مطلع ہوئی تو اس کو نفرت ہوگئی۔ کیا اس کو فسخِ نکاح کا اختیار ہے یا نہیں؟ پس مجیب اول نے جواب دیا کہ عورت کو اختیار ہے۔ اس جواب کو معترض سوال کے مطابق نہیں سمجھتا۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ سائل پوچھتا ہے: اس کو اختیار ہے یا نہیں؟ اور مجیب کہتا ہے: اس کو اختیار ہے۔ اس سے زیادہ واضح اور مطابق سوال کیا جواب ہوسکتا ہے؟
چنانچہ معترض نے خود بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ درمختار کی عبارت اس کے مطابق نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سوال و جواب کی عدم مطابقت کا اعتراض بالکل بے جا ہے اور یہ بیان کہ در مختار کی عبارت مطابق سوال واقع نہیں ہے، یہ پہلے اعتراض سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ معترض ایسے اعتراض کیسے کرلیتا ہے؟ کیونکہ درمختار کی عبارت یہ ہے کہ اگر عورت نے اس شرط پر نکاح کیا کہ وہ آزاد ہے یا سنی ہے یا مہر اور نفقہ دینے پر قادر ہے۔ پھر اس کے برخلاف ظاہر ہوا کہ فلاں بن فلاں ہے یا حرام زادہ ہے تو اس کو اختیار ہے۔ یہ صریح دلیل ہے مجیب کے سوال پر کہ عورت فسخِ نکاح کا اختیار رکھتی ہے۔
اور معترض نے جو فسخِ نکاح کے لیے صورت مرافعہ حاکم کی بیان کی ہے، دو وجہ سے مخدوش ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ’’ اس کو اختیار ہے‘‘ کے الفاظ عام ہیں، خواہ حاکم سے فسخ کرائے یا خود فسخ کرے۔ اس کو پہلے معنی کے ساتھ خاص کرنا تخصیص بلا مخصص اور ترجیح بلا مرجح ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ علامہ ابن عابدین نے ’’ردالمحتار‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر مرد اپنا نسب غلط بیان کرے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ کفو نہیں ہے تو ہر ایک کو فسخ کا اختیار ہے، اور اگر کفو ہو تو صرف عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہے، دوسروں کو نہیں۔ اور اگر اس کے یہاں سے وہ اچھا ثابت ہو تو کسی کو بھی اختیار نہیں ہے۔ (ردالمحتار ۹ ؍۴۳۹)
پس معلوم ہوا کہ اس جگہ اختیار سے مراد اختیارِ فسخ ہے، جیسا کہ مجیب نے استدلال کیا ہے۔
اور اگر بالفرض معترض کے اعتراض کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ خیار کا معنی وہی ہے جو اس نے بیان کیا ہے تو پھر بھی مجیب کو حق ہے کہ اس سے استدلال کرے۔ کیونکہ سوال یہ ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ نہیں؟ تو مجیب نے اس کا جواب دیا ہے کہ عورت کو اختیار ہے، خواہ وہ خود فسخ کرے یا حاکم سے کرائے۔
اور جواب ثانی جو جواب اول کے لیے بطور دلیل ہے، معترض نے اس کو دمیاطی کے قول کی بنا پر غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جملہ ’’ إذا فات الشرط فات المشروط‘‘ (جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی فوت ہو جاتا ہے) صحیح نہیں، کیونکہ شرط معاملات میں ہوتی ہے نہ کہ نکاح میں، حالانکہ یہ کلیہ تمام معاملات دینی و دنیاوی میں نافذ ہے، بیع ہو یا آزادی یا نکاح، حتی کہ رسول اللہﷺ کی بیعت میں بھی جریر بن عبداللہ سے آپ نے شرط کی تھی کہ ’’ ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا‘‘ اس میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ شرط صحیح ہو، غلط نہ ہو، اگر شرط صحیح ہوگی تو وہ نافذ ہوگی، ورنہ نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ( صحیح البخاري، رقم الحدیث: ۵۸، ۲۵۶۵)
’’ سب سے زیادہ مؤکد شرط وہ ہے جس سے تم نے شرمگاہ کو حلال کیا۔‘‘ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث: ۲۵۷۲، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۴۱۸)
علامہ عینی نے بخاری کی شرح میں اسی حدیث کے تحت لکھا ہے کہ نکاح کے لیے شرائط کئی قسم کے ہیں۔ بعض وہ ہیں جن کا پورا کرنا واجب ہے، مثلاً حسنِ معاشرت۔ بعض وہ ہیں جن کو پورا نہ کرنا چاہیے، مثلاً پہلی بیوی کی طلاق۔ بعض میں اختلاف ہے، مثلاً اس عورت پر کسی اور عورت سے نکاح نہ کیا جائے۔ ( عمدۃ القاري ۲۰ ؍۱۴۰ )
علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اگر عورت نے غیر کفو میں نکاح کیا تو اس کے اولیا کو اگرچہ وہ غیر محرم ہوں، فسخِ نکاح کا اختیار ہے، اگر ان سے رضا کا ظہور نہ ہو۔ اگر مرد نے اپنا حال نہیں بتایا، پھر نکاح کے بعد معلوم ہوا کہ وہ غلام ہے یا ماذون فی النکاح تھا تو اولیا کو فسخ کا اختیار نہیں ہے۔ اگر وہ غلام ہوتے ہوئے اپنے آپ کو آزاد بیان کرے تو عاقد کو فسخِ نکاح کا اختیار ہے۔ حصکفی نے بھی درِ مختار میں اسی طرح لکھا ہے۔ (فتح القدیر ، ۷ ؍۴۸) ، (الدرالمختار ، ۳ ؍۸۵)
شعیب علیہ السلام نے اپنی لڑکی کے نکاح میں موسیٰ علیہ السلام سے آٹھ یا دس سال رہنے کی شرط کی تھی۔ اگر شرط صحیح نہ ہو تو اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ( سورۃ القصص، آیت: ۲۷)
’’ قافلے والوں کو آگے جا کر نہ ملا جائے اور کوئی مہاجر اعرابی کا سامان نہ بیچے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کی شرط نہ کرے، کوئی آدمی اپنے بھائی کے نرخ پر نرخ نہ کرے،کوئی دھوکا نہ کرے اور دودھ روکے جانور کو فروخت نہ کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵۷۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۵۱۵)
ایسی شرطوں کا پورا کرنا جو درست نہ ہوں، جائز نہیں ہے، چنانچہ بریرہ کی ولاء رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ کو دلا دی تھی، حالانکہ انھوں نے بریرہ سے شرط بھی کرلی تھی، چونکہ وہ شرعاً درست نہیں تھی، آپ نے اس کو نافذ نہ کیا۔ ( صحیح البخاري، رقم الحدیث ۲۴۲۲، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۵۰۴)
حاصل کلام یہ کہ قاعدہ ’’ جب شرط فوت ہو جائے تو مشروط بھی فوت ہو جاتا ہے‘‘۔ درست اور بجا ہے، بشرطیکہ شرط صحیح اور نکاح کے تقاضے کے مطابق ہو اور صورت مسئولہ میں اسی طرح ہے۔ کاش کے معترض اس پر نظرِ انصاف سے توجہ کرتا!!