ایک شخص نے اپنی زوجہ سے علیحدگی اختیار کرکے تقریباً عرصہ تین سال سے اپنی زوجہ کے جمیع حاجات مع نان نفقہ کے بند کردیا اور اس سبب سے زوجہ مذکورہ سخت تکلیف میں مبتلا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زوجہ مذکورہ اس حالت میں اپنے نکاح کو شخص مذکور سے فسخ کراسکتی ہے یا نہیں؟
’’ اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے۔‘‘
عورت مذکورہ جب عدم انفاقِ زوج سے تکلیف میں مبتلا ہو اور ضرر پائے اور ناچار ہو کر زوج سے نکاح کو فسخ کرانا چاہے تو ذیل کے فتوے کے موافق کراسکتی ہے۔ قال اللہ تعالی:
’’ اور انھیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم و زیادتی کے لیے نہ روکو۔‘‘
اس آیت کریمہ کے تحت میں امام سیوطی ’’ تفسیر الإکلیل في استنباط التنزیل‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ فیه وجوب الإمساک بمعروف، وتحریم المضارة، واستدل به الشافعي علی أن العاجز عن النفقة یفرق بینه وبین زوجته، لأن اللہ تعالی خیر بین الثنین لا ثالث لھما : الإمساک بمعروف، والتسریح بإحسان، وھذا لیس ممسکا بمعروف فلم یبق إلا الفراق‘‘’’ اس میں معروف طریقے سے امساک واجب ہے اور اذیت پہنچانے کی حرمت ہے، اسی سے امام شافعی نے استدلال کیا ہے کہ نفقہ نہ دے سکنے والے شخص اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کردی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دو میں سے ایک کا اختیار دیا ہے، تیسری کوئی چیز نہیں ہے: معروف طریقے سے روک لیا جائے یا احسن طریقے سے رخصت کردیا جائے اور یہ معروف طریقے سے امساک نہیں ہے، تو اب فراق یعنی جدائی ہی کی صورت باقی رہ جاتی ہے۔‘‘
اور حدیث شریف میں ہے:
’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں فرمایا تھا جو اپنی بیوی پر خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا کہ ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے۔ اس کی روایت دارقطنی نے کی ہے۔ مجد الدین ابن تیمیہ کی ’’منتقی الأخبار ‘‘ میں ایسے ہے۔‘‘
اور ’’ نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار ‘‘ میں ہے:
’’ وفي الباب عن سعید بن المسیب عند سعید بن منصور والشافعي وعبدالرزاق‘‘ ( نیل الأوطار ۷ ؍۲۸)’’ اس باب میں سعید بن المسیب کے واسطے سے سعید بن منصور، شافعی اور عبدالرزاق کے ہاں روایت منقول ہے۔‘‘
اور بلوغ المرام میں ہے:
’’ عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ انھوں نے اجناد کے امرا کو ان اشخاص کے بارے میں لکھ بھیجا جو اپنی عورتوں سے لمبے عرصے سے غائب تھے کہ وہ ان کا مواخذہ کریں کہ یا تو وہ اپنی عورتوں کے نفقے کی ذمہ داری لیں یا انہیں طلاق دیں۔ اگر وہ طلاق دیتے ہیں تو پچھلا نفقہ دیں۔ اس کی تخریج شافعی اور بیہقی نے حسن سند کے ساتھ کی ہے۔‘‘
اور ’’ سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘ میں ہے:
’’ إنه دلیل علی أنھا عنده لا یسقط النفقۃ بالمطل في حق الزوجة، وعلی أنه یجب أحد الأمرین علی الأزواج : الإنفاق أو الطلاق‘‘ ( سبل السلام ۳ ؍۲۲۶)’’ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک زوجہ کے حق میں نفقہ تنگ کرنے کی بنا پر ساقط نہیں ہوتا ہے، نیز اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ شوہروں پر دو میں سے ایک امر واجب ہے: انفاق یا طلاق۔‘‘
اور ’’ زاد المعاد في ھدی خیر العباد ‘‘ للإمام ابن قیم رحمہ اللہ میں ہے:
’’صح عن عمر رضي اللہ عنه أنه کتب إلی أمراء الأجناد في رجال غابوا من نسائھم فأمرھم بأن ینفقوا أو یطلقوا ، فإن طلقوا بعثوا بنفقۃ ما مضی، ولم یخالف عمر رضی اللہ عنه في ذلک منھم مخالف، قال ابن المنذر رحمه اللہ : ھذه نفقة وجبت بالکتاب والسنة والإجماع، ولا یزول ما وجب بھذہ الحجج إلا بمثلھا‘‘ انتھی قوله ( زاد المعاد ۵ ؍۵۰۸)’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ انھوں نے امراے اجناد کو ایسے افراد کے بارے میں لکھ بھیجا جو اپنی عورتوں سے غائب تھے کہ یا تو ان کا نفقہ بھیجیں یا طلاق دیں اور اگر وہ طلاق دیتے ہیں تو پچھلا نفقہ بھیجیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ ابن المنذر نے کہا ہے کہ یہ وہ نفقہ ہے جو کتاب و سنت اور اجماع سے واجب ہے۔ اس طرح کے مضبوط دلائل والے وجوب کا زوال یا اسقاط اسی کی مثل سے ممکن ہے۔‘‘
ایضاً اسی کتاب میں ہے:
’’ إن الصحابة رضی اللہ عنهم أو جبوا للزوجة نفقۃةما مضی‘‘ (مصدر سابق)’’ صحابہ رضی اللہ عنھم نے زوجہ کا گزشتہ نفقہ واجب قرار دیا ہے۔‘‘
ان سب عبارات بالا سے یہ بات بہ خوبی ثابت ہوئی کہ معسر کی بی بی بہ سبب اعسار نان نفقہ وغیرہ کے اپنے نکاح کو فسخ کراسکتی ہے۔ علی ہذا القیاس، بلکہ بدرجہ اولی اس سے موسر کی بی بی بھی ان سب وجوہات سے اپنے نکاح کو فسخ کراسکتی ہے۔ اس بات کی موید اثر عمر رضی اللہ عنہ موجود ہے۔ کما لا یخفی علی الماھرین۔
اب رہی یہ بات کہ عورت مذکورہ کس طرح سے اپنے نکاح کو فسخ کرائے؟ سو جواب اس کا یہ ہے کہ اس عورت کو مناسب ہے کہ اپنے استغاثہ کو مع فتوے کے حاکم وقت یا نائب حاکم کے پاس پیش کرے اور ان کی مرضی کے موافق عمل کرے۔