کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ ایک لڑکی ہے، جس کی عمر تخمیناً تیرہ برس کی ہوگی۔ اس کے باپ ماں انتقال کر گئے، اس کے دادا بھی نہیں ہیں۔ اب اس لڑکی یتیمہ کا نکاح اس کی اجازت سے اس کے چچا نے اپنے دوسرے بھائی کے لڑکے کے ساتھ کردیا اور اس کے دوسرے چچا اور گھر کے سب لوگ راضی تھے، صرف اس لڑکی کے نانا راضی نہیں ہیں۔ پس یہ نکاح موافق شریعت محدیہ کے درست اور جائز ہوا یا نہیں؟ مدلل تحریر فرما دیں۔
’’ اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے۔‘‘
بصورت صدق سوال اس ہندہ یتیمہ کا اس عمر میں فی الحقیقت بالغہ کا ہونا تصور کیا جاسکتا ہے اور اگر فی الحقیقت بالغہ نہیں ہے تو بھی شرعاً حکم بالغہ اس پر صادق آتا ہے اور اس کی اجازت سے اس کے چچا ولی اقرب نے جو شادی کردی، یہ شادی موافق شریعت محمدیہ۔ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ۔ کے درست معلوم ہوتی ہے۔
’’ احمد اور اسحاق نے کہا ہے کہ جب یتیم بچی نو سال کی ہو جائے اور اس کی شادی کردی جائے اور وہ راضی ہو تو نکاح جائز ہے، بلوغت کے بعد اس کو (انکار) کا اختیار نہیں ہے۔ بطور دلیل ان دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی ہے کہ نبیﷺ نے ان سے یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ نو سال کی تھیں اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات کہی ہے کہ جب کوئی بچی نو برس کی ہو جائے تو وہ عورت ہے۔ ایسا ہی ابوداود کی شرح ’’ عون المعبود‘‘ میں ہے جس کے مولف ہمارے استاد علامہ ابوالطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی ہیں۔‘‘
اس عبارت بالا سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر یتیمہ نابالغہ کا نکاح اس کے عدم رضا سے کردیا جائے، بعد ازاں وہ یتیمہ راضی ہو جائے تو بھی وہ نکاح جائز ہے، چہ جائیکہ اس سوال میں اس ہندہ یتیمہ کی رضا مندی و اجازت قبل عقد نکاح کے ثابت ہے، پائی جاتی ہے۔ اور ولی مذکور کے ماسوا دیگر اولیاء کا موجود ہونا اور اس پر راضی رہنا، یہ بات بھی ثابت ہے۔ اور حکم بالغہ کا اس ہندہ پر جاری ہے۔ اور اغلب گمان یہ کہ حقیقت میں یہ ہندہ بالغہ ہے۔ پس باوجود ان وجوہات کے یہ نکاح کیوں کر درست نہ ہو؟ باقی رہی یہ بات کہ اس لڑکی کے نانا اور نانی راضی نہیں ہیں تو ان کے عدم رضا سے یہ نکاح نا درست نہیں ہوسکتا ہے۔ اولاً جمہور علماء کے نزدیک ذوی الارحام ولی نہیں ہے اور نانا ذوی الارحام میں شامل ہے اور نانی اگرچہ ذوی الارحام میں شامل نہیں ہے تاہم یہ عصبہ بھی نہیں ہے۔ ( عصبہ یعنی ولی بھی نہیں ہے)۔ [مولف]
چنانچہ ’’بلوغ المرام‘‘ میں ہے:
’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عورت، عورت کا نکاح نہیں کرسکتی اور نہ عورت خود اپنی شادی کرسکتی ہے۔ اس کی روایت ابن ماجہ اور دارقطنی نے کی ہے۔ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔‘‘
اور اس کی شرح ’’سبل السلام‘‘ میں ہے:
’’فیه دلیل علی أن المرأة لیس لھا ولایة في الإنکاح لنفسھا ولا لغیرھا‘‘ ( سبل السلام ۳ ؍۱۲۰)’’ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو اپنا نکاح کرانے یا دوسرے کا نکاح کرانے میں ولایت کا حق نہیں ہے۔‘‘
پس ان وجہوں سے ان دونوں کے عدم رضا کا اثر اس نکاح پر نہیں پڑ سکتا ہے اور جن علماء کے نزدیک عصبات کے ماسوا ذوی الفرائض وذوی الارحام بھی ولی ہوسکتے ہیں تو ان کے نزدیک بھی عصبات مقدم ہیں ذوی الاحارم وغیرہ پر، اور نانی تو کسی حال میں ولی نہیں ہوسکتی ہے۔ کما مر الآن۔
قال علي القاری الحنفي : ’’ الولی ھو العصبة علی ترتیبھم بشرط حریة وتکلیف، ثم الأم، ثم ذوالرحم الأقرب فالأقرب، ثم مولی الموالات ثم القاضي ‘‘ ھکذا في عون المعبو ( عون المعبود ۶ ؍۷۰)’’ علی الترتیب عصبہ ولی ہوتا ہے، حریت اور استطاعت کی شرط کے ساتھ، پھر ماں ہوتی ہے، پھر قریبی رشتے دار اور اس سے قریب، پھر موالی، پھر قاضی۔ عون المعبود میں ایسا ہی ہے۔‘‘
اس قول میں لفظ ’’ ثم الأم ‘‘ کا اس سے ماں کا ولی ہونا بعد عصبات کے ثابت ہوتا ہے، لیکن مسئول عنہا میں ماں کا عدم ہونا ثابت ہے۔ اس کے ماسوا اگر ماں زندہ بھی ہوتی تو بھی ولی نہیں ہوسکتی تھی، حدیث شریف کی رو سے۔ إذا جاء نھر رسول اللہﷺ بطل نھر معقل!
خلاصہ ان سب عبارتوں کا یہ ہے کہ اس ہندہ کے چچا نے ہندہ کی جو شادی کرا دی، یہ شادی موافق شریعت محمدیہ۔ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ۔ کے درست ہوئی اور نانا نانی کے غیر رضا سے یہ شادی نا درست نہیں ہوسکتی ہے