کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ رات کو اس قدر بیداررہے جس کی وجہ سے وہ نماز فجر باجماعت یا بروقت ادانہ کرسکے خواہ یہ بیداری قرآن مجید کی تلاوت یا طلب علم ہی کے لئے ہو،تو اس سے اندازہ فرمائیے کہ ٹیلی وژن دیکھنے اورتاش کھیلنے کے لئے بیداری کی کہاں تک گنجائش ہوسکتی ہے؟
اپنے اس عمل کی وجہ سے یہ شخص اللہ تعالی کی سزاکا مستحق ہے نیز یہ اس بات کا مستحق ہے کہ حکمران بھی اسے سزادیں جس کی وجہ سے یہ اوراس جیسے دیگر لوگ اپنی اصلاح کرلیں ۔ نماز فجر کو دانستہ طلوع آفتاب تک موخر کرنا تمام اہل علم کے نزدیک کفر اکبر ہے کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ:
‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق،ترک نماز سے ہے۔’’
نیزآنحضرت ﷺنے فرمایاہےکہ:
‘‘ہمارے اوران (کفارومشرکین)کے درمیان عہد ،نماز ہے جو اسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’
اس حدیث کو امام احمد اوراہل سنن نےحضرت بریدہ حصیب رضی اللہ عنہ سےصحیح سندکے ساتھ روایت کیا ہے۔اس باب میں اوربھی بہت سی احادیث اورآثار ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جوشخص جان بوجھ کر کسی شرعی عذر کے بغیر نماز کو اس قدر موخر کرے کہ اس کاوقت ختم ہوجائے تووہ کافر ہے لہذا ہرمسلمان پریہ واجب ہے کہ وہ نماز بروقت اداکرے اوراس کے لئے اپنے اہل خانہ یا بھائیوں اوردوستوں میں سے کسی کی مددلے یا گھڑی کا لارم لگالیا کرے جس کی وجہ سے بروقت بیدار ہوسکے۔
سوال کرنے والے بھائی!آپ بھی اپنے دوست کی مددکیجئے ،اسے کثر ت سے سمجھائیے اوراس کے باوجود اگریہ اپنے اس قبیح عمل پر اصرارکرےتومرکز الھیئۃ میں اس کی شکایت کیجئے تاکہ اسے مناسب سزابھی دی جاسکے ۔ہم اللہ تعالی سےسب کے لئے ہدایت اورحق پر استقامت کی دعاکرتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب