کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ باپ نے اپنی لڑکی کا نکاح حالت صغر میں کردیا۔ آیا یہ نکاح صحیح ہوا یا نہیں؟ اگر صحیح ہوا تو لڑکی کو بعد بلوغ کے فسخ کا اختیار ہے یا نہیں؟
﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ﴾ ( یوسف: ۴۰) ’’ حکم تو صرف اللہ کا ہے۔‘‘
صورت مسئولہ عنہا بہ نظر دلائل قویہ مفصلہ ذیل کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نکاح صحیح ہوا اور لڑکی بعد بلوغ کے اس نکاح پر راضی رہی تو تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر وہ لڑکی نابالغہ بعد بلوغ کے اس نکاح پر راضی نہ ہو تو اس کو فسخ نکاح کا اختیار ہے۔ صحتِ نکاح نابالغہ کی دلیل اول یہ آیت کریمہ ہے۔ قال اللہ تبارک وتعالیٰ:
’’ تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئیں ہوں، اگر تمھیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مطلقات کی عدت بیان فرمائی ہے اور انھیں مطلقات میں ان عورتوں کی، جو اب تک حیض والی نہیں ہوئی ہیں بلکہ نابالغہ ہیں، عدت تین مہینہ بیان فرمائی ہے اور انھیں مطلقات میں ان عورتوں کی، جو اب تک حیض والی نہیں ہوئی ہیں بلکہ نابالغہ ہیں، عدت تین مہینہ بیان فرمائی ہے۔ یہ آیت صحت نکاح نابالغہ پر نہایت صاف و واضح دلیل ہے۔
امام الائمہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے:
’’ باب إنکاح الرجل ولدہ الصغار ، لقولہ تعالی : ﴿ وَاڿ لَمْ يَحِضْنَ ﴾۔ فجعل عدتھا ثلاثۃ أشھر قبل البلوغ‘‘ انتھی (صحیح البخاري ۵ ؍ ۱۹۷۲)
’’ کسی شخص کا اپنے چھوٹے بچوں کا نکاح کروانا، اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بموجب: ’’اور وہ خواتین جو حیض کی عمر کو نہیں پہنچی ہیں۔‘‘ تو بلوغت سے قبل ان کی عدت تین ماہ ہے۔‘‘
دوسرا استدلال نابالغہ کی صحتِ نکاح پر اس آیت کریمہ سے ہے۔ قال اللہ تعالیٰ :
’’ یعنی اگر تم لوگوں کو یتیم بچیوں سے نکاح کرنے میں یہ خوف ہو کہ ان میں قسط و انصاف نہ کرسکو تو دوسری عورتوں سے کرو جو تمہیں پسند ہوں، دو عورتوں سے ، خواہ تین عورتوں سے، خواہ چار سے۔‘‘
اس حکم کے مخاطب وہ اولیاء ہیں جن کی تولیت میں یتیموں کا جان و مال ہو۔ اس آیت کریمہ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اگر قسط و عدل کا یقین ہو تو ان اولیاء کو نابالغہ یتیموں سے نکاح کرلینا اور کر دینا درست ہے۔ پس باپ کا اپنی نابالغہ کا نکاح کردینا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔
اس آیت میں یہ شبہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ ﴿ الْیَتٰمٰی ﴾ سے مراد وہ یتیم عورتیں ہیں جو اب بالغ ہوچکی ہیں۔ بدو وجہ:
اولاً: اس لیے کہ اولاً شرع میں یتیم کا حقیقتاً اطلاق نابالغ پر ہوتا ہے اور بالغ پر اس کا اطلاق مجازاً ہے۔ پس جب تک معنی حقیقی ممتنع نہ ہو، مجازی معنی نہیں لیا جاسکتا ہے۔
وقال شیخ شیخنا العلامۃ الآلوسي في تفسیرہ روح المعاني:
’’ وفي الآیة دلیل لجواز نکاح الیتیمة ، وھي الصغیرة ، إذ یقتضي جوازه إلا عند خوف الجور۔‘‘ انتھی ( تفسیر روح المعاني ۴ ؍۱۹۰)’’ اس آیت کریمہ میں چھوٹی نابالغ یتیم لڑکی کے نکاح کے جواز کی دلیل ہے، جو اس کے جواز کی مقتضی ہے سوائے ظلم و جور کے وقت۔‘‘
ثانیاً: عام عورتوں سے نکاح کرنے میں عدل نہ ہونے کا خوف ہو تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے علیحدہ کر کے اسی کے بعد بیان فرمایا ہے بقولہ:
’’ لیکن اگر تمھیں انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ سابق الذکر حکم صرف ان نابالغہ لڑکیوں کا ہے جن پر شرعاً یتیم کا اطلاق صحیح ہے۔ تیسری دلیل صحت نکاحِ نابالغہ کی یہ ہے، جو صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’ نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی، جبکہ ان کی عمر صرف چھے سال کی تھی اور رخصتی اس وقت ہوئی تھی، جبکہ ان کی عمر نو سال کی تھی اور وہ آپ کے پاس نو سال رہیں۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے پیغام نکاح بھیجا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے کہا: میں تو آپ کا بھائی ہوں؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ تم میرے دینی بھائی ہو اور یہ میرے لیے حلال ہے۔ ختم شد‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ نابالغہ لڑکی کا نکاح اگر باپ کردے تو صحیح ہے۔ اس واقعہ پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ کا ہے اور صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’ نبی ﷺ نے فرمایا: ایم کا نکاح اس کے حکم کے بغیر نہیں کیا جائے گا اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بعد ہی کیا جائے گا۔‘‘
اور یہ حدیث مدنی ہے، پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ اجازت لینے کا حکم آنے سے پہلے کی حالت پر محمول ہوگا اور حدیث نہی علی حالہ باقی رہے گی۔ کما ذکرہ الإمام الحافظ ابن حجر في فتح الباري وتبعہ العلامۃ الشوکاني في النیل۔’’ جیسا کہ امام حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں ان کی اتباع کی ہے۔‘‘ ( نیل الأوطار ۶ ؍ ۱۸۳)
لیکن یہ احتمال مخدوش ہے اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خلاف واقعہ نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عدم صحت نکاح نابالغہ پر استدلال لانا صحیح نہیں ہے۔ بدو وجہ:
اول: یہ کہ اگرچہ نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ معظمہ میں ہوا ہے، لیکن مسئلہ مبحوث عنہا یعنی صحت نکاح نابالغہ کی تائید سورۃ النساء کی آیت: ﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا ﴾ ( النساء: ۳) اور سورۃ الطلاق کی آیت ﴿ وَّاِلّٰیْٔ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ ﴾ ( الطلاق: ۴) سے ہوتی ہے اور وہ دونوں سورہ مدنیہ ہیں۔
دوم: یہ کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں اگر ’’ لا یُنکح ‘‘ کا مفہوم عدم صحت نکاح لیا جائے تو کل نکاح بصورت عدم استئمار اور عدم استئذان کے فاسد و باطل ٹھہرے گا۔ حالانکہ احادیث صحیحہ سے چند واقعات ایسے ثابت ہیں کہ عورتوں کا نکاح ان کے اولیاء نے بغیر اذن بلکہ خلاف مرضی ان کے کردیا تھا، اس کو رسول اللہﷺ نے فاسد و باطل نہیں کیا، بلکہ عورت کو اختیار دیا کہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔
’’ مسند احمد، سنن ابوداود، سنن ابن ماجہ اور سنن دارقطنی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دو شیزہ نبی ﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کردی ہے، تو نبیﷺ نے اس کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھے اور چاہے تو انکار کردے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے قوی ہے، اس میں کوئی علت نہیں ہے، جیسا کہ میں نے سنن ابوداود کی شرح ’’عون المعبود‘‘ میں اس کی تحقیق کی ہے۔ نیز سنن ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے عبداللہ بن بریدہ سے روایت کی ہے اور انھوں نے اپنے والد سے کہ ایک نوجوان لڑکی رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ میرے والد نے میری شادی اپنے بھائی کے لڑکے سے کردی ہے، تاکہ وہ اپنی پست حالت کو بلند کرسکے۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس لڑکی کو اختیار دے دیا۔ تو لڑکی نے کہا کہ میرے ساتھ میرے باپ نے جو کیا میں اس پر راضی ہوں، مگر میں تو صرف یہ چاہتی تھی کہ خواتین کو یہ بتا دوں کہ ان کے اولیا کو اس بارے میں زور زبردستی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث کی سند صحیح ہے اور نسائی کی سند حسن ہے۔ شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ ابن ماجہ نے اس کی تخریج صحیح کے رجال کے واسطے سے کی ہے۔ علامہ احمد بن ابوبکر بوصیری، جو حافظ ابن حجر کے شاگرد ہیں، نے کتاب ’’ زوائد ابن ماجہ علی الکتب الخمسۃ‘‘ میں کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔‘‘
ان روایات صحیحہ سے ثابت ہوا کہ صرف عدم استئمار و عدم استئذان مفسد و مبطل نکاح نہیں ہے، بلکہ نکاح صحیح ہو جاتا ہے اور اس کے جواز و فسخ کا اختیار عورت کو ہے۔
چوتھا استدلال صحت نکاح نابالغہ پر اس حدیث سے ہے:
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ ثیب اپنے ولی کے مقابلے میں بذات خود زیادہ حقدار ہے اور باکرہ سے بھی اجازت طلب کی جائے اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہوگی۔‘‘ اس کی روایت مسلم اور اصحاب السنن نے کی ہے۔‘‘
اس حدیث سے ائمہ مالک و شافعی و احمد و لیث و ابن ابی لیلیٰ و اسحاق بن راہویہ نے اس امر پر احتجاج کیا ہے کہ باپ بغیر اذن حاصل کیے ہوئے لڑکی کا نکاح کردے سکتا ہے اور یہ احتجاج نہایت صحیح اور قابل تسلیم ہے۔ وإن ردہ العلامۃ الشوکاني۔ ’’ اگرچہ علامہ شوکانی نے اس کی تردید کی ہے۔‘‘ ( نیل الأوطار ۶ ؍۱۸۳)
وجہ استدلال یہ ہے کہ ایک حدیث میں یہ وارد ہے:
’’ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔‘‘ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۰۸۵) سنن الترمذي ، رقم الحدیث (۱۱۰۱) سنن ابن ماجہ ۱۱۸۰)
اور ایک روایت میں یوں ہے:
’’ جو کوئی عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘
اور پھر روایت مذکورہ ابن عباس میں یہ لفظ ہے:
’’ ثیب اپنے ولی کے مقابلے میں بذات خود زیادہ حقدار ہے اور باکرہ سے اجازت لی جائے گی۔‘‘
پس ان روایات کو جمع کرنے سے دو بات ثابت ہوئیں۔ ایک یہ کہ عورتوں کے نکاح و انکاح میں ولی کو بھی حق حاصل ہے اور عورت کو بھی حق حاصل ہے۔ نہ عورت بغیر اذن و اطلاعِ ولی کے اپنا نکاح آپ کرلینے کی مجاز ہے کہ فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جاوے اور نہ ولی کو خلاف مرضی اور اجازت عورت کے نکاح کردینے کا حق ہے کہ ظلم و تعدی کا راستہ جاری ہو جاوے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ دونوں حق، یعنی عورت کا حق اور ولی کا حق ثیب اور بکر میں یکساں اور مساوی نہیں ہے، بلکہ فرق ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ ثیب میں ولی کا حق کم ہے اور خود عورت ثیبہ کا حق زیادہ ہے، یعنی نکاح کا کل معاملہ عورت ثیبہ کے اختیار میں ہے، لیکن ولی کو علم و اطلاع ہو جانا ضرور ہے، بخلاف بکر کے کہ اس میں ولی کا حق زیادہ ہے اور عورت بکر کا حق کم ہے، یعنی نکاح کا کل معاملہ ولی کے متعلق ہے، عورت بکر کو صرف علم و اطلاع ہو جانا کافی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ عورت اور اس کے ولی کے منشا میں اختلاف نہ ہو۔ اور بصورت اختلاف ولی کو حق جبر نہیں ہے، نہ ثیب پر، نہ باکرہ پر۔ اور جب باکرہ کے انکاح میں احقیت ولی کو ہے اور اس کا سب معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو اگر ولی نے عقدِ نکاح بغیر استئذان اس کے کردیا تو عقد صحیح ہوگیا۔ رہا حکم استئذان اور عورت کو اطلاع اس کی، وہ بعد نکاح کے رخصتی کے یا خلوت کے وقت ہو ہی جاوے گی۔ اس وقت اگر وہ ساکت رہی تو نکاح باقی رہے گا اور اگر انکار کیا تو نکاح فسخ ہو جاوے گا۔ بخلاف ثیب کے کہ اگر اس نے اپنے اختیار سے نکاح کرلیا اور ولی سے اذن نہیں لیا تو رخصتی یا خلوت کے وقت ممکن ہے کہ ولی کو اس کی اطلاع بھی نہ ہوتی، تو اس صورت میں ولی کے اذن کا حکم بالکل مفقود ہو جاوے گا جو انسداد فتنہ کی غرض سے امر ضروری قرار دیا گیا تھا۔
الحاصل ثیب کو اپنے نکاح کے معاملہ میں ولی سے زیادہ حق ہے، مگر ولی کو علم و اطلاع ہو جانا ضروری ہے۔ اور باکرہ کے نکاح میں اس کے ولی کو زیادہ حق ہے کہ دیانتاً جس سے نکاح کردینا لڑکی کے حق میں بہتر سمجھے کردے۔ اور جب بالغہ باکرہ کے نکاح میں ولی کو زیادہ حق ہے تو نابالغہ کے حق میں ولی کو پورا حق بدرجہ اولیٰ حاصل ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ لڑکی اس سے کارہ اور ناخوش نہ ہو اور کراہت و ناخوشی کا اعتبار لڑکی کو شعور و علم و اطلاع ہونے کے وقت سے ہے۔ اگر لڑکی وقت نکاح کے بالغہ ہے اور اس وقت اس کو علم و اطلاع بھی ہوئی تو اسی وقت کی ناراضی و کراہت اس کی قابل اعتبار و سبب فسخ نکاح ہوگی۔ اور وقت نکاح اگر وہ نابالغہ ہے تو جب وہ بالغ ہو اور اس کو شعور ہو اور نکاح پر مطلع ہو، اس وقت اس کو اختیار ہوگا کہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ بالا : (( لا تنکح الأیم حتی تستأمر ، ولا تنکح البکر حتی تستأذن)) سے اگر یہ شبہ کیا جائے کہ بغیر اذن بکر کے اس کا نکاح صحیح نہیں ہوتا ہے اور نابالغہ میں صلاحیت اذن کی نہیں ہے، اس لیے تا وقت بلوغ اس کا نکاح کردینا درست نہیں ہے تو یہ شبہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ بہت سے واقعات احادیث سے ایسے ثابت ہیں کہ عورت کا نکاح بغیر اذن بلکہ خلاف مرضی اس کے ولی نے کردیا اور اس نکاح کو رسول اللہﷺ نے باطل نہیں فرمایا، بلکہ عورت کو نکاح رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار دے دیا۔ کما مر
پس مطلب حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا جو آیت قرآن و جملہ روایات کے ملانے سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ بقائے نکاح اور اس کا نفاذ بغیر امر ایم کے اور بغیر اذن بکر کے نہیں ہوسکتا ہے۔ تو اگر کسی باکرہ کا نکاح اس کے ولی نے اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ کردیا اور وقت عقد کے لڑکی کو اس کی اطلاع نہ ہوئی یا اس سے اجازت نہیں لیا تو وہ عقد صحیح ہوگیا، لیکن اس کے باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار لڑکی کو حاصل ہے۔
پس جب بالغہ باکرہ کا نکاح بغیر اس کے اذن و اطلاع کے ولی کردے اور شرعاً وہ نکاح باطل و فاسد نہیں ہوتا ہے تو نابالغہ کا نکاح ولی کے کردینے سے بدرجہ اولی فاسد و باطل نہیں ہوگا۔ البتہ بعد بلوغ و علم نکاح کے فسخ کا اختیار لڑکی کو ہے۔ کما ھو مذھب جماعۃ من الأئمۃ ، وھو القوي من حیث الدلیل، واللہ أعلم بالصواب۔ ’’ جیسا کہ یہ ائمہ کی ایک جماعت کا مذہب ہے اور دلیل کے اعتبار سے یہی قوی ہے۔‘‘