کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک گور غریباں مسلمانوں کا جو سینکڑوں برس سے قائم ہے اور برابر اس میں میت مسلمانوں کی دفن ہوا کرتی ہے، بالفعل ایک مرد غیر مسلم کا ہاتھ پیر باندھ کر ایک گڑھا کھود کر اس گورستان قدیم میں بیٹھا کر مٹی سے ڈھانک دیا اور باوجود منع کرنے کے عام مسلمانوں کے زبردستی سے ایک مسلمان اہل دول کے یہ کام ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ فعل اس مسلمان اہل دول نے جو کیا جائز کیا یا ناجائز کیا ، تو قابل ملامت ہے یا نہیں؟ اور سلف سے کیا انتظام گورستان کا چلا آتا ہے؟ عام گورستان مسلمانوں کا اور غیر مسلمانوں کا علیحدہ علیحدہ رہا کیا ہے یا نہیں؟
﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ﴾ (یوسف: ۴۰) ’’ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘
جاننا چاہیے کہ مسلمانوں کے مقبروں میں کفار و مشرکین کو دفن کرنا حرام ہے، ہرگز جائز نہیں ہے۔ اس فعل میں اموات مسلمین کے ساتھ بے حرمتی کرنا ہے۔ جس مسلمان نے ایسا فعل کیا ہے، اس نے گناہ کبیرہ کیا، اس کو توبہ لازم ہے۔ اموات مشرکین و کفار کو مقابر مسلمین میں دفن کرنے کی دلیلِ حرمت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اموات مسلمین کی زیارت کا حکم دیا ہے اور ان کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر ان کے لیے دعا کرنے کو فرمایا ہے اور اللہ پاک نے مشرکین کی قبر کے پاس کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے اور رسول اللہﷺ نے مشرکین کی قبور پر سے جلد گزر جانے کا حکم دیا ہے اور تاکید کیا ہے کہ ذرا بھی وہاں مت ٹھہرو۔ پھر جب اختلاط قبور مسلمین و مشرکین کا ہوگا تو مسلمانان کیوں کر اموات مسلمانوں کی زیارت کریں گے اور کیونکر ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوں گے، کیونکہ جب مسلمانوں کی قبر کے پاس کھڑے ہوں گے تو باعث اختلاط قبور مشرکین کے مشرکین کی قبر کے پاس بھی کھڑا ہونا لازم آئے گا اور شریعت نے حکم دیا ہے کہ تم مشرکین کی قبر کے پاس سے بھاگو۔
فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ توبہ میں:
’’ یعنی جو کوئی ان منافقین مشرکین سے مر جائے، ان پر نامز نہ پڑھیے اے محمد اور نہ کھڑے ہوئیے ان کی قبر کے پاس۔‘‘
’’ وأخرج الترمذي من حدیث عمر بن الخطاب : ’’ فما صلی رسول اللہ ﷺ بعدہ علی منافق، ولا قام علی قبرہ حتی قبضہ اللہ تعالیٰ‘‘ (سنن الترمذي، رقم الحدیث: ۳۰۹۷)
’’ یعنی جب یہ آیت اتری، اس کے بعد رسول اللہﷺ نے کسی منافق میت کی نماز نہ پڑھی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوئے۔‘‘
وقال العلامة جلال الدین السیوطى فى کتاب الإکلیل فى استنباط آیات التنزیل: ’’ قوله تعالیٰ : ﴿ وَلَا تُصَلِّ عَلَی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا ﴾ فیه تحریم الصلاة علی الکفار والوقوف علی قبره‘ انتھی’’ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ’’ الإکلیل في استنباط آیات التنزیل‘‘ میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿ وَلَا تُصَلِّ عَلَی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا ﴾ میں کفار کی نمازِ جنازہ اور ان کی قبر پر وقوف کی حرمت ہے۔‘‘
اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جب اصحاب رسولﷺ کے حجر یعنی دیارِ ثمود کے پاس پہنچے، جہاں پر قوم ثمود گڑی ہوئی تھی تو رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کو فرمایا: تم لوگ قوم ثمود کی قبروں کے پاس مت جاؤ اور خود رسول اللہﷺ وہاں پر سے بہت تیز گزر گئے۔
’’ بخاری اور مسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے تخریج کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا، یعنی جب وہ لوگ حجر دیارِ ثمود کے پاس پہنچے کہ ان عذاب یافتہ میں روتے ہوئے ہی داخل ہوں اور اگر تم رو نہیں رہے ہو تو مت داخل ہو، کہ مبادا تمھیں بھی وہی کچھ پہنچ جائے جن سے وہ دو چار ہوئے۔ ایک روایت میں ہے کہ کہا: جب نبیﷺ حجر کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ ان بستیوں میں داخل مت ہو، جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھیں بھی وہی چیزیں لاحق ہو جائیں جو ان کو لاحق ہوئیں۔ البتہ ہاں روتے ہوئے۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر ڈھانپ لیا اور رفتار تیز کردی، یہاں تک کہ وادی سے گزر گئے۔ ختم شد‘‘
اور حافظ عبدالعظیم منذری نے کتاب ’’ الترغیب والترہیب‘‘ میں باب باندھا ہے کہ ظالمین یعنی مشرکین و کفار کی قبور کے پاس سے گزر جانے میں خوف کرنا چاہئے اور تیز چلنا چاہیے اور یہی حدیث عبداللہ بن عمر کی اس باب میں لائے ہیں۔ وھذہ عبارتہ:
’’ الترھیب من المرور بقبور الظالمین ‘‘ انتھی (الترغیب والترھیب، ۳؍ ۲۱۵)’’ ظالمین کی قبروں کے پاس سے گزرتے ہوئے خوف دلانا۔ ختم شد‘‘
اور قدیم الایام رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک سے اس وقت تک یہی دستور و عمل اسلامی رہا کہ مسلمانوں کا مقبرہ غیر مسلمانوں کے مقبرے سے علیحدہ رہے، کیونکہ شارع نے اموات مسلمین کے احترام کرنے کا حکم دیا ہے اور اموات کفار کا کچھ بھی احترام نہیں ہے۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب منعقد کیا ہے:
’’ باب : ھل ینبش قبور مشرکى الجاھلیة ویتخذ مکانھا مساجد؟‘‘’’ کیا دورِ جاہلیت کے مشرکین کی قبروں کو اکھاڑنا جائز ہے اور کیا ان قبروں پر مساجد بنائی جاسکتی ہیں؟‘‘
اور اس باب میں حدیث قصہ بناء مسجد نبوی کا لائے ہیں۔ اس کا جملہ اخیرہ یہ ہے:
’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس میں مشرکین کی قبریں تھیں۔ اس میں بیابان بھی تھا اور اس میں کھجور کا پیڑ بھی تھا۔ نبیﷺ نے مشرکین کی قبروں کے بارے میں حکم دیا تو وہ اکھاڑی گئیں اور بیابان جگہ زمین کے برابر کردی گئی … الحدیث‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ قبور مشرکین کے ساتھ کچھ بھی احترام نہیں ہے، بلکہ وقت ضرورت کے مشرکین کی قبر کو اکھاڑ کر زمین کو برابر کردینا جائز ہے۔
اور صحیح بخاری کے ’’ باب ماجاء فى قبر النبىﷺ وأبى بکر و عمر‘‘میں ہے:
’’ کہو: عمر بن خطاب اجازت مانگتا ہے۔ اگر انھوں نے اجازت دے دی تو مجھے وہیں دفن کرو، ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردو۔ ختم شد‘‘
اس روایت سے مقابر مسلمین کا علیحدہ ہونا ثابت ہوا ۔