ایک شخص مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے جاتا تھا۔ بعض آدمیوں نے اس کو منع کیا کہ تم اس مسجد میں نماز پڑھنے مت آؤ۔ جو لوگ خانہ خدا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منع کرتے ہیں، ان کا حکم اللہ جل شانہ کے نزدیک کیا ہے؟
نمازِ جمعہ کے ادا ہونے میں فقہ کی کتابوں میں سات شرطیں لکھتے ہیں، ان میں سے ایک شرط اِذنِ عام ہے، جیسا کہ اور شرط کے نہ پائے جانے سے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، مثلاً جماعت اور ظہر کا وقت شرط ہے۔ جماعت اور ظہر کا وقت نہ پائے جانے سے جمعہ درست نہیں ہوگا، اسی طرح اِذنِ عام کے نہ پائے جانے سے درست ہوگا یا نہیں اور کافروں کو مسجد میں آنے دینا درست ہے یا نہیں؟
مدلل بحوالہ کتب بیان فرمائیں۔جو شخص خانہ خدا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت سے منع کرے، وہ بہت بڑا ظالم ہے اور دنیا میں اُن لوگوں کے واسطے رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ اللہ جل شانہ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:
’’ اور کون ہے بہت ظالم اس شخص سے جو منع کرتا ہے مسجدوں سے اللہ کی، یہ کہ ذکر کیا جاوے بیچ ان کے نام اس کا اور سعی کرتا ہے بیچ ویران کرنے ان کے کہ یہ لوگ نہیں لائق تھا واسطے ان کے یہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے، واسطے ان کے بیچ دنیا رسوائی اور واسطے ان کے بیچ آخرت کے عذاب ہے بڑا۔‘‘
اور علامہ ابو سعود بن محمد العمادی حنفی اپنی تفسیر ابو سعود میں اس آیت کے تحت میں فرماتے ہیں:
’’ وھذا الحکم عام لکل من فعل ذلک فى أى مسجد کان، وإن کان سبب النزول فعل طائفة معینة فى مسجد مخصوص۔‘‘ انتھی (تفسیر أبى السعود ۱ ؍ ۱۴۹)یہ کلمہ عام ہے، جو شخص جس مسجد سے منع کرے، وہ اس آیت کی وعید شدید میں داخل ہوگا۔ تفسیر مظہری میں ہے:
’’ إنما أورد لفظ الجمع، وإن کان المنع واقعا علی مسجد واحد، لأن الحکم عام، وإن کان المورد خاصا۔‘‘ انتھی (تفسیر المظھرى ۱؍ ۲۱۱)’’ اگرچہ یہ ممانعت ایک مسجد سے ہوئی تھی، لیکن اس کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا ہے، کیوں کہ اس کا حکم عام ہے، اگرچہ اس کا سبب خاص ہے۔‘‘
اور تفسیر جلالین میں ہے:
’’ وسعی فى خرابھا بالھدم والتعطیل، نزلت إخبارا عن الروم الذین خربوا بیت المقدس، أو فى المشرکین لما صدوا النبى ﷺ عام الحدیبیة عن البیت۔‘‘ انتھی ( تفسیر الجلالین ، ص : ۲۲)’’ یعنی اسے گرا کر اور ویران کرکے خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آیت رومیوں کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے نازل ہوئی، جنھوں نے بیت المقدس کو ویران کردیا تھا یا مشرکینِ مکہ کے متعلق، جنھوں نے نبی کریمﷺ کو حدیبیہ والے سال بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا۔‘‘
اور امام حافظ الدین عبداللہ بن احمد النسفی (متوفی ۷۰۱ھ) اپنی تفسیر ’’ مدارک التنزیل‘‘ میں تحت اس آیت کے فرماتے ہیں:
’’ وھو حکم عام لجنس مساجد اللہ، وأن مانعھا من ذکر اللہ مفرط فى الظلم ، والسبب فیه طرح النصاریٰ فى بیت المقدس الأذی، ومنعھم الناس أن یصلوا فیه أو منع المشرکین رسول اللہ ﷺ أن یدخل المسجد الحرام عام الحدیبیة، وإنما قیل مساجد اللہ، وکان المنع علی مسجد واحد، وھو بیت المقدس أو المسجد الحرام، لأن الحکم ورد عاما، وإن کان السبب خاصا۔‘‘ انتھی ( تفسیر النسفى ۱ ؍ ۱۱۸)’’ یہ حکم ہر مسجد کو شامل ہے اور یقیناً مساجد میں اللہ کے ذکر سے روکنے والا حد درجہ ظالم ہے۔ اس کا سبب نصاریٰ کا بیت المقدس میں گندگی پھینکنا اور لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے روکتا ہے یا مشرکین کا رسول اللہﷺ کو حدیبیہ والے سال مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ آیت میں جمع کا لفظ ’’ مساجد اللہ‘‘ (اللہ کی مسجدیں) اس لیے بولاگیا ہے، حالاں کہ یہ ممانعت ایک مسجد بیت المقدس یا مسجد حرام سے ہوئی تھی، کیوں کہ یہ حکم عام ہے، اگرچہ اس کا سبب خاص ہے۔‘‘
خاتم المحدثین والمفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ تفسیر ’’ فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ کیا دیکھا تو نے اس شخص کو جو منع کرتا ہے اور روکتا ہے بندے کو جب چاہتا ہے کہ نماز پڑھے۔‘‘
’’ اور حق بندے کا یہی ہے کہ اپنے پروردگار کی عبادت ہاتھ اور پاؤں سے اور دل اور زبان سے بجا لاوے، اور ایسی عبادت جو ان سب باتوں کو جامع ہو، سوائے نماز کے نہیں ہے، اور حق خدا کا یہ ہے کہ معبود ہو ہر عبادت میں، پھر اس منع کرنے والے نے بندے کا حق بھی تلف کیا اور خدا کا حق بھی تلف کیا تو اس کی سرکشی اور نافرمانی خدا سے اور اس کے بندوں سے بھی ثابت ہوئی ہے اور یہ شخص ابوجہل تھا۔ کئی مرتبہ اس نے آنحضرتﷺ کو مسجدِ حرام میں نماز پڑھنے سے منع کیا تھا، بلکہ یہ کہا تھا کہ اگر میں تجھ کو دیکھوں گا کہ اپنے متھے کو زمین پر رکھا ہے تو تیری گردن کاٹ ڈالوں گا۔ ہر چند یہ آیت اس لعین کے حق میں نازل ہوئی، لیکن اب بھی جو شخص اللہ تعالیٰ کی بندگی سے روکے اور منع کرے، وہ بھی اسی وعید اور برائی میں شامل ہے۔‘‘ انتھی
بے شک جس مسجد میں اذن عام نہ ہو اور جمعہ کی نماز پڑھنے سے کسی کو روک دیا جائے، وہاں جمعہ مطابق مذہب حنفی کے درست نہیں، جیسا کہ اور شروط مثل وقتِ ظہر اور جماعت وغیرہ کے نہ پائے جانے سے جمعہ کی نماز درست نہیں ہوگی۔ اگر کسی نے ظہر کے وقت سے پہلے یا بغیر جماعت کے جمعہ کی نماز پڑھی تو کسی طرح درست نہیں ہوگی، اسی طرح اذن عام نہیں پائے جانے سے درست نہیں۔
درمختار میں ہے:
’’ ویشترط لصحة الجمعة سبعة أشیاء … السابع : الإذن العام‘‘ انتھی (ردالمحتار ۲ ؍ ۱۳۷، ۱۵۱)جمعہ کے صحیح ہونے کے واسطے سات چیزیں شرط ہیں، ساتویں شرط اذن عام ہے۔
’’ ردالمختار‘‘ حاشیہ درمختار میں ہے:
’’ قوله : الإذن العام أى أن یأذن للناس إذنا عاما بأن لا یمنع أحدا ممن یصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذین تصلیٰ فیه۔‘‘ انتھی ( ردالمختار ۲ ؍ ۱۶۴)لوگوں کے واسطے عام اذن دیوے، بایں طور کہ کسی کو منع نہیں کرے کہ جس سے جمعہ صحیح ہو داخل ہو اس جگہ سے کہ جہاں نماز پڑھی جاوے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ ومنھا الإذن العام، وھو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافة حتی أن جماعة لو اجتمعوا فى الجامع، وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسھم، وجمعوا، لم یجز، وکذلک السلطان إذا أراد أن یجمع بحشمه فى دارہ، فإن فتح باب الدار، وأذن إذنا عاما، جازت صلاته، شھدھا العامة أو لم یشھدوھا، کذافى المحیط۔‘‘ ( فتاویٰ عالم گیری ۱ ؍ ۱۴۸)اور انھی شرطوں میں سے اذن عام ہے، وہ یہ ہے کہ جامع مسجد کے دروازہ کو کھول دے، سب لوگوں کو اذن عام دے، یہاں تک کہ اگر ایک جماعت جمع ہو جائے اور مسجد کے دروازہ کو بند کرلیں اور جمعہ کی نما زپڑھیں تو نماز صحیح نہیں ہوگی، اسی طرح جب بادشاہ ارادہ کرے کہ ایک لشکر کے ساتھ اپنے گھر میں جمعہ کی نماز پڑھے، پس اگر گھر کا دروازہ کھول دیا اور سب لوگوں کو اذن عام دیا تو نماز جائز ہوگی، لوگ حاضر ہوں یا نہ حاضر ہوں، ایسے ہی محیط میں ہے۔
’’ شرح مواھب الرحمن لأدلۃ مذھب النعمان‘‘میں ہے:
’’ منھا الإذن العام وھو أن یفتح أبواب الجامع، ویؤذن للناس، حتی لو اجتمعوا جماعة فى الجامع، وأغلقوا الأبواب، وجمعوا لم یجز، وکذا السلطان إذا أراد أن یصلى بحشمه فى قصرہ، فإن فتح بابه، وأذن الناس إذنا عاما جازت صلوته، شھدتھا العامة أو لا، وإن لم یفتح بابه ولم یأذن لھم بالدخول لا یجزئه ۔‘‘ انتھی’’ جمعے کی شروط میں سے اِذنِ عام (عام اجازت) ہے، یعنی جامع مسجد کے دروازوں کو کھول دے اور لوگوں کو آنے کی اجازت دے، حتیٰ کہ اگر ایک جماعت اکٹھی ہو کر جامع مسجد میں دروازے بند کرکے جمعہ پڑھ لے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح بادشاہ اگر اپنے محل میں اپنے لوگوں کو لے کر نماز پڑھے تو اگر وہ دروازے کھول کر لوگوں کو آنے کی عام اجازت دے دے تو اس کی نماز صحیح ہے، عام لوگ آئیں یا نہ آئیں، لیکن اگر اپنا دروازہ نہیں کھولتا اور لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا تو اس کا جمعہ نہیں ہوگا۔‘‘
اور کافروں کو مسجد میں اجازت آنے کی دینا حنفی مذہب میں درست ہے، جیسا کہ خاتم المفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تفسیر ’’ فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ وامام اعظم رحمہ اللہ میگویند کہ درآمدن کا فر در ہمہ مساجد درست است زیرا کہ در زمان سعادت نشان آنحضرت ﷺ مہمان را گو کافر بودند در مسجد فروکش میکنانیدند چنانچہ وفد ثقیف را و دگر وفود را و نیز بتواتر معلوم ست کہ برائے ملاقات آنحضرت علیہ السلام یہودیان و نصاریٰ و مشرکی بے طلب اذن و پروانگی در مسجد می آمدند ومی نشستند و ثمامہ ابن اثال حنفی را آنحضرت علیہ السلام حالت کفر بستونے از ستونہائے مسجد بستہ گزاشتہ بودند و ناسخ ایں عمل مستمر آنحضرت علیہ السلام ہم وارد نشدہ۔‘‘ انتھی
’’ امام اعظم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر کا ہر مسجد میں آنا درست ہے، کیوں کہ آنحضرتﷺ کے دورِ سعادت نشان میں مہمان کو، اگرچہ وہ کافر ہی ہوتا ہے، مسجد میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ چناں چہ وفدِ ثقیف اور دیگر وجود مسجد ہی میں فروکش ہوئے تھے۔ نیز تواتر کے ساتھ یہ معلوم ہوا ہے کہ یہودی، نصرانی اور مشرکین آنحضرتﷺ کی ملاقات کے لیے اذن و اجازت طلب کیے بغیر مسجد میں آتے اور بیٹھتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے ثمامہ بن اثال حنفی کو حالتِ کفر میں مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ آنحضرتﷺ کی اس متواتر سنت اور طریقے کو منسوخ کرنے والی کوئی چیز بھی وارد نہیں ہوتی ہے۔‘‘
اور ہدایہ میں مرقوم ہے کہ قبیلہ ثقیف کے جو سفیر آئے تھے اور وہ کفار تھے، ان کو بھی نبیﷺ نے اپنی مسجد میں اتارا تھا۔ تفسیر ابو السعود اور تفسیر مظہری و دیگر کتب معتبرہ میں مرقوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے، جو کہ مسلمان بھی نہ تھے، بلکہ عیسائی مذہب رکھتے تھے اور وہ لوگ مع افسر، جس کا نام عبدالمسیح تھا، ساٹھ آدمی تھے۔ یہ سب لوگ آنحضرتﷺ کے پاس مدینہ طیبہ میں مقامِ نجران سے سفیر آئے تھے، آپ کی مسجد میں داخل ہوئے، وہیں ان کی نماز کا وقت آگیا، نماز پڑھنے کو کھڑے ہوگئے۔ بعض اشخاص حاضرین ان کے مزاحم ہوئے، آنحضرتﷺ نے خود ان کو نماز پڑھنے کی اجازت دی اور ان بے جا مزاحمت کرنے والوں کو ان کے اس بے جا مزاحمت سے روکا۔ انھوں نے حسب اجازت خاص آنحضرتﷺ کی اس مقدس مسجد میں اپنے طریقہ کے مطابق رو بمشرق یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ (البنایۃ في شرح الھدایۃ ۱؍ ۳۷۶۔ نیز دیکھیں: نصب الرایۃ ۴ ؍ ۳۳۵۔ اس حدیث کی سند ضعیف ہے)، ( تفسیر أبي السعود ۲ ؍ ۳) تفسیر المظھري ۲ ؍ )
عجیب امر ہے کہ حضرت رسول اللہﷺ تو غیر مذہب والوں کو بھی اپنی مقدس مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیں اور اب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے سے روکتا ہے اور منع کرتا ہے اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں؟ یہ تعصب اور نفسانیت ہے۔ اللہ جل شانہ سب مسلمانوں کو نیکی کی توفیق دے اور نفسانیت اور ضد سے بچاوے۔