مصافحہ بالتخصیص بعد نماز جمعہ یا عیدین کے غیر وقت ملاقات کے کرنا رسول اللہﷺ اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے یا نہیں اور اس کا کیا حکم ہے اور محققین حنیفہ نے اس کو کیا لکھا ہے؟
مصافحہ وقت لقا کے حضرت ﷺ اور اصحاب کرام سے ثابت ہے اور بالتخصیص بعد نماز جمعہ اور عیدین کے بدعت ہے۔ کسی حدیث سے ثابت نہیں اور ائمہ دین سے بھی منقول نہیں۔
جیسا کہ شیخ ابن الحاج نے مدخل میں لکھا ہے:
’’ وموضع المصافحة فى الشرع إنما ھو عند لقاء المسلم لأخیه لا فى أدبار الصلوات [وذلک کله من البدع] ، فحیث وضعھا الشارع نضعھا فینھی عن ذلک، ویزجر فاعله لما أتی به خلاف السنة۔‘‘ انتھی (المدخل لابن الحاج ۲ ؍ ۲۱۹)’’ اور مصافحہ کا عمل شرع میں صرف مسلمان کے اپنے بھائی سے ملاقات کے وقت ہے نہ کہ نمازوں کے بعد۔ یہ سب کام بدعت ہیں، جو کام شارع نے جہاں رکھا ہے، ہم بھی اسی کے مطابق عمل کریں گے۔ اس کام سے اسے روک دینا چاہیے اور ایسا کرنے والے کو منع کیا جائے گا، کیونکہ اس نے خلافِ سنت کام کیا۔ ختم شد۔‘‘
اور شیخ احمد بن علی رومی ’’ مجالس الأبرار‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ أما المصافحة فى غیر حال الملاقاة مثل کونھا عقیب صلاة الجمعة والعیدین کما ھو العادة فى زماننا فالحدیث سکت عنه فیبقی بلا دلیل، وقد تقرر فى موضعه أن ما لا دلیل علیه فھو مردود، ولا یجوز التقلید فیه ۔‘‘ انتھی ( مجالس الأبرار ، ص : ۳۱۶)’’ رہا مصافحہ کا معاملہ ملاقات کے وقت کے علاوہ، جیسے جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے بعد، جو آج کل ہمارے زمانے میں رائج ہوگیا ہے، تو اس سلسلے میں حدیث خاموش ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ بغیر کسی دلیل کے ہوگیا۔ ایسے موقع پر یہ بات گزر چکی ہے کہ جس معاملے کی کوئی دلیل نہ ہو تو وہ مردود ہے اور اس سلسلے میں تقلید جائز نہیں ہے۔ ختم شد۔‘‘
اور شیخ عبدالحق نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے:
’’ آنکہ بعضے مردم مصافحہ میکنند بعد از نماز یا بعد از نماز جمعہ چیزے نیست و بدعت است از جہت تخصیص وقت۔‘‘ انتھی ( أشعۃ اللمعات ۴ ؍ ۲۲)
’’ جو لوگ نماز کے بعد یا نماز جمعہ کے بعد مصافحہ کرتے ہیں، یہ دین میں نہیں ہے، بلکہ ایسا وقت کی تخصیص کے ساتھ کرنا بدعت ہے۔‘‘
اسی طرح ملا علی قاری نے شرح مشکوٰۃ میں اور ابن عابدین نے ’’ ردالمحتار‘‘ میں لکھا ہے۔ ( مرقاۃ المفاتیح ۴۶۷۷، ردالمحتار ۶؍ ۳۸۱)