کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس امر میں کہ خطبہ جمعہ وغیرہ میں واسطے سمجھانے عربی نہ جاننے والوں کے، خطبہ عربی کا اردو، پنجابی یا فارسی میں حسب حاجت ترجمہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّالِلّٰہِ ﴾ ( یوسف: ۴۰) ’’ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘
اگر کوئی شخص اس طور پر خطبہ پڑھے کہ اس میں عبارات عربی مثل آیات قرآنی اور احادیث اور ادعیہ ماثورہ کچھ نہیں ہوں تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کرے، بلکہ عبارات عربیہ کو بھی پڑھے اور اس کے بعد اس کا ترجمہ کردے، تاکہ عوام الناس کو اس سے فائدہ پہنچے، یہ صورت جواز کی ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
’’نبی ﷺ دو خطبے دیتے تھے، ان دونوں کے درمیان آپﷺ جلوس فرماتے۔ قراءتِ قرآن کرتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے۔‘‘
جب تک ترجمہ نہیں کیا جائے گا تو عوام الناس کیوں کر سمجھیں گے؟ اور تذکیر کا اختصاص بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ اس مقام میں کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ﴾کافی و شافی ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔
حررہ أبو الطیب محمد المدعو بشمس الحق العظیم آبادى۔ عفی عنه۔