سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25)خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں دینا

  • 15224
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 941

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس امر میں کہ خطبہ جمعہ وغیرہ میں واسطے سمجھانے عربی نہ جاننے والوں کے، خطبہ عربی کا اردو، پنجابی یا فارسی میں حسب حاجت ترجمہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّالِلّٰہِ ﴾  ( یوسف: ۴۰) ’’ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘

اگر کوئی شخص اس طور پر خطبہ پڑھے کہ اس میں عبارات عربی مثل آیات قرآنی اور احادیث اور ادعیہ ماثورہ کچھ نہیں ہوں تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کرے، بلکہ عبارات عربیہ کو بھی پڑھے اور اس کے بعد اس کا ترجمہ کردے، تاکہ عوام الناس کو اس سے فائدہ پہنچے، یہ صورت جواز کی ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

’’ کانت للنبى ﷺ خطبتان یجلس بینھما یقرأ القرآن ویذکر الناس‘‘ (صحیح مسلم ، رقم الحدیث ۸۶۲)

’’نبی ﷺ دو خطبے دیتے تھے، ان دونوں کے درمیان آپﷺ جلوس فرماتے۔ قراءتِ قرآن کرتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے۔‘‘  

جب تک ترجمہ نہیں کیا جائے گا تو عوام الناس کیوں کر سمجھیں گے؟ اور تذکیر کا اختصاص بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ اس مقام میں کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ  ﴾کافی و شافی ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔

حررہ أبو الطیب محمد المدعو بشمس الحق العظیم آبادى۔ عفی عنه۔
ابو الطیب محمد شمس الحق          محمد اشرف عفی عنہ ابو عبداللہ محمد ادریس 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 133

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ