زیادہ افضل اورمحتاط بات یہ ہے کہ وہ دو تکبیریں کہے ۔ایک تکبیر تحریمہ جوکہ نماز کا رکن ہے اوراس تکبیر کو کھڑے ہو کر کہنا ضروری ہے اوردوسری تکبیر رکوع
کے لئے اس وقت کہے جب وہ رکوع کے لئے جھک رہا ہو اوراگررکعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوتو علماء کے صحیح قول کے مطابق تکیر تحریمہ ہی کافی ہوگی کیونکہ دونوں عبادتیں بیک وقت جمع ہوگئی ہیں ،لہذا بڑی عبادت چھوٹی سے کفایت کرے گی۔اکثر علماء کے بزدیک رکعت بھی صحیح ہوگی کیونکہ امام بخاریؒ نے ‘‘صحیح ’’میں حضرت ابوبکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ اس وقت آئے جب نبی کریمﷺحالت رکوع میں تھے تو انہوں نے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع شروع کرلیااوراسی طرح رکوع میں صف میں شامل ہوئے تونبی کریمﷺنے فرمایا‘‘اللہ تعالی تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے دوبارہ ایسا نہ کرنا ۔’’یعنی دوبارہ صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع نہ کرنا بلکہ مسجد میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ وہ صف کے ساتھ مل کر رکوع کرے آپؐ نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا ،جس سے معلوم ہوا کہ یہ رکعت ہوگئی۔(1)ایسےنمازی کے حق میں فاتحہ ساقط ہوجائے گی کیونکہ اس کا محل باقی نہ رہا اوروہ قیام ہے ۔جوعلماء مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ فرضیت کے قائل ہیں،ان کے نزدیک اس حدیث کی صحیح توجیہ یہی ہے ۔
(1)وضاحت: سماحۃ الشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن باز حفظہ اللہ تعالی نے اپنے مذکورہ فتوی میں فرمایا ہے کہ ‘‘آپﷺنے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا،جس سے معلوم ہوا کہ یہ رکعت ہوگئی ۔ایسے نمازی کے حق میں فاتحہ ساقط ہوجائے گی کیونکہ ا س کا محل باقی نہ رہا اوروہ قیام ہے۔’’
جولوگ فاتحہ کے وجوب کے قائل نہیں ان کی تو بات ہی چھوڑیئے لیکن جو لوگ فاتحہ کے وجوب کے قائل ہیں ان کے نزدیک تو فاتحہ کے بغیر نماز درست ہی نہیں ہوتی اوروعقلی ونقلی دلائل سے ترجیح بھی اسی بات کو ہے کہ ایسے شخص کی رکعت شمارنہیں ہوگی بلکہ اس کو وہ رکعت پڑھنی پڑے گی جس میں اس نے فاتحہ نہیں پڑھی۔اس کے کئی وجوہ ہیں۔
(۱) سورۃ فاتحہ،امام وماموم اورہر ایک نمازی پر واجب ہے چاہے وہ مقیم ہویا مسافر،نماز سری ہویا جہری ،جس طرح کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اس طرح باب باندھا ہے‘‘باب وجوب القراة للامام والماموم في الصلوات كلها في الحضر والسفر ومايجهر فيها ومايخافت’’
(صحیح البخاری،کتاب الاذان۔باب۹۵ص۱۰۔مطبوعہ ادارالسلام=للنشروالتوزیع الریاض سعودی عرب)
(۲) عن عبادة بن الصامت رضي الله تعالي عنه قال :قال رسول الله صص لاصلوة لمن لم يقرابام القرآن(متفق عليه) اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ا س کی نماز نہیں ہے ،توکیا جو شخص ایک رکعت میں توسورہ فاتحہ نہ پڑھے اورباقی نماز میں پڑھ لے اس کی نماز ہوجائے گی ؟اس کا جواب ہے ‘‘نہیں ہوگی ’’کیونکہ سورہ فاتح نماز کا رکن ہے جب رکن کسی بھی جگہ ساقط ہوگا نماز ناقص ہوگی اوریہی بات صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے جو حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺسےبیان فرماتے ہیں‘‘من صلي صلوة لم يقرافيهابام القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام’’
رسول اللہ ﷺنے فرمایا جس شخص نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ناقص ہے ،وہ پوری ہی نہیں ،بعینہ اسی طرح جس طرح ایک حاملہ اونٹنی وقت سے کچھ ماہ قبل اپنا ناقص الخلقت بچہ گرادے اورہر شخص جانتا ہے کہ اس طرح کا بچہ کسی بھی کام کا نہیں ہوتا توجو شخص ایک رکعت میں سورہ تاتحہ نہیں پڑھے گا اس کی کم ازکم وہ ایک رکعت توناقص ہی ہوگی اوریہ بات کس طرح ممکن ہے کہ کسی شخص کی ایک رکعت تو ناقص اورغیر مکمل ہوجبکہ باقی نماز مکمل ہو!پھر یہ بھی بات ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ‘‘اللہ تعالی نے فرمایا میں نے اپنے اوراپنے بندے کے درمیان نماز آدھی آدھی تقسیم کردی ہے۔الخ۔پھر آپﷺنے جب تقسیم بیان فرمائی ہے تو وہ فاتحۃ الکتاب کی تقسیم ہے۔اب اگر کوئی شخص ایک رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی کم از کم وہ ایک کعت تو اس تقسیم انعام سے محروم اورخالی ہے۔پھروہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہئے جس کو امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ‘‘صحیح’’میں اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ‘‘سنن’’میں بیان فرمایا ہے،اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ‘‘لاتجزي صلاة لايقرفيهابفاتحة الكتاب’’اس حدیث کے الفاظ اپنے اس مفہوم میں قطعی طور پر واضح ہیں کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا تواس کی نماز صحیح ہوگی اورنہ اس کی نماز اس کو کفایت کرے گی کیونکہ ‘‘لاتجزي’’ کا معنی ہی یہ ہے کہ ‘‘لا تکفی ولا تصح’’اس لئے جس رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی کم از کم وہ رکعت تو صحیح نہ رہی۔اب اس رکعت کو صحیح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ رکعت سورہ فاتحہ سمیت پھر پڑھی جائے۔
(۴)حدیث ‘‘لا صلوۃ’’میں ‘‘لا’’نفی جنس کا بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ رکعت ہی سرےسے ‘‘جنس نماز’’سے نہیں ہے ۔اب اگر کوئی شخص نماز ظہر ،عصر یا عشاء کی پہلی رکعت کے رکوع میں شامل ہوتا ہے تواس کے اس رکعت میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے یہ پہلی رکعت تو ‘‘جنس نماز’’میں شمار ہی نہیں ہوگی۔اسی طرح نماز مغرب اورنماز صبح کا حال ہوگا۔
(۵)تندرست آدمی کے لئے قیام شرط ہے ،یعنی اگر کوئی آدمی طاقت رکھنے کے باوجود فرض نماز کے قیام کا تارک ہے تو اس کی نماز بھی ازروئے شریعت درست نہیں ہے کیونکہ جس طرح رکوع یا سجدے کے تارک کی نماز درست نہیں ہوسکتی اسی طرح قیام نہ کرنے والے شخص کی نماز بھی درست نہیں ہوسکتی ۔مدرک رکوع کی رکعت کو جائز قراردینے کے لئے یہ کہنا کہ ‘‘ایسے نمازی کے حق میں فاتحہ ساقط ہوجائے گی کیونکہ اس کا محل باقی نہ رہا اوروہ قیام ہے۔’’‘‘جس طرح کہ فضیلۃ الشیخ حفظہ اللہ تعالی نے موقف اختیار فرمایا ہے)’’اس سے اولی واحوط یہ ہے کہ یہ بات کہی جائے چونکہ اس شخص=کاقیام اورسورۃ فاتحہ یعنی دورکن رہ گئے ہیں لہذا اس کو یہ رکعت دوبارہ پڑھنی چاہئے۔
(۶)حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ‘‘لاتعد’’کی بھی تین وجھیں ہوسکتی ہیں ایک تو وہی جو کہ عامہ محدثین نے بیان کی ہیں لاتعد یعنی آئندہ ایسا نہ کرنا ۔دوسری یہ کہ لاتعد یعنی تو نماز نہ دہرا (تیری نماز درست ہوئی)تیسری یہ توجیہہ بھی ہوسکتی ہے کہ ‘‘لاتعد’’ یعنی دوڑکرنہ آیا کر۔جب یہ تینوں احتمال موجودہیں توپھر دلائل قویہ کو پس پشت کیوں ڈالاجائے؟
(۷)ایک با ت یہ بھی ہے کہ جب یہ معلوم امر ہے کہ نماز میں فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے تو جس رکعت میں یہ نہیں پڑھی جائے گی اس جگہ سے تو فرض ‘‘ساقط’’ہوگیا اب وہ نماز کیونکر پوری اوردرست قراردی جاسکتی ہے جس کی ایک رکعت میں نہ تو قیام شرعی کیا گیا ہو اورنہ سورہ فاتحہ پڑھی گئی ہونیز ایسی نماز(صلواكمارايتموني اصلي)كے تقاضوں کے بھی خلاف ہے ۔
(۸)رسول اللہ ﷺکا ایک معروف حکم ہے کہ
‘‘صل ماادركت واقض ماسبقك’’یعنی جو نماز تو امام کے ساتھ پالے وہ پڑھ لے اورجس سے تومسبوق ہوجائے اس کی قضا دے،توجو شخص ایک رکعت کا قیام نہیں پاسکا ظاہر ہے کہ یہ شخص پہلی رکعت کے قیام سے مسبوق ہوچکا ہے لہذا یہ شخص رسول اللہ ﷺکے حکم ‘‘واقض ماسبقك’’کاشرعا مامورہے اوراس کے حکم کی تعمیل کااس کے علاوہ دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ایسا شخص وہ رکعت دوبارہ پڑھے جس کا قیام یہ شخص نہیں پاسکا۔
(۹)رسول اللہ ﷺسے یہ حکم بھی صراحتا موجود ہے کہ آپﷺنے فرمایا
«من وجدني قائمااورراكعااوساجدافليكن معي علي الحال التي انا عليها»(سنن سعيد بن منصور من رواية عبدالعزيز بن رفيع عن اناس من اهل المدينة بحواله فتح الباري مع صحيح بخاري كتاب الاذان ج٢- ص ٢٦٩ ط:السلفية) اس حدیث کا تو مطلب بھی یہی ہے کہ کسی مقتدی کو یہ حق ہی نہیں ہے کہ وہ امام کی مخالفت کرے یعنی امام تو رکوع میں ہواور مقتدی قیام کررہا ہویہ درست نہیں ہے ۔
(۱۰)اللہ تعالی نے قرآن مقدس کے اس حکم کے ذریعے کہ
‘‘وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ’’ہمیں اس بات کا پابند کردیا ہے کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺہمیں دیں ہم وہ لے لیں ،تواس حکم الہی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم یہ سوچیں بھی نہ کہ جس رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ رکعت ،رکعت بھی شمار ہوسکتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے امت کو کوئی ایسی نماز دی ہی نہیں ہے جس میں کوئی رکعت قیام اورسورہ فاتحہ سے خالی ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب