سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24)ایک شہر میں کئی جگہ جمعہ

  • 15222
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 933

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شہر میں چند جگہوں میں جمعہ کی جماعت جائز ہے یا نہیں؟ قدیم جامع مسجد کے نزدیک دوسری جامع مسجد اور جمعہ کی جماعت قائم کرنی، جس سے جامع مسجد قدیم کی جماعت میں تفرق اور نقصان واقع ہو، جائز ہے یا نہیں؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نحمدہ و نصلی۔ ایک شہر میں بغیر عذر شرعی کے متعدد جگہ نماز جمعہ قائم کرلینے اور محض اپنی کسل اور ہوائے نفس و تغافل سے مسجد جامع میں نماز جمعہ کے واسطے مجتمع نہ ہونا خلاف سنت مطہرہ رسول اللہﷺ و خلاف عمل و طریقہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک و خلفائے راشدین کے عہد رشد میں یہی طریقہ تھا، بلکہ لوگ مامور تھے کہ مدینہ منورہ اور اطرافِ مدینہ منورہ کے سب مکلفین مسجد نبوی میں مجتمع ہو کر ادائے نماز جمعہ کریں۔ جیسا کہ حافظ ابن المنذر نے کتاب الاشراف میں اور حافظ بیہقی نے کتاب المعرفہ میں اور شیخ الاسلام ابن حجر نے تلخیص الحبیر میں لکھا ہے۔ لیکن بایں ہمہ تعدد جمعہ سے ادائے فرض میں نقصان نہیں لازم آئے گا۔ یعنی ان لوگوں کی نماز جمعہ ادا ہو جائے گی، مگر ترکِ سنت مؤکدہ کے گناہ سے بری نہیں ہوں گے۔ اور تفصیل اس امر کی رسالہ جواز تعدد الجمعہ للحافظ ابن حجر میں ہے۔ ( الإشراف لابن المنذر ۲ ؍ ۱۱۹، معرفۃ السنن والآثار ۴ ؍ ۳۹۱، التلخیص الحبیر ۲ ؍ ۵۳)

اور صرف کس و تغافل سے نہیں بلکہ خاص تفریق جماعت کی غرض سے ایک مسجد جامع کے قریب یا بعید دوسری مسجد جامع مقرر کرکے وہاں نماز جمعہ قائم کرنا بالکل ناجائز و مخالف کتاب اللہ تعالیٰ ہے، کیونکہ یہ تفریق جماعت فساد فی الدین ہے۔ وقال اللہ تعالیٰ:

﴿ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ﴾ (الأعراف: ۵۶)

’’ زمین میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاؤ۔‘‘

اور جہاں پر عذر شرعی موجود ہو اور فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو اور اذیت پہنچنے کا خوف ہے، جیسے زمانہ پر آشوب میں جماعت احناف کو جماعت اہل حدیث کے ساتھ مخاصمت و مخالفت ہو رہی ہے تو ایسی حالت میں ایک ہی مسجد جامع میں مجتمع ہو کر نماز جمعہ ادا کرنے میں مجبوری ہے۔ پس عدم حضوری جامع مسجد سے ترک سنت مؤکدہ کا مواخذہ ان جماعتِ اہل حدیث پر نہ ہوگا، بلکہ جماعتِ احناف پر ہوگا جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زمانہ فتنہ میں مسجد نبوی کی حاضری سے مجبور رہے، اور بخوف اعداء اپنے مکان ہی میں محصور رہے۔ لیکن ان جماعت اہل حدیث کو باہم ایک ہی مسجد جامع میں مجتمع ہو کر ادائے جمعہ کرنا ضرور ہے، اور متعدد جگہوں میں مختلف جماعتیں قائم کرلینا جائز نہیں ہے۔ اس میں بھی ترک سنت مؤکدہ کا مواخذہ باقی رہے گا۔

بس اسعد الناس اور عامل بالحدیث اور سابق الی الخیرات وہ شخص ہے، جو اس سنت نبویہ کی اشاعت میں کوشش کرے اور بعد اماتت کے اس کو جاری کرے، کیونکہ فی زماننا تعدد جمعہ و عدم حاضری جامع مسجد کی لوگ کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ واللہ أعلم بالصواب۔

کتبہ

أبو الطیب محمد شمس الحق عفى عنه

لنعم ما قال أخى أبو الطیب، فللہ درہ و علیہ أجرہ۔  عبدالعزیز رحیم آبادی

’’ بہتر کہا ہے میرے بھائی ابو الطیب نے ، اللہ ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔‘‘

وللہ درالمجیب حیث أصاب فیما أجاب، وأجاد فى التفصیل الذى لا بد فیه۔ جزاہ اللہ خیرا۔ واللہ أعلم بالصواب۔
نمقة عبدالسلام المبارکفوری عفی عنه۔
’’ بہت بہتر جواب دیا ہے، اللہ ان کو اجر عطا فرمائے۔ کیا خوب جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 132

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ