مجھےیہ خبر پہنچی ہےکہ بہت سےمسلمان نماز باجماعت ادا کرنےمیں سستی کرتےہیں اوربعض علماءنےاس سلسلہ میں جو سہولت بیان کی ہےاس سے استدلال کرتےہیں۔مجھ پر یہ واجب ہےکہ میں اس مسئلہ کی اہمیت ونزاکت کوبیان کروں۔کسی بھی مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس معاملہ میں کوتاہی کرےجس کی عظمت شان کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں اوراس کےرسول کریم علیہ من ربہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کو بہت عظیم قرار دیاہے،اس کی حفاظت کرنےاوراسےباجماعت اداکرنےکاحکم دیاہےاوربتایاہےکہ اس میں کوتاہی وسستی کرنا منافقوں کی نشانی ہے،چنانچہ قرآن مجد میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘(مسلمانو!)سب نمازیں خصوصا درمیانی نماز(یعنی نمازعصر)پورے التزام کےساتھ اداکرو’’
توجوشخص نمازکوکم اہمیت دیتااوراپنےمسلمان بھائیوں کےساتھ مل کر باجماعت ادانہیں کرتاتواس کےبارےمیں یہ کیونکہ سمجھاجائےکہ اس نےنمازکی حفاظت اوراس کی تعظیم کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اورنمازپڑھاکرواورزکوٰۃدیاکرواور(اللہ کےآگے)جھکنےوالوں کےساتھ جھکاکرو۔’’
یہ آیت کریمہ نص ہےکہ نمازیوں کےساتھ شریک ہوکر باجماعت اداکرناواجب ہےاوراگرمقصودصرف نمازقائم کرناہوتاتوپسر اس آیت کریمہ کودرج ذیل الفاظ کےساتھ ختم کرنےکی کوئی واضح مناسبت نہ ہوتی کہ
کیونکہ نمازکاحکم تواس آیت کےشروع میں بھی ہےنیزارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اور(اےپیغمبر!)جب تم ان(مجاہدین کےلشکر)میں ہواوران کونمازپڑھانےلگوتوچاہئےکہ ان کی ایک جماعت تمہارےساتھ مسلح ہوکرکھڑی رہے۔جب وہ سجدہ کرچکیں توپرےہوجائیں پھر دوسری جماعت جس نےنمازنہیں پڑھی(ان کی جگہ)آئےاورہوشیاراورمسلح ہوکرتمہارےساتھ نماز اداکرے!’’
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ نماز باجماعت اداکرنے کو تواللہ سبحانہ وتعالی نے حالت جنگ میں بھی واجب قراردیاہے توحالت امن میں اس کے وجوب کااندازہ خود فرمالیجئے،اگرکسی کوجماعت کے ساتھ اداکرنے کے سلسلہ میں رخصت ہوتی تو ا ن لوگوں کو ہوتی جودشمن کے بالمقابل صف آراہوتے ہیں اورجنہیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ دشمن کسی وقت بھی ان پر حملہ آورہوسکتا ہے۔لیکن جب ان مجاہدین کے لئے بھی رخصت نہیں ہے تومعلوم ہوا کہ نماز کو باجماعت اداکرنا نہایت اہم واجب ہے اورکسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نماز باجماعت اداکرنے میں کوتاہی کرے۔صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ‘‘میں نے ارادہ کیا کہ میں حکم دوں اورنماز کی جماعت کھڑی کردی جائےاورپھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے اورپھر کچھ ایسے آدمیو ں کو جنہوں نے ایندھن کے گٹھے اٹھارکھے ہوں،لے کر ایسے آدمیو ں کے پاس جاوں جو نماز باجماعت اداکرنے کے لئے نہیں آئے اوران کے گھروں کو جلادوں۔’’
صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ‘‘میں نےدیکھا کہ نماز اداکرنے سے صرف وہی شخص پیچھے رہتا تھا جو کھلم کھلا منافق ہوتا یا مریض بلکہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اس وقت مریض بھی دوآدمیوں کا سہارالے کر نماز (باجماعت)اداکرنے کے لئے آیا کرتا تھا۔’’یہ بھی انہی سے روایت ہے کہ‘‘رسول اللہ ﷺنے ہمیں سنن ہدایت سکھائے اوریہ بات بھی سنن ہدایت میں سے ہے کہ نماز اس مسجد میں (باجماعت)اداکی جائے جس میں ذان ہوتی ہو۔’’صحیح مسلم میں انہی سے روایت ہے کہ جس شخص کو یہ بات خوش لگے کہ وہ کل اللہ تعالی کو ایک مسلمان کی حثیت سے ملے تو اسے چاہئے کہ ان نمازوں کی حفاظت کرے جہاں ان کےلئے اذان دی جاتی ہو۔اللہ تعالی نے تمہارےنبی کے لئے سنن ہدایت کو مقررفرمایا ہے اورنمازوں کو (باجماعت)اداکرنا بھی سنن ہدایت میں سے ہے اوراگر تم نمازوں کو اپنے گھروں میں اس طرح ادا کروجس طرح یہ نماز باجماعت ادانہ کرنے والا اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت کو ترک کردوگے اوراگر تم اپنے نبی کی سنت کو ترک کردوگےتو گمراہ ہوجاوگے،جو شخص بھی اچھے طریقے سے وضو کر کے کسی مسجد میں آجاتا ہے تو ہر قدم کے عوض اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے،ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اورایک برائی مٹادی جاتی ہے ۔(رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں)نماز(باجماعت)سے صرف وہی شخص پیچھے رہتا تھا جو کھلم کھلا منافق ہوتا،اس زمانے میں مریض آدمی کو دوآدمیوں کے سہارے کے ساتھ لا کر صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔’’
‘‘صحیح مسلم ’’ہی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا آدمی نے عرض کیا ‘‘یا رسول اللہ !میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد تک پہنچادے توکیا میرے لئے اپنے گھر نماز اداکرنے کی رخصت ہے ؟’’نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘کیا تم نماز کے لئے اذان کی آواز سنتے ہو؟’’اس نے عرض کیا ‘‘ہاں’’تو آپﷺنے فرمایا‘‘پھر اس آواز پر لبیک کہو۔’’
ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز باجماعت اللہ تعالی کے ان گھروں میں ادا کرنا واجب ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ بلند کئے جائیں اوران میں اللہ کانام ذکر کیا جائے ۔لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ نماز باجماعت اداکرنے کا خصوصی اہتمام کرے اوراپنے بیٹوں ،اہل خانہ ،پڑوسیوں اوردیگر تمام مسلمان بھائیوں کو بھی اس کی تلقین کرے تاکہ اللہ تعالی اوراس کے رسول (ﷺ)کے حکم کی اطاعت ہو اورجس سے اللہ تعالی اوراس کے رسول (ﷺ)نے منع فرمایا ہے اس سے اجتناب ہو اور ان منافقوں کی مشابہت سے دوری ہو،جن کا
اللہ تعالی نے ان کی بری عادتوں کے سارھ ذکر یا ہے اوران میں سے سب سے خبیث عادت یہ ہے کہ وہ نماز اداکرنے میں سستی کرتے ہیں۔ارشادباری تعالی ہے :
‘‘منافق(ان چالوں سے اپنے نزدیک)اللہ کو دھوکا دیتے ہیں(یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے)وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر(صرف)لوگوں کے دکھانے کے لئے اور اللہ کی یادہی نہیں کرتے مگر بہت کم ۔بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں نہ ان کی طرف(ہوتے ہیں)نہ ان کی طرف اورجس کو اللہ بھٹکائے توتم اس کے لئے کبھی بھی رستہ نہ پاو گے۔’’
نماز باجماعت ادانہ کرنا ،بالکل نمازنہ پڑھنے کاایک بہت بڑا سبب بن جاتا ہےاوریہ حقیقت معلوم ہے کہ ترک نماز کفر،ضلالت اوردائرہ اسلا م سے خروج ہے کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق نماز سے ہے ۔
(صحیح مسلم بروایت حضرت جابررضی اللہ عنہ)نیزنبیﷺنے فرمایا ہے کہ‘‘وہ عہد جو ہمارے اوران (کفارومشرکین)کے درمیا ن ہے ،وہ نماز ہے،جس نے نماز کو ترک کردیا اس نے کفر کیا۔’’
نماز کی عظمت شان ،اس کی حفاظت کے وجوب ،حکم الہی کے مطابق اس کی اقامت اوراس کے ترک سے اجتناب کرنے کے بارے میں آیات واحایث بہت زیادہ ہیں جو مشہور ومعروف ہیں،لہذا ہر مسلمان کے لئے یہ واجب ہے کہ نمازکو پابندی کے ساتھ بروقت اداکرے،اس طرح اداکرے جس طرح اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اوراللہ تعالی کے گھروں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ باجماعت اداکرے تاکہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی اطاعت بجالاکر اللہ تعالی کے غضب اوراس کے دردناک عذاب سے بچ سکے۔جب حق ظاہر اوراس کے دلائل واضح ہوں تو پھر کسی کے لئے کسی فلاں یا فلاں کے قول کی وجہ سے اس سے روگردانی جائز نہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادگرامی ہے:
‘‘اوراگرکسی بات میں تمھارا اختلاف ہوجائےاوراگراللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھتے ہوتواس میں اللہ اوراس کے رسول (ﷺکے حکم)کی طرف رجوع کرو۔یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کامآل(انجام)بھی اچھا ہے۔’’
اورفرمایا:
‘‘جولوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے کہ (ایسا نہ ہوکہ)ان پر کوئی آفت پڑجائے یا تکلیف دینے والاعذاب نازل ہو۔’’
نماز باجماعت اداکرنے میں بے شمار فوائد اوربے پناہ مصلحتیں اورحکمتیں ہیں،جن میں سے نمایاں ترین باہمی تعارف،نیکی اورتقوی کے کاموں میں تعاون ،حق کی وصیت اوراس پر صبر کی تلقین ،نماز باجماعت سے پیچھے رہ جانے والے کو جرات دلانا،جاہل کو نماز کی تعلیم دینا ،اہل نفاق کو غصہ دلانا اوران کی راہ سے دوری اختیار کرنا ،بندگان الہی کے درمیان شعائراللہ کا اظہار کرنا ،قول وعمل سے اس کی طرف دعوت دینا ،علاوہ ازیں باجماعت اداکرنے کے اوربھی بہت سے فوائد ہیں ۔اللہ تعالی مجھے اورآپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے جس میں اس کی رضا اوردنیا وآخرت کی بہتری ہے اورہم سب کو اپنے نفس کی شرارتوں ،برے عملوں اورکافروں اورمنافقوں کی مشابہت سے بچائے۔
انه جواد كريم۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب