سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18)نماز میں آمین بالجہر کا مسئلہ

  • 15206
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2046

سوال

(18)نماز میں آمین بالجہر کا مسئلہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آمین بالجہر امام و ماموم و منفرد کے لیے صلوٰۃ جہریہ میں کہنا احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر منسوخہ سے ثابت ہے یا نہیں؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آمین بالجہر کہنا حضرت نبی ﷺ سے ثابت ہوا ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’ عن أبى ھریرة قال : کان رسول اللہ ﷺ إذا فرغ من قراء ة القران رفع صوته وقال آمین ‘‘ رواہ الدارقطنى وحسنه، والحاکم وصححه، کذا فی بلوغ المرام۔ ( سنن الدارقطنى ( ۱؍ ۳۳۵) وقال: ’’ ھذا إسناد حسن ‘‘ المستدرک ( ۱؍ ۳۴۵) بلوغ المرام ۲۸۳)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قراء تِ قرآن سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز کو بلند کرتے اور آمین کہتے۔ اس کی روایت دارقطنی نے کی ہے اور اس کو حسن قرار دیا ہے۔ حاکم نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے۔ ’’ بلوغ المرام‘‘ میں ایسا ہی ہے۔‘‘

’’ عن وائل بن حجر قال : سمعت النبى ﷺ قرأ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین، وقال آمین، ومدبھا صوته۔‘‘ رواہ الترمذى (سنن الترمذى ، رقم الحدیث (۲۴۸) وقال الترمذى: ’’ حدیث وائل بن حجر حدیث حسن‘‘ )

’’ وائل بن حجر کے واسطے سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو ( غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلِیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ) پڑھتے ہوئے سنا اور انھوں نے آمین کہا اور اپنی آواز کو کھینچا۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘

پس ان دونوں حدیثوں سے آمین بالجہر کہنا امام کا ثابت ہوا۔ لیکن منفرد، پس حکم منفرد اور امام کا ہر چیز میں واحد ہے، جیسا کہ احادیث صحیحہ مرفوع سے ثابت ہے۔ پس جب کہ ثابت ہوا واسطے امام کے، ثابت ہوا واسطے منفرد کے۔ باقی رہا حکم مقتدی کا، پس لکھتا ہوں میں کہ مقتدی کا بھی آمین پکار کے کہنا حدیث مرفوع سے مستنبط ہے۔ اس واسطے کہ روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے:

’’ قال : قال رسول اللہ ﷺ : ما حسدتکم الیھود علی شىء ما حسدتکم علی آمین، فأکثروا من قول آمین ‘‘ رواہ ابن ماجه ( سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۸۵۷) اس حدیث کی سند ’’ طلحہ بن عمرو‘‘ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن سنن ابن ماجہ (۸۵۶) وغیرہ میں مذکور اسی روایت کی ہم معنی دیگر صحیح روایات موجود ہیں)

 یعنی فرمایا حضرت ﷺ نے کہ نہیں حسد کیا یہود نے تم لوگوں کے ساتھ کسی فعل کے کرنے سے جس قدر کہ حسد کرتے ہیں تم لوگوں کے آمین کہنے سے۔ پس بہت کثرت کرو آمین کہنے کی۔

اور ظاہر ہے کہ جب تک آمین بالجہر کہی نہ جاوے اور کانوں تک یہود کے آواز اس کی نہ پہنچے جب تک صورت حسد کی نہیں ہوسکتی۔

اور امام بخاری نے ’’ باب جھر المأموم بالتأمین ‘‘ میں روایت کی ہے:

’’ عن أبى ھریرة أن رسو ل اللہ ﷺ قال : إذا قال الإمام ( غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلِیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ )فقولوا: آمین، فإنه من وافق قوله قول الملائکۃ غفر له ما تقدم من ذنبه۔‘‘ رواہ البخارى ( صحیح البخارى، رقم الحدیث ۷۴۹)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب امام ( غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلِیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ ) کہے تو تم لوگ ’’ آمین‘‘ کہو۔ کیونکہ جو کوئی ملائکہ کے قول کی موافقت کرتا ہے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ اس کی روایت بخاری نے کی ہے۔‘‘

پس لفظ ( قولوا) سے جہرقول بالتامین مراد ہے اور مؤید اس کے ہے عمل حضرت ابوہریرہ کا، کہ روایت کیا اس کو شیخ بدر الدین عینی نے کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں بیہقی سے:

’’ وکان أبو ھریرة مؤذناً لمروان، فاشترط أن لا یسبقه بالضالین حتی یعلم أنه قد دخل فى الصف، فکان إذا قال مروان : ولا الضالین۔ قال أبو ھریرة: آمین، یمدبھا صوته، وقال:  إذا وافق تأمین أھل الأرض تأمین أھل السماء غفرلھم ‘‘ رواہ البیھقى۔ کذا فى العینى۔ (سنن البیھقی  ۲؍ ۵۸ عمدۃ القارى ۶؍ ۴۸)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروان کے موذن تھے۔ انھوں نے شرط لگائی کہ وہ (وَلَا الضَّآلِیْنَ )میں ان پر سبقت نہ کرے، حتی کہ وہ یہ جان لے کہ وہ صف میں داخل ہوگئے ہیں، تو مروان جب (  وَلَا الضَّآلِیْنَ )کہا کرتا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ’’ آمین‘‘ اپنی آواز کو کھینچ کر کہتے اور انھوں نے کہا کہ جب اہل زمین کے آمین کہنے اور اہل سما کے آمین کہنے میں توافق ہوتا ہے تو ان کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اس کی روایت بیہقی نے کی ہے، جیسا کہ عینی میں ہے۔‘‘

اور امام ترمذی بعد روایتِ حدیثِ وائل بن حجر کے فرماتے ہیں:

’’ قال أبو عیسی : حدیث وائل بن حجر حدیث حسن، وبه یقول غیر واحد من أھل العلم من أصحاب النبى ﷺ والتابعین ومن بعدھم یرون أن یرفع الرجل صوته بالتأمین، ولا یخفیھا، وبه یقول الشافعى وأحمد وإسحاق۔‘‘ انتھی ( سنن الترمذی ۲؍ ۲۷)
’’ ابو عیسیٰ نے کہا کہ وائل بن حجر کی حدیث حسن ہے، اور ایسا ہی قول متعدد اہل علم اصحابِ نبیﷺ اور تابعین اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے۔ ان کی رائے ہے کہ آمین کہنے والا بآواز بلند کہے گا اور آہستہ سے نہیں کہے گا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق کا قول ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 109

محدث فتویٰ

تبصرے