سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17)نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنا

  • 15205
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1174

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر منسوخہ سے ثابت ہے یا نہیں؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کا پڑھنا، خواہ صلوۃ سریہ میں ہو یا جہریہ میں، احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہے۔

’’ عن عبادة بن الصامت أن رسول اللہ ﷺ قال : لا صلاة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب۔‘‘ رواہ البخارى ومسلم (صحیح البخارى، رقم الحدیث ۷۲۳)

’’ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوئی جس نے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی۔ اس کی روایت بخاری اور مسلم نے کی ہے۔‘‘

’’ عن أبى ھریرة عن النبى ﷺ : من صلی صلاة ولم یقرأ فیھا بأم القرآن فھى خِداج، ثلاثا (غیر تمام)، فقیل لأبى ھریرة: إنا نکون وراء الإمام، فقال : اقرأبھا فى نفسک۔‘‘ الحدیث۔ رواہ مسلم ( صحیح مسلم، رقم الحدیث ۳۹۵)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز پڑھی اور اس نے ام القرآن یعنی سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص اور نامکمل ہے۔ ایسا تین بار فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ہم لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ سورت اپنے جی میں پڑھو۔ الحدیث۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘

’’ عن عبادة بن الصامت رضى اللہ عنه قال : صلی رسول اللہ ﷺ الصبح فثقلت علیه القراء ة ، فلما انصرف قال : إنى أراکم تقرؤن وراء إمامکم ؟ قال : قلنا یا رسول اللہ أى واللہ، قال : لا تفعلوا إلا بأم القران، فإنه لا صلاة لمن لم یقرأبھا۔ رواہ الترمذى، وقال: حدیث عبادة حدیث حسن۔‘‘ ( سنن الترمذى ، رقم الحدیث ۳۱۱)

’’ عبادہ بن صامت کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی تو آپ ﷺ پر قراء ت میں دشواری آئی۔ پس جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ امام کے پیچھے قراءت کررہے ہو (راوی کے بقول)  ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، بخدا ایسا ہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ام القرآن یعنی سورۃ الفاتحہ کے علاوہ ایسا نہ کرو، کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے اور کہا ہے کہ عبادہ کی حدیث حسن ہے۔‘‘

اور روایت کی گئی ہے حدیث اس باب کی حضرت عائشہ و انس و ابو قتادہ و عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے۔ اور اسی پر عمل ہے بہت سے صحابہ اور تابعین اور محدثین کا، جیسا کہ جامع ترمذی میں مسطور ہے۔ ( سنن الترمذي ۲؍ ۱۱۶)

باقی رہا حکم اس کا پس بعض قائل فرضیت اور بعض قائل استحباب کے ہیں۔ جیسا کہ امام ابو عیسیٰ ترمذی اپنی جامع میں فرماتے ہیں:

’’ قد اختلف أھل العلم فى القراءة خلف الإمام، فرأی أکثر أھل العلم من أصحاب النبىﷺ والتابعین ومن بعدھم القراءة خلف الإمام، وبه یقول مالک وابن المبارک والشافعى وأحمد وإسحاق، وروى عن عبداللہ بن المبارک أنه قال : أنا أقرأ خلف الإمام والناس یقرؤن، إلا قوم من الکوفیین، وأری من لم یقرأ صلاته جائزة، وشدد قوم من أھل العلم فى ترک قراءة فاتحة الکتاب وإن کان خلف الإمام، فقالوا: لا تجزىء صلاة إلا بقراءة فاتحة الکتاب وحدہ کان أو خلف الإمام، وذھبوا إلی ما روی عبادة بن الصامت عن النبيﷺ ، وقرأ عبادة بن الصامت بعد النبى ﷺ خلف الإمام۔‘‘ انتھی  ( سنن الترمذى ۲؍ ۱۱۸)

’’ قراءتِ خلف الامام کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ نبیﷺ کے اکثر صحابہ، تابعین اور تبع تابعین قراءتِ خلف الامام کے موید رہے ہیں اور یہی قول مالک، ابن المبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا ہے۔ عبداللہ بن المارک کے واسطے سے روایت بیان کی جاتی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں قراءتِ خلف الامام کرتا ہوں اور دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں، سوائے کوفیوں کی ایک قوم کے، اور میری رائے یہ ہے کہ جو قراء ت نہیں کرتا اس کی نماز جائز ہے۔ بعض اہل علم نے سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کے ترک کرنے والے پر شدید نکتہ چینی کی ہے، اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہی نماز ادا کر رہا ہو۔ ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سورہ فاتحہ کی قراء ت کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، چاہے وہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو یا امام کے پیچھے۔ یہ لوگ اس روایت کے قائل ہیں جو عبادہ بن صامت نے نبیﷺ کے واسطے سے بیان کی ہے اور عبادہ بن صامت نے نبی ﷺ کے بعد امام کے پیچھے قراء ت کی ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور دلائل دونوں فرقوں کے اپنی جگہ پر مذکور ہیں اور وہ روایات جو دربارۂ عدم جواز قراء ۃ کے مروی ہیں، وہ مقابلہ ان روایات صحیح کا نہیں کرسکتی ہیں۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 106

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ