سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15)۔ نماز میں رفع یدین کرنا

  • 15203
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 906

سوال

(15)۔ نماز میں رفع یدین کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رفع یدین رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھا کر اور دوسری رکعت سے کھڑے ہو کر کرنا احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر منسوخہ سے ثابت ہے یا نہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 رفع یدین تینوں حالتوں میں احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہے۔

’’ عن نافع عن ابن عمر کان إذا دخل فى صلاة کبر ورفع یدیه، وإذا رکع رفع یدیه، وإذا قال سمع اللہ لمن حمده ، رفع یدیه، وإذا قام من الرکعتین رفع یدیه، ورفع ذٰلک ابن عمر إلی النبى ﷺ ۔‘‘ رواہ البخارى (صحیح البخارى، رقم الحدیث ۷۰۶)

’’ نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے، اور جب رکوع کرتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے، اور جب ’’ سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے، اور جب دونوں رکعتوں میں کھڑے ہوتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو نبی ﷺ تک مرفوع قرار دیا ہے۔ اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

اور سوائےحضرت ابن عمر کے روایت کیا حدیث رفع یدین کو حضرت عمر، علی، وائل بن حجر، ومالک بن الحویرث، وانس، وابوہریرہ، وابوحمید، وابو سعید، وسہل بن سعد، ومحمد بن مسلمہ، وابوقتادہ، وابو موسی اشعری، وجابر، وعمیر اللیثی رضی اللہ عنہم نے۔ اور اکثر صحابہ و تابعین و محدثین کا اسی پر عمل ہے، جیسا کہ جامع ترمذی میں مذکور ہے۔  ( سنن الترمذي ۲؍ ۳۶)

اور اس کا نسخ کسی حدیث صحیح مرفوع سے ثابت نہیں ہے۔

پس جبکہ حضرت ﷺ سے اس کا ثبوت پایا گیا اور اصحابِ حضرت ﷺ بھی اس کو عمل میں لائے تو بے شک اس صورت میں اس پر عمل کرنے والا ماجور اور مصیب ہوگا۔

شیخ ولی اللہ دہلوی ’’ حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ والذى یرفع أحب إلى ممن لا یرفع ‘‘ انتھی (حجة اللہ البالغة ص : ۲۵۲)
’’ جو شخص رفع یدین کرتا ہے وہ میرے نزدیک اس شخص سے زیادہ پسندیدہ ہے جو رفع یدین نہیں کرتا۔ ختم شد۔‘‘ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 104

محدث فتویٰ

تبصرے