ذکرِ ولادتِ رسول کے وقت جو مجلسِ مولد میں کھڑے ہو جاتے ہیں، تو یہ کھڑا ہونا بایں اعتقاد کہ رسول اللہ ﷺ کی روح مبارک وہاں تشریف لاتی ہے اور آنحضرت ﷺ ہر جگہ حاضر ناظر ہیں، شرع میں کیا حکم رکھتا ہے اور بے اعتقاد اس امر کے کیا حکم رکھتا ہے؟
قیام وقتِ ذکرِ ولادت کے بغیر اس اعتقاد کے بدعت ہے اور ساتھ اس اعتقاد کے شرک ہے۔ اس واسطے کہ اوپر گزرا کہ صفت حاضر و ناظر ہونے کی ہر جگہ میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی میں پائی نہیں جاتی ہے۔ جائے غور ہے کہ اگر مثلاً سو جگہوں میں ایک وقت خاص میں مجلس مولود کی ہو تو کس طرح اسی وقت خاص میں ہر جگہ روح آپ کی تشریف لائے گی؟
قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے کتاب ’’ تحفة القضاة‘‘ میں فرمایا ہے:
’’ وما یفعله الجھال علی رأس کل حول، فى شھر ربیع الأول، لیس بشىء ، ویقومون عند ذکر مولدہ ﷺ ، ویزعمون أن أن روحه ﷺ تجئ، فزعمھم باطل، بل ھذا الاعتقاد شرک، وقد منع الأئمة الأربعة عن مثل ھذا ‘‘ انتھی’’ جہلا ہر سال ربیع الاول کے مہینے کے ابتدائی حصے میں جو کچھ کرتے تھےہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ لوگ آپﷺ کی میلاد کی محفل کے وقت کھڑے ہوتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ آپﷺ کی روح تشریف لاتی ہے، تو ان کا یہ گمان باطل ہے، بلکہ یہ اعتقاد شرک ہے۔ ائمہ اربعہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔‘‘
اور قاضی نصیر الدین نے ’’ طریقة السلف‘‘ میں لکھا ہے:
’’ وقد أحدث بعض جھال المشایخ أموراً کثیرة، لا نجد لھا أثراً فى کتاب، ولا فى سنة، منھا القیام عند ذکر ولادة سید الأنام، علیه التحیة والسلام۔‘‘ انتھی’’ بعض جاہل مشائخ نے بہت سی ایسی چیزیں ایجاد کر رکھی ہیں، جن کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں ہے۔ ان میں سے ایک سید الانامﷺ کے ذکرِ ولادت کے وقت قیام ہے۔‘‘
اور سیرت شامی میں مذکور ہے:
’’ جرت عادة کثیر من المحبین إذا سمعوا بذکر وضعه ﷺ أن یقوموا تعظیماً له ﷺ ، وھذا القیام بدعة لا أصل لھا۔‘‘ انتھی (سبل الھدیٰ والرشاد لمحمد بن یوسف الشامى۱؍۳۴۴) ’’ محبانِ رسول ﷺ کے اندر یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ وہ جب بھی آپﷺ کے ذکرِ ولادت کی محفل منعقد کرتے ہیں تو وہ آپﷺ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ قیام بدعت ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔‘‘