میں نے‘‘تارک نماز کی سزار’’نامی ایک پمفلٹ دیکھا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ نبی کریمﷺسے روایت ہے کہ جوشخص سستی کی وجہ سے نماز چھوڑ دے اللہ تعالی اسےپندرہ سزائیں دے گا۔۔۔۔پھر اس کے بعد ان پندرہ سزاوں کی ذکر کیا گیا ہے اورپھر اس پمفلٹ کے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو کوئی اس کتابچے کو پڑھے گا توامید ہے کہ وہ اس کی فوٹو کاپیاں کرواکے لوگوں میں بھی تقسیم کرے گا اورپھر یہ بھی لکھا ہے کہ نیکی کا کام کرے والے کو فاتحہ کا ثواب ملتا ہے،اسی طرح میں نے ایک پمفلٹ دیکھا جس میں قرآن کریم کی تین آیات لکھی ہوئی تھیں اوران میں سے پہلی آیت یہ تھی کہ :
‘‘بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورشکر گزاروں میں سے ہو۔’’(۱)
اورپھر لکھا ہے کہ یہ آیات چاردنوں کے بعد خیروبھلائی کو لانے کا سبب بنتی ہیں۔لہذا جوشخص ضرورت مند ہو اس کی طرف اس کی پچیس کاپیاں بھیجی جائیں اورپھر آخر میں کچھ سزائیں ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کو جو کوئی ان آیات کو ترک کردے گاتواسے یہ سزائیں ملیں گی۔یہ دونوں پمفلٹ چونکہ باطل اورمنکر ہیں لہذا میں نے ان کے بارے میں مطلع کرنا ضروری سمجاتاکہ لوگ ان سے فریب خوردہ نہ ہوں جو شریعت مطہر ہ کے احکام سے ناواقف ہیں۔وباللہ التوفیق
بلاشک وشبہ یہ دین میں ایک نو ایجاد طریقہ ہے اورعلم کے بغیر اللہ تعالی کی طر ف ایک غلط بات کو منسوب کرنا ہےجبکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیزمیں بیان فرمایا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ،چنانچہ ارشادباری تعالی ہے:
‘‘(اے پیغمبر!)کہہ دیجئےکہ میرے رب نے تو بےحیائی کی باتوں کو، ظاہر ہوں یا پوشیدہ اورگناہ کو اورناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہےاور اس کو بھی (حرام کیا ہے)کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ(حرام کیا ہے) اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔’’
لہذا اس آدمی کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہئے جو اس منکر طریقےکو اختیار کرتا اور اللہ تعالی اوراس کے رسولﷺکی طرف ایسی بات منسوب کرتا ہے جو انہوں نے بیان ہی نہیں فرمائی۔سزاوں کی تحدید اوراعمال کی جزاکے تعین کا تعلق علم غیب سے ہے،لہذا اس کے معلوم کرنے کا طریقہ صرف وحی الہی ہے جس کی روشنی میں رسول اللہﷺنے خبر دی ہےان پمفلٹون میں مذکورسزاوں کا کتاب وسنت میں کوئی ذکر نہیں ہے۔وہ حدیث جسے صاحب پمفلٹ نے رسول اللہ ﷺکی طرف منسوب کیا ہے تارک نماز کو پندرہ قسم کی سزائیں ملتی ہیں۔۔۔۔۔الخ تویہ باطل اورجھوٹی روایت ہے جسے رسول اللہﷺکی طرف منسوب کرنا جھوٹ ہے جیسا کہ حفاظ حدیث علماء کرام رحمہم اللہ مثلا حافظ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے‘‘میزان’’میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اورکئی دیگر علماء نے بیا ن فرمایا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب
‘‘لسان المیزان’’میں محمد بن علی بن عباس بغدادی عطارکے حالات میں لکھا ہے کہ اس نے تارک نماز کے بارے میں ایک باطل حدیث ابوبکر بن زیادنیشاپوری کی طرف منسوب کی جسے اس سے محمد بن علی موازینی ،ابی نرسی کے شیخ نے روایت کیا ہے اور
محمد بن علی کا گمان یہ ہے کہ ابن زیاد نے اسے ربیع عن الشافعی عن مالک عن سمی ابی صالح عن ابی ہریرہ سند سے مرفوعا بیان کیا ہے کہ جو شخص نماز میں سستی کرے گا تو اللہ تعالی اسے پندرہ سزائیں دے گا۔۔۔۔۔یہ روایت بالکل باطل اورصوفیاء کی وضع کردہ ہے۔
بحوث العلمیتہ والافتاء کی مستقل کمیٹی نے اس حدیث کے باطل ہونے کے بارے میں مورخہ ۱۰/۶/۱۴۰۱ہجری کو فتوی بھی دیا تھا ،کوئی عقلمند آدمی اس بات کو پسند نہیں کرسکتا کہ وہ اس موضوع حدیث کی ترویج واشاعت کرے کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘جو شخص میری طرف کوئی ایسی حدیث منسوب کرکے روایت کرتا ہے جسے وہ جھوٹی حدیث سمجھتا ہے تووہ بھی دوجھوٹوں میں سے ایک ہے۔’’اس جھوٹی حدیث کی ضرورت بھی کیا ہے جب کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺنے جو کچھ نماز کی شان اورتارک نماز کی سزاکے بارے میں بیان فرمایا ہے ،وہ کافی شافی ہے۔ارشادباری تعالی ہے:
‘‘بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ)میں اداکرنا فرض ہے۔’’
اور اہل جہنم کا ذکر کرتےہوئےاللہ نے فرمایاہے:
‘‘تم کو دوزخ میں کونسی چیز لےآئی؟وہ جواب دیں گےکہ ہم نمازنہیں پڑھتےتھے۔’’
گویا جہنمیوں کی ایک نشانی ترک نمازبھی ہے،نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘تو ایسے نمازیوں کےلئے(جہنم کی وادی ویل یا)خرابی ہےجو اپنی نماز سےغافل رہتےہیں،جو ریاکاری کرتےہیں اوربرتنےکی چیزیں عاریتا نہیں دیتے۔’’
اور نبیﷺنےفرمایاہےکہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے(۱)یہ گواہی دینا کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمدﷺاللہ کےرسول ہیں(۲)نماز قائم کرنا(۳)زکوٰۃاداکرنا(۴)رمضان کےروزےرکھنااور(۵)اسکےلئےبیت اللہ کا حج کرناجوراستےکی استطاعت رکھتاہو۔نیز آپﷺنےیہ بھی فرمایاہےکہ‘‘ہمارےاوران کےدرمیان عہد نمازہےجونمازکو ترک کردے،وہ کافر ہے۔’’اس موضوع سے متعلق آیات واحادیث بہت ہیں جیساکہ معلوم ہے۔
دوسرا پمفلٹ جو کئی آیات سے شروع کیاگیا اورجن میں سے پہلی آیت یہ ہےکہ:
‘‘بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورشکرگزار وںمیں سےہو۔’’
اوراس پمفلٹ کےلکنےوالےنےیہ ذکر کیا ہےکہ جو اسےتقسیم کرےگااسےفلاں فلاں خیر وبھلائی حاصل ہوگی اور جو اسےچھوڑدےگاتواسےفلاں فلاں سزا ملےگی،یہ بھی بےحد باطل اوربہت بڑی جھوٹی بات ہے۔یہ ان جاہلوں اوربدعتیوں کےکام ہیں جوعوام کی حکایات،خرافات اور باطل باتوں میں مشغول رکھ کر اس واضح اورصاف حق سےدور لےجاناچاہتےہیں جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ میں موجود ہے۔لوگوں کےلئے خیر یاشر کی جوبات بھی پیدا ہو،وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی طرف سےہے:
‘‘(اےپیغمبر!)کہ دیجئےکہ جوآسمانوں اورزمین میں ہیں،اللہ کےسوا،غیب کی باتیں نہیں جانتے۔’’
رسول اللہﷺسے یہ قطعا ثابت نہیں کہ جوشخص ان تین یاان سےزیادہ آیتوں کو لکھےتو اسےیہ یہ ثواب حاصل ہوگااورجواسےچھوڑ دےاسےیہ یہ عذاب ہوگا،یہ محض جھوٹا دعویٰ،کذب اوربہتان ہے۔جب یہ حقیقت معلوم ہوگئی تو ثابت ہواکہ ان دونوں پمفلٹوں کو لکھنا،انہیں تقسیم کرنااورکسی بھی طریقےسےان کی ترویج واشاعت میں شرکت کرنا جائز نہیں،اگر کسی نےپہلےایساکیاہوتواسےچاہئےکہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرے،جوکچھ ہوااس پر ندامت کااظہار کرےاورپکاعزم وارادہ کرےکہ آئندہ ایساایساہرگزہرگزنہیں کرےگا۔اللہ تعالیٰ کےحضور دعاہےکہ وہہمیں حق کوحق سمجھنے،اس کی اتباع کرنےاورباطل کو باطل سمجھنےاوراس سےاجتناب کرنےکی توفیق عطافرمائےنیز ظاہری وباطنی فتنوں سے بچائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب