بخدمت شریف علما اہل حدیث زاد مجدکم ۔ السلام علیکم۔
نہایت ادب کے ساتھ التماس ہے کہ مسئلہ ذیل کا جواب بہت جلد عنایت فرما دیں:
ایک مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ’’ خداوند تعالیٰ مجرموں کو سزا نہ دے اور نیکوں کو جنت نہ دے تو ظالم ہے‘‘۔ کیا یہ عقیدہ از روئے قرآن شریف وحدیث، صحیح ہے یا غلط؟ کیا مولوی صاحب مذکور کو اس عقیدہ سے رجوع کرنا چاہیے یا نہیں؟آپ لوگوں کو زیادہ طول دینا بالکل غیر مفید ہے۔ آپ لوگ شرح صحیح مسلم للنووی جلد ۲ ص ۳۷۶ ملاحظہ فرمائیں۔
شرح صحیح مسلم کی عبارت یہ ہے:
’’ باب لن یدخل الجنة أحد بعمله : ومذھب أھل السنة أیضاً أن الله تعالی لا یجب علیه شىء ، تعالی الله، بل العالم ملکه، والدنیا والآخرة فى سلطانه ، یفعل فیھما ما یشاء، فلو عذب المطیعین والصالحین أجمعین، وأدخلھم النار کان عدلا منه، واذا أکرمھم ونعمھم وأدخلھم الجنة فھو فضل منه، ولو نعم الکافرین وأدخلھم الجنة کان له ذلک۔‘‘ (شرح صحیح مسلم للنووى۱۷؍۱۶۰)’’ اہل سنت کا مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں، اللہ اس سے بلند ہیں۔ بلکہ تمام عالم اس کی ملک ہے اور دنیا اور آخرت اس کے قبضے میں ہے۔ ان میں وہ جو چاہے سو کرے۔ پس اگر اطاعت گزاروں اور نیکوں سب کو عذاب کرے اور ان کو جہنم میں ڈال دے، تو یہ بھی اس کا عدل ہے۔ اگر وہ انھیں عزت دے اور ان کو نعمتوں میں داخل کرے تو یہ اس کا فضل ہے اور اگر کافروں کو نعمتیں دے اور ان کو جنت میں داخل کرے تو یہ بھی اس کو اختیار ہے۔‘‘
اور جلد اول کتاب منہاج السنۃ (ص : ۱۲۹) میں ہے:
’’ والمتحقق أنه إذا قدر أن الله تعالی فعل ذلک فلا یفعله إلا بحق لا یفعله وھو ظالم‘‘ ( منھاج السنة للإمام ابن تیمیة ۴؍۳۶۱)’’ حق بات یہ ہے کہ اگر یہ بات فرض کی جائے کہ خدا ایسا کرے گا، یعنی مجرموں کو معاف اور نیکوں کو سزا دے، تو ضرور ہے کہ وہ ناحق اور ظلم سے نہ کرے گا۔‘‘
اور عون المعبود جلد ۴ صفحہ ۳۶۱ کی عبارت یہ ہے:
’’ لأنه مالک الجمیع فله أن یتصرف کیف شاء ولا ظلم أصلا ‘‘ (عون المعبود شرح سنن أبى داود للمحدث العظیم آبادى ۴؍۳۶۱)’’ یعنی وہ سب کا مالک ہے اور اسے اختیار ہے، جس طرح چاہے تصرف کرے۔ یہ سرے سے کوئی ظلم نہیں ہے۔‘‘
آپس میں اختلاف کو دور کریں اور پوری طرح تدبر و غور کریں گے تو آپس میں اتفاق و اتحاد ہو جائے گا۔ یعنی خدا جس طرح چاہے، تصرف کرے۔ وہ مالک علی الاطلاق ہے۔ اس کے کسی کام میں ظلم نہیں۔