سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا

  • 15183
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4341

سوال

(1) غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا غیر اللہ کے لیے نذر کی نیت سے ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے؟ (فتاویٰ نذیریہ (۱؍۱۴۷) [ع،ش] 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو جانور بہ نیت نذرِ غیر خدا ذبح کیا جائے، اگرچہ بوقتِ ذبح بسم اللہ ، اللہ اکبر کہا، لیکن نیت نذر غیر خدا اور تقرب الی غیر اللہ کی ہے، اس جانور کا گوشت کھانا شرع میں حلال ہے یا نہیں اور اس کے کرنے والے پر کیا حکم ہوگا؟

جواب: نذر لغیر اللہ حرام قطعی ہے، اس لیے کہ نذر عبارت ہے التزامِ عبادت غیر لازمہ سے، اور عبادت غیر خدا کی حرام ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿أَمَرَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ ... ﴿٤٠﴾...يوسف

’’ اس نے حکم دیا ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو۔‘‘

اور بھی فرمایا ہے:

﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ ...﴿٢٣﴾...الإسراء

’’ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔‘‘

اور ابن نجیم مصری نے بحر الرائق میں لکھا ہے:

’’ فھذا النذر باطل بالإجماع لوجوہ، منھا : أنه نذر للمخلوق، والنذر للمخلوق لا یجوز، لأنه عبادة ، والعبادة لا تکون للمخلوق، ومنھا : أن المنذور له میت، والمیت لا یملک، ومنھا : ان ظن أن المیت یتصرف فی الأمور دون الله تعالٰی ، واعتقادہ ذلک کفر۔‘‘ انتھی (البحر الرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم الحنفى ۵؍۱۲۴)

’’ یہ نذر چند وجوہ ی بنا پر بالاجماع باطل ہے۔ ایک یہ کہ یہ مخلوق کے لیے نذر مانی گئی ہے اور مخلوق کی نذر ماننا جائز نہیں ہے، کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہوسکتی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس کے لیے نذر مانی گئی ہے، وہ میت ہے اور میت ملکیت کا حق نہیں رکھتا۔ نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نذر ماننے والے نے گمان کیا کہ مردہ اللہ کے بالمقابل امور میں تصرفات کرسکتا ہے اور یہ عقیدہ کفر ہے۔‘‘

پس معلوم کرنا چاہیے کہ ذبح کرنا واسطے غیر خدا کے اور تقرب چاہنا اسی غیر خدا سے، اگرچہ وقتِ ذبح کے بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کے ذبح کرے، حرام ہے اور گوشت اس کا نجس اور ذبح اس کا مرتد ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 ﴿إِنَّما حَرَّمَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيرِ اللَّـهِ...﴿١٧٣﴾...البقرة

’’ تم پر مردہ اور خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو، حرام ہے۔‘‘

امام فخر الدین رازی نے تحت آیت کریمہ لکھا ہے:

’’ قال ربیع بن أنس و ربیع بن زید: یعنى ما ذکر علیه اسم غیر اللہ، وھذا القول اؤولی، لأنّه أشد مطابقة للفظ، قال العلماء، لو أن مسلماً ذبح ذبیحة، وقصد بذبحھا التقرب إلی غیر الله، صار مرتداً ، وذبیحته ذبیحة مرتد۔‘‘ انتھی (التفسیر الکبیر لرازي ۳؍۱۱)

’’ ربیع بن انس اور ربیع بن زید نے کہا ہے: یعنی جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہی قول زیادہ مناسب ہے، کیونکہ یہ لفظ سے سب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ علما نے فرمایا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی ذبیحہ کیا اور اپنے اس ذبیحے سے غیر اللہ کے تقرب کا ارادہ کا تو وہ مرتد ہوگیا اور اس کا ذبیحہ بھی مرتد کا ذبیحہ ہوگیا۔‘‘

مولانا شاہ عبدالعزیز ’’ تفسیر فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ ہر کہ بذبح جانور تقرب لغیر اللہ نما ید ملعون است، خواہ در وقت ذبح نام خدا گیر دیانے۔ زیرا کہ چوں شہرت داد کہ ایں جانور برائے فلانے است ذکر نام خدا وقت ذبح فائدہ نہ کرد، چہ آں جانور منسوب بآں غیر گشت، وخبثے درو پیدا گشت کہ زیادہ از خبث مردار است، زیرا کہ مردار بے ذکر نام خدا جان دادہ است، و جان جانور را ازاں غیر خدا مردار دادہ کشتہ اند، وآن عین شرک اسعت، وہرگاہ ایں خبث دروے سرایت کرد دیگر بذکر نام خدا حلال نمی گردد۔‘‘ انتھی

جو کوئی ثواب کی نیت سے غیر اللہ کے لیے ذبح کرے گا، ملعون ہوگا، چاہے اللہ کا نام لے کر ذبح کرے یا نہ لے۔ جب اس نے یہ اعلان کردیا کہ فلاں جانور فلاں کے لیے ہے تو اللہ کا نام لینا ذبح کے وقت فائدہ نہیں دیتا، جب کہ وہ جانور غیر اللہ کے نام سے منسوب ہوا اور اس میں ایسی پلیدی ہوئی، جو مردار کی پلیدی سے زیادہ ہے۔ کیونکہ مردار اللہ کا نام لیے بغیر مرا ہے اور مذبوح کی روح غیر اللہ کو دے کر ذبح کیا گیا ہے، جو عین شرک ہے۔ جب یہی پلیدی ذبح شدہ جانور میں داخل ہو جائے تو اللہ کا نام لینے سے وہ حلال نہیں ہوگا۔

فتاویٰ غرائب میں مذکور ہے:

’’ وفى الذبح یشترط تجرید التسمیة مع قصد التقرب إلی الله تعالی وحدہ بالذبح ، فإن فات قصد التعظیم الله تعالٰی فى الذبح بأن قصد به التقرب إلی الآدمى لا یحل، وإن ذکر التسمیة۔‘‘ ( برو کلمان نے اسے ایک مجہول شخص ’’ ابو جعفر حنفی‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس کے مخطوطات ہندو پاک کے مختلف مکتبات: مکتبہ رضا، رامپور۔ مکتبہ سعیدیہ، حیدر آباد۔ دارالعلوم دیوبند اور مکتبہ پیر محمد شاہ وغیرہ میں موجود ہیں۔ [ع، ش]

’’ ذبح کرنے میں شرط یہ ہے کہ صرف اللہ کا نام لیا جائے، اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے۔ اور اگر ذبح میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا قصد نہ کیا اور کسی آدمی کے تقرب کی نیت ہوگئی تو وہ حلال نہیں ہوگا، اگرچہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 81

محدث فتویٰ

تبصرے