دین کو مضبوطی سے تھامنا کسی مرض کا سبب نہیں بن سکتا بلکہ دین تو دنیا وآخرت کی ہر خیر وبھلائی کا سرچشمہ ہے۔کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ بےوقوف لوگوں کی اس قسم کی باتوں کو صحیح مانے اور نہ یہ جائز ہے کہ ان لوگوں کی باتوں کی وجہ سے داڑھے منذوایاکٹوا دے یانماز باجماعت ادا کرنا ترک کردے۔بلکہ واجب یہ ہے کہ استقامت کے ساتھ حق پر قائم رہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺکی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے غضب وعذاب سے ڈرتے ہوئے ہر اسس چیز سے اجتناب کرے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اور جو شخص اللہ اوراس کے رسول(ﷺ)کی فرمان برداری کرےگا،اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرےگا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں۔وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ)کی نافرمانی کرےگااوراس کی حدود سے نکل جائےگا اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں ڈالےگاجہاں وہ ہمیشہ رہےگااوراس کو ذلت کا عذاب ہوگا۔’’
اور فرمایا:
‘‘اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا،وہ اس کے لئے(رنج ومحن سے)مخلصی کی صورت پیدا کرےگا اوراس کو ایسی جگہ سے رزق دےگاجہاں سے(وہم و)گمان بھی نہ ہو۔’’
نیز فرمایا:
‘‘اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا،اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں آسانی کردےگا۔’’
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس متدین شخص کو دین کی وجہ سے بیماری لاحق ہوئی ہے تو وہ جاہل ہے۔یہ ضروری ہے کہ اس کی اس بات کی تردید کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ دین تو سراپا خیر ہے،کسی مسلمان کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب