حدیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘اللہ تعالی یہودونصاری پر لعنت کرے فرمائےکہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنالیا تھا۔’’(متفق علیہ) اسی طرح یہ بھی صیح حدیث ہے جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،کہ حضرت ام سلمہ وحضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھاانہوں نے بتایاکہ اس میں تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں تو رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘ان لوگوں میں سےجب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اورپھراس میں تصویریں بھی بنالیتے اللہ تعالی کے ہاں یہ لوگ ساری مخلوق سے بدترین شمارہوں گے۔’’ امام مسلم نے ‘‘صیح’’میں حضرت جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ذکرکی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہےکہ ‘‘بے شک اللہ تعالی نے مجھےاسی طرح اپنا خلیل بنالیا ہےجس طرح اس نےحضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنا لیا تھا ،اگرمیں نے امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کوبناتا۔خبردار!آگاہ رہو کہ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اورولیوں کی قبروں پر مسجدیں بنالیتےتھےلیکن خبردار!تم قبروں پر مسجدیں نہ بنانا ،میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔’’
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی بیان کی ہے کہ‘‘نبیﷺنے قبرکو چونا گچ کرنے،اس پر بیٹھنے اوراس پر عمارت بنانے سےمنع فرمایا ہے’’ یہ اوران کے ہم معنی دیگر احادیث صیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قبروں پر مسجدیں بناناحرام ہےایسا کرنے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ۔یہ احادیث اس بات پربھی دلالت کرتی ہیں کہ قبروں پرعمارتیں بنانا،قبے بنانااورقبروں کو پختہ بنانا بھی حرام ہے کیونکہ یہ شرک اوراللہ تعالی کے سوااصحاب قبورکی عبادت کا سبب ہے ،جیسا کہ قدیم وجدید دورکے واقعات اس بات کے شاہد ہیں۔لہذا مسلمانوں پر یہ واجب ہے خواہ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی رہ رہے ہوں اس سے اجتنا ب کریں جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہےاوراس بات سے فریب خوردہ نہ ہوں کہ بہت سے لوگ کیا کررہے ہیں کیونکہ حق تومومن کی متاع گم شدہ ہے،وہ اسے جب بھی پالیتا ہےتو اسے حاصل کرلیتا ہے اورپھر حق معلوم کرنے کےلئے معیار کتاب وسنت ہے ،لوگوں کے آراءواعمال معیار نہیں ہیں۔
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اورآپ ﷺ کے صاحبین حضرت ابوبکر اورحضرت عمر رضی اللہ عنہم کی تدفین نبوی میں نہیں ہوئی تھی بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہوئی تھی لیکن جب ولید بن عبدالملک کے عہد میں مسجد نبوی میں توسیع کی گئی تو پہلی صدی کے آخر میں حجرہ کو مسجد میں داخل کردیا گیا لہذا ولید کے اس عمل کو مسجد میں تدفین سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺاور صاحبین رضی اللہ عنہم کو ارض مسجد کی طرف منتقل نہیں کیا گیا بلکہ توسیع کے پیش نظر حجرہ کو مسجد میں شامل کیا گیا تھا لہذا کسی کے لئے یہ عمل قبروں پر عمارتیں بنانے یا قبروں پرمسجدیں بنانے یا مسجدوں میں دفن کرنے کے جوازکی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ ان صیح احادیث میں ان تمام امور کی ممانعت ہے جو میں نے ابھی ذکر کی ہیں اورولید کاعمل جورسول اللہ ﷺ کی ثابت شدہ سنت کے خلا ف ہو،حجت نہیں ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب