جس دم سے منع کیا گیا ہے ،اس سے مراد وہ د م ہے جس میں شرک ہو یا غیر اللہ کا وسیلہ ہویا ایسے مجہول الفاظ ہوں جن کے معنی معلوم نہ ہوں اورجو دم ان باتوں سے پاک ہوں وہ شرعا جائز ہیں اورشفاکے عظیم اسباب میں سے ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ‘‘دم کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شرکیہ نہ ہو۔’’نیز آپؐ نے فرمایا کہ‘‘جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچاسکتا ہوتواسے ضرورفائدہ پہنچانا چاہئے ۔’’ان دونوں احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے صیح میں بیان فرمایا ہے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ‘‘دم صرف نظر بداوربخار کے لئے ہوتا ہے۔’’اس کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر ان دوچیزوں کے لئے دم زیادہ مناسب اورموجب شفاہے،کسی اورچیز کے لئے نہیں۔نبی کریم ﷺ نے خوددم کیا بھی ہے اورآپؐ نے کروایا بھی ہے ۔بیماروں یا بچوں پر دم کا لٹکانا جائز نہیں کہ لٹکائے ہوئے دم کو تمائم (تعویذ)،حروز(تعویذ)اورجوامع کہا جاتا ہےاور ان کے بارے میں صیح بات یہ ہے کہ یہ حرام اوراقسام شرک میں سے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہےکہ‘‘جو تعویذلٹکائےاللہ تعالی اس کے کام کو پورا نہ کرے اورجو سیپی لٹکائے اللہ تعالی اس کا کام کو پورا نہ کرے۔’’نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہےکہ‘‘جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔’’نیزآپﷺنے یہ بھی فرمایا کہ‘‘دم تعویذ اورجادو وغیرہ شرک ہیں۔’’اس مسئلہ میں علماء کا اختلا ف ہے کہ تعویذ اگر قرآنی آیات یا مباح دعاوں پر مشتمل ہوں توجائز ہیں یا حرام؟صیح بات یہ ہے کہ اس صورت میں بھی تعویذ حرام ہیں اوراس کے دو سبب ہیں(۱)احادیث مذکورہ کا عموم ہر طرح کے تعویذوں کوشامل ہے،خواہ وہ قرآنی ہوں یا غیر قرآنی(۲)ذریعہ شرک کو روکنے کا تقاضا ہے کہ یہ بھی حرام ہوں کہ اگر قرآنی تعویذوں کو جائز قراردیا جائے توان کے ساتھ دیگر تعویذ بھی خلط ملط ہوجائیں گے ،معاملہ مشتبہ ہوجائے گااوران تمام تعویذوں کے لٹکانے سے شرک کا دروازہ کھل جائے گا ۔یاد رہے کہ شریعت کا ایک عظیم ترین قاعدہ یہ بھی ہے کہ ان تمام اسباب ووسائل کو بھی بند کردیا جائے جو شرک اورمعاصی تک پہنچانے والے ہوں۔واللہ ولی التوفیق!
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب