یہ سوال بار بار پوچھا گیا ہے کہ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوق میں حلول کئے ہوئے ہے،ان کے ساتھ اختلاط کئے ہوئے ہے اور معیت عامہ کے یہی معنی ہیں نیز ان لوگوں نے درج ذیل آیات سے شبہات پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ہے:
‘‘(اے پیغمبر!)آپ(طورپہاڑ کی )مغری جانب نہیں تھے ۔’’
‘‘اورنہ اس وقت آپ ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑرہے تھے ۔’’
ان آیات کے ان کے نزدیک معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺتو ان موقعوں پر ان کے پاس موجود نہ تھے لیکن اللہ تعالی بذاتہ ان کے پاس موجود تھا کیونکہ وہ ہر جگہ موجود ہے۔
قائل نے چونکہ یہ بات کرکے سوء فہمی کا مظاہرہ کیا اور ایک زبردست غلطی کا ارتکاب کیا ہے جو اس صیح عقیدہ کے خلاف ہے ،جسے قرآن وسنت نے پیش کیا اورسلف امت نے جسے بطورعقیدہ اختیار کیا تھا لہذامیں نے مناسب سمجھا کہ حق کو بیا ن کردوں اوراس امر عظیم کے بارے میں قائل پر جو بات مخفی رہ گئی ہے اسے واضح کردوں کہ اس کا تعلق اللہ تعالی کے اسماء وصفات سے ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات کے بارے میں صرف وہی کہا جائے گاجواس نے اپنی صفات کے بارے میں خود فرمایا ہے یا جو اس کی صفات کے بارے میں اس کے رسول مقبول حضرت محمد ﷺنے فرمایا ہے۔صفات باری تعالی کو تکییف و تمثیل اورتحریف وتعطیل کے بغیر اس طرح مانا جائے گا جس طرح اللہ جل جلالہ کی ذات گرامی کے شایان شان ہے جیسا کہ اس کا ارشاد گرامی ہے:
‘‘اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے۔’’
یہ بات قرآن وسنت سے ثابت ہے اوراس پر تمام سلف امت کا اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنی مخلوق کے اوپر اوران سے جدا ہے ،وہ اپنے عرش پر مستوی ہے اوراستواء اس طرح ہے جس طرح اس کی ذات گرامی کے شایان شان ہے ۔اس کا استواء اپنی مخلوق کے استواء سے مشابہت نہیں رکھتا ۔ہاں البتہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے علم کے اعتبار سے اپنی مخلوق کے ساتھ ہے،اپنی مخلوق کی کوئی بات اس سے مخفی نہیں ۔چنانچہ قرآن حکیم نے نہایت بلیغ اورواضح عبارتوں میں اسے بیان فرمایا اورصیح اورصریح احادیث مبارکہ سے بھی یہی بات ثابت ہے۔قرآن مجید کے وہ دلائل حسب ذیل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی آسمان میں ،اپنی مخلوق سے اوپر اوراپنے عرش پر مستوی ہے:
‘‘اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں او رنیک عمل ان کوبلند کرتے ہیں۔’’
اللہ تعالی کے مزید فرامین:
‘‘(عیسی)میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تمہیں اپنی طرف اٹھالوں گا۔’’
‘‘فرشتے اورروح اس کی طرف چڑھتے ہیں۔’’
‘‘پھرعرش پر مستوی ہوا(وہ جس کا نام رحمن یعنی)بڑامہربان(ہے)۔’’
‘‘کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بے خوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے۔(یعنی پتھروں کی بارش کردے)۔’’
‘‘کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پرکنکری بھری ہواچھوڑ دے۔’’
‘‘وہ رحمن جو عرش پر مستوی ہے۔’’
‘‘(اورفرعون نے کہا)ہامان میرے لئے ایک محل بناوتاکہ میں (اس پر چڑھ کر)راستوں پر پہنچ جاوں(یعنی)(آسمانوں کے راستوں پر پھر موسی کے معبود کو دیکھ لوں اورمیں تواسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔’’
اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں ۔اسی طرح بہت سی صیح اورحسن احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہے مثلارسول اللہ ﷺکے شب معراج اپنے رب کے پاس جانا ۔ابوداوداوردیگر کتب حدیث میں دم کے بارے میں ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘ہمارا رب وہ اللہ (ہے)جو آسمان میں ہے ،اے اللہ !تیرا نام پاک ہے اورتیرا حکم آسمان وزمین میں جاری وساری ہے۔’’حدیث اوعال میں ہے کہ‘‘عرش اس کے اوپر ہے،اللہ اپنے عرش کے اوپر ہے اوروہ تمہارے حالات کو جانتا ہے۔’’
صیح حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺنے جب ایک باندی سے پوچھا ‘‘اللہ کہا ں ہے؟’’تواس نے جواب دیا‘‘آسمان میں۔’’تو آپﷺنے فرمایا‘‘میں کون ہوں؟’’اس نے جواب دیا‘‘آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔’’تو آپﷺنے فرمایا‘‘اسےآزاد کردو،یہ ایک مومن عورت ہے۔’’ (صیح مسلم)
اس طرح کی اوربہت سی احادیث جو رسول اللہ ﷺسے ثابت ہیں،ہمیں اس بات کے علم یقین کا فائدہ بخشتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے اس پیغام حق کو امت تک پہنچادیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے عرش معلی پر ،آسمان سے اوپر ہے ،عرب وعجم اور جاہلیت و اسلام کی تمام امتوں کو اللہ تعالی نے اسی عقیدہ پر پیدا فرمایا ہے،سوائے ان کے جن کو شیطان نے ان کی فطرت سے دورہٹادیا ہو۔اس مسئلہ میں ائمہ سلف سے اس قدراقوال مروی ہیں کہ اگر انہیں یکجا کیا جائے توان کی تعدادسینکڑوں بلکہ ہزاروں تک پہنچ جائے۔کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ ﷺ،سلف امت ،حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین عظام اورائمہ کرام سے جنہوں نے نفس پرستی اوراختلاف کے زمانہ کو بھی پایا،اس عقیدہ کے خلاف نصا اورظاہراایک حرف بھی ثابت نہیں ۔ان میں سے کسی نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ اللہ آسمان میں نہیں ہے یا یہ کہ وہ عرش پر نہیں ہے اورنہ کسی نے کبھی بھی یہ کہا کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہےاوراس کی نسبت سے تمام جگہیں برابرہیں اورنہ کسی نے کبھی بھی یہ کہا کہ وہ عالم میں داخل ہے نہ اس سے خارج اورنہ کسی نے کبھی بھی یہ کہا کہ اس کی طرف انگلیوں وغیرہ سے حسی اشارہ کرنا جائز ہے بلکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےمروی صیح حدیث سے یہ ثابت ہے نبی کریمﷺنے جب عرفات کے دن اپنی زندگی کے سب سے بڑے مجمع میں
عظیم الشان خطبہ ارشادفرمایا تو اس میں آپؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ بھی پوچھا‘‘کیا میں نے تم تک اللہ کا دین پہنچادیا؟۔’’توسب نے کہا‘‘ہاں آپؐ نے پہنچادیا۔’’تو آپؐ نے اپنی انگلی کو کئی بار آسمان کی طرف اٹھاکر صحابہ کرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا‘‘اے اللہ توگواہ رہنا۔’’اس طرح کی اوربھی بہت سی احادیث سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اورکئی دیگر اہل علم نے بھی اس مسئلہ کی خوب وضاحت فرمائی ہے،چنانچہ ملاحظہ فرمائیےفتاوی( ابن تیمیہ )،ج۵،ص:۱۴۔مقصود یہ ہے کہ جہمیہ ،معطلہ اوران کے نقش قدم پرچلنے والے اہل بدعت کا یہ عقیدہ حددرجہ فاسد ،بے پناہ خبیث اوربہت بڑی مصیبت ہے کہ اس سے خالق کائنات جل وعلا کی ذات گرامی نقص لازم آتا ہے،ہم دلوں کی کجی سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں۔اس گمراہ مذہب کے باطل ہونے کے بے شمار دلائل ہیں ۔ثابت شدہ شرعی دلائل سے قطع نظر عقل سلیم اورفطرت سلیم بھی اس کی منکر ہے ۔مذکورہ بالاآیات سے بعض لوگوں کا استدلال بالکل باطل ہے کیونکہ ان کا گمان یہ ہے کہ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی بذاتہ زمین میں موجود ہے مثلا طور(پہاڑ)کی طرف،حالانکہ اللہ تعالی کی ذات گرامی اس سے بہت بلندوبالااورارفع واعلی ہے۔اس قائل سے یہ بات مخفی رہ گئی ہے کہ معیت کی دوقسمیں ہوتی ہیں(۱)معیت عامہ اور(۲)معیت خاصہ،معیت خاصہ کی مثالیں حسب ذیل ہیں مثلا ارشاد باری تعالی :
‘‘یقینا جو پرہیز گار ہیں اورجو نیکوکارہیں،اللہ ان کے ساتھ ہے۔’’
اورفرمایا:
‘‘غم نہ کرواللہ ہمارے ساتھ ہے۔’’
نیز ارشاد گرامی ہے:
‘‘تحقیق میں تمہارے ساتھ ہوں (اور)سنتا دیکھتا ہوں۔’’
اوراس طرح کی دیگر آیات جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے انبیاء،اپنے مومن اورمتقی بندوں کے ساتھ ہے کہ انہیں اس کی نصرت وتائید ،اعانت وتوفیق ،تسدیدوکفایت اورنگہداشت وہدایت حاصل ہے،جیسا کہ اللہ عزوجل کا یہ فرمان اس کے نبی حضرت محمد ﷺنے روایت کیا ہے کہ ارشادباری تعالی ہے کہ ‘‘میرابندہ نوافل کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اورجب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں ،جس سے وہ سنتا ہے،اس کی آنکھ بن جاتا ہوں ،جس سے وہ دیکھتا ہے،اس کا ہاتھ بن جا تا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اوراس کا پاوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔’’اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی واقعی اپنے بندے کے اعضاء بن جاتا ہے کہ وہ ذات اس سے بلند وبالا اورارفع واعلی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بند ے کے تمام اعضاء کو ہدایت وتوفیق سے نوازتا ہے،جیسا کہ دوسری روایت سے اس کی وضاحت ہوتی ہے جس میں یہ فرمان باری تعالی ہے کہ‘‘وہ میرے ساتھ سنتا،میرے ساتھ دیکھتا،میرے ساتھ پکڑتااورمیرے ساتھ چلتا ہے’’تو اس سے واضح ہواکہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کہ ‘‘میں اس کا کان بن جاتا ہوں۔۔۔۔۔الخ’’کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسے راہ راست کی توفیق وہدایت سے نوازتااورایسے کاموں میں پڑنے سے اسے محفوظ رکھتا ہے جو اس کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔
معیت عامہ کے معنی مکمل احاطہ اورعلم کے ہیں،چنانچہ اس معیت کا بھی بہت سی آیات میں ذکر ہے مثلا:
‘‘(کسی جگہ)تین(آدمیوں)کا کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اورنہ کہیں پانچ کا مگروہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اورنہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔’’
اور فرمایا:
‘‘اورتم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔’’
‘‘پھر اپنے علم سے ان کے حالات بیان کریں گےاورہم کہیں غائب تونہیں تھے۔’’
اور فرمایا:
‘‘اور(اے پیغمبر)تم جس حال میں ہوتے ہو یا قرآن میں سے کچھ پڑھتے ہو یا تم لوگ کوئی(اور)کام کرتے ہو،جب اس میں مصروف ہوتے ہو ہم تم پر حاضر ہوتے ہیں(یعنی ہم تمہیں دیکھتے رہتے ہیں)’’
اسی طرح اور بھی بہت سی آیات سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے،اس کیفیت کے ساتھ جو اس کے کمال وجلال کے لائق ہے،وہ اپنے علم کے ساتھ اپنی مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے،وہ جہاں بھی ہوں اللہ تعالیٰ ان کے سامنے حاضر ہے خواہ وہ بر وبحر میں ہوں،رات یا دن کا کوئی لمحہ ہو،خواہ وہ اپنے گھروں میں ہوں یا جنگل میں اس کے علم میں سب برابر ہیں،سب اس کے بصر وسمع کے سامنے ہیں،وہ ان کے کلام کو سنتا،ان کے مکان کو دیکھتا اور ان کے اسرار اور سرگوشیوں کو جانتا ہے،جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:
‘‘دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے پردہ کریں،سن رکھو جس وقت یہ کپڑوں میں لپٹ کر پڑتے ہیں(تب بھی)وہ ان کی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے،وہ تو دلوں کی باتوں سے آگاہ ہے۔’’
اور فرمایا:
‘‘کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن(کی روشنی)میں کھلم کھلا چلے پھرے(اس کے نزدیک)برابر ہے۔’’
اور فرمایا:
‘‘تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔’’
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہٰ(معبود)ہے نہ کوئی رب۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے معیت عامہ کی آیات کو علم سے شروع کیا اور علم ہی پر ختم کیا ہے تاکہ بندے یہ جان لیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کے حالات اور تمام معاملات کو جانتا ہے،اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ان کے گھروں میں،ان کے غسل خانوں میں یا دیگر مقامات پر ان کے ساتھ مختلط ہےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اس سے بہت پاک ہے۔معیت کے معنی یہ بیان کرنا کہ وہ مخلوق کے ساتھ اپنی ذات کے ساتھ مختلط ہے،تو یہ ان اہل حلول کا قول ہے،جن کا یہ گمان ہے کہ ان کا معبود اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے،یہ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے تو پاک قرار دیتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہو اور اپنی مخلوق سے بلند ہو لیکن اس بات سے اللہ تعالیٰ کو پاک قرار نہیں دیتے کہ وہ غلیظ اور گندی جگہوں پر موجود ہو۔اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل ورسوا کرے،ائمہ سلف صالح مثلا احمد بن حنبل،عبد اللہ بن مبارک،اسحاق بن راھویہ،ابو حنیفہ اور ان کے بعد کے ائمہ ھدی مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ،علامہ ابن قیم اور حافظ ابن کثیرؒ نے ان لوگوں کی تردید میں بہت کچھ لکھا ہے۔
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ وَهُوَ مَعَكُمْ اور اس کے ہم معنی آیات سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ظاہری یاباطنی طورپرمخلوقات کے ساتھ مخلوط وممزوج ہے کیونکہ مع کا لفظ کسی صورت بھی اس مفہوم پر دلالت کناں نہیں ہے ،اس کی زیادہ سے زیادہ جو دلالت ہے وہ کسی امر میں مصاحبت،موافقت اورمقارنت پرہے اور یہ اقتران ہرجگہ اس کے مناسب حال ہوگا ابوعمر طلمنکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام اہل سنت مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید۵۷/۴)
اس جیسی دیگر آیات کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسے جانتا ہے جب کہ اللہ تعالی اپنی ذات اقدس کے اعتبارسےآسمانوں سے اوپر اپنے عرش معلی پر مستوی ہے جیسا کہ اس کی کتاب اورجلیل القدرعلماءامت وائمہ سلف کے ارشادات سے ثابت ہے اوراس کے آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں ان میں سے کسی کا بھی اختلاف نہیں،چنانچہ ابونصر سجزی فرماتے ہیں:
‘‘ہمارے ائمہ سفیان ثوری ،مالک ،حمادبن سلمہ،حماد بن زید ،سفیان بن عیینہ،فضیل ،ابن مبارک،احمد اوراسحاق رحمۃ اللہ علیہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی اپنی ذات گرامی کے اعتبارسے عرش پراوراپنے علم کے اعتبارسے ہرجگہ ہے۔’’
ابوعمربن عبدالبرفرماتے ہیں:
‘‘وہ علماء صحابہ وتابعین جن سے علم تفسیر منقول ہے،وہ ارشادباری تعالی
﴿مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہے لیکن علم کے اعتبار سے ہرجگہ ہے۔اس مسئلہ میں حضرات صحابہ کرام وتابعین میں سے کسی بھی ایسے شخص نے مخالفت نہیں کی جس کا قول قابل حجت ہو۔’’
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ارشادباری تعالی:
‘‘اورتم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہےاورجوکچھ تم کرتے ہو،اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔’’
کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالی تمہارے اعمال کا نگہبان وگواہ ہے خواہ تم جہاں کہیں اورجس جگہ بھی ہو،بروبحر میں ہو یا دن رات کی کسی گھڑی میں،انپے گھروں میں رہ رہے ہو یا جنگلوں میں،تمہاری یہ تمام حالتیں اس کے علم میں یکساں طورپرہیں،تمہاری تمام کیفیتیں اس کی سماعت وبصارت کے تحت ہیں،وہ تمہارے کلام کو سنتا ،تمہاری جگہ کو دیکھتااورتمہاری مخفی باتوں اورسرگوشیوں کو جانتا ہے ،جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا:
‘‘دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے پردہ کریں،سن رکھو جس وقت یہ کپڑوں میں لپٹ کر پڑتے ہیں(تب بھی)وہ ان کی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے،وہ تو دلوں کی باتوں سے آگاہ ہے۔’’
اورفرمایا:
‘‘کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن(کی روشنی)میں کھلم کھلا چلے پھرے(اس کے نزدیک)برابر ہے۔’’
اس کے سوانہ کوئی معبود ہے نہ پروردگار،اسی طرح حافظ ابن کثیر نے سورہ مجادلہ کی آیت مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ۔۔۔۔۔أَيْنَ مَا كَانُواکی تفسیر میں لکھا ہے کہ وہ ان پر مطلع ہے،ان کے کلام،ان کی مخفی باتوں اوران کی سر گوشیوں کو سنتا ہے،اللہ اسے جانتا بھی ہے اورسنتا بھی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اس کے مقررکردہ فرشتے بندوں کی باتوں کو ان کے نامہ اعمال میں لکھتے بھی جارہے ہیں،جیساکہ اس نے فرمایاہے:
‘‘کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ ان کے بھیدوں اورمشوروں تک سے واقف ہےاوریہ کہ وہ غیب کی باتیں جاننے والا ہے۔’’
اورفرمایا:
‘‘کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اورسرگوشیوں کو سنتے نہیں؟ہاں ہاں(سب سنتے ہیں)اورہمارے فرشتے ان کے پاس (ان کی )سب باتیں لکھ لیتے ہیں۔’’
یہی وجہ ہے کہ کئی ایک علماء نے بیان فرمایا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت میں معیت سے مراداللہ تعالی کا علم ہے لیکن اس کے علم کے ساتھ اس کی سماعت بھی مخلوق کو محیط اوراس کی بصارت بھی نافذ ہےکہ وہ ذات گرامی اپنی مخلوق پر اس طرح مطلع ہے کہ مخلوق کا کوئی امراس سے مخفی نہیں ہے۔
سلف کاکلام اس موضوع سے متعلق اس قدر کثرت کے ساتھ ہے کہ اسے شمار نہیں کیا جاسکتا ،مقصود یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے ساتھ ہرجگہ موجود ہے اوروَهُوَ مَعَكُمْکے معنی یہ ہیں کہ وہ بذاتہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے اوراس کی طرف اشارہ جائز نہیں ،یہ حد درجہ ساقط اورباطل ہے جیسا کہ بے شمار واضح دلائل سے یہ ثابت ہے،جن میں سے بعض دلائل کو قبل ازیں بیان بھی کیا جاچکا ہے۔اجماع اہل علم کی روشنی میں بھی یہ عقیدہ باطل ہے،جیسا کہ بعض ائمہ کرام کے اقوال اس سلسلہ میں بیان کئے جاچکے ہیں۔اس سے یہ بھی واضح ہے کہ جو لوگ حلول کے قائل ہیں یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی بذاتہ اپنی مخلوق میں حلول کرجاتا ہے،وہ راہ راست سے بھٹک گئے اوربہت دورکی کوڑی لاتے ہیں۔اللہ تعالی کی طرف انہوں نے ایک خلاف حق بات کو منسوب کیا ہےاوراللہ دتعالی کی معیت کے بارے میں وارد آیات کی انہوں نے اہل علم کی تفسیر کے خلاف غلط تاویل کی ہے ۔ہم ذلت ورسوائی اوربغیر علم کے اللہ تعالی کی طرف کوئی بات منسوب کرنے سے اللہ تعالی کی پنا ہ چاہتے ہیں اوراس سے دعامانگتے ہیں کہ وہ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے اورراہ راست پر چلنے کی توفیق عطافرمائے بے شک وہی قادروکارسازہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب