میں اللہ عز وجل کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے دینی بھائیوں اور عزیز بچوں کے ساتھ اس ملاقات کا موقع عطا فرمایا،اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا کرتا ہوں کہ وہ اس ملاقات کو بابرکت بنا دے،ہمارے دلوں اور عملوں کی اصلاح فرما دے،ہمیں دین کی سمجھ بوجھ اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے،دنیا بھر میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی اصلاح فرما دے،اچھے لوگوں کو مسلمانوں کا حکمران بنا دے اور ان کے قائدین کی اصلاح فرما دے اور داعیان ہدایت بکثرت فرما دے۔انه جواد كريم۔
میں اس جامعہ،جامعہ ام القری کی انتظامیہ کا‘‘مرکز الصیفی’’میں اس پروگرام کے انعقاد کرنے پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں،جن میں مدیر جامعہ برادر گرامی قدر جناب ڈاکٹر راشد بن راجح بطور خاص قابل ذکر ہیں کہ انہوں نے اس ملاقات کی مجھے دعوت دی،میں اللہ تعالیٰ سے اس کے اسسماءحسنیٰ اور صفات علیا کے واسطہ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو دنیا وآخرت کی خیر وبھلائی اور سعادت کی توفیق عطا فرمائے!
دینی بھائیو!سامعین کرام!!ہم نے ابھی ابھی سورۂ حشر کی وہ آیات کریمہ سنی ہیں،جن کی ایک طالب علم نے تلاوت کی ہے،ان آیات کریمہ میں عبرت بھی ہے اور نصیحت بھی،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اےایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل(یعنی فردائے قیامت)کے لئے کیا(سامان)بھیجا ہے اور(ہم پھر کہتے ہیں کہ)اللہ سے ڈرتے رہو،بےشک اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔’’
اللہ عز وجل کی یہ ساری کتاب مقدس اول سے آکر تک سراپا نصیحت ودعوت خیر ہے،اس میں اسباب نجات وسعادت کی یاد دہانی ہے اور ترغیب وترہیب کی تلقین بھی،لہٰذا سب مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کتاب میں خوب غور وفکر کریں اور امر ونہی کی پہچان کے لئے اس کی کثرت سے تلاوت کریں تاکہ جس بات کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے،مومن اس کے مطابق عمل کر سکے اور جس بات سے اس نے منع فرمایا ہے،مرد مومن اس سے رک جائے۔
کتاب اللہ سراپا ہدایت ونور اور اس میں ہر خیر وبھلائی کے لئے رہنمائی کا سامان ہے،ہر شر سے بچنے کی تلقین ہے،اس میں مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی دعوت ہے اور اس میں برے اخلاق واعمال سے بچنے کی تلقین بھی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے۔’’
یعنی قرآن مجید اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ ہدایت والا،سیدھا اور صحیح راستہ ہے،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے:
‘‘آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفا ہے۔’’
اور فرمایا:
‘‘(یہ)بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقلمند لوگ نصیحت حاصل کریں۔’’
مزید ارشاد فرمایا:
‘‘اور یہ قرآن مجید مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور جس جس شخص تک یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں۔’’
کتاب اللہ سراپا ہدایت ونور اور مجسم عبرت ونصیحت ہے لہٰذا میں اپنے آپ کو اور ان کو بھی جو میری بات سن رہے ہیں یا جن تک میری یہ بات پہنچے،یہ وصیت کرتا ہوں کہ اس کتاب عظیم کے ساتھ خصوصی تعلق قائم کرو،یہ کائنات کی سب سے اشرف واعظم کتاب ہے،یہ آسمان سے نازل ہونے والی کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے،جو شخص طلب ہدایت اور معرفت حق کے لئے اس کتاب میں غوروفکر کرے،اللہ تعالیٰ اسے ضرور اس کی توفیق عطا کرتا اور ہدایت سے بہرہ مند فرماتا ہے۔
یہ کتاب عظیم جس اہم ترین موضوع پر مشتمل ہے،وہ اس بات کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے،اور بندوں کا اپنے اللہ پر کیا حق ہے،یہ قرآن مجید کا سب سے اہم موضوع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے کہ وہ اس کی توحید کے عقیدہ کو اختیار کریں،اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید شرک اکبر کو بیان کرتا اور ہمیں بتاتا ہے کہ یہ نا قابل معافی گناہ ہے نیز قرآن مجید کفر وضلالت کی مختلف انواع واقسام کو بھی بیان کرتا ہے۔
اس کتاب میں تدبر کرنے سے اگر اس واجب عظیم کا علم ہو جائے اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو ذکر فرمایا ہے اس پر غور کرنے کا موقع مل جائے تو یہ بھی خیر عظیم اور فضل کبیر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کتاب عظیم میں خیر وبھلائی کی طرف رہنمائی کی گئی اور ہر شر سے ڈرایا گیا ہے،جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا۔
کتاب اللہ کے بعد خصوصی توجہ کا مرکز ومحور سنت رسول اللہ کو ہونا چاہئے کہ یہ ہمارے دین کا اصل ثانی اور وحی ثانی ہے،سنت رسول اللہ،کتاب اللہ کی تفسیر ہے،کلام الہٰی کے مخفی مقامات کی تشریح اور کتاب اللہ کی توضیح ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
‘‘اورہم نے آپ ؐ پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ آ پ لوگوں پر ان احکامات (ارشادات)کو واضح کردیں جوان کی طرف نازل کئے گئے ہیں۔’’
اورفرمايا:
‘‘اس کتاب(قرآن مجید)کوہم نے آپ پر اس لئے اتاراہےکہ آپ ہراس چیز کوواضح کردیں جس میں ان کا اختلاف ہے: ’’
قرآن مجید اس لئے نازل کیا گیا کہ لوگوں کو خیروبھلائی کی دعوت دی جائے،انہیں راہ نجات کی تعلیم دی جائے،ہلاکت وبربادی کے راستوں سے بچایا جائے اوراللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ حکم دیا کہ لوگوں کی طرف جا نازل کیا گیا ہے ،اسے کھول کھول کر نازل بیان فرمادیں اورمشتبہ امور کی تشریح وتوضیح فرمادیں،چنانچہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نےبعثت سے لے کر وفات تک لوگوں کو کتاب اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے رہے،کتاب اللہ کے احکام کی تشریح وتوضیح فرماتے رہےاورجس سے قرآن نے منع کیا ہے،اس سے ڈراتے رہے۔آپ ؐ کی عمر مبارک میں سے نبوت کا یہ عرصہ تیئس پرس پر مشتمل ہے جوسب کا سب دعوت وبیان اورترغیب وترہیب میں بسرہواحتی کہ آپؐ اپنے اس کام کی تکمیل کے بعد اپنے رفیق اعلی کے پاس تشریف لے گئے۔آج کی اس رات میرے لیکچر کا موضوع بہت عظیم اور بہت اہم ہے اوروہ ہے عقیدہ کا موضوع یعنی یہ موضوع کہ توحید کیا ہے اوراس کی ضد کیا ہے۔توحید وہ امر ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے رسولوں کو مبعوث فرمایا ،کتابیں نازل فرمائیں اورجنوں اورانسانوں کو پیدا فرمایا ،اصل مسئلہ توحید ہے اورباقی تمام احکام اس کے تابع ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ ... سورةالذاريات
‘‘اور میں نے جنوں اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں’’
اس کےمعنی یہ ہیں کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی کو عبادت کے لئے مخصوص قراردےلیں اورصرف اسی ہی کی عبادت کریں ، جنوں اورانسانوں کوعبث اوربے معنی پیدا نہیں کیا گیا اورنہ اس کے لئے کہ وہ کھائیں پیائیں ،محلات تعمیر کریں،نہریں جاری کریں،درخت لگائیں اورنہ انہیں دنیا کے دوسرے اہم کاموں کے لئے پیدا کیا گیا ہے بلکہ ان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اپنے رب کی عبادت کریں،اس کی تعظیم بجالائیں ،اس کے ارشادات کے سامنے سرجھکا دیں،اس کے نواہی سے باز رہیں ،اس کی حدود کے پاس رک جائیں ،بندوں کو اس کی طرف متوجہ کریں اوران کی اس کے حق کی طرف رہنمائی کریں اوراس نے اپنے بندوں کے لئے انواع واقسام کی نعمتیں اس لئے پیدا فرمائی ہیں تاکہ ان کے استعمال سے اس کی اطاعت بندگی کے لئے ان میں توانائی آجائے،اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾... سورةالبقرة
‘‘وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں،تمھاے لئے پیدا کیں۔’’
نیز فرمایا:
‘‘اورآسمان وزمین کی سب (تمام)چیزوں کو اس نے اپنے حکم سے مطیع کردیا ہے۔’’
اللہ جل وعلا نے بارشوں کو نازل فرمایا،اسی نے نہروں کو چلایا ،اسی نے بندوں کے لئے رزق اورانواع واقسام کی نعمتعوں تک رسائی کو آسان بنادیا تاکہ بندے انہیں استعمال کرکے اس کی اطاعت وبندگی کے لئے توانائی حاصل کرسکیں،اوریہ رزق اوریہ نعمتیں زندگی کے آخر تک ان کے لئے زادہ راہ کا کام دیں اورتاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے اورکسی قسم کی گنجائش باقی نہ رہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
‘‘اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور بت پرستی سے اجتناب کرو’’
فرمان باری تعالی ہے:
‘‘اور جو رسول ہم نے آپؐ سے پہلےبھیجےان کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو’’
ارشاد ربانی ہے:
‘‘اور(اے محمد!(ﷺ)جو اپنے پیغمبرہم نے آپؐ سے پہلے بھیجے ہیں،ان کے احوال دریافت کرلو کیا ہم نے سوائے رحمٰن کےسوا اور معبود مقرر کیے تھےکہ ان کی عبادت کی جائے۔’’
مزید فرمایا: ﴿ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ﴾ ... سورة الإسراء
‘‘اور تمھارے پروردگارنےارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔’’
اورسورہ فاتحہ میں فرمایا: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ ... سورة الفاتحة
‘‘(اے پروردگار!) ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔’’
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مخلوق کو اس لئے پیدا فرمایا ہے کہ مخلوق صرف اسی کی عبادت کرے،اللہ تعالی نے انہیں حکم بھی یہی دیا ہے اور اسی مقصد کی خاطر رسولوں کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور اس کی توحید کو لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں۔
اہل علم،جو حضرات انبیاءکرام کے نائب ہیں،ان پر بھی واجب ہے کہ اس امر عظیم کو لوگوں کے سامنے بیان کریں،اہل علم کا سب سے بڑا مطلوب یہی ہونا چاہئے ،ان کی پوری توجہ عنایت اسی طرف ہونی چاہئے ،کیونکہ اگر عقیدہ توحید سلامت رہا تو دیگراموربھی اس کے تابع ہوں گے اوراگر توحید میں خلل آگیا تودیگراعمال اقوال کچھ نفع وپہنچاسکیں کے ۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
‘‘اور اگر (بالفرض والمحال)یہ لوگ شرک کرتے تو جوعمل وہ کرتے تھے، وه سب ضاوئع ہوجاتے۔’’
اورفرمایا: ﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾ ... سورة الفرقان
‘‘اور انہوں نے جو جو عمل کیے گے ہم نےان کی طرف متوجہ ہوکر ان کو اڑتی خاک (پراگنده ذروں کی طرح) کردیں گے۔’’
نیز فرمایا:
‘‘(اے محمد!ﷺآپؐ کی طرف اور آپؐ سے پہلے کے تمام ا نبیاء علھیم السلام کی طرف یہی وحی کی بھیجی ہےگئی ہےکہ اگر تم نے بھی شرک کیا توتمھارے عمل برباد ہوجائیں گےاور تم تو زیاںکاروں میں سے ہوجاو گے۔’’
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی علیہ الصلواۃ والسلام نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد مکہ مکرمہ میں دس برس گزارے اوراس عرصہ میں نماز کی فرضیت سے قبل آپؐ نے لوگوں کو اللہ تعالی کی توحید کی دعوت دی،اس سارے عرصہ میں آپؐ کی دعوت یہ تھی کہ اللہ تعالی کی توحید کو اختیار کرو ،شرک اوربت پرستی کو چھوڑ دو،تمام جنوں اورانسانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اوراپنے آباواجداد کے شرک کو چھوڑدیں۔روم کے باشاہ ہرقل نے صلح حدیبیہ کے ایام میں ابوسفیان بن حرب سے پوچھا تھا جب کہ ابوسفیان قریش کے ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ فلسطین گئے تھے اورادھر اتفاق سے ہرقل بھی ان دنوں القدس میں آیا ہوا تھا،جب ہرقل کو اس قریشی قافلہ کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ ان سے نبی کے بارے میں سوال کرے،اس قافلہ کے سربراہ ابوسفیان تھے ،ہرقل نے ان سے آپؐ کے اور آپؐ کےدعوی نبوت کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے۔ہرقل نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو اس کے سامنے بٹھایا جائے اوراس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے بٹھادیا جائے اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے کچھ سوالات پوچھنے لگا ہوں اوراگر یہ غلط جواب دیں تو ان کی تکذیب کردینا۔ہرقل نے اس موقع پر ابوسفیان سے نبی کریم ﷺکے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جو مشہورومعروف ہیں اورصیح بخاری اوردیگر کتب میں موجود ہیں،ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ‘‘یہ نبوت کا دعوی کرنے والاانسان کس بات کی دعوت دیتا ہے۔’’ابوسفیان کا جواب تھاکہ وہ ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہم اللہ وحدہ کی عبادت کریں،اپنے آباواجدادکےدین کوترک کردیں نیز وہ ہمیں نماز پڑھنے ،سچ بولنے ،صلہ رحمی کرنے اورعفت وپاک دامنی کی زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ہر قل نے یہ سن کر کہا کہ اگر تم ٹھیک کہتے ہو تو وہ ایک دن میرے ان قدموں کی جگہ کا مالک ہوگا،چنانچہ ایسے ہی ہوا،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کہ ملک شام کا مالک بنا دیا،رومیوں کو وہاں سے نکال دیا اور اپنے نبی اور اپنے لشکر کو اس نے فتح ونصرت سے سرفراز فرمایا۔
مقصود یہ کہ شریعت کا یہ اصول ایک عظیم امر ہے اور لوگوں نے جب اس مین سستی کی تو وہ شرک اکبر میں مبتلا ہو گئے۔۔۔مگر جس پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا۔یہ لوگ اسلام کے مدعی ہیں اور جو ان پر اسلام کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرے،اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس عظیم اصول سے جہالت کی وجہ سے خود شرک میں مبتلا ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بہت سے مُردوں کو معبود بنا کر ان کی عبادت شروع کر دی ہے،یہ لوگ ان کی قبروں کا طواف کرتے ہیں،ان سے فریاد کرتے ہیں،ان سے اپنے بیماروں کی شفاء کے لئے دعا کرتے ہیں،حاجتوں کے پورا کرنے اور دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لئے ان سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شرک نہیں بلکہ یہ تو نیک لوگوں کی تعظیم اور ان کا اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ پیش کرنا ہے۔یہ لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو براہ راست نہیں پکار سکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اولیاء کے واسطہ کو اختیار کیا جائے جیسے بادشاہوں تک پہنچنے کے لئے وزیروں کا وسیلہ اختیار کرنا پڑتا ہے،اسی طرح رب تک پہنچنے کے لئے اولیاء کا وسیلہ اختیار کرنا ضروری ہے کہ اولیاء درحقیقت اللہ تعالیٰ کے وزیر ہیں۔ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساےھ تشبیہٖہ دی اور پھر اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت شروع کر دی۔نسال الله العافية!
یہ سب کچھ اس عظیم اصول کے بارے میں جہالت اور قلت بصیرت کی وجہ سے ہے۔بدوی،شیخ عبدالقادر،حسین اور دیگر اولیاء کے پجاری درحقیقت بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہو چکے ہیں،یہ لوگ توحید کی حقیقت سے ناآشنا ہیں یہ انبیاءکرام کی دعوت سے ناواقف ہیں،ان پر امور خلط ملط ہو گئے،یہ شرک میں مبتلا ہو کر اسے مستحہن سمجھنے لگے اور شرک ہی کو انہوں نے دین اور تقرب الہٰی کا ذریعہ سمجھ لیا اور جو انہیں سمجھائے اس کے یہ منکر ہیں اور پھر اکثر شہروں میں اس عظیم اصول کے بارے میں بصیرت رکھنے والے علماء بھی بہت کم ہیں،اس قدر کم کہ انہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے،اور ان میں سے بھی بعض کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عالم ہیں لیکن وہ بھی قبروں کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم نہیں دیا یہنی وہ بھی اہل قبور کو پکارتے،ان سے مدد طلب کرتے اور ان کی نذر وغیرہ مانتے ہیں۔
باقی رہے علماءحق،علماءسنت اور علماءتوحید تو وہ ہر جگہ ہی کم ہیں لہٰذا اس جامعہ کے طلبہ اور دیگر تمام اسلامی جامعات کے طلبہ پر یہ واجب ہے کہ وہ اس اصول کو تھام لیں،اس کو نہایت مضبوط ومستحکم کر لیں تاکہ وہ ہدایت کے داعی اور حق کی بشارت سنانے والے بن جائیں اور لوگوں کو ان کے دین کی وہ حقیقت بتائیں جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمدﷺکو مبعوث فرمایا ہے بلکہ جس کے ساتھ اس نے اپنے تمام انبیاءکرام کو مبعوث فرمایا۔
اس وقت میں آپ کے سامنے جو گفتگو کروں گا اس کا تعلق توحید کی اقسام اور شرک کی اقسام سے ہے۔توحید،وحد يوحد توحيداکا مصدر ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کو واحد مانا جائے یعنی یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت،اسماءوصفات اور الوہیت وعبادات میں وحدہ لاشریک ہے،لوگ اسے تسلیم نہ بھی کرین تو وہ پھر بھی واحد ہے۔صرف ایک اللہ کی عبادت کو توحید کے نام سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ اس عقیدہ کے ساتھ بندہ اپنے رب کو واحد سمجھتا ہے اور اس عقیدہ کی روشنی میں وہ اپنے رب کی اخلاص کے ساتھ عبادت کرتا ہے،صرف اسی کو پکارتا اور یہ ایمان رکھتا ہے کہ صرف وہی اس کائنات کے تمام امور کا مدبر ہے،وہ ساری مخلوقات کا خالق ہے،وہ صاحب اسماءحسنیٰ وصفات کاملہ ہے۔صرف اور صرف وہی مستحق عبادت ہے،اس کے سوا کوئی اور عبادت کا مستحق نہیں ہے۔اگر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تو ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ توحید کی تین قسمیں ہیں(۱)توحید ربوبیت(۲)توحید الوہیت اور(۳)توحید اسماءوصفات،توحید ربوبیت کا تو مشرک بھی اقرار کرتے تھے اور اس کا انکار نہیں کرتے تھے لیکن اس اقرار کے باوجود وہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہوسکے کیونکہ انہوں نے عبادت کو اللہ تعالی کے لئے خاص نہ کیا اور توحید الوہیت کا اقرار نہ کیا ۔یہ اقرار تو کیا کہ ان کا رب وہی خالق ورازق ہے اور اللہ ان کا رب ہے لیکن انہوں نے عبادت کے لائق اسی وحدہ لاشریک کو نہ سمجھا۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے ان کے خلاف جہاد کیا حتی کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کی عبادت کے قائل ہوگئے۔توحید ربوبیت کے معنی رب تعالی کے افعال ،کائنا ت کے لئے اس کی تدبیر اوراس میں اس کے تصرف کے اقرارکے ہیں،اسے توحید ربوبیت کے نام سے اس لئے موسوم کیا جاتا ہے کہ بندہ اعتراف کرتا ہے کہ وہ خلاق ورزاق ،امورکی تدبیر اوران میں تصرف کرنے والا ہے ،وہ دیتا بھی ہے اور روک بھی لیتا ہے ،وہ تہہ بالا کرتا ہے ،عزت وذلت سے نوازتا ،جلاتا اور مارتا اورہرچیز پر قدرت رکھتاف ہے فی الجملہ مشرکوں کو بھی اس کا اقرارتھا،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے: ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ﴾ ... سورة الزخرف
‘‘اوراگر آپ ؐان سےپوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً کہیں گے‘‘ اللہ’’ نے۔’’
نیز فرمایا:
‘‘اگر آپؐ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں ا ور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے توضرورکہیں گے کہ‘‘ اللہ’’ نے۔’’
اور ارشاد گرامی ہے:
‘‘(ان سے)پوچھئےکہ تمھیں آسمان وزمین سے روزی کون پہنچاتا ہےیا(تمھارے)کانوں اورآنکھوں کا مالک کون ہےاوربے جان سے جاندار اورجاندار سے بے جان کون پیدا کرتا ہے اوردنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟تو جھٹ (فورا)کہہ دیں گے کہ اللہ !تو کہو پھر تم (اللہ سے)ڈرتے کیوں نہیں؟’’
وہ ان امور کے متعرف تھے لیکن عبادت میں اللہ تعالی کی توحید کے سلسلہ میں اس اقرار سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایااوراخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت نہ کی بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے کئی واسطے اختیار کرلئے اورگمان یہ کیا کہ اللہ تعالی کے ہاں یہ ان کے سفارش کرنے والے اورانہیں اللہ تعالی کے قریب کردینے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
‘‘اوریہ(لوگ)اللہ تعالی کو چھوڑ کرایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جوان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں نہ ان کو نفع پہنچاسکتی ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔’’
اللہ تعالی نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘آپ کہہ دیجئے کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہوجس کا وجود اسے آسمانوں میں معلوم ہوتا ہےنہ زمین میں؟اورپاک اوربرتر ہے لوگوں کے شرک سے ۔’’
اللہ سبحانہ وتعالی کا کوئی شریک نہیں ،آسمان نہ زمین میں بلکہ وہ تو واحد ہے ،پاک ومنزہ اوربلند وبالاہے،فردوصمدہے،صرف اورصرف وہی مستحق عبادت ہے ،جیسا کہ اس نے فرمایاہے:﴿ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ﴿٢﴾ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ﴾... سورة الزمر
‘‘پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں،اسی کے لئے عبادت کو خالص کرتے ہوئے ،خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا)ہے۔’’
اورپھر یہ بھی فرمایا ہے:
‘‘اورجن لوگوں نے اس کو چھوڑ کراوردوست بنارکھے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ)ہم ان کی اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کامقرب بنادیں۔’’
یعنی وہ یہ کہتے تھے کہ ہم ان کی اس لئے عبادت نہیں کرتے کہ یہ نفع ونقصان کے مالک ہیں یا یہ پیدا کرتے اوررزق دیتے ہیں یا یہ امور کی تدبیر کرتے ہیں ،نہیں!بلکہ ہم تو ان کی اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالی کے قریب کر دیتے ہیں جیسا کہ سورہ یونس کی آیت کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ وہ اپنے ان معبودوں کے بارے میں یہ بھی کہا کرتے تھے کہ: ﴿هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ﴾ ... سورة يونس
‘‘یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔’’
اس سے معلوم ہوا کہ وہ یہ عقید ہ نہیں رکھتے تھے کہ ان کے یہ معبودنفع ونقصان کے مالک ہیں،یا موت وحیات کا اختیار رکھتے ہیں،یا رزق دیتے ،عطاکرتے اورمنع کرتے ہیں بلکہ وہ تو ان کی اس لئے عبادت کرتے تھے کہ یہ ان کی سفارش کریں اورانہیں اللہ تعالی کے قریب کردیں ،لات عزی ومنات ،مسیح ومریم اورنیک بندوں کی پہلے زمانے کے مشرک اس لئے عبادت نہیں کرتے تھے کہ وہ ان کو نفع ونقصان کا مالک سمجھتے تھے بلکہ وہ ان کی ا س لئے عبادت کرتے تھے کہ وہ اس بات کے امیدوار تھے کہ ان کی سفارش کردیں گے اورانہیں اللہ تعالی کے قریب کردیں گے،چنانچہ ان کے اس عقیدے کی وجہ سے حسب ذیل آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے انہیں مشرک قراردیا ہے:
‘‘آپ کہہ دیں کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہوجس کا وجود اسے آسمانوں میں معلوم ہےنہ زمین میں؟اورپاک ہےاور(اس کی شان)ان کے شرک کرنے سےبہت بلند وبرتر ہے ۔’’
سورہ زمر کی آیت میں فرمایاہے:
‘‘جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں ،یقینا اللہ تعالی ان کے درمیان ان کا فیصلہ کردے گا۔بے شک اللہ تعالی اس شخص کو جوجھوٹا ناشکراہے ہدایت نہیں دیتا۔’’
جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں تو اللہ تعالی نے انہیں کافر اورکاذب قراردیا اور بیان فرمایا کہ یہ اپنے اس گمان میں جھوٹے ہیں کہ یہ انہیں اللہ کے قریب کردیں گےاوراپنے اس عمل یعنی ان کی عبادت ،ان کے نام پر ذبح ،ان کے نام کی نذرونیاز،ان سے دعا اوراستعغاثہ وغیرہ کی وجہ سے کافر ہیں۔نبی ﷺنے مکہ میں دس سال تک یہ دعوت دی کہ ‘‘لاالہ الا اللہ ’’کہوکامیاب ہوجاوگے’’لیکن اکثر لوگوں نے آپؐ کی اس دعوت کو قبول کرنے سے اعراض کیا اوربہت تھوڑے لوگ تھے جنہوں نے ہدایت قبول کی،پھرمکہ والوں نے اتفاق سے یہ طے کیا کہ آپؐ کو شہید کردیں لیکن اللہ تعالی نے آپؐ کو ان کے شر اور مکروفریب سے نجات عطافرمائی اورپھرآپؐ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرماگئے،وہاں آپؐ نے اللہ تعالی کی شریعت کوقائم کیا اوردعوت الی اللہ دی،انصار نے اس دعوت کو قبول کرلیا اورپھر انہوں نے اورمہاجرین نے آپؐ کے ساتھ مل کر مشرکین مکہ اوردوسرے کفار سے جہاد کیا حتی کہ اللہ تعالی نے اپنے دین کو غالب اوراپنے کلمہ کو سربلند کردیا اورکفر اور کافروں کو ذلیل وخوارکردیا۔مشرکین توحید کی جس قسم کا اقرار کرتے تھے یہ توحید ربوبیت ہے یعنی اللہ تعالی اپنے افعال مثلا پیدا کرنے ،رزق دینے،تدبیرکرنے،زندہ کرنے اورمارنے وغیرہ میں وحدہ لاشریک ہے حالانکہ یہ توحید ربوبیت،ان کے توحید الوہیت کے انکار کے خلاف دلیل ہے کیونکہ توحید ربوبیت،توحید الوہیت کومستلزم ہے ،یہ اس کی دلیل ہے اوراسے واجب قرار دیتی ہے،اسی وجہ سے ان کے اقرا ر کو ان کے خلاف حجت کے طورپر استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
‘‘توکہوکہ پھرتم(اللہ سے)ڈرتے کیوں نہیں؟’’
اوردوسری آیات میں فرمایا:
‘‘پھرکیا تم عقل نہیں رکھتے !’’
‘‘پھرکیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے۔’’
اگرکوئی شخص اس امر پر تدبر کرے جس کا یہ لوگ اقرارکرتے تھے اوروہ عقل سے کام لے تو یقینا اس نتیجہ پر پہنچے گاکہ جو ہستی ان صفات سے متصف ہو وہ یقینا اس کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے،جب وہ خلاق ہے ،رزاق ہے،محی(حیات عطاکرنے والا)ہے،ممیت(مارنے والا)ہے،معطی(عطاکرنے والا)ہے،مانع(روکنے والا)ہے،امورکائنات کی تدبیر کرنے والا ہے ،ہرچیز کو جاننے والا اورہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہےتوپھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسے چھوڑ کراس کے غیر کی عبادت کی جائے،امیدو خوف کا مرکز کسی اور کو قراردیا جائے،اےکاش!کفاراس حقیقت کو سمجھ لیتے لیکن یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں کہ :
‘‘شیطان نے ان کو قابو میں کرلیا ہےاوراللہ کی یاد ان کو بھلادی ہے۔یہ(جماعت)شیطان کا لشکر ہےاوریقینا شیطان کا لشکرنقصان اٹھانے والا ہے۔’’
اورمنافقین کے بارے میں فرمایا :
‘‘یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں ،اندھے ہیں کہ(کسی طرح سیدھے راستے کی طرف )لوٹ ہی نہیں سکتے ۔’’
ان کے ساتھ مشابہت رکھنے والے لوگ بھی اسی طرح ہیں ،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
‘‘اورہم نے بہت سے جن اورانسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں،ان کے دل ہیں لیکن سمجھتے نہیں ،ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اوران کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں،یہ لوگ(بالکل)جوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں،یہی لوگ ہی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔’’
یہ لوگ حقیقی طور پر غافل ہیں،یہ جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں جیسا کہ اللہ نے آیات بینات،روشن دلائل اورساطع براہین میں ان کے بارے میں یہی فرمایا ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ سمجھتے نہیں اورنہ عقل سے کام لیتے ہیں بلکہ اپنے کفر وضلالت میں ڈٹے ہوئے ہیں حتی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺسےبدر،خندق اوراحزاب۔۔۔کےدن باقاعدہ جنگیں بھی کیں ،یہ لوگ اپنے کفر وضلالت میں سرگرداں رہے اور آیات الہی نے بھی انہیں کوئی نفع نہ دیا اورغفلت وبے نیازی سے بھی باز نہ آئے!پھر ایک دن آیا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو غلبہ عطافرمایا،اپنے دین کو عزت بخشی اوردشمنوں کو مغلوب کردیا اورنبی کریمﷺنے جب فتح مکہ کے دن ان سے جہاد کیا تو اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو دشمنوں کے مقابلہ میں فتح ونصرت سے سرفرازفرمایا اور آپؐ نے مکہ کو بھی فتح کرلیااوراب لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہونا شروع ہوگئے اوراس وقت نبی علیہ الصلواۃ والسلام نے توحید الوہیت کو خوب نمایاں طورپر کھول کھول کربیان فرمایا،لوگوں نے اسے قبول کیا اور وہ دین حق میں داخل ہوگئے لیکن بعد ازاں ہوازن اورطائف کے لوگوں نے آپؐ کی مخالفت میں سر اٹھایا تو ان کے مقابلہ میں بھی اللہ تعالی نے آپؐ کو فتح ونصرت سے نوازااوران کے شیرازہ کو منتشر کردیا اوران کی عورتوں ،بچوں اورمالوں پر اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو غلبہ عطافرمایااوراس طرح آخر کاراللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی حضرت محمدﷺاوراپنے ایمان داربندوں کو فتح ونصرت سے سرفرازفرمایا۔فالحمدلله علي ذلك! توحيد کی دوسری قسم ‘توحيد اسماء وصفات ہے۔یہ بھی توحید ربوبیت ہی کی جنس سے ہے۔زمانہ جاہلیت کے لوگ اس توحید کا بھی اقرار کرتے اوراسے جانتے پہچانتے تھے،توحید ربوبیت،توحید اسماءوصفات کوبھی مستلزم ہے کیونکہ جو ہستی خلاق،رزاق اورہرچیز کی مالک ہوگی وہ تمام اسماء حسنی وصفات علیا کی بھی مستحق ہوگی اوروہ اپنی ذات ،اسماء وصفات اورافعال میں کامل ہے ،کوئی اس کا شریک ہے نہ اس کے مشابہ،آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اوروہ سمیع وعلیم ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
‘‘اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتا دیکھتا ہے۔’’
نیز فرمایا:
‘‘آپ کہہ دیجئے کہ وہ (ذات پاک جس کانام)اللہ ہے ایک ہی ہے(وہ)معبودبرحق بےنیازہے،نہ کسی کا باپ ہےاورنہ کسی کا بیٹا اورکوئی اس کا ہمسر نہیں۔’’
کفاراپنے رب کو اس کے اسماء وصفات سے پہچانتے تھے اوراگر بعض نے ضد اورہٹ دھرمی کی روش اختیا ر بھی کی تو اللہ تعالی نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘(کس طرح ہم اورپیغمبر بھیجتے رہے ہیں)اسی طرح (اے محمد !(ﷺ)ہم نے آپ کو اس امت میں جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں،بھیجا ہے تاکہ آپ ان کو وہ (کتاب)جوہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے ،پڑھ کرسنا دیں اوریہ لوگ رحمن کو نہیں مانتے ۔کہہ دیجئے ،وہی تومیرا پروردگارہے،اس کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے،میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اوراسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔’’
توحید کی تیسری قسم یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اورصرف اللہ تعالی کی ذات گرامی کوقراردیا جائے اوریہی معنی ہیں‘‘لا الہ الا اللہ’’کے یعنی اللہ تعالی کے سوا کوئی اورمعبودنہیں ہے‘‘لا الہ الا اللہ’’کےاقرار سے غیراللہ کی عبادت کی تمام انواع واقسام کی نفی ہوجاتی ہےاوراللہ وحدہ سبحانہ وتعالی کے لئے اس کا اثبات ہوجاتا ہے۔یہ کلمہ تمام دین کی اصل اوراساس ہے۔یہ وہ کلمہ ہے جس کی طرف نبی کریم ﷺنے اپنی قوم کو دعوت دی،اپنے چچا ابوطالب کو دعوت دی مگر ابوطالب مسلمان نہ ہو ااوروہ اپنی قوم کے دین پر فوت ہواتھا۔اللہ تعالی نے اپنی کتاب مقدس کے بہت سے مقامات پر اس کلمہ کے معنی کی وضاحت فرمائی ہے۔مثلا اللہ تعالی کافرمان ہے:
‘‘اور(لوگو)تمھارا حقیقی معبود اللہ واحد ہے،اس بڑے مہربان(اور)رحم کرنے والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔’’
ایک اور ارشاد گرامی ہے: ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ﴾ ... سورة الإسراء
‘‘اورتمہارے پروردگار نے حکم فرمایا ہےکہ اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرو۔’’
مزید فرمایا: ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾...سورة الفاتحة
‘‘(اے پروردگار!ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھی سے مدد مانگتے ہیں۔’’
اورفرمایا: ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾ ... سورةالبينة
‘‘انہیں تو حکم ہی یہی دیا گیا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں!’’
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں جوسب کی سب اس کلمہ کی تفسیر بیان کرتی ہیں اور یہ وضاحت کرتی ہیں کہ اس کلمہ کے معنی یہ ہیں کہ غیراللہ کی عبادت کو باطل قراردیا جائے اوریہ ثابت کیا جائے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کا حق ہے جس طرح کہ اس نے سورہ حج میں فرمایا:
‘‘یہ اس لئے کہ اللہ ہی برحق ہے اورجس چیز کو (کافر )اللہ کے سوا پکارتے ہیں،وہ باطل ہےاور اس لئے کہ اللہ رفیع الشان اوربڑا ہے۔’’
اورسورہ لقمان میں فرمایا:
‘‘یہ اس لئے کہ اللہ ہی کی ذات برحق ہے اورجن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں،وہ لغو ہیں اوریہ کہ اللہ ہی عالی رتبہ(اور)گرامی قدر ہے۔’’
پس اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی حق ہے،اس کی دعوت بھی حق ہے ،اورصرف اورصرف اللہ سبحانہ وتعالی ہی کی عبادت حق ہے،لہذا صرف اسی سے فریاد کی جائے ،اسی کے نام کی نظر مانی جائے ،اسی پر بھروسہ کیا جائے،اسی سے شفاءطلب کی جائے ،اسی کے بیت عتیق(قدیم گھر)کاطواف کیا جائے ۔الغرض جس قد ربھی عبادت کی مختلف انواع واقسام ہیں،ان سب کو اللہ تعالی کی ذات گرامی کے لئے مخصوص سمجھاجائے کہ وہ ذات گرامی حق ہے ،اس کا دین بھی حق ہے،جو شخص توحید کی ان تینوں قسموں کو خوب اچھی طرح معلوم کرے،ان کی حفاظت کرے اور ان کے معانی پر ڈٹ جائے تو وہ جان لے گا کہ اللہ تعالی کی ذات گرامی واحد اوربرحق ہےاورساری مخلوقات کے سوا صرف اورصرف وہی مستحق عبادت ہے۔ جو شخص توحید کی ان تین قسموں میں سے کسی ایک کو بھی ضائع کردے تو اس نے گویا سب کو ضائع کردیا کیونکہ یہ آپس میں لازم وملزوم ہیں۔دین اسلام کا تقاضا یہ ہےکہ توحید کی ان سب قسموں پر ایمان رکھا جائے۔جو شخص اللہ تعالی کی صفات واسماء کا انکار کرے،اس کا کوئی دین نہیں اورجو شخص یہ گمان رکھے کہ اللہ تعالی کے ساتھ امور کی تدبیر کرنے کے لئے کوئی اورمصرف بھی ہے تواہل علم کے اجماع کے مطابق وہ کافر اورشرک فی الربیت کا مرتکب ہے۔جو شخص توحید ربوبیت اورتوحید اسماء وصفات کا اقرار کرے لیکن عبادت صرف اللہ تعالی کی نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ مشائخ یا انبیاءیافرشتوں،یاجنوں یاستاروں یابتوں وغیرہ کی بھی عبادت کرے تو اس نے اللہ تعالی کی ذات گرامی کے ساتھ شرک اور کفر کیا اوراس حالت میں توحید کی باقی قسمیں یعنی توحید بوبیت اورتوحید اسماء وصفات بھی اس کے کچھ کام نہ آئیں گی۔لہذا ضروری ہے کہ انسان کا توحید کی تینوں قسموں پر ایمان اوران کے مطابق عمل ہو اوراقرارکرے کہ اللہ تعالی اس کا رب ہے اوروہ خالق ،رازق اورتمام امور کا مالک ہے اوراس کا بھی ارارکرے مشرک جس کا انکار کرتے تھے اورپھر اللہ تعالی کے اسماء حسنی اورصفات علیا پر ایمان رکھے کہ اس کا کوئی ساجھی ہے نہ سہیم وشریک ،جیسا کہ اس نے خود ارشاد فرمایا ہے:
‘‘آپ کہہ دیجئے کہ وہ (ذات پاک جس کانام)اللہ ہے ایک ہی ہے(وہ)معبودبرحق بےنیازہے،نہ کسی کا باپ ہےاورنہ کسی کا بیٹا اورکوئی اس کا ہمسر نہیں۔’’
نیز فرمایا:
‘‘تو(لوگو!)اللہ کے بار ے میں (غلط)مثالیں نہ بناواللہ تعالی ہی جانتا ہے اورتم نہیں جانتے۔’’
مزید ارشاد فرمایا: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ ... سورة الشورىٰ
‘‘اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے۔’’
باقی رہ گیا امرثالث تووہ توحید عبادت ہے اوریہی معنی ہیں‘‘لا الہ الا اللہ’’کے اوریہی تمام انبیاء کی دعوت کی اساس عظیم ہے کیونکہ مشرک ،توحید کی باقی دوقسموں کے منکر نہ تھے ،بلکہ صرف اس قسم یعنی عبادت کے منکر تھے یہی وجہ ہے کہ جب نبیﷺنے ان سے کہا:کہ کہو‘‘لا الہ الا اللہ’’توانہوں نے کہا:
‘‘کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا ؟یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔’’
انہوں نے یہ بھی کہا: .
‘‘ کیا ہم نے ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑدیں؟ ’’
اوراس سے پہلے اللہ تعالی نے ان کے بارے میں یہ بیان فرمایا ہے :
‘‘یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تواظہار تکبر کرتے تھے اورکہتے تھے کہ بھلا کیا ہم ایک دیوانے شاعرکےکہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑدیں۔’’
اوراللہ تعالی نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘(نہیں)بلکہ وہ حق لے کر آئے ہیں اور(پہلے)پیغمبروں کوسچا کہتے ہیں۔’’
توحید کی یہ قسم توحید عبادت ہے،پہلے مشرکوں نے بھی اس کا انکار کیا تھا اورآج کے مشرک بھی اس کے منکر ہیں اور اس کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے بلکہ یہ اللہ تعالی کے ساتھ غیراللہ اشجاراوراحجارکی عبادت کرتے ہیں ،بتوں کی عبادت کرتے ہیں،اولیاءوصالحین کی عبادت کرتے ہیں،ان سے فریاد کرتے ہیں ان کےنام کی نذر مانتے اوران کے نام پر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں اوروہ تمام امور بھی کرتے ہیں جن کو آج کل قبروں ،بتوں اوردرختوں وغیرہ کے پجاری بجالاتے ہیں اوراس طرح غیراللہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے یہ لوگ مشرک وکافر ہیں اوراگراسی حالت میں فوت ہوجائیں توان کی بخشش نہ ہوگی،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
‘‘یقینا اللہ تعالیٰ یہ جرم نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرایاجائے، اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہےمعاف کر دے ۔’’
نیز فرمایا:
‘‘اور اگر (بالفرض)وہ لوگ(مذکورہ انبیاء بھی) شرک کرتے تو جوعمل وہ کرتے تھے، وه سب ضائع ہوجاتے۔’’
مزید فرمایا:
‘‘یقین مانو کہ جو شخص بھی اللہ کے ساتھ (کسی کو)شریک کرتا ہے،اللہ تعالی نے اس پر بہشت حرام کردی ہےاوراس کا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے اورظالموں کا کوئی مددگارنہیں ہوگا۔’’
لہذا ازبس ضروری ہے کہ توحید کی اس قسم کو بھی اختیار کیا جائے اور صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے،اس کی ذات گرامی کے ساتھ شرک کی نفی کردی جائے ،اسی عقیدہ پر استقامت کا مظاہرہ کیا جائے،دوسروں کو اس کی دعوت دی جائے ،اسی کو دوستی اوردشمنی کا معیار قرار دیا جائے ۔توحید کی اس قسم سے جہالت اورعدم بصیرت کے سبب لوگ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن سمجھتے یہ ہیں کہ وہ بہت ہدایت یافتہ ہیں،جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
‘‘ان لوگوں نےاللہ کوچھوڑکرشیطان کو رفیق بنالیااورسمجھتے (یہ)ہیں کہ (راہ راست پر)ہیں۔’’
عیسائیوں اوران جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں فرمایا:
‘‘کہہ دیجئے کہ ہم تمھیں بتائیں کون لوگ اعمال کے لحاظ سے بہت زیادہ نقصان میں ہیں،وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں بربادہوگئی اوروہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ اچھے کام کررہے ہیں۔’’
کافراپنی جہالت اوردل کی کجی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ وہ اچھا کام کررہا ہےحالانکہ وہ غیر اللہ کی عبادت کررہا ہوتا ہے،غیراللہ کو پکار رہا ہوتا ہے،غیراللہ سے فریاد کررہا ہوتا ہے،غیر اللہ کے نام پر جانوروں کو ذبح کرنے اوران کے نام کی نذریں مان کر ان کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے،حالانکہ یہ سب کچھ ان کی جہالت اوعدم بصیرت کی وجہ سے ہے ،انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
‘‘کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟(نہیں)یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ (بھٹکے ہوئے)ہیں۔’’
اورفرمایا:
‘‘اورہم نے بہت سے جن اورانسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں،ان کے دل ہیں لیکن سمجھتے نہیں ۔۔۔۔’’
اہل علم اورطلبہ علم پر یہ واجب ہے کہ توحید کی اس نوع (قسم)کی جانب بہت ہی زیادہ توجہ مبذول کریں کیونکہ اس کے بارے میں جہالت کی بہت کثرت ہے اوراکثر مخلوق توحید کی اس نوع کے خلاف روش اختیار کئے ہوئے ہے۔توحید کی باقی دو قسمیں تو بحمداللہ بہت واضح اورروشن ہیں لیکن یہ قسم یعنی توحید عبادت ،اکثر لوگوں پر ان بہت سے شبہات کی وجہ سے مشتبہ ہے،جنہیں اللہ کے دشمنوں نے رواج دے رکھا ہے اوربہت سے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں لیکن اس شخص کے لئے بحمد اللہ معاملہ نہایت واضح اورصاف ہے جس کی بصیرت کو اللہ تعالی نے منور فرمادیا ہوکیونکہ دشمنوں کے پھیلائے ہوئے تمام شبہات باطل ہیں،ان میں کوئی حقیقت نہیں اوراس کے مقابلہ میں حق نہایت واضح اور روشن ہے اوروہ یہ کہ ہرانسان کے لئے یہ واجب ہے کہ وہ عبادت کو اخلاص کے ساتھ صرف اورصرف اپنے اللہ کے لئے بجالائے ،جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿فَادْعُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾...سورة الغافر
‘‘سوتم نہایت اخلاص سےاللہ کی عبادت کی عبادت کرتے ہوئے اللہ کو پکارو اگرچہ یہ کافروں کوناگوارہو۔’’
اورفرمایا: ﴿فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا﴾ ...سورة الجن
‘‘اللہ کے ساتھ کسی اورکی عبادت نہ کرو’’
اورارشاد ربانی ہے:
‘‘اوراللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تمہاراکچھ بھلا کرسکے نہ کچھ بگاڑ سکے ،اگرایساکرو گے توظالموں میں سے ہوجاوگے۔’’
ایک اورفرمان ہے:
‘‘یہی اللہ تو(معبود حقیقی)تمہارا پروردگار ہے بادشاہی اسی کی ہے جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے برابر بھی(کسی چیز کے)مالک نہیں اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر(بالفرض)سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے(یعنی تمہاری حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں کر سکتے)اور قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور(اللہ)باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔’’
اور فرمایا:
‘‘اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارتا ہے،جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہو گا،یقینا کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔’’
اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات کریمہ میں بیان فرمایا ہے جو سب کی سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات گرامی کی اخلاص کے ساتھ واجب ہے۔غیراللہ کو عبادت کا مستحق سمجھنا شرک اور کفر ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ فلاں شخصیت یا جمادات میں سے کوئی چیز اس قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے تو وہ شخص کافر ہے خواہ اس کی عبادت نہ بھی کرے،مثلا اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ یہ بت یا یہ شخص مثلا جبریل یا نبی مکرم حضرت محمدﷺیا شیخ عبدالقادر جیلانی،یا بدوی،یاحضرت حسینؓ یا حضرت علی بن ابی طالبؓ یا ان کے علاوہ کوئی اور عبادت کے لائق ہے،اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنے یا کسی اور سے فریاد طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں،تو وہ شخص یہ عقیدہ رکھنے سے کافر ہو جاتا ہے،خواہ عملی طور پر وہ ایسا نہ بھی کرے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ یہ علم غیب جانتے ہیں،یا کائنات میں تصرف رکھتے ہیں تو اس کی وجہ سے بھی وہ کافر ہو جائے گا،اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے اور اگر کوئی شخص فی الواقع غیر اللہ کو پکارے،ان سے مدد مانگے یا غیر اللہ کے نام کی نذر مانے تو وہ شرک اکبر کا مرتکب ہوگا،اسی طرح اگر کوئی شخص غیر اللہ کو سجدہ کرے،یا اس کے لئے نماز پڑھے،یا اس کے لئے روزہ رکھے تو وہ بھی شرک اکبر کا مرتکب ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
توحید کی ضد شرک ہے،شرک کی بھی تین قسمیں ہیں لیکن درحقیقت شرک کی صرف دو ہی قسمیں ہیں(۱)شرک اکبر(۲)شرک اصغر۔
شرک اکبر:شرک اکبر یہ ہے کہ عبادت یا اس کے کچھ حصے کو غیراللہ کے ساتھ مخصوص کر دیا جائے یا دین کے ان امور معلومہ میں سے کسی کا انکار کر دیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے مثلا نماز،رمضان کا روزہ یا کسی ایسی چیز کو حرام ماننے سے انکار کر دیا جائے جسے دین نے حرام قرار دیا ہو مثلا زنا اور شراب وغیرہ،یا خالق کی معصیت لازم آنے کے باوجود مخلوق کی اطاعت کو اختیار کیا جائے اور ایسا کرنا حلال سمجھا جائے کہ فلاں مرد یا عورت،سربراہ مملکت یا وزیر اعظم،عالم یاکسی اور کی ان امور میں بھی اطاعت جائز ہے جو اللہ تعالی کے دین کے خلاف ہیں،توہر وہ عمل جس میں عبادت کا کچھ حصہ غیراللہ کے لئے وقف کردیا جائے مثلا اولیاءاللہ کو پکارنا،ان سے فریادکرنا ،ان کے نام کی نذرماننایاکوئی ایسا عمل کرنا جس سے اللہ تعالی کے کسی حرام کردہ امر کو حلال ٹھہرانا لازم آتا ہو یااللہ تعالی کے کسی واجب کو ساقط قراردینا لازم آتا ہو۔مثلا یہ عقیدہ رکھنا کہ نماز واجب نہیں یا روزہ واجب نہیں یا استطاعت کے باوجود حج واجب نہیں یا زکوۃ واجب نہیں یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اس طرح کے امور کا شرعا کوئی حکم نہیں ہے تویہ کفراکبراورشرک اکبرہے کیونکہ یہ عقیدہ رکھنا اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی تکذیب کے مترادف ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص کسی ایسے کام کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے جس کا حرام ہونا دین سے بالضرورۃ معلوم ہو مثلا زنا،شراب یاوالدین کی نافرمانی کو حلال سمجھنا یا ڈکیتی ورورہزنی ،لواطت ،سودخوری اورایسے دیگر امورکو حلال سمجھنا جن کی حرمت نص اوراجماع سے ثابت ہے تو اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ عقیدہ رکھنے والا کافر ہوجاتا ہےاور اس کا شمار شرک اکبر کا ارتکاب کرنے والے مشرکوں میں ہوتا ہے۔اسی طرح جو شخص دین کا مذاق اڑائے تووہ بھی مشرک اور اس کا کفر بھی کفر اکبرہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
‘‘کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟بہانے مت بناوتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو۔’’
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز کو حقیر سمجھتے ہوئے اس کی توہین کرتا ہو جسے اللہ تعالیٰ نے عظیم قرار دیا ہو مثلا یہ کہ کوئی قرآن مجید کی توہین کرے،اس پر بول وبراز کر دے یا اس پر بیٹھ جائے یا اسی طرح توہین کا کوئی اور پہلو اخےیا کرے تو اجماع ہے کہ وہ بھی کافر ہے،کیونکہ اس طرح یہ شخص درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تنقیص وتحقیر کرتا ہے،کیونکہ قرآن مجید تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام پاک ہے لہٰذا جس نے اس کی توہین کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی توہین کی ان تمام مسائل کو علماء نے اپنی کتب کے‘‘باب حکم المرتد’’میں بیان کیا ہے،چنانچہ مذاہب اربعہ میں سے ہر مذہب کی کتب فقہ میں ایک ایسا باب ہے جسے‘‘باب حکم المرتد’’کے نام سے موسوم کیا گیا ہے،اس باب میں کفر وضلالت کی تمام اقسام کو بیان کیا گیا ہے،یہ باب لائق مطالعہ ہے،خصوصا آج کے اس دور میں جب کہ ارتداد کی بہت سی قسمیں پیدا ہوچکیں ہیں اور بہت سے لوگوں کے سامنے صورت حال واضح نہیں ہے لہٰذا جو شخص کتب فقہ کے اس باب کا غور سے مطالعہ کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ نواقض اسلام،اسباب ارتداد اور کفر وضلالت کی انواع واقسام کون کون سی ہیں۔
دوسری قسم شرک اصغر ہے۔اس سے مراد وہ کام ہے جسے نصوص میں شرک کے نام سے موسوم کیا گیا ہے لیکن شرک کی یہ قسم شرک اکبر سے کم تر درجہ کی ہے۔مثلا ریاکاری وغیرہ جیسے کوئی شخص ریاکاری کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کرے یا ریاکاری کے لئے نماز پڑھے یا ریاکاری کے لئے دعوت الی اللہ کا کام کرے،چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے اور جب آپﷺسے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا‘‘اس سے مراد ریا ہے۔’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاری(دکھاوا)کرنے والوں سے فرمائے گا‘‘جاؤ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں عمل کرتے تھے،کیا ان کے پاس تمہارے لئے کوئی جزا ہے۔؟’’
اس حدیث کو امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ محمود بن لبیداشہلی انصاریؓ سے روایت کیا ہے،طبرانی،بیہقی اور بحدثین کی ایک جماعت نے بھی اسے محمود مذکور سے روایت کیا ہے۔یہ محمود صغیر صحابی ہیں،نبی کریمﷺسے ان کا سماع ثابت نہیں ہے لیکن اہل علم کے نزدیک صحابہکرام کی مرسل روایات صحیح اور حجت ہیں اور بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کی مرسل صحیح اور حجت ہیں۔
اسی طرح کسی آدمی کا یہ کہنا کہ‘‘جو اللہ اور فلاں چاہے،اگر اللہ اور فلاں شخص نہ ہوتا’’یا یہ جملہ کہ‘‘یہ اللہ اور فلاں کی طرف سے ہے۔’’تو اس طرح کہنا بھی شرک اصغر ہے جیسا کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہے جسے امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ حضرت حذیفہؓسے روایت کیا ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘یہ نہ کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یہ کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر فلاں چاہے۔’’
اسی طرح امام نسائی نے‘‘قتیلہ’’سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے حضرات صحابہکرامؓ سے کہا ہے کہ تم بھی شرک کرتے ہو کیونکہ تم یہ کہتے ہو کہ‘‘جو اللہ چاہے اور جو محمدﷺچاہے۔’’اور تم کہتے ہو کہ‘‘کعبہ کی قسم!’’تو نبیﷺنے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ وہ جب قسم کھانا چاہے تو یہ کہیں‘‘رب کعبہ کی قسم’’اور یہ کہیں کہ‘‘جو اللہ چاہے اور پھر جو محمدﷺچاہیں۔’’
سنن نسائی میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہ دیا‘‘یارسول اللہﷺجو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں’’تو آپ نے فرمایا‘‘کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا ہے؟’’یہ کہو کہ‘‘جو صرف اللہ وحدہ چاہے۔’’
اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کی تفسیر میں منقول ہے:
‘‘پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ اور تم جانتے تو ہو’’
اس امت میں شرک اس قدر مخفی ہوگا جیسے اندھیری رات میں،کالے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے مثلا آپ کا یہ کہنا کہ‘‘اے فلاں شخص!واللہ!میری اور آپ کی زندگی کی قسم!’’یا یہ کہنا کہ‘‘اگر یہ کتیا نہ بھونکتی تو ہمارے گھر چور آجاتے۔’’یا‘‘اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو چور آجاتے۔’’اسی طرح آدمی کا یہ کہنا کہ‘‘جو اللہ اور آپ چاہیں،اگر اللہ تعالیٰ اور فلاں نہ ہوتا’’تو ان جملوں میں فلاں کا استعمال نہ کرو کہ یہ سب شرک بن جائے گا۔اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
یہ اور اس طرح کےدیگر امور شرک اصغر کے قبیل سے ہیں،اسی طرح غیر اللہ کی قسم کھانا مثلا کعبہ،انبیاء،امانت،کسی کی زندگی یا کسی کی عزت وغیرہ کی قسم کھانا شرک اصغر ہے کیونکہ‘‘مسند’’میں صحیح سند کے ساتھ حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘جو شخص اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم کھائے وہ شرک کرتا ہے۔’’
امام احمد،ابوداؤد اور ترمذی رحمہم اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمرؓ سے مروی حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کیا۔’’اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ راوی کو شک ہے کہ آپ نے کفر کا لفظ استعمال فرمایا یا شرک کا؟اور یہ بھی احتمال ہے کہ او بمعنی واؤ ہو اور معنی یہ ہو کہ اس نے کفر اور شرک کیا۔
اسی طرح شیخین نے حضرت عمرؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘جس نے قسم کھانی ہو اسے چاہۓ کہ وہ اللہ کی قسم کھاۓ یا خاموش رہے۔’’اس مفہوم کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔
اگرچہ یہ شرک اصغر کی قسمیں ہیں لیکن دل کی کیفیت کے باعث یہ شرک اصغر،شرک اکبر بھی ہوسکتا ہے مثلا اگر نبی یا بدوی یا کسی بزرگ کی قسم کھانے والے کے دل میں یہ ہو کہ وہ اللہ کے مثل ہے یا اللہ کے ساتھ اسے بھی پکارا جا سکتا ہےیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا بھی اس کائنات میں تصرف ہے تو اس عقیدے کی وجہ سے یہ شرک اصغر،شرک اکبر بن جائےگااور اگر غیر اللہ کی قسم کھانے والے کا یہ مقصد نہ ہو اور محض عادت کے طور پر وہ اس طرح کی قسم کھائے تو یہ شرک اصغر ہوگا۔
شرک کی ایک اور قسم بھی ہے جسے شرک خفی کہا جاتا ہے۔بعض اہل علم نے اس کے،شرک کی تیسری قسم ہونے کے سلسلہ میں حضرت ابوسعیدخدریؓ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو میرے نزدیک تمہارے لئے مسیح الدجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے؟’’صحابہ کرامؓ نےعرض کیا‘‘یارسول اللہ!ضرور ارشاد فرمائیے!’’آپ نے فرمایا‘‘وہ شرک خفی ہے،آدمی جب نماز پڑھتے ہوئے یہ دیکھتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے تو وہ نماز کو سنوار کر پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔’’(احمد)
صحیح بات یہ ہے کہ یہ شرک کی کوئی تیسری قسم نہیں ہے یہ شرک اصغر ہی ہے اور یہ کبھی خفی بھی ہوتا ہے کیونکہ اس کا تعلق دل سے ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔اس کی مزید مثالیں،ریاکاری کے لئے قرآن مجید پڑھنا،ریاکاری کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا،ریاکاری کے لئے جہاد کرنا وغیرہ۔
بعض لوگوں کی نسبت حکم شرعی کے اعتبار سے یہ کبھی خفی بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی،مثالیں ہیں اور کبھی یہ شرک اکبر ہونے کے باوجود مخفی ہوتا ہے جیسے کہ منافقین کا اعتقاد کہ وہ ظاہری اعمال ریاکاری کے لئے کرتے ہیں،جب کہ ان کا کفر خفی ہوتا ہے،جسے وہ ظاہر نہیں کرتے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘منافق(ان چالوں سے اپنے خیال میں)اللہ کو دھوکا دیتے ہیں(یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے)وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر(صرف)لوگوں کے دکھاوے کے لیے اور اللہ کی یاد تو برائے نام ہی کرتے ہیں(ان کی)حالت یہ ہے کہ(کفر وایمان میں)مترود ہیں۔نہ ان کی طرف(ہوتے ہیں)نہ ان کی طرف۔’’
منافقین کے کفر اور ان کی ریاکاری کا ذکر بہت سی آیات میں ہے۔نسال الله العافية
ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ شرک خفی بھی شرک کی مذکورہ دو قسموں شرک اکبر اور شرک اصغر سے خارج نہیں ہے اور اسے خفی اس لئے کہا گیا کہ شرک کبھی خفی ہوتا ہے اور کبھی جلی۔جلی کی مثال مُردوں کو پکارنا،ان سے مدد طلب کرنا،اور ان کے نام کی نذر ماننا وغیرہ اورخفی کی مثال وہ شرک ہے جومنافقوں کے دل میں ہوتا ہےحالانکہ وہ بظاہرلوگوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھتے اورروزے بھی رکھتے ہیں لیکن باطنی طور پر یہ کافر ہوتے ہیں کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے جواز کا عقیدہ رکھتے ہیں اوراس طرح گویا یہ مشرکوں کے دین پر ہوتے ہیں تویہ شرک خفی ،اکبر ہےکیونکہ اس کا تعلق دلوں سے ہے ۔اس طرح شرک خفی،اصغر سے مثلا وہ شخص جو اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتایا نماز پڑھتا یا صدقہ کرتا ہےکہ لوگ اس کی تعریف کریں یا اس طرح کے کوئی اورکام کرتا ہے تویہ شرک خفی لیکن اصغر ہے۔اس تفصیل سے واضح ہواکہ شرک کی دوقسمیں ہیں(۱)اکبراور(۲)اصغر اوران میں سے ہر ایک خفی بھی ہوسکتا ہے ۔مثلا منافقوں کا شرک جوکہ اکبر ہے اوریہ کبھی خفی اوراصغربھی ہوسکتا ہے مثلا نماز،یاصدقہ یا دعایادعوت الی اللہ یا امربالمعروف اورنہی عن المنکرکےکاموں کوریاکاری کے لئے کرنا۔ہرمومن کے لئے یہ واجب ہے کہ وہ شرک سے اجتناب کرے اور شرک کی ان تمام صورتوں سے دور رہے،خصوصا شرک اکبر سے،کیونکہ یہ وہ سب سے بڑا گناہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاتی ہے اور یہ وہ سب سے بڑا جرم ہے جس میں لوگ مبتلا ہوگئے ہیں اوریہ وہ جرم ہے جس کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے:
‘‘اوراگروہ لوگ(انبیاء علیہم السلام)شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے،سب ضائع ہوجاتے۔’’
نیز اسی کے بارے میں فرمایا:
‘‘یقین مانوکہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر بہشت حرام کردی ہے اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔’’
اس کے متعلق ایک اورارشاد ہے:
‘‘اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے،اس کے سوا(اورگناہ)جس کو چاہے گا بخش گا۔’’
جوشخص حالت شرک پر مرگیا وہ یقینی طورپر جہنمی ہے ۔جنت اس کے لئے حرام ہے اوروہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہی میں رہے گا۔۔نعوذباللہ من ذلک!
شرک اصغر کا شمار بھی اکبر الکبائر میں ہوتا ہے،اس کا مرتکب بھی عظیم خطرے سے دوچار ہوتا ہے لیکن نیکیوں کے غالب آجانے سے یہ معاف بھی ہوجاتا ہے اورکبھی اس کی سزا بھی ملتی ہے لیکن اس کا مرتکب کفار کی طرح ابدی جہنمی نہ ہوگا کیونکہ یہ ایسا گناہ نہیں ہے جو جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کا موجب ہواوراس سے تمام اعمال رائیگاں ہوجاتے ہوں،ہاں البتہ جس عمل میں اس کی آمیزش ہوگی وہ یقینا رائیگاں ہوجائے گا۔شرک اصغر کی جس عمل میں آمیزش ہو وہ رائیگاں ہوجاتا ہےمثلا اگر کوئی شخص ریا کاری کے لئے نماز پڑھے تونہ صرف یہ کہ اسے کوئی اجر نہیں ملے گابلکہ اسے گناہ بھی ہوگا۔اسی طرح اگر کوئی شخص ریا کاری کے لئے قرآن مجید پڑھے تواسےبھی کوئی اجر نہیں ملے گابلکہ گناہ بھی ہوگالیکن شرک اکبر اورکفر اکبر ایسے سنگین جرائم ہیں کہ ان سے زندگی کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
‘‘اوراگروہ(سابقہ انبیاء علیہم السلام)بھی شرک کرتے تو ان کےتمام اعمال ضائع ہوجاتے۔’’
لہذا سب مردوں اورعورتوں ،عالم اور متعلم اورہرایک مسلمان پر یہ واجب ہےکہ وہ اس امرکوسیکھے اوراس میں بصیرت حاصل کرے تاکہ وہ توحید کی حقیقت اوراقسام کو جان لے اورشرک کی ان دونوں قسموں ،اکبر واصغر کو پہچان لے تاکہ اگر اس سے شرک اکبر یا اصغر کا ارتکاب ہوا ہو تو وہ فورا سچی توبہ کرے،توحید کولازم پکڑے،اس پر استقامت کا مظاہرہ کرے،اللہ تعالی کی اطاعت وبندگی اوراس کے حق کی ادائی میں زندگی بسر کرے۔توحید کے کئی حقوق ہیں اوروہ ہیں فرائض کو اداکرنا اورنواہی کو ترک کرنا یعنی توحید کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ فرائض ادا کئے جائیں اور نواہی کو ترک کیا جائے اورشرک کی تمام صورتوں سے خواہ وہ صغیرہ ہوں یاکبیرہ ،مکمل طورپر اجتناب کیا جائے۔شرک اکبر،توحید اوراسلام کے کلی طورپر منافی ہے جبکہ شرک اصغر ،کمال واجب کے منافی ہے لہذا دونوں صورتوں یعنی شرک صغر واکبر کا ترک کرنا ازبس ضروری ہے۔ہمیں چاہئے کہ دل ودماغ کی اتھاہ گہرائیوں سے اسے سیکھیں اوراس میں فقاہت حاصل کریں اورپوری عنایت اور وضاحت کے ساتھ اسے لوگوں تک پہنچائیں تاکہ مسلمانوں کو ان عظیم الشان امور کے بارے میں شرح صدر حاصل ہو۔اللہ عزوجل کی بارگاہ قدس میں دست سوال دراز ہے کہ وہ ہمیں اورآپ سب کو علم نافع اورعمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ہمیں اورتمام مسلمانوں کو دین میں فقاہت وثابت قدمی عطافرمائے۔اپنے دین کو فتح ونصرت اوراپنے کلمہ کو سربلندی عطافرمائےاورہمیں اورآپ سب لوگوں کو اپنے ہدایت یافتہ بندوں میں بنادے!انہ سمیع قریب۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب