بے شک اللہ سبحانہ وتعالی نے جنوں اورانسانوں کوصرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کے سوا ہر چیز کو چھوڑکرصرف اورصرف اس کی عبادت کریں،دعا،استغاثہ،ذبح،نذراوردیگرتمام عبادات کو صرف اسی کی ذات گرامی کے لئے خاص قراردیں،اسی مقصد کےلئے اللہ تعالی نے حضرات انبیاء علیہ السلام کومبعوث فرمایااور انہیں اس پیغام کی اشاعت کا حکم دیا۔اللہ تعالی نے جو آسمانی کتابیں نازل فرمائیں ،جن میں سے قرآن کریم سب سے عظیم ترین ہے،اس میں بھی اسی کابیان اوراسی کی دعوت ہےاوراللہ تعالی کے ساتھ شرک اورغیر اللہ کی عبادت سے ڈرایا گیا ہے،یہی اصل الاصول ملت اوردین کی اساس اور‘‘لا الہ الا اللہ’’کی شہادت کے معنی ہیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے ۔اس سے غیر اللہ کی الوہیت یعنی عبادت کی نفی ہوجاتی اور اللہ وحدہ لاشریک لہ کے لئے عبادت کا اثبات ہوجاتا ہےاوردیگر تمام مخلوقات میں سے اورکوئی نہیں جس کو عبادت کا مستحق سمجا جاسکے۔کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺمیں اس کے دلائل بے حدوحساب مثلا اللہ تعالی نے ارشادفرمایاہے:
‘‘اور میں نے جنوں اورانسانوں کو (صرف اورصرف) اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں’’
نیز فرمایا:
"اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔"
مزید ارشاد ہے:
‘‘انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو(تمام باطل ادیان سے منقطع)ہوکر اخلاص عمل کے ساتھ صرف اورصرف اللہ کی عبادت کریں!’’
ارشاد گرامی ہے:
‘‘اورتمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا)قبول کروں گا ،یقین جانو جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر اعراض کرتے ہیں ،عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔’’
فرمان باری تعالی ہے:
‘‘(اے پیغمبر!)جب میرے بندے آپؐ سے میرے بارے میں دریافت کریں تو(آپؐ کہہ دیں کہ )میں تو (تمہارے)بہت ہی قریب ہوں،جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہےتو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔’’
ان آیات کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس نے جنوں اورانسانوں کو (محض)اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے اوراس نے فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے ۔‘‘قضی’’کے معنی یہ ہیں کہ اس نے حکم دیا ہے،اس نے وصیت فرمائی ہے یعنی اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے اوریہ وصیت فرمائی ہے اوراسے اپنے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی زبانی بیان فرمایا کہ ‘‘بندے صرف اپنے رب ہی کی عبات کریں۔’’اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بات بھی واضح فرمادی ہے کہ دعابھی ایک عظیم عبادت ہے،جو اس سے تکبر کرے گا وہ جہنم رسید ہوگا،اس لئے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو کہ حکم دیا کہ وہ صرف اورصرف اسی سے دعا مانگیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں یہ بھی بتادیا کہ وہ ہمارے بہت قریب ہے اوروہ اپنے بندوں کی دعاوں کو شرف قبولیت سے نوازتا ہے ،لہذا تمام بندگان الہی پریہ واجب ہے کہ وہ صرف اپنے رب تعالی ہی سے دعا کریں کیونکہ دعا بھی اسی عبادت ہی کی ایک قسم ہے جس کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے اورجس کا انہیں حکم دیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے:
‘‘(اے پیغمبر!)آپ کہہ دیں کہ میری نماز اورمیری قربانی اورمیراجینااورمیرا مرنا،سب خالص اللہ ہی کے لئےہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اورمیں سب سے پہلے فرمان بردارہوں۔’’
اللہ تعالی نے اپنے نبی کریمﷺکو یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں کو یہ بتادیں کہ آپؐ کی نماز اورقربانی ۔یعنی جانور کو ذبح کرنا۔ اورمیراجینااورمیرا مرناسب اللہ ربالعالمین کے لئے ہے،جس کا کوئی شریک نہیں توشخص غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتا ہے وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے جس طرح غیراللہ کے لئے نماز پڑھنا شرک ہے ،اسی طرح غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا بھی شرک ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے نماز وذبح کو یہاں یکجا ملاکرذکر فرمایا ہے اور فرمایا ہےکہ یہ دونوں اللہ وحدہ لاشریک لہ ہی کے لئے ہونی چاہئیں توجوشخص غیر اللہ مثلا جن،فرشتوں،مردوں وغیرہ کے نام پر ذبح کرے اوراس سے ان کا تقرب حاصل کرے توایسے ہی ہے جیسے کوئی غیراللہ کے لئے نماز پڑھے اورصیح حدیث میں ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشادفرمایا:
«لعن الله من ذبح لغيرالله»‘‘اللہ تعالی اس شخص پر لعنت فرمائے ،جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے۔’’
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نےحسن سند کے ساتھ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہےکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ‘‘دوآدمیوں کا گزر ایک قوم کے بت کے پاس سے ہوا جو وہاں سے کسی کو گزرنے کی اجازت
‘‘اوران لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی فساد عقیدہ )باقی نہ رہے اوردین سب اللہ ہی کا ہوجائے۔’’
رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد(ﷺ)اللہ کے رسول ہیں اورنمازقائم کریں اورزکوۃ اداکریں،جب وہ یہ کام کریں گےتو مجھ سے اپنے خونوں اورمالوں کو بچالیں گے،سوائے اسلام کے حق کے اوران کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہوگا۔’’اس حدیث ‘‘حتي يشهدواان لااله لاالله’’ کہ معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے سوا ہرچیز کو چھوڑ کر عبادت کو صرف اور صرف اللہ تعالی کے لئے خاص کردیں۔مشرک لوگ جنوں سے ڈرتے اوران کی پناہ مانگاکرتے تھے تواس سلسلہ میں اللہ تعالی نے حسب ذیل آیت کریمہ نازل فرمائی:
‘‘بات یہ ہے کہ کچھ لوگ (چند انسان)بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اوربڑھ گئے۔’’
اہل تفسیر نے آیت کریمہ میںفَزَادُوهُمْ رَهَقًاکےمعنی یہ بیان کئے ہیں کہ انہوں نے ان کے ڈراورخوف میں او راضافہ کردیا کیونکہ جن جب یہ دیکھتے کہ انسان ان کی پناہ پکڑتے ہیں تواس سے ان کے دلوں میں غروراورتکبرپیداہوگیا اور انہوں نے انسانوں کو مزید ڈرانا اورخوف میں مبتلا کرنا شروع کردیا تاکہ وہ ان کی زیادہ عبادت کریں اور ا ن کی طرف رجوع کریں،جنوں کی پناہ کے عوض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اور اس کے کلمات تامہ کی پناہ پکڑا کریں،چنانچہ ارشاد فرمایا:
‘‘اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو،بےشک وہ سنتا جانتا ہے۔’’
نیز اللہ تعالیٰ نے اس سلسہ میں سورۃالفلق اور سورۃالناس کو نازل فرمایا اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ‘‘جو شخص کسی جگہ فروکش ہو اور وہ یہ پڑھ لے:
‘‘میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ لیتا ہوں،ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے۔’’
تو اسے اس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی’’ان مذکورہ آیات واحادیث سے ایک طالب نجات اور دین کی حفاظت اور چھوٹے بڑے شرک سے سلامتی کے متلاشی کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مردوں،فرشتوں،جنوں اور دیگر مخلوقات سے تعلق قائم کرنا اور انہیں پکارنا اور ان کی پناہ پکڑنا اس طرح کے دیگر امور کو اختیار کرنا ذمانۂ جاہلیت کے مشرکوں کا عمل اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ شرک کی انتہائی بدترین صورت ہے لہٰذا واجب ہے کہ اسے ترک کر دیا جائے،اس سے بچا جائے،اس کے ترک کی دوسروں کو بھی تلقین کی جائے اور ایسا کرنے والے کو منع کیا جائے اور جس شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ اس قسم کے شرکیہ اعمال میں مبتلا ہے تو یہ جائز نہیں کہ اس سے رشتہ ناطہ کیا جائے،اس کا ذبیحہ کھایا جائے،اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے حتٰی کہ وہ تائب ہو، دعا اور عبادت کو اللہ وحدہ کے لئے خالص کردے۔دعا بھی عبادت ہے بلکہ عبادت کی روح ہے جیسا کہ نبی کریمﷺکا ارشاد ہے کہ‘‘دعاہی عبادت ہے’’اور دوسری حدیث میں الفاظ یہ ہیں کہ‘‘دعا عبادت کا مغز ہے’’اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اور(مومنو)مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں،نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور اسی طرح مشرک مردجب تک ایمان نہ لائیں،مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا کیونکہ مشرک(مرد)سے خواہ وہ تم کو کیسا ہی بھلا لگے،مومن غلام بہتر ہے۔یہ(مشرک)لوگوں کو دوزخ کی طعف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں۔’’
اللہ سبحان ہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کو بتوں،جنوں اور فرشتوں وغیرہ کی عبادت کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے حتٰی کہ وہ ایمان لائیں کہ عبادت صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کے لئے خاص ہے،عسول اللہﷺکے لائے ہوئے دین کی تصدیق کریں اور آپ کے راستہ کی پیروی کریں۔اسی طرح آیت کریمہ میں اس بات سے بھی منع فرمایا کہ مشرکوں کو مسلمان عورتوں کے رشتے دیئے جائیں حتٰی کہ وہ ایمان لائیں کہ عبادت صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کے لئے خاص ہے،رسول اللہﷺکی تصدیق واتباع کریں،نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ مومن باندی،آزاد مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ اسے دیکھنے والے اور اس کی بات سننے والے کو کتنی ہی اچھی کیوں نہ معلوم ہو،اسی طرح مومن غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے خواہ اسے سننے اور دیکھنے والا اس کے حسن وجمال اور اس لی فصاحت وبلاغت اور اس کی بہادری وغیرہ کی وجہ سے کتنا ہی خوش کیوں نہ ہو۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ لوگوں کو دوزخ کی طرف بلاتے ہیں یعنی مشرک مرد اور عورتیں اپنے اقوال واعمال اور سیرت واخلاق سے دوزخ کے داعی ہیں جب کہ مومن مرد اور عورتیں اپنے اقوال واعمال اور سیرت وکردار کے اعتبار سے جنت کے داعی ہیں تو یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں؟اسی طرح جل وعلا نے منافقوں کے بارے میں فرمایا ہے:
‘‘اور(اے پیغمبر!)ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر(جاکر)کھڑے ہونا،یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی تو نافرمان(ہی مرے)’’
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ منافق اورکافر کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے ہیں،اسی طرح ان کے پیچھے بھی نماز نہ پڑھی جائے ،انہیں مسلمانوں کا امام نہ بنایاجائے اوراس کاسبب ان کاکفر ،عدم امانت اورمسلمانوں کے ساتھ ان کی زبردست عداوت ہےاوراس لئے بھی کہ یہ اہل صلوۃ وعبادت میں سے نہیں ہیں کیونکہ کفر وشرک کے ساتھ کوئی عمل باقی نہیں رہتا۔ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ۔اللہ عزوجل نے مردہ ذبیحوں اورمشرکوں کے ذبیحوں کی حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘اورجس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاوکہ اس کا کھانا گناہ ہے اورشیطان(لوگ)اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اوراگرتم لوگ ان کے کہے پر چلے توبے شک تم بھی مشرک ہوئے۔’’
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مرداراورمشرک کا ذبیحہ کھانے سے مسلمان کو منع فرمایا ہے۔مشرک چونکہ نجس ہے،اس لئے اس کا ذبیحہ بھی مردارکے حکم میں ہے خواہ اس پر اللہ تعالی کا نام ہی کیوں نہ لیا گیا ہو کیونکہ مشرک کا اللہ تعالی کا نام لینا باطل ہے اوراس کا کوئی اثر نہیں کیونکہ ذبیحہ عبادت ہے اورشرک عبادت کو رائیگاں کر کے باطل کردیتا ہے حتی کہ مشرک ،اللہ تعالی کی بارہ گاہ میں توبہ کرے ہاں البتہ اللہ تعالی نے اہل کتاب کے کھانے کو جائز قراردیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے:
‘‘اوراہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لئے حلال ہے اورتمہاراکھانا ان کےلئے حلال ہے۔’’
کیونکہ اہل کتاب آسمانی دین کی طرف منسوب ہیں اوران کا دعوی یہ ہے کہ وہ حضرت موسی وحضرت عیسی علیہم السلام کے پیروکار ہیں اگرچہ اپنے دعوی میں وہ جھوٹے ہیں۔اب اللہ تعالی نے کائنات کے تمام انسانوں کی طرف اپنے نبی حضرت محمد ﷺکو مبعوث فرماکرسابقہ تمام دینوں کو منسوخ اورباطل کردیا ہے لیکن اللہ عزوجل نے اپنی حکمت بالغہ اوربہت سے ان اسرارورموز کے باعث اہل کتاب کے کھانے اوران کی عورتوں کو ہمارے لئے حلال قراردیا ہے جن کی اہل علم نے وضاحت فرمائی ہے لیکن بتوں ،مردوں ،نبیوں ،ولیوں اوردیگر اشیاء کے پجاری بت پرستوں کے کھانے یا عورتوں کو ہمارے لئے حلال قرارنہیں دیا کیونکہ ان کا دین بالکل بلاشک وشبہ بے اصل بلکہ سرے سے ہی باطل ہے لہذا ان کا ذبیحہ مردارہے،اس کا کھانا جائز نہیں ۔کسی شخص کا اپنے مخاطب کو یہ کہنا کہ ‘‘تجھ پر جن کا اثر ہے’’یا‘‘تجھے جن نے پکڑ رکھا ہے۔’’یا ‘‘شیطان تجھے لےاڑا ہے’’یا اس قسم کی دیگر باتیں تویہ گالی گلوچ کے قبیل سے ہیں۔یہ باب شرک کے قبیل سے نہیں ہیں۔مسلمانوں کو اس طرح کی گالیاں دینا بھی جائز نہیں۔ہاں البتہ ان الفاظ کے کہنے والے شخص کا عقیدہ اگر یہ ہو کہ اللہ تعالی کے حکم اورمشیت کے بغیر جن ،لوگوں میں تصرف کرسکتے ہیں لہذا جوشخص جنوں یا دیگر مخلوقات میں سے کسی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے تووہ کافر ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہرچیز کا مالک وقادر ہے،وہ نفع پہنچانے اورنقصان دینے والا ہے،اس کےحکم اوراس کی مشیت وقدرت کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی ،چنانچہ اللہ تعالی نے نبی کریمﷺکویہ حکم دیتے ہوئے کہ آپ لوگوں کو یہ عظیم اصول بتائیں ،ارشادفرمایاہے:
‘‘اے نبی(ﷺ)!آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اورنقصان کا اختیارنہیں رکھتااللہ ہی جوکچھ چاہتا ہےوہ ہوتا ہےاوراگرمیں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تواپنے لئے بہت سے فائدے حاصل کرلیتااورمجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔میں تو مومنوں کوڈرانےورخوشخبری سنانے والا ہوں۔’’
اگرساری مخلوق کے سرداراورساری مخلوق سے افضل ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺبھی اللہ تعالی کی مشیت کے بغیر اپنے لئے نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے تو کسی دوسرے کو یہ اختیار کس طرح حاصل ہوسکتا ہے۔اس مفہوم کی قرآن مجید میں اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
کاہنوں،شعبدہ بازوں ،نجومیوں اوران جیسے دیگر لوگوں سےجوغیب کی خبریں بتانے کا دعوی کرتے ہیں ،سوال کرنا ایک منکر امر ہے جوجائز نہیں ہے اوران کی تصدیق کرنا اس سے بھی زیادہ بڑا منکر امر ہے بلکہ یہ کفر کی ایک شاخ ہے کیونکہ نبی کریمﷺکا فرمان ہے ‘‘جو شخص کسی نجومی کے پاس جاکر سوال کرے توچالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔’’ (صیح مسلم)
صیح مسلم ہی میں حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے کاہنوں کے پاس جانے اوران سے سوال کرنے سے منع فرمایا ہے۔اہل سنن نے نبی کریمﷺکا یہ فرمان بھی بیان کیا ہے کہ جو شخص کاہن کے پاس جائے اوراس کی باتوں کی تصدیق کرے تو وہ اس (دین وشریعت)کے ساتھ کفر کرتاہے ،جسے حضرت محمد (ﷺ)پر نازل کیاگیا ہے۔’’اس مفہوم کی اوربھی بہت سی احادیث مبارکہ ہیں،لہذا مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ کاہنوں ،نجومیوں اوران تمام شعبدہ بازوں سے سوال کرنے سے اجتناب کریں جو غیب کی خبریں دینے کا کاروبارکرتے اورمسلمانوں کوتلبیس میں مبتلا کرتے ہیں خواہ یہ کاروبارطب کے نام سے ہویا کسی اورنام سے۔نبی کریمﷺنے ان کے پاس جانے سے منع فرمایا ہےجیسا کہ مذکورہ بالا احادیث کے حوالے سے یہ گزرچکا ہے۔وہ لوگ بھی اسی ممانعت میں شامل ہیں جوطب کے نام سے غیبی اموربتانے کا دعوی کرتے ہیں جیسا کہ کئی لوگ مریض کا عمامہ (رومال وپگڑی وغیرہ)یا مریضہ کا دوپٹہ سونگھ کریہ بتاتے ہیں کہ اس مریض یا مریضہ نے یہ کام کیا جس کی وجہ سے یہ بیمار ہےحالانکہ مریض کے عمامہ میں ایسی کوئی علامت نہیں ہوتی جس سے اس کے مرض کی نشاندہی ہوتی ہے۔اس دجل وفریب سے ان لوگوں کا مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ مبتلائے فریب ہوکر یہ سمجھیں کہ یہ شخص طب میں ماہر ہے،مرض کے اسباب واقسام سے آگاہ ہے۔اس طرح کے لوگ بسااوقات مریضوں کو کچھ دوائیں بھی دے دیتے ہیں،ہوتا یہ ہے کہ اللہ کے حکم سے ہی شفا مل جاتی ہے لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں شفاان دوائیوں کے استعمال سے ہوئی ہے مرض کا سبب بسااوقات ان جنوں اورشیطانوں کا اثر ہوتا ہے جن کی وابستگی اس معالج سے بھی ہوتی ہے،وہ اسے بعض مخفی باتیں بتادیتے ہیں تو یہ معالج انہی پر انحصار کرتا ہےاورجنوں اورشیطانوں کی ان کے مناسب حال عبادت کر کے انہیں خوش کرتا ہےلہذا وہ اس مریض سے اپنا اثر ختم کردیتے ہیں اوراس اذیت کو ختم کردیتے ہیں جس میں انہوں نے مریض کو مبتلا کررکھا ہوتا ہے،چنانچہ جنوں ،شیطانوں اوران سے خدمت لینے والوں کے حوالہ سے یہ ایک مشہور ومعروف بات ہے۔مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان سب باتوں سے اجتناب کریں،ایک دوسرے کو بھی ان باتوں کے ترک کرنے کی وصیت کریں،تمام امور میں اللہ تعالی کی ذات گرامی پربھروسہ اوراعتماد کریں۔شرعی دم اورمباح دواوں کے ساتھ علاج میں کوئی حرج نہیں اوران اطباء سے علاج کرانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جو حسی اورمعقول اسباب کی روشنی میں مرض کی تشخیص اورپھر اس کاعلاج تجویز کرتے ہیں۔صیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا‘‘اللہ تعالی نے جو بیماری بھی نازل کی ہے ،اس کی شفا بھی نازل فرمائی ہے ،جس نے اسے جان لیا ،جان لیا اورجو نہ جان سکا وہ نہ جا ن سکا ۔’’اسی طرح آپﷺنے یہ بھی فرمایا ہےکہ‘‘ہربیماری کی دوا ہے،جب بیماری کا علاج صیح دواسے کیا جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے مریض صحت یاب ہوجاتا ہے ۔’’نیز آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ‘‘اے اللہ کے بندو!دوااستعمال کرو،لیکن حرام دوااستعمال نہ کرو۔’’اس مضمون کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں ۔ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانو ں کی اصلاح فرمائے ،ان کے دلوں اورجسموں کو ہر قسم کی بیماری سے شفاعطافرمائے ،انہیں ہدایت سے سرفرازفرمائے۔ہمیں اورسب مسلمانوں کو گمراہ کن فتنوں سے اپنی پناہ میں رکھے اورشیطان اوراس کے دوستوں کی اطاعت سے محفوظ رکھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب