تین رکعت بلاکراہت جائز ہیں کیونکہ صحابہ کی ایک جماعت نے نبی ﷺ سے تین رکعت وتر روایت کی ہے ۔مثلا حضرت علی 'ابن عباس ' عمر ان حصین ' عبدالرحمن بن ایزی ،حضرت عائشہ 'ابی بن کعب 'ابو ایوب 'انس بن مالک ' عبداللہ بن ابی اوفی عبداللہ بن عمرو' حضرت عبداللہ بن مسعود عبدالرحمن بنسیرہ ، نعمان بن بشیر'ابو ہریرہ عبداللہ بن سرجس یہ پندرہ صحابہ کرام ہیں جنھوں نے تین رکعت وتر کی روایت کی ہے اوران کی روایات صحاح ستہ موطا امام مالک دارمی قیام اللیل مروزی طبرانی ابو یعلی حاکم دارقطنی بیہقی ابن حبان صحیح ابن سکن میں مروی ہٰں گو ان میں سے بعض بہت کمزور بھی ہیں لیکن ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی ہے ان تمام روایت کو نقل کرنا موجب طوالت ہے پھر اتنی حدیثیں ہوتے تین رکعت کو مکروہ کیسے کہا جاسکتا ہے اورابن حبان دار قطنی محمد بن نصر مروزی حاکم نے جو تین رکعات کی ممانعت روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا" تین رکعت وتر نہ پڑھا کرو کہ مغرب کے ساتھ مشابہت کرو بلکہ پانچ یا سات رکعت وتر پڑھا کرو'حاکم دارقطنی حافظ زین الدین عراقی 'غافظ ابن حجر شیخ مجدد الدین فیروز آبادی ابنقیم نے کہا ہے ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ،یہ حدیث بالکل صحیح ہے ، ہم اس کی تطبیق یوں دیتے ہیں کہ تین رکعت وتر پڑھنے سے جو ممانعت کی گئی ہے وہ دو تشہد سے ہے جس سے دو وتر مغرب کینماز کے مشابہ ہوجا تے ہیں اور اگر ایک ہی تشہد سے تین رکعت وتر پڑھیں تو پھر مکروہ نہیں ہیں ۔چنانچہ ابن حجر عسقلانی نے یہی تطبیق دی ہے اور اس کی تائید حضرت عائشہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ تین وتر پڑھا کرتے تھے اور آخری رکعت میں تشہد کرتے ۔حضرت عائشہ کی اس حدیث کو زرقانی نے مواہب الدنیہ کی آٹھویں جلد میں اور محمد بن اسماعیل الامیر نے زادالمعاد کے حاشیے پر لکھا ہے اور سلف صالحین کی ایک جماعت یہی مسلک تھا۔ عطاٰ بھی تین رکعت وتر ایک تشہد سے پڑھتے ۔ابن حجر عسقلانی قسطلانی اور زرقانی نے اپنی کتابوں میں اس کی خوب تفصیل بیان کی ہے اور بعض صحابہ سے جو تین رکعت وتر کی نہی ثابت ہے' وہ بھی اسی پر محمول ہے کہ تین رکعت دو تشہد سے نہ پڑھے جائیں کہ اس سے مغرب کی نماز کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے اور ایک تشہد سے تین رکعت وتر کو وہ مکروہ نہیں سمجھتے مثلاً حضرت عائشہ اور ابن عباس سے تین رکعت وتر کی مخالفت بھی ثابت ہے اور تین رکعت ایک تشہد سے روایت بھی کرتے ہیں اور مغرب کے ساتھ مشابہت کی نفی اس صورت میں ہوجاتی ہے کہ تین رکعت وتر دوسلام سے پڑھے جائیں کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیردے اور پھر ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیرے ،اس صورت میں تین رکعت وتر تشہد سے ہوجائیں گے ۔چنانچہ بخاری میں عبداللہ بن عمر سے یہی طریقہ مروی ہے ،حاصل کلام یہ کہ بالکل مغرب کی طرح تین رکعت وتر دوتشہد اور ایک سلام سے منع ہیں اور ایک تشہد دو سلام سے ثابت ہیں ،باقی رہا امام شوکانی کا قول کہ" تین رکعت وتر جائز تو ہیں لیکن کراہت سے' اور بہتر یہ ہے کہ تین رکعت نہ پڑھے ۔"یہ قول صحٰیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ سے بکثرت تین رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے گو آپ سے پانچ سات نو گیارہ رکعت بھی ثابت ہیں اور پھر اس صورت میں بعض احادیث کا ترک بھی لازم آتا ہے اگر تطبیق کی کوئی صورت ممکن ہوتو تطبیق ہی دینا چاہیے نہ کہ بعض احادیث صحیحہ کو چھوڑ دیاجائے اور اگر یہ اعتراض کیاجائے کہ بعض صحابہ سے بالکل مغرب کی نماز کی طرح ایک سلام دو تشہد سے تین رکعت وتر ثابت ہیں تو اس کا جواب یہ ہے ان کو نہی مذکور نہیں پہنچی وہاس میں معذور ہیں اور جب نبی ﷺ سے ایک فعل یا قول ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف کسی صحابی تابعی کے قول وفعل کی کیاحیثیت باقی رہ جاتی ہے اور کسی ایک بھی حدیث سے ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی تین رکعت وتر ایک سلام دو تشہد سے پڑھے ہوں اور دارقطنی کی حدیث سے جو ثابت ہوتا ہے وہ حدیث ضعیف ہے اس کو مرفوعا صرف یحیی بن زکریا نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے، بیہقی نے کیا صحیح یہ ہے کہ حدیث ابن مسعود پر موقوف ہے ۔ سفیان ثوری عبداللہ بن نمبر نے اس کو موقوفاً روایت کیا ہے اور اسی طرح دار قطنی کی حضرت عائشہ سے حدیث ہے جس کو ابن جوزی نے موضوع بتایا ہے ۔ابن معین نے کہا اسمعیل بن مکی کوئی شے نہیں ہے نسائی نے اسے متروک بتایا ۔
اور فقہائے سبعہ سے جو تین رکعت وتر ایک سلام سے مروی ہیں وی ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک بھی دو تشہد ثابت نہیں ہیں اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ دو صورتوں میں تین رکعت وتر ثابت ہیں یا تو ایک تشہد اور ایک سلام سے پڑھے جائیں اور یا پھر دو سلام اور دو تشہد سے پڑھے جائیں اور فقہائے سبعہ نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے اور وہ بھی صحیح ہے۔
شیخ سلام اللہ حنفی نے محلی میں امام احمد کا مذہب نقل کیا ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کو ترجیح دیتے تھے اور تین رکعت ایک سلام اور ایک تشہد سے جائز اور ایک سلام دو تشہد سے مکروہ کہتے تھے باقی رہا طحاوی کا یہ کہنا کہ نبی ﷺ سے تو ایک رکعت سے لے کر گیارہ رکعت تک وتر ثابت ہیں لیکن بعد میں تین رکعت وتر پر اجماع ہوگیا۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ یہ اجماع کب ہوا تھا کہاں ہوا تھا؟ کن لوگوں نےکیا تھا؟ صحابہ اور تابعین سے بکثرت ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔ چنانچہ حافظ زین الدین راقی لکھتے ہیں "خلفائے اربعہ ۔ سعد بن ابی وقاص معاذ بن جبل 'ابی بن کعب ۔ابو موسی اشعری ۔ابو الدرداء حذیفہ ،ابن عمر ۔ابن عباس معاویہ تمیم داری ،ابو ایوب انصاری ۔ابو ہریرہ فضالۃ بنعبید، عبداللہ بن زبیر ۔معاذ بن حرث القاری سب ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے اور تابعین میں سے سالم بن عبداللہ بن عمراور عبداللہ بن عباس بن ابی ربیعہ ۔ حسن بصری ،محمد بن سیرین عطاء بن ابی رباح ، عقبہ بن عبدالغافر سعید بن جبیر۔نافع بن جبیر ۔جابر بن زید ،زہری ربیعۃ بن عبدالرحمن وغیرہ ایک رکعت وتر کے قائل ہیں اور ائمہ میں سے امام شافعی ۔اوزاعی ۔احمد۔اسحق۔ابوثور،داؤد ابن حزم سب ایک رکعت کے قائل ہیں ۔امام شوکانی نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے وہ ضعیفہے ۔کیونکہ عمر بن عبید،حسن بصری پر جھوٹ بولا کرتے تھا۔
زیلعی نے کہا کہ عمر بن عبید متکلم فیہ ہے ۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا ہے عمر بن عبید معتزلی اور قدری تھا۔ابن معین نے کہا اس کی حدیث نہیں لکھنی چاہیے ۔نسائی نے کہا متروک الحدیث ہے ۔
ابن الحبان نے کہا یہ پہلے بڑا پرہیز گار تھا پھر یہ معتزلی ہوگیا اور حسن بصری کی مجلس سے نکل گیا،صحابہ کو گالیاں دینے لگا اور حدیث میں جھوٹ بولنے لگا تو معلوم ہوا کہ حسن بصری سے جو تین رکعت وتر پر عمر بن عبید نے اجماع نقل کیا ہے وہ ساقط الاعتبار ہے اور حسن بصری سے اجماع کیسے نقل کیا جاسکتا ہے جب کہ محمد بن سیرین ایک سچے تابعی سے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ صحابہ پانچ رکعت وتر بھی پڑھتے اور تین رکعت بھی اور ہر ایک کو بہتر سمجھتے تھے
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب