اس صورت میں عورت کو اختیار ہے ' درمختار میں ہے کہ اگرمرد نے بتایا کہ وہ آزاد ہے یاہنی ہے حق مہر دے سکتا ہے یا خرچ پورا کرسکتا ہے اور اس کے خلاف ثابت ہوا 'مثلا وہ حرام زادہ نکلا تو عورت کو اختیار ہوگا ۔(محمد محفوظ اللہ پانی پتی )
یہ جواب صحیح ہے ۔کیونکہ ناکح نے اپنے آپ کو سنی قراردیا اور اس کا جملہ نکاح کے لیے شرط تھا، جب شرط مفقود ہوگئی تو مشروط بھی ختم ہوگیا (مہر) محمد عبدالرب ' سید محمد نذیر حسین ، محمد قطب الدین خان ،محمد لطف اللہ)
پہلا جواب سوال کے مطابق نہیں ہے۔ کیونکہ سوال یہ نہیں کہ سنی کا نکاح شیعہ سے جائز ہے یا نہیں بلکہ سوال اختیار کا ہے ۔اور مجیب نے اگرچہ درمختار کی عبارت کے ضمن میں اختیار کا لفظ لکھا ہے لیکن در مختار کی یہ عبارت یہاں صحیح نہیں بیٹھتی کہ عورت مقدمہ کرکے نکاح فسخ کراسکتی ہے۔ اور دوسرا جواب غلط ہے، اس لیے کہ شرط مشروط معاملات میں ہوتے ہیں نہ کہ نکاح وغیرہ میں۔
دمیاطی نے لکھا ہے ۔اگر نکاح میں ایسی شرط لگائے کہ جو نکاح کے مخالف ہوتو نکاح صحیح ہوجائے گا،اور شرط باطل ہوجائے گی 'اس لیے کہ نکاح شروط فاسدہ سے باطل نہیں ہوتا (محمد عبدالحی )
اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ جواب اول ودوم پر معترض کا اعتراض غفلت کی بناء پر ہے یا شاید یہ مقصد ہو کہ میں سید نذیر حسین پر اعتراض کروں ۔اور اس سے فخر مقصود ہو ورنہ جواب اول عین مطابق سوال ہے اور جواب ثانی بالکل درست ہے۔ اور تیسرے جواب کی دوسری وجہ کہ جس کو معترض نے صحیح کہا ہے ۔وہ اسوقت تک صحیح نہیں ہوسکتی جب تک کہ جواب اول ودوم کو صحیح نہ تسلیم کرلیاجائے ۔ ورنہ جواب سوال مذکور میں یہ وجہ محض ناکافی اور بے معنی ہوگی ،سوال یہ ہے کہ ایک آدمی نے فریب سے اپنے آپ کو سنی المذہب ظاہر کای اور سنی عورت سے نکاح کرلیا ۔ عورت جب اس کے شیعہ ہونے پر مطلع ہوئی تو اس کو نفرت ہوگئی کیا اس کو فسخ نکاح کا اختیار ہے یا نہیں ؟ پس مجیب اول نے جواب دیا کہ عورت کو اختیارہے۔اس جواب کو معترض سوال کے مطابق نہیں سمجھتا ۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ سائل پوچھتا ہے اسکو اختیار ہے یا نہیں ۔اور مجیب کہتا ہے اس کو اختیار ہے۔اس سے زیادہ واضح اور مطابق سوال کیا جواب ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ معترض نے خود بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ درمختار کی عبارت اس کے مطابق نہیں ہےاس سے معلوم ہوا کہ سوال وجواب کی عدم مطابقت کا اعتراض بالکل بے جا ہے ۔اور یہ بیان کہ درمختار کی عبارت مطابق سوال واقع نہیں ہے۔یہ پہلے اعتراض سے بھی زیادہ عجیب ہے۔اور حیرت ہوتی ہے کہ معترض ایسے اعتراض کیسے کرلیتا ہے ۔ کیونکہ درمختار کی عبارت یہ ہے کہ اگرعورت نے اس شرط پر نکاح کیا کہ وہ آزاد ہے یا سنی ہے یا مہر اور نفقہ دینے پر قادر ہے۔ پھر اس کے برخلاف ظاہر ہوا کہ فلاں بن فلاں ہے یاحرام زادہ تو اس کو اختیار ہے۔یہ صریح دلیل ہے مجیب کے سوال پر کہ عورت فسخ نکاح کا اختیار رکھتی ہے ۔
اور معترض نے جو فسخ نکاح کے لیے صورت مرافعہ حاکم کی بیان کی ہے دو وجہ سے مخدوش ہے ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ "اس کو اختیار ہے" کے الفاظ عام ہیں 'خواہ حاکم سے فسخ کرائے یا خود فسخ کرے ۔اس کو پہلے معنی کے ساتھ خاص کرنا تخصیص بلامخص ہے اور ترجیح بلامرجح ہے ۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ علامہ ابن عابد نے ردالمختار میں لکھا ہے کہ اگر مرد اپنا نسب غلط بیان کرے اور بعد میں معلوم ہوکہ وہ کفو نہیں ہے تو ہر ایک کو فسخ کااختیار ہے ۔اور اگر کفو ہو تو صرف عورت کوفسخ نکاح اختیار ہے دوسروں کو نہیں ۔اور اگر اس کےیہاں سے وہ اچھا ثابت ہو توکسی کو بھی اختیار نہیں ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ اس جگہ اختیار سے مراد فسخ ہے جیسا کہ مجیب نے استدلال کیا ہے ۔
اور اگر بالفرض معترض کے اعتراض کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ خیار کا معنی وہی ہے جو اس نے بیان کیا ہے تو پھر بھی مجیب کو حق ہے کہ اس سے استدلال کرے کیونکہ سوال یہ ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ نہیں ' تو مجیب نے اس ک اجواب دیا ہے کہ عورت کو اختیار ہے خواہ وہ خود فسخ کرے یا حاکم سے کرائے ,
اور جواب ثانی جو کہ جواب اوکل کے لیے بطور دلیل ہے معترض نے اس کو درمیاطی کے قول کی بنا پر غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جملہ "اذافات المشروط " ( جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی فوت ہوجاتا ہے )صحیح نہیں ' کیونکہ شرط معاملات میں ہوتی ہے نہ کہ نکاح میں ۔حالانکہ یہ کلیہ تمام دینی ودنیاوی میں نافذ ہے ، بیع ہو یاآزادی یا نکاح ،حتی کہ رسول اللہ ﷺ کی بیعت میں بھی جریر بن عبداللہ سے آپ نے شرط کی تھی کہ 'ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا" اس میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ شرط صحیح ہو، غلط نہ ہو،اگر شرط صحیح ہوگی تو وہ نافذ ہو گی ورنہ نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ مؤکد شرط وہ ہے جس سے تم نے شرم گاہ کو حلال کیا۔ علامہ عینی نے بخاری کی شرح میں اسی حدیث کے تحت لکھاہے کہ نکاح کے لیے شرائط کئی قسم کے ہیں ۔بعض وہ ہیں جن کا پورا کرنا واجب ہے 'مثلا حسن معاشرہ ۔بعض وہ ہیں جن کو پورا نہ کرنا چاہیے ۔مثلا پہلی کی بیوی کی طلاق۔بعض میں اختلاف ہے، مثلاً اس عورت پر کسی اور عورت سے نکاح نہ کیاجائے۔
علامہ ابن الہام نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اگر عورت نے غیر کفو میں نکاح کیا تو اس کے اولیاء کو اگرچہ وہ غیر محرم ہوں فسخ نکاح کا اختیار ہے اگر ان سے رضا کا ظہور نہ ہو۔اگر مرد نے اپنا حال نہیں بتایا۔نکاح کے بعد معلوم ہوا کہ وہ غلام ہے ہا ماذون فی النکاح تھا ،تو اولیاء کو فسخ کا اختیار نہیں ہے ۔اور اگر وہ غلام ہوتے ہوئے اپنے آپ کو آزاد بیان کرے تو عاقد کو فسخ نکاح کا اختیار ہے ۔حصکفی نے بھی درمختار میں اسی طرح لکھا ہے ۔
شعیب علیہ السلام نے اپنی لڑکی کے نکاح میں موسی علیہ السلام سے آٹھ یادس سال رہنے کی شرط کی تھی 'اور اگر شرط سحیح نہ ہو تو اس کا پوراکرنا جائز نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قافلے والوں کو آگے جاکر نہ ملاجائے اور کوئی مہاجر اعرابی کا سامان نہ بیچے اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کی شرط نہ کرے کوئی آدمی اپنے بھائی کے نرخ پر نہ کرے ، کوئی دھوکہ نہ کرے ۔ دودھ روکے جانور کو فروخت نہ کرے ۔ایسی شرطوں کا پورا کرنا جو درست نہ ہوں جائز نہیں ہے چنانچہ بریرہ کی ولاء رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کو دلادی تھی 'حالانکہ انھوں نے بریرہ سے شرط بھی کرلی تھی ،
چونکہ وہ شرعا درست نہیں تھی آپ نے اس کو نافذ نہ کیا۔
حاصل کلام یہ کہ قاعدہ " جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی فوت ہوجاتا ہے ،" درست اور بجا ہے ، بشرطیکہ شرط صحیح اور نکاح کے تقاضے کے مطابق ہو،اور صورت مسئولہ میں اسی طرح ہے ،کاش کہ معترض اس پر نظر انصاف سے توجہ کرتا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب