سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس باب میں بڑا اختلاف ہے : ایک گروہ اسے مطلقا ناجائز قرار دیتا ہے خواہ حلال جانوروں کا خصی کرنا ہو یاحرام جانوروں کا ' جبکہ ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ حلال جانوروں کا خصی کرناجائز ہے ۔
جبکہ ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ حلال جانوروں کا خصی کرنا جائز ہے۔
فریق اول کے دلائل حسب ذیل ہیں ۔
(1) آیت قرآنی ﴿وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ﴾
اور انھیں میں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے ۔امام محی السنہ بغوی اپنی تفسیر "معالم التنزیل " میں فرماتے ہیں کہ عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب خصی کرنا ، گودنا لگانا اور کان کاٹنا ہے ۔اور بعضوں نے خصی کرنے حرام قراردیا ہے ۔
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس آیت سے جانوروں کاخصی کرنا مراد ہے ۔ ابن عمر 'انس'سعید بن المسیب ' عکرمہ 'ابو عیاض ، قتادۃ،ابوصالح ۔الثوری کی بھی یہی رائے ہے۔ اور ایک حدیچ میں بھی اس کی ممانعت آئی ہے ۔
(2) دوسری دلیل حضرت ابن عباس کی حدیث ہے جسے امام بزار نے اپنی سند سے روایت کی ہے اور بقول شوکانی صحیح ہے کہ نبی ﷺ نے دم گونٹنے اور جانوروں کے خصی کرنے کی شدت سے ممانعت کی ہے۔
علامہ شوکانی نے اپنی کتاب" نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار "میں لکھا ہے کہ اس سے جانوروں کے خصی کرنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے،
(3) تیسری دلیل ابن عمر کی حدیث سے ہے جسے امام طحاوی نے "شرح معانی الاثار ' میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں ،گایوں ، بھیڑ بکریوں اور گھوڑوں کے خصی کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ افزائش نسل کا دارومدار اسی پر ہے ۔ کوئی بھی مادہ نر کے بغیر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتی ۔
(4) چوتھی دلیل امام طحاوی ہی کی روایت ہے جس میں صرف ابن عمر کا مذکورہ بالاقول نقل کیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺکی طرف اس کا انتساب نہیں ۔امام طحاوی اس کے بعد فرماتے ہیں ۔ایک گروہ اس کا قائل ہے کہ نر جانوروں کا خصی کرنا ممنوع ہے، انھوں نے اسی حدیث اور فرمان الہی " فليغيرن خلق الله" سے استدلال کیا ہے ۔ کہتے ہیں اس سے خصی کرنا ہی مراد ہے۔
(5) پانچویں دلیل : ابن ابی شیبہ نے اپنی "مصنف " میں ابن عباس کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کا خصی کرنا مثلہ کے حکم میں ہے اور دلیل میں آیت ولامرنهم فليغيرهن خلق الله پیش کرتے ہیں۔
عبدالرزاق نے اپنی "مصنف " کے کتاب الحج میں مجاہد وشہر بن حوشب سے بھی اسی طرح کا قول نقل کیا ہے ۔ جیسا کہ امام زیلعی کی " نصب الراية" میں مذکور ہے ۔ ہدایہ میں حضرت عائشہ رضٰی اللہ عنہا سے بھی منقول یہی منقول ہے کہ خصی کرنا مثلہ کرنے کے مترادف ہے ۔
ان دلیلوں کے جواب میں دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ " فليغيرن خلق الله " كی تفسیر میں جانوروں کے خصی کرنے کی بات کسی صحیح یا ضعیف روایت سے مرفوعا ثابت نہیں۔ اور جہاں تک سلف صالحین کے اقوال کا تعلق ہے تو اس میں ایک جماعت نے اس کی تفسیر میں جانوروں کاخصی کرنا بتایا ہے جبکہ مجاہد ' عکرمہ ' ابراہیم نخعی 'حسن بصری 'قتادۃ ، حکم ' سدی 'ضحاک اور عطا ء خراسانی بلکہ ایک روایت کے مطابق خود عبداللہ بن عباس اور سعید بن المسیب نے بھی خلق اللہ سے "اللہ کا دین " مراد لیا ہے۔علامہ بغوی "تفسیر معالم " میں لکھتے ہیں کہ ابن عباس ' حسن بصری 'مجاہد 'قتادۃ ' سعید بن المسیب اورع ضحاک نے اس کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے ۔اور نظیر میں اللہ تعالیٰ کا قول " لاتبديل لخلق الله " پیش کیا ہے ، اور خلق اللہ کامطلب دین اللہ بتایا ہے یعنی حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرانا۔
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ ایک روایت کے مطاق ابن عباس اور مجاہد عکرمہ "ابراہیم نخعی 'حسن بصری ' قتادۃ 'الحکم 'السدی 'الضحاک اور عطا خراسانی نے آیت "﴿وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ۚ﴾ کی تفسیر دین اللہ سے کی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ﴾یعنی اللہ کی فطرت کو نہ بدلو اور لوگوں کو اپنی فطرت پر چھوڑدو۔
اب جبکہ سلف صالحین کے اقوال دونوں ہی طرح ہی ہیں لہذا آیت کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی ۔ ہاں اگر سنت نبوی سے اس کا ثبوت ہوتا تو پھر انکار کی گنجائش نہ تھی ۔لیکن چونکہ اس کی تفسیر میں کوئی مرفوع حدیث موجود نہیں لہذا آیت کریمہ " َا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـه" اسی معنی کی تائید کرتی ہے کہ آیت کریمہ " فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ" میں لفظ خلق اللہ "دیں اللہ " ہی مراد ہے ۔
رہی طحاوی کی پہلی روایت تو وہ ضعیف ہے لہذا قابل استدلال نہیں ۔اس کی سند میں ایک راوی عبداللہ بن نافع آیا ہے جو محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ ابن المدینی نے اسے منکر بتایا ہے ،امام بخاری سے بھی اسے منکرالحدیث کہا ہے یحیی نے ضعیف قراردیا ہے اور نسائی نے متروک ۔جیسا کہ ذہبی کی" میزان الاعتدال فی نقد الرجال " میں مرقوم ہے ۔
طحاوی کی دوسری روایت موقوف ہے مرفوع نہیں ۔ابن ابی شیبہ کی حدیث کی سند ایک راوی مجہول ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ وہ بھی ابن عباس پر موقوف ہے مرفوع نہیں اب رہ گئی عبدالرزاق کی روایت سو یہ مجاہد اور شہر بن حوشب کا قول ہے شارع کا کلام نہیں ۔ ہدایہ میں مذکور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی ثابت نہیں۔امام زیلعی تخریج ہدایہ میں اسے " غریب " قرار دیتے ہیں ،
مسند بزار کی روایت جو ابن عباس سے منقول ہے اور جسے امام شوکانی نے صحیح کہا ہے کتاب نہ ملنے کی وجہ سے اس کی مراجعت اور اس کی سند کے تمام رواۃ کے احوال کی تحقیق نہ ہوسکی ۔ پھر بھی امام شوکانی کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے ہم اس کی صحت تسلیم کرتے ہیں ۔اس حدیث سے تمام جانوروں کے خصی کرنے لہ ممانعت ثابت ہوتی خواہ ماکول اللحم ہوں یا غیر ماکول اللحم ۔ نیز ابو ہریرہ ' عائشہ 'ابورافع ؛'جابر بن عبداللہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم کی مندرجہ ذیل احادیث سے شارع کا اس امر میں سکوت ثابت ہوتا ہے ۔(ان تمام احادیث کی تحقیق مؤلف نے اپنی کتاب " غنية الالمعي " کے تیسرے مسئلے میں کی ہے ۔
ابو ہریرۃ ' عائشہ اور ابو رافع کی احادیث کا مدار عبداللہ بن محمد بن عقیل پر ہے اور ان سے سفیان ثوری 'حماد بن سلمہ اور شریک جیسے ثقہ راویان حدیث نے روایت کی ہے ۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے ' فربہ ' سینگوں والے ۔سفید ، خصی کردہ دنبے خرید تے ۔مسند امام احمد میں بھی حضرت عائشہ سے مختلف سندوں سے اسی مضمون کی روایت منقول ہے ۔امام حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے اپنی کتاب میں ابوہریرۃ اور عائشہ سےا سی طرح کی روایت نقل کی ہے
ابورافع ی روایت مسند احمد ' مسند اسحاق بن راہویہ اور معجم طبرانی میں موجود ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےدو سفید خصی کردہ دنبوں کی قربانی دی
جابر بن عبداللہ کی حدیث مسند ابن ابی شیبہ میں منقول ہے ، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو سفید ' بڑے ' سینگوں والے خصی کردہ دنبے لائے اور ان میں سے ایک کو ذبح فرمایا اور کہا: بسم الله الله اكبر ’اللهم عن محمد وال محمد" پھر اسی طرح دوسرے کو ذبح فرمایا۔اسحاق بن راہویہ اور ابو یعلی الموصلی نے اپنے مسندوں میں بھی اسی طرح یہ روایت بیان کی ہے ۔ مندرجہ بالاتفصیلات کے مطابق عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت کردہ یہ حدیث پانچ طریقوں سے بیان ہوئی ہے ۔
کہا جاسکتا ہے کہ امام ذہبی نے میزان الاعتدال حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب اور صفی الدین الخزرجی نے "خلاصہ " میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل 'ابو محمد المدنی کو امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔اور ابو حاتم نے لین کہا ہے۔ابن معین سے بھی اس کی تضعیف منقول ہے 'ابنج خزیمہ کہتے ہیں :وہ قابل استدلال نہیں ابن حبان کہتے ہیں اس کاحافظہ کمزور ہے ۔امام المدینی سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے اسے ضعف قرار دیا ۔
جواباً عرض ہے کہ اگرچہ مذکورہ بالا محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے ۔ لیکن ان کے مقابلے میں بہت سے محدثین مثلاً امام احمد بن حنبل ۔اسحاق بن راہویہ 'حمیدی ،امام بخاری ' ترمذی اور ابن عدی جیسے ائمہ نے اس کی توثیق بھی کی ہے ۔ جیسا کہ تہذیب ' میزان اور خلاصہ میں مذکور ہے،
اگر کیاجائے کہ ابن ابی حاتم نے کتاب العلل میں لکھا ہے کہ میں نے اپنے والد ابو حاتم اور ابوزرعہ سے جابر کی اس حدیث کے متعلق پوچھا جسے مبارک بن فضالہ نے عبداللہ بن عقیل کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوخصی کردہ سفید دنبوں کی قربانی کی ۔حماد بن سلمہ نے بھی ابن عقیل سے یہ حدیث روایت کی ہے اور سفیان ثوری نے بھی ابن عقیل کے واسطے سے یہی حدیث حضرت عائشہ سے نقل کی ہے ۔۔ سعید بن سلمہ نے بھی ابن عقیل کے واسطے سے ابو رافع کی مذکورہ روایت نقل کی ہے ۔ابوزرعہ نے کہا کہ یہ ساری روایتیں ابن عقیل سے مروی ہیں ۔ وہ اپنی حدیث اچھی طرح یاد نہیں رکھتا ۔اگرچہ اس سے روایت کرنے والے سب ثقہ ہیں ۔
عرض ہے کہ امام بیہقی نے کتاب المعرفۃ میں لکھا ہے کہ اسے عبداللہ بن محمد عقیل نے روایت کیا ہے ۔اور اس سے روایت کرنے والوں کے درمیان آگے کی سند بیان کرنے میں اختلاف ہے، کسی نے حضرت ابوہریرۃ اور عائشہ دونوں کا ذکر کیا ہے ،اور کسی نے صرف ابو ہریرہ اور عائشہ دونوں کا ذکر کیا ہے ۔اور کسی نے صرف ابو ہریرہ کا۔ بعض مسندوں میں ابن عقیل کا استاد ابو سلمہ ہے ،اور بعض میں علی بن حسین ' اور بعض میں عبدالرحمن بن جابر ۔امام بخاری فرماتے ہیں کہ شاید اس نے ان تینوں سے سنا ہے ۔ علاوہ ازیں عبداللہ بن محمد عقیل کی روایت کے اور بھی شواہد ہیں جواس روایت کو تقویت پہنچاتے ہیں : ابن اسحاق' یزید بن ابی عیاش المعافری کے واسطے سے جابر بن عبداللہ کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے دن نبی کریم ﷺ نے دو سفید سینگوں والے خصی کردہ دنبے ذبح کیے ۔ یہ حدیث ابو داؤد ۔ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کی ہے ۔
امام احمد اور طبرانی نے ابی الدرداء کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوخصی کردہ دنبوں کی قربانی کی ۔
طبرانی نے "المعجم الاوسط " میں ابن شیر زہری کے واسطے ابو ہریرہ کی مذکورہ روایت بیان کی ہے ۔
ابو نعیم نے "حلیۃ الاولیاء " میں عبداللہ بن المبارک اور یحیی بن عبیداللہ کے واسطے سے ابوہریرۃ کی یہی روایت نقل کی ہے ۔ وریہ بھی لکھا ہے کہ یہ حدیث مختلف سندوں سے مروی اور مشہور ہے ،البتہ یحیی کی سند سے یہ غریب ہے،
حافظ اابن حجر عسقلانی نے " تلخیص الجبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر " میں لکھا ہے کہ وہ حدیث جس میں ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے دو خصی شدہ دنبوں کی قربانی دی اسے امام احمد ،ابن ماجہ ' بیہقی اور حاکم نے حضرت عائشہ یا ابو ہریرہ سے بواسطہ ابن عقیل نقل کیا ہے۔ اورابن عقیل سے اس کی روایت کرنے والے سفیان ثوری ہیں۔
زہیر بن محمد نے یہی حدیث ابن عقیل سے نقل کی ہے 'جس میں صحابی حضرت عائشہ کے بجائے ابو رافع ہیں ۔ یہ روایت مستدرک حاکم میں موجود ہے۔ حماد بن سلمہ نے یہی حدیث ابن عقیل سے روایت کی ہے جس میں صحابی جابر بن عبداللہ ہیں ۔ اس روایت کی تائید ابو عیاش کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ جابر سے یہی حدیث نقل کرتے ہیں ۔ یہ روایت ابو داؤد اور بیہقی میں موجود ہے۔احمد اور طبرانی نے یہی حدیث ابو درداء سے روایت کی ہے ۔
ان حدیثوں میں دنبوں کو "موجوئین " کہا گیا ہے "مؤجین " کے معنی سے متعلق امام زیلعی "نصب الرایۃ" میں لکھتے ہیں کہ المنذری نے " مؤجین" کے معنی "منزوعی الاثنین " لکھا ہے' یعنی جن کے خصے نکال دیے گئے ہوں۔ابو موسی الاصہبانی نے بھی یہی کہا ہے ،
اور جوہری اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ وجاہ کے معنی خصیے کے نسوں کو نکال دینے کے ہیں ۔ابو عبید ہروی کہتے ہیں کہ دونوں خصیے اپنی جگہ برقرار ہوں
ابن الاثیر اپنی کتاب "النہایۃ " میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگ "موحیین " (بغیر ہمزہ کے) روایت کرتے ہیں اور ہمیں بھی اسی طرح روایت پہنچی ہے: اس کے معنی بھی وہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔
حافظ ابن حجر نے "تلخیص الجبیر " میں لکھاہے کہ " الموجوئین " کا مطلب ہے منزوعی الاثنین (یعنی خصیے نکالے ہوئے)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خصی شدہ نرد نبوں کی قربانی کی ہے ۔بلکہ بعض روایتوں مٰیں آیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خصی شدہ نر دنبوں کی قربانی کی ہے ۔ بلکہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ قربانی کا ارادہ فرماتے تو خصی شدہ نر دنبے خریدا کرتے تھے ۔اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ خصی شدہ جانور کا گوشت پسند فرماتے تھے ۔ اور چونکہ اس طرح کا گوشت اس وقت تک تیار نہیں ہوسکتا جب تک کہ جانوروں کی خصی نہ کی جائے ۔اس لئے اس حدیث سے خصی کرنے کے جواز کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر خصی کرنا فی نفسہ ممنوع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ خصی شدہ جانوروں کا گوشت کیسے پسند فرماتے ، اس صور ت میں تو وہ مزید ناپسندیدگی کااظہار فرماتے۔ جیسا کہ بعض لوگوں سے اس کی کراہت منقول ہے ۔ خصوصاً حضرت عبدالعزیز جنھوں نے خصی شدہ جانور نہ خریدا ۔اور فرمایا کہ کہ میں خصی کرنے کے عمل کی تائید نہیں کرتا۔"جیسا کہ شرح معانی الآثار " میں منقول ہے ۔ شرح معانی الآثار میں دوسری جگہ لکھا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس خصی کردہ غلام فروخت ے لیے لایا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں خصی کرنے کی تائید وحمایت نہیں کرتا ۔ گویا انھوں نے اس کی خریداری کو اس عمل کی تائید سمجھا ۔ پس اگر جانور وں کا خصی کرنا بھی مکروہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ خصی شدہ جانور کی قربانی ہرگز نہ کرتے ۔
جانوروں کے خصی کرنے کو انسانوں کے خصی کرنے کی مثل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ وجہ یہ ہے کہ جانوروں کی خصی صرف گوشت کو بہتر بنانے کے لیے کی جاتی ہے اس لیے مباح ہے 'اور انسانوں کا خصی کرنا گناہ ہے ،اس لیے ہرگز جائزنہیں
جانورو کی خصی اگر ناجائز ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس پر سکوت نہ فرماتے بلکہ مرتبہ رسالت کے پیش نظر ممنوع چیز کے ارتکاب پر ناراضگی کا اظہار کرتے ۔اور عادت شریفہ کے مطابق فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس اس طرح کے کام کرتے ہیں ؟ اس فعل پر حضور ﷺ کی خاموشی اس کے جواز کی دلیل ہے۔ یہ مسئلہ اصول حدیث کی کتابوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہےت۔
علامہ سخاوی " فتح المغیث " میں تحریر فرماتے ہیں کہ لغت میں لفظ "حدیث " قدیم کا ضد ہے مگر محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ ﷺ کا قول ' عمل ' کسی بات پر خاموشی 'اور آپ کے اوصاف واحوال کا بیان (حتی کہ آپ ﷺ کا سونا ، جاگنا اور دیگر حرکات وسکنات بھی ۔حدیث ہے ۔
قاضی زکریا انصاری " فتح الباقی شرح الفتیہ العراقی " میں لکھتے ہیں کہ "حدیث" کا مطلب رسول اللہ ﷺ کا قول ' عمل ' لسی عمل پر خاموشی اور آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کا بیان ہے،
شیخ علی بن صلاح الدین " منہل الینابیع فی شرح المصابیح " میں لکھتے ہیں کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز میں فرض کے بعد سنتیں ادا کرنے پر سکوت فرمایا 'اس کا مطلب یہ کہ جس نے پہلے سنت ادا نہیں کی وہ فرض کے بعد ادا کرسکتا ہے ۔اس کی دلیل آپ ﷺ کی خاموشی ہے ،
امام ذینی شرح المصابیح " میں تحریر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی خاموشی اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے پہلے سنتیں ادا نہ کی ہوں وہ فجر کی فرض نمازوں کے بعد ادا کرلے ۔
مذکورہ روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خصی کرنا درست ہے ' جب کہ مسند بزار کی حدیث (جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ) اس کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے ۔ علماء نے ان حدیثوں کے درمیان تطبیق اس طرح دی ہے کہ ان جانوروں کا خصی کرنا جائز ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ۔ مگر جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کاخصی کرنا درست نہیں۔
اسی بناء پر علمائے متقدمین میں طاؤس اور عطاء وغیرہ اور اکثر علمائے متاخرین ان جانوروں کا آختہ (خصی) کرنا جائز قرار دیتے ہیں جس کا گوشت کھایاجاتا ہے ۔
شرح معانی الآثار میں مذکور ہے کہ طاؤس نے اپنے اونٹ کا آختہ کیا تھا۔
اسی کتاب میں عطاء کا قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر نر جانور دانت کاٹنے لگے تو اس کے خصی کرنے میں کوئئی حرج نہیں ۔
تفسیر المعانی "معالم التنزیل " میں ہے کہ بعض علماء نے جانوروں کا خصی کرنا جائز قرار دیا ہے اس لیے کہ اس کی غرض وغایت معلوم ہے،
امام نووی " شرح صحیح مسلم " میں فرماتے ہیں کہ آدمی کا خصی کرنا حرام ہے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔امام بغوی فرماتے ہیں کہ جن جانوروں کا گوشت حلال نہیں ان کے بارے میں بھی یہی حکم ہے ۔ البتی خلال جانوروں کا خصی کرنا چھوٹی عمر میں جائز ہے۔ بڑے ہوجانے کے بعد جائز نہیں۔والله اعلم
حافظ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح " فتح الباری " میں رقم طراز ہیں کہ قرطبی فرماتے ہیں کہ آدمی کی طرح جانوروں کا خصی کرنا بھی درست نہیں ، سوائے اس کے کہ اس سے گوشت کو بہتر بنانا یا اس کے ضرر سے محفوظ رہنا مقصود ہو۔ علامہ نووی کہتے ہیں کہ جن جانوروں کا گوشت حرام ہے ان کا خصی کرنا مطلقا ممنوع ہے۔البتہ حلال جانوروں کا چھوٹی عمر میں خصی کرنا جائز ہے بڑی عمر میں نہیں ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ میراخیال ہے کہ نووی کے اس بیان سے قرطبی کے مذکورہ بالاقول کی تردید مقصود نہیں ہے جس میں انھوں نے دفع ضرر کے لیے بڑے جانوروں کے خصی کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے ۔
طحاوی شرح المعانی الآثار میں کہتے ہیں کہ دوسرے علماء نےاس مسئلے میں خصی جائز نہ کرنے والوں سے اختلاف کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ضرر سے بچنے کے لیے یا گوشت کو بہتر بنانے کی غرض سے خصی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ مزید کہتے ہیں کہ جس حدیث سے مخالفین نے استدلال کیا ہے وہ ابن عمر پر موقوف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے مروی نہیں ۔
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی چیز اسی وقت پسندیدہ ہوسکتی ہے جب کہ وہ شرعی طور پر ممنوع طریقے سے حاصل نہ ہو ، ورنہ اس کی پسندیدگی ممنوع طریقے کی تائید اور اس عمل کے مرتکب کی اعانت تصور کی جائے گی ۔اور کسی شخص کا خلاف شرع بات میں مددگار ہپوناجائز نہیں ۔ مثلاً خچر پر سوار ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اگر ہم اسے ناجائز قراردیں تو پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی کہ رسول اللہ ﷺ اس پر سوار ہوئے ۔اور اگر جائز کہاجائے تو خچر کی سوار ی کی رغبت اور اس پر سوار ہونے سے گھوڑے اور گدھے کے ملاپ کرانے کی اعانت وامداد ہوتی ہے ،اور چونکہ یہ عمل جائز نہیں لہذا اس خچر پر سواری بھی جائز نہ ہونے چاہیے
اسی طرح اس مسئلے میں کہ شراب سے تیار کیا ہوا سرکہ جائز ہے کہ نہیں؟ اگر اسے جائز مانا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ دوسرے ناجائز عمل میں معین اور مددگار ہے۔ اس لیے کہ شراب سے سرکہ بنانا صحیح حدیثوں کی رو سے ممنوع ہے ۔لہذا اس کا استعمال بھی اسی کے حکم میں داخل ہوگا اور اگر ناجائز مانا جائے تو کہاجاسکتا ہے کہ صحیح حدیث کی رو سے سرکہ بہترین سالن ہے اس عام جملہ میں سرکہ کی تمام اقسام داخل ہیں'اور شراب سےحاصل شدہ سرکہ گواس سے الگ نہیں کیا جاسکتا ،۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شراب بنانا تو ناجائز ہے مگر اس سرکی کا استعمال جائز ہے ' جیسا کہ بعض ائمہ کا مذہب ہے ۔
اسی طرح خصی کردی دنبوں کی قربانی جائز ہے 'اور اس کا گوشت بھی مرغوب ' مگر خصی کرنا بذات خود ممنوع ہی رہے گا۔
مذکورہ بالا اشکال کا جواب یہ ہے کہ حقیقت تو یہی ہے جو بیان کی گئی یعنی جو چیز شرعا ممنوع طریقے سے حاصل ہو اس کی رغبت جائز نہیں۔اسے جائز کرنے سے خرابی لازم آئے گی ۔
ایک چور جو مال چوری کے ذریعے حاصل کرتا ہے ۔وہ جس طرح اس کے لیے حرام ہے اسی طرح اس شخص کے لیے بھی حرام ہے جس کے علم میں یہ بات آجائے کہ اس کا مال چوری کا ہے اس کے لیے چوری کا مال استعمال جائز نہیں ۔
مگر خچر پر سواری کرناجائز ودرست ہے ۔اللہ تعالی سورہ نحل میں ارشاد فرماتا ہے کہ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (گھوڑے ،خچر ، گدھے سواری کے لیے اور تمہاری زینت کے لیے ہیں) یعنی گھوڑوں ' خچروں اور گدھوں کی پیدائش کا مقصد ہی زینت اور سواری ہے ۔اس سے متعلق کیہ حدیثیں بھی مشہور ہیں ۔
براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ سفید خچر پر سوار ہیں اور ابو سفیان بن حارث اس کی لگام تھامے ہوئے ہیں ۔آپ ﷺ فرمارہے ہیں کہ : میں نبی ہوں 'یہ جھوٹی بات نہیں۔اور میں عبدالمطلب کی اولاد سے ہوں ۔اس روایت کو بخاری وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔
عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ میں اور ابو سفیان بن حارث حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے ۔کسی وقت بھی ان سوے الگ نہیں ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ سفید خچر پر سوار تھے ۔
قاسم بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یوم حنین کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اور رسول اللہﷺ خچر پر سوار تھے۔
سلیمان بن عمر وبن الاحوص اپنی والدہ سے روایت کرتے ہٰں کہ انھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو قربانی کے دن جمرۃ العقبۃ کےپاس دیکھا آپ ﷺ خچر پر سوار تھے ،
عبداللہ بن بشیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ان کے پاس خچر پر سوار ہوکر آئے ،
انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر شہباء پر سوار تھے اور اس پر بنی نجار کے علاقے سے گزرے
عبداللہ بن علی ابی رافع کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے خچر شہباء کو دیکھا جب کہ وہ علی بن حسین کے پاس تھا۔
ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک ہوئے۔پھر اس سے متعلق طویل حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر میں پسپا ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا ۔آپ اپنے خچر شہباء پر سوار تھے۔
عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپے خچر پر سوار ہوئے ۔مندرجہ مالاآٹھ حدیثیں امام طحاوی اور دوسرے محدثین نے روایت کی ہیں ۔باقی رہا گدھے اور گھوڑوں کے درمیان اختلاط تو وہ ممنوع نہیں کیونکہ اگر ممنوع ہوتا تو خچر پر سواری بھی جائز نہ ہوتی ۔جب سواری جائز ہے تو یہ فعل ممنوع نہیں۔
یہ وہ چند دلیلیں ہیں جو ہم منے اس ضمن میں بیان کردی ہیں ۔ یہ ابو داؤد اورمعانی الآثار میں مذکور ہیں باقی رہیں وہ حدیثیں جن سے اس کی ممانعت ظاہر ہوتی ہے ' جیسے ابو رزین کیوہ روایت جس میں حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خچر کا ہدیہ پیش کیا۔اسی آپ نے قبول فرمالیا اور اس پر سواری کی، پھر علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر ہم نے کدھے اور گھوڑے کی جفتی کی ہوتی تو اسی طرح ہمارے پاس بھی خچر ہوتے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ نادان ایسا کرتے ہیں "شرح معانی الآثار " وغیرہ کتابوں یہ حدیث اسی طرح مذکور ہے ۔
"شرح معانی الآثار " میں ابن عباس رضٰی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں (اہل بیت کو)دوسروں سے تین باتوں میں ممتاز بتایا ،اسباغ الوضوء (اچھی طرح وضو کرنا ) صدقہ کا مال نہ کھانا اور گھوڑے اور گدھے کے درمیان جفتی نہ کرانا۔
ان کا جواب تین طرقے سے دیاگیا ہے،
اولا یہ کہ علی کی روایت میں ممانعت نہیں آئی ہے بلکہ کہاگیا کہ یہ وہ لوگ کرتے ہیں ' جو بے خبر ہیں، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو بے علم اور جاہل ہیں اور یہ کہ یہ کام اہل علم اور سادات کا نہیں کہ وہ اس کام میں وقت صرف کریں ۔اسی معنی میں عبداللہ بن عباس رضٰی اللہ عنہ کی روایت بیان ہوئی ہے یعنی یہایسا کام نہیں ہے جسے ہم ہاشمیوں کے لیے خاص کیاجاتا ہے ۔ دوسرے تمام لوگ اس حکم میں شامل نہیں یعنی انھیں رخصت ہے،اہل بیت کو صرف تین چیزوں میں دوسروں سے ممتاز کیاگیا ،ایک سباغ الوضوء یعنی ہر عضو کو تین تین بار ضرور دھوئیں جبکہ دوسرے (غیر ہاشمی) اگر ایک ایک دو دو بار بھی دھولیں تو مضائقہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ صدقہ نہیں کھاتے اور گھوڑے گدھے میں جفتی نہیں کراتے ۔ یہ حکم ہاشمیوں کے لیے ان کے شرف شان کی وجہ سے ہے۔کسی معصیت کی وجہ سے یہ تخصیص نہیں۔ اگر اس میں معصیت کو دخل ہوتا تو ہاشمیوں کی تخصیص نہ ہوتی کہ اوامر ونواہی میں امت محمدیہ برابر ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرنا اسباغ الوضوع نہ کرنا ہاشمیوں کے علو شان کے خلاف ہے،البتہ غیر ہاشمی اس حکم سے الگ ہیں ۔ہاشمیوں کے لیے ان تینوں باتوں کا حکم ان کی شان کی وجہ سے باقی ہے ۔اور یہی ہمارا مدعا ہے ۔
ثانیا یہ کہ رسول الہ ﷺ کے قول "یہ کام وہ کرتے ہیں جو بے علم ہیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ جو یہ کام کرتے ہٰیں وہ نہیں جانتے کہ گھوڑوں کے استعمال میں کتنا اجر ہے جو خچروں وغیرہ کے استعمال میں نہیں ہے اگر انھیں اس کے صحیح اجر کا پتہ ہوتا تو کبھی بھی خچروں کی طرف راغب نہ ہوتے۔ گھوڑوں سے لگاؤ اور اس سے رغبت سے متعلق بہ کثرت حدیثیں آئی ہیں ۔ان میں ابو ہریرہ اور ابن عمر کی یہ دو حدیثیں بڑی مشہور ہیں جوصحاح ستہ میں موجود ہیں ۔
ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھوڑوں سے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں ۔کسی کے لیے یہ باعث اجر ہیں ،اور کسی کے لیے زینت اور کسی کے لیے وبال جان اور ہلاکت خیز پھر لوگوں نے گدھے سے متعلق پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا ۔ گدھے کے فائدے سے متعلق اس آیت کے علاوہ مجھ پر اور کچھ نازل نہیں ہوا۔
"فمن يعمل مثقال ذرة خيريرة ’ومن يعمل مثقال ذرة شراريره" ( جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی وہ اس کا اجر پائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی اسے بھی دیکھے گا،) یہ حدیث صحاح ستہ میں مذکور ہے۔
حضرت ابن عمر مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے کے ساتھ شغف میں قیامت تک بھلائی ہی بھلائی ہے۔ یہ حدیث بھی صحاح وسنن میں موجود ہے۔
امام طحاوی "شرح معانی الآثار " میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ" تاوان ایسا کرتے ہٰیں ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ علماء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے گھوڑے کے حصول اور اس کے استعمال میں جو اجر اور فائدہ ہے وہ خچر میں نہیں ۔اسی وجہ سے نبی ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے کے حصول اور اس کے استعمال میں جو اجر اور فائدہ ہے وہ خچر میں نہیں۔اسی وجہ سے نبی ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے سے فوائد بہت ہیں بہ نسبت خچر کے ،جو گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے نادان لوگ حاصل کرتے ہیں ۔ گویا وہ ایسی چیز پر توجہ نہیں کرتے جس میں اجر ہے بلکہ ایسی چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جس میں اجر نہیں ۔
ثالثا یہ کہ نبی ﷺ کے کے زمانے میں بنی ہاشم کے پاس گھوڑے بہت کم تھے اس لیے آپ نے یہ فرمایا تاکہ خچر کے مقابلے میں گھوڑے بہت کم تھے اس لیے آپ نے یہ فرمایا تاکہ خچر کے مقابلے میں گھوڑے کی نسل پر توجہ دی جائے اور اس طرح ان کی افزائش ہو ۔
امام طحاوی شرح معانی الآثار میں عبیداللہ بن عبداللہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے (اہل بیت کے لیے) تین باتیں خاس کردی ہیں ۔اول یہ کہ ہم صدقہ نہ کھائیں 'اچھی طرح وضو کریں اور گھوڑے اور گدھے میں جفتی نہ کرائیں ' راوی کہتے ہیں کہ میری عبداللہ بن حسن سے ملاقات ہوئی آپ بیت اللہ کا طواف فرمارہے تھے میں نے ان سے باتیں کیں انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا بنی ہاشم میں گھوڑے بہت کم تھے آپ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ گھوڑے کی نسل بڑھے ۔
عبداللہ بن حسن کی توجیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرانے کو حرام قرار نہیں دیا تھا بلکہ گھوڑوں کی قلت کی وجہ سے یہ بات کہی تھی ' پھر جب یہ علت دور ہوگئی تو اس سے کوئی چیز مانع نہ رہی ۔ نیز یہ کہ اس عمل سے صرف بنی ہاشم کو روکا گیا ہے ۔ یعنی دوسروں کے لیے یہ عمل مباح ہے ۔
شراب سے سرکہ بنانے اور اس کے کھانے سے متعلق تحقیق یہ ہے کہ بلاشبہ حدیث "نعم الادام الخل "(يعنی سرکہ بہترین سالن ہے) صحیح ہے ۔اسے حضرت جابر بن عبداللہ وعائشہ وام ہانی اور ایمن رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے ۔اسے جابر کی روایت بخاری کے سوا تما م ائمہ صحاح ستہ نے نقل کیا ہے ۔ حضرت عائشہ کی روایت جامع ترمذی ہیں ام ہانی کی حدیث مستدرک حاکم میں اور ایمن کی حدیث بیہقی کی شعب الایمان میں موجود ہے ۔ان کے اسانید ومتون کی تحقیق کے لیے کتب حدیث ورجال کی طرف کرنا چاہیے ' زیلعی کی "نصب الرایہ" اس باب میں بے نظیر کتاب ہے ۔
شراب سے سرکہ بنانے کی ممانعت بھی ثابت ہے ،حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سے شراب سے سرکہ بنانے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ممانعت فرمائی ، یہ روایت مسلم اور دارقطنی نے نقص کی ۔ مسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی نقل کیا کہ ابو طلحۃ نےنبی کریم ﷺ سے ایسے یتیموں سے متعلق پوچھا جنھیں شراب ورثہ میں ملی تھی ۔آپ ﷺ نے فرمایا شراب بہادو ۔ابو طلحہ نے کہا ہم اس سے سرکہ نہ بنالیں۔آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ۔
دارقطنی نے حضرت انس سے روایت نقل کی ہے کہ ایک یتیم ابو طلحہ کی تولیت میں تھا انھوں نے اس کے لیے شراب خریدا تھا ۔ جب اس کی حرمت آگئی تو رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اس سے سرکہ بنالیں آپﷺ نے ممانعت فرمادی
زیلعی "نصب الرایۃ " میں لکھتے ہیں : شافعیہ نے حضرت انس کی مذکورہ بالاحدیث سے استدلال کیا ہے کہ شراب سے سرکہ بنانا منع ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آیت تحریم کے نزول کے بعد صحابہ کرام نے تمام شراب بہادری ' جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے ۔اگر شراب سے سرکہ کی کشید جائز ہوتی ہے تو آپ ﷺ سے بیان فرمادیتے ۔ جس طرح کہ مردہ بھیڑ کے چمڑے کی دباغت سے متعلق اجازت مرحمت فرمائی ۔
لیکن ام سلمہ اور جابر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیثیں حضرت انس کی مذکور حدیث کے خلاف ہیں ،ام سلمہ رضٰی اللہ عنہا کی حدیث دار قطنی نے اپنے سنن میں روایت کی ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک بکری تھی ، مرگئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ۔ بکری کیا ہوئی ؟ ہم نے کہا وہ تو مرگئی ،آپ ﷺ نے فرمایا اس کا چمڑا کیوں نہ نکال لیا؟ ہم نے کہا حضور وہ تو مردہ تھی ۔آپ نے فرمایا دباغت کے بعد اس کے چمڑے کا استعمال جائز ہے شراب سے سرکہ بنانا جائز ہے ۔
جابر کی حدیث بیہقی نے اپنی کتاب المعرفۃ میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :شراب سے کشید کر وہ سرکہ سب سے اچھا سرکہ ہے ۔
ام سلمہ اور جابر کی مذکور ہ دونوں حدیثوں سے متعلق جواباً عرض ہے کہ :
اول ا تو یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں ۔دارقطنی نے ام سلمہ کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اسے فرج بن فضالہ نے یحیی سے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف راوی ہے۔اس نے یحیی بن سعید سے کئی ایسی حدیثیں روایت کی ہیں جن کی تائید ومتابعت دوسرے راوی نہیں کرتے ۔
اور بیہقی اپنی "المعرفہ " میں کہتے ہیں کہ یہ روایت مغیرہ بن زیاد سے مروی ہے اور وہ قوی راوی نہیں ۔ نیز یہ کہ اہل حجاز انگور کے سرکے کو شراب کا سرکہ کہتے ہیں ۔
ثانیاً یہ کہ اگر بالفرض یہ حدیثیں صحیح مان لی جائیں تواس سے مراد وہ سرکہ ہوگا جو شراب میں کچھ ملاوٹ کے بغیر تیار ہو یعنی اگر اسے دھوپ سے ہٹا کر سایہ میں رکھ دیاجائے یا سایے سے دھوپ میں رکھ دیاجائے اور وہ سرکہ بن جائے تو پاک ہے اور اس کا کھانا درست اور جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔ بیہقی نے المعرفہ میں لکھا ہے کہ شراب خود سرکہ میں تبدیل ہوجائے تو اس کا استعمال درست اور جائز ہے ، فرج بن فضالہ کی حدیث بھی یہی بتاتی ہے ۔
نووی "شرح مسلم " میں کہتے ہیں کہ نبی ﷺ سے شراب سے سرکہ کشید کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے منع فرمایا۔ شوافع اور جمہور کے نزدیک اسی دلیل کی بنا پر شراب میں پیاز ' روٹی اور کھیرا وغیرہ ڈال کر سرکہ بنانا جائز نہیں کہ اس سے شراب کی نجاست ختم نہیں ہوتی ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس شراب یا اس طرح حاصل کردہ سرکہ میں ڈالی ہوئی چیز دھونے یا کسی اور طرح سے ہرگز پاک نہیں ہوتی ۔ہاں اگر شراب کو دھوپ سے ہٹاکر سایہ میں یا سایہ سے ہٹاکر دھوپ میں رکھ دیاجائے اور اس طرح سرکہ بن جائے تو یہ صحیح قول کے مطابق پاک ہے ۔البتہ اگر اس میں کوئی چیز ڈال دی جائے تو پاک نہیں ہوتی شافعی 'احمد اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔امام اوزاعی ، لیث اور ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ پاک ہے ۔امام مالک سے تین روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔صحیح روایت یہ ہے کہ اس طرح سرکہ بنانا ناجائز ہے اور سرکہ بھی پاک نہیں رہتا ،ایک تیسری روایت یہ ہے کہ سرکہ بنانا بھی جائز ہے اور سرکہ بھی پاک ہے ۔البتہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر شراب خود سے سرکہ بن جائے تو پاک ہے ۔
مذکورہ بالاتفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں صحیح رائے امام شافعی ،احمد اور جمہور علماء کی ہے کہ شراب سے خاص طور پر سرکہ باننا ناجائز اور ممنوع ہے اور اس طرح کشید کردہ سرکہ پاک نہیں ہوتا ،البتہ اگر کسی چیز کے ملاوٹ کے بغیر شراب خود سے سرکہ میں تبدیل ہوجائے تو پاک اور حلال ہے ۔ظاہر ہے کہ جب ملاوٹ کے ساتھ سرکہ اتارنا ہی ناجائز ہو تو پھر اس کا استعمال کسے جائز ہوسکتا ہے۔
بلاشبہ شراب کا سرکہ بھی سرکہ ہے مگر شارع نے اسے ناجائز قراردیا ہے ۔اگر جائز ہوتا تو آپ ﷺ یتیموں کا مال ہرگز خائع کردینے کا حکم نہ دیتے ۔ بلکہ یتیموں کواس مال سے حلال طریقے سے فائدہ پہنچاتے ۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا اس کا خصی کرنا جائز نہیں اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا خصی نہ کرنا افضل ہے اور عزیمت کا یہی تقاضہ ہے ہاں خصی کرنا جائز ہے اور اس کی اجازت ہے ۔
بعض علماء جانوروں کو خصی کرنے کےحق میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ جسے امام بخاری نے باب "لايؤخذ في الصدقة هرمة ولاذات عوارولااتيس الاماشاء المصدق" میں نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ابو بکر نے انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام لکھ کردیئے جن میں صدقہ کا بیان تھا ،لکھا تھا کہ صدقہ میں بہت بوڑھا یا عیب دار جانور او ر بوتو نہ لیاجائے الایہ کہ صدقہ وصول کرنے والا اسے قبول کرلے ۔امام احمد اورابوداؤد وغیرہ نے بھی نقل کی ہے ۔
ان علماء کا کہنا ہے کہ حق سبحانہ تعالی نے مسلمانوں کو اچھی چیزوں کے کھانے پینے کی اجازت د ی ہے اور ان چیزوں کی نشان دہی فرمائی ہے عرب اور عجم کے لوگ اکثر اونٹ 'گائے 'بکروں اور بھیڑوں کے گوشت استعمال کرتے تھے ،ان میں بھی خصی کردہ جانوروں کے گوشت ان کے نزدیک زیادہ لذیذ اور مرغوب ہیں۔ نیز یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ غیر آختہ شدہ بکرے اور بھیڑ (یعنی بوتو اور سانڈ وغیرہ) کا گوشت بہت ہی بدبودار اور بدذائقہ ہوتا ہے ۔اس کی بو بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے نتیجۃً کاھنے کے لیے اس کا استعمال مشکل ہے،یہ وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غیر خصی شدہ جانوروں کو زکوۃ میں دینے سے ممانعت فرمائی ہے ۔اس لیے کہ اس کا گوشت خراب ہوتا ہے ۔
علامہ قسطلانی "ارشاد الساری شرح صحیح بخاری " میں لکھتے ہیں کہ "تیس " بھیڑوں کے نر کو کہتے ہیں جو افزائش نسل کے لیے مخصوص ہو ،اللہ کا قول ہے وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ (خبیث چیزون کا قصد نہ کرو' جنھیں تم دینا تو پسند کرتے ہو'لینا نہیں )
شیخ الاسلام دہلوی "صحیح بخاری " کی فارسی شرح میں لکھتے ہیں: نر بکرا جسے فارسی میں تکہ( اردو میں بوتو) کہتے ہیں صدقے میں نہ دیاجائے کیوں کہ اس کاگوشت بہت بدبودار ہوتا ہے اور خرابی سے پاک نہیں۔البتہ افزائش نسل کے لیے یہ ضروری ہے ۔
صراح اور منتہی الارب میں لکھا ہے کہ :تیس "تکہ (بوتو ) کو کہتے ہیں ۔ تیوس اور اتیاس اس کی جمع ہے ۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ التیس بھیڑ بکروں کے نر (بوتو)کو کہتے ہیں ۔اور اس کا اطلاق خصی شدہ بکرے اور دنبے پر نہیں ہوتا بلکہ صرف غیر خصی شدہ کو تیس کہتے ہیں ۔حضرت انس سے مرفوعا ایک حدیث مروی ہے اس میں ہے " فاذا بلغت ستاواربعين ففيها حقه طروقة الفحل "(یعنی جب اونٹ کی تعداد 46 تک پہنچ جائے تو اس کی زکاۃ ایک حقہ (ایسی اونٹنی)ہے جو نر کی جفتی کے قابل ہو) اسے ابوداؤد وغیرہ نے لفظ "الضحل " لے ساتتھ نقل کیا ہے ۔مگر بخاری نے لفظ "الجمل" کا ذکرکیا ہے ۔
یہاں تک ان لوگوں کی دلیل کا ذکر ہوا جو خصی کرنا جائز قراردیتے ہیں ۔مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے خصی کرنے کے جواز پر استدلال نہیں ۔اس لیے کہ "تیس" کو زکاۃ میں دینے کی ممانعت کا سبب اس کے گوشت کی خرابی نہیں بلکہ تین دو سال کے نر جانور کو کہتے ہیں ۔ جو جفتی کے قابل نہیں ہوتا ۔لہذا اس سے افزائش کا فائدہ عملاً ناممکن ہے اور زکاۃ میں فائدہ منس چیز نکالنا لازم ہے ،چاہےے فائدہ دودھ کی شکل میں ہو یا نسل کی افزائش کی شکل میں اور تیس میں ان میں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ،
قاموس میں ہے :التیس الذکر من الظباء والمعز والوعول اذااتی علیه سنسة) ( یعنی ہرن 'بھیڑ اور جانوروں کے نر کو تیس کہتے ہیں جب وہ سال بھرکا ہوجائے )
المصباح المنیر میں ہے "التيس الذكر من المز اذا اتي عليه حول وقبل الحول هو جدي " يعنی تیس نر بھیڑاور دنبے کو کہتے ہیں جب وہ سال بھر کا ہوجائے سال سے چھوٹا ہوتو اسے جدی کہتے ہیں )
حافظ ابن حجر "هدي الساري مقدمة فتح الباري " میں تحریر فرماتے ہیں : التيس هوالذكر الثني من المعز الذي لم يبلغ حد الضرب " ( تيس بهيڑ کے نر کو کہتے ہیں جو ابھی افزائش نسل کے قابل نہ ہو)
زرقانی نے شرح موطا مالک میں لکھا ہے : لا يخرج في الصدقة تيس ’هو فحل الغنم ’او مخصوص بالمعزلانه لامنفعه فيه لدر ولانسل ‘وانما يؤخذ في الزكاة مافيه منفعة للنسل قاله الباجي " ( یعنی جانوروں اور بھیڑوں کے نر کو تیس کہتے ہیں ، چونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں کہ اس سے نہ دودھ حاصل ہوتاہے اور نہ نسل کی افزائش ہوتی ہے اس لیے اسے زکوۃ میں دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ زکوۃ صرف مفید چیز کی صورت میں نکالی جاتی ہے ۔
والله اعلم بالصواب واليه المرجع والمآب : حرره ابو الطيب محمجد شمس الحق عظيم آبادي عفي عنه وعن والديه وعن مشايخهعقیقہ کے احکام ومسائل (فارسی میں یہ "الاقول الصحیحہ فی احکام النسکیہ" کے نام سے شائع ہوا تھا (دہلی 1297ھ) یہاں اس کا مختصر ترجمہ درج کیا جارہا ہے۔(اصل رسالہ اسی مجموعے کے حصہ فارسی میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
حمد وصلوۃ کے بعد ارقم الحروف محمد ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی عرض کرتا ہے کہ چند دنوں قبل ہمیں یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگ عقیقہ کو مکروہ سمجھتے ہیں 'اور اس سنت پر عمل کرنے والے پر زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنے کا پچھلی صدیوں میں رواج نہ تھا 'اسے غیر مقلدو ں نے ایجاد کیا ہے ۔یہ سن کر مجھے سخت تعجب ہوا کہ ایک ایسی سنت کا کس طرح اس ڈھٹائی کے ساتھ انکار کیاجاتا ہے جس کے بارے میں متعدد صحیح اور غیر منسوخ حدیثیں ثابت ہیں اور ائمہ اربعہ کے اقوال بھی اس بارے میں بہ کثرت منقول ہیں، بالفرض اگر ائنہ کرام سے اس کی کراہت بھی منقول ہوتی اوراحادیث رسول سے اس کا استحباب ثابت ہوتا تب بھی امت پر واجب تھا کہ حدیث پر عمل کرنی اورامام کا قول ترک کردیتی ' کہونکہ چاروں اماموں نے ہمیں اس کی وصیت کی ہے ۔ جیسا کہ شیخ عبدالوہاب شعرانی نے "المیزان الکبری " علامہ محمد معین تھوڑی نے "وارسات اللبیب " علامہ ابن عابدین نے "ردالمختار "اور شاہ ولی اللہ دہلوی نے "حجۃ اللہ الہ الغہ " میں اس کی تصریح کی ہے اور ائمہ کرام سے اس مفہوم کے اقوال نقل کیے ہیں کہ اگر ان کی رائے صحیح حدیث کے خلاف ہوتو حدیث پر عمل کیا جائے اور ان کی رائے صحیح حدیث کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل کیا جائے اور ان کی رائے اور قیاس کو چھوڑدیا جائے ۔ بلکہ صحیح حدیث سے جو ثابت ہواسی کو امام کا مسلک تصور کیا جائے ( مولانا عظیم آبادی نے ہر ایک کی عربی عبارتیں بھی نقل کی ہیں جنھیں اصل رسالہ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔) تعجب ہے کہ مقلدین اپنے ماموں کی ان تسریحات کے باوجود ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نہیں چلتے ۔مختلف مسائل میں اپنے امام ہی کے قول پر عمل کرتے ہیں خواہ وہ صحیح احادیث سے اس کا استحباب ثابت ہے اور امام صاحب کے فرمان "اذا اصح الحديث فهو مذهبي "(جب کسی مسئلہ میں صحیح حدیث وارد ہو تو میرا مذہب بھی وہی ہے جس کی تائید وہ حدیث کررہی ہو) کے مطابق ان کابھی یہی مذہب ٹھیرے گا۔
اس رسالے میں ہم نے احادیث رسول اور اقوال ائمہ سے عقیقہ کا ثبوت پیش کیا ہے اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی نہ مانے تو وہ اس آیت کا مصداق ہوگا ۔
ترجمہ: جو کوئی حق واضح ہوجانے کے بعد س رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلےگا اسے ہم وہ کرنے دیں گے جو وہ کرے گا ، پھر جہنم میں داخل کریں گے جو بہت برا ٹھکانہ ہوگا،
اس رسالہ کا نام ہم نے "الاقول الصحیحۃ فی احکام النسکیہ " رکھاہے ۔ وماتوفيقي الابالله عليه التوكل وبه الاعتصام ّ
عربی زبان میں "عقیقہ " پیدائش کے وقت بچے کے سر کے بال کو کہتے ہیں۔ شریعت میں اس سے وہ جانور مراد ہے جسے بچے کا سر مونڈنے کے وقت ذبح کیاجائے ۔چونکہ اس جانور کو عاق کیاجاتا ہے ،اسی لیے اسے عقیقہ کہاجاتا ہے( دیکھیے ؒقسطلانی کی"ارشاد الساری شرح صحیح بخاری "اور زرقانی کی"شرح موطا امام مالک ") اسے نسیکہ " اور"ذبیحہ " بھی کہتے ہیں ، جاہلیت میں عربوں کے یہاں بھی عقیقہ کا رواج تھا 'اسے وہ بہت ضروری خیال کرتے تھے چونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں اس لیے رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے اسلام میں برقرار رلھا ۔خود بھی اس پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ۔صحابہ ' تابعین اور تبع تابعین ' بھی ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہے ۔ عقیقہ سے متعلق بہت سی حدیثیں ،بخاری، ترمذی ،ابوداؤد، نسائی ، دارمی ،اور موطا مالک وغیرہ میں موجود ہیں جن میں سے بعض کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
سلمان بن عامر ضبی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بچے کی ولادت پر عقیقہ ہے ۔لہذا اس کی طرف سے خون بہاؤ(یعنی جانور ذبح کرو) اورگندگی( سر کے بال) دور کرو،0بخاری ،ابوداود ، ترمذی ، دارمی ،نسائی )
حبیب ابن شہید کہتے ہیں ۔ مجے ابن سیرین نے حکم دیا کہ حسن بصری سےدریافت کروں کہ انھوں نے عقیقہ کی حدیث کس سے سنی ہے؟ میں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا سمرہ بن جندب سے(بخاری،نسائی) نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر سے ان کے گھر میں کوئی عقیقہ کے بارے میں پوچھتا تو اسے عقیقہ کا جانور دیتے ، وہ بچے اور بچی کی طرف سے ایک بکری ذبح کیا کرتے تھے ۔(موطا امام مالک)
ہشام بن عروہ بن زبیر اپنے بیٹے اور بیٹی کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقہ میں ذبح کرتے تھے (موطا امام مالک)
سمرہ نم جندب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مولود اپنے عقیقہ تک رہن رکھا ہوا ہوتا ہے ۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے ، اس کا نام رکھا جائے اور سر مونڈا جائے (ترمذی ۔ دارمی ،ابوداود )
امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ رہن رہنے کے معنی یہ ہیں کہ بچہ والدین کے حق میں شفاعت کرنے سے روکا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کی طرف سے عقیقہ کریں ۔
یوسف بن ماہک کہتے ہیں کہ کچھ لوگ حفصہ بنت عبدالرحمن کے پاس آئے اوران سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا ،انھوں نے کہا عائشہ نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو عقیقہ کا حکم دیا ہے۔لڑکے کی طرف سے دو برابر بکری ،اور لڑکی کی طرف سے ایک(ترمذی)
بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ے حسن اور حسین کی طرف سے عقیقہ کیا (نسائی)
عقیقہ سے متعلق اسی مفہوم کی اور بہت سی حدیثیں سباع بن ثابت ،ام کرز ' علی بن ابی طالب ،ابن عباس وغیرہ سے منقول ہیں جن سے اس کا استحباب اور مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے وہ حدیثیں جن میں "لاحب العقوق" (میں عقوق کو پسند نہیں کرتا ) کے الفاظ آئے ہیں ،ان سے عقیقہ کی کراہت مقصود نہیں ،ذیل میں اس کے باوجود ذکر کیے جاتے ہیں ۔
(1) اول تو یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے عقیقہ سے منع نہیں فر مایا بلکہ "عقیقہ " کے لفظ سے کراہت کا اظہار کیا ہے۔کیونکہ یہ "عقق" سے ماخوذ ہے اور 'عقوق الوالدین " (والدین کی نافرمانی )سے اس کااشتباہ ہوتا ہے ،اس لیے انھیں "عقیقہ " کا لفظ اچھا نہ لگا،اور اسے بدل کر انھوں نے " ذبیحہ " اور نسکیہ " کردیا ۔ برے نام کو اچھے نام سے بدلنا رسول اللہﷺ کی معروف عادت تھی (دیکھئے :محمد طاہر فتنی کی مجمع بحار لانوار اور زرقانی کی شرح موطا)
(2)دوم یہ کہ یہاں "عقوق " سے والدین کی طرف سے بچے کو عاق کرنا (یعنی بچے کی طرف سے جانور نہ ذبح کرکے اس سے گویا قطع تعلق کرنا) مراد ہے ،اس سے عقیقہ کی کراہت کےبجائے عقیقہ نہ کرنے کی کراہت کا ثبوت ہوتا ہے ( دیکھیے :مجمع بحار الانوار اور محلی شرح موطا )
(3)سوم یہ کہ سائل کو عقیقے کے بارے میں علم نہ تھا کہ کہ منکروہ ہے یا مستحب ۔
رسول اللہ ﷺ نے "لااحب العقوق " کہہ کر بتایا کہ مکروہ اور موجب غضب باری دراصل 'عقوق " (والدین کی نافرمانی) ہے نہ کہ عقیقہ (جو بچے کی طرف سے کیاجاتا ہے۔(دیکھیے :ملاعلی قاری کی مرقاۃ المفاتیح )
(4) چہارم یہ کہ سائل نے جب "عقیقہ " کے بارے میں سوال کیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں " عقوق" کو پسند نہیں کرتا ۔ پھر انھوں نے بچے کی طرف سے عقیقہ کا حکم دیا اور خود بھی حسن اور حسین کا عقیقہ کیا ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں دراصل لفظ "عقوق" سے ناپسندیگی کا اظہار مقصود ہے ' نہ کہ عقیقہ کرنے سے ۔ ورنہ پھر خود ہی اس کا حکم کیوں دیتے ؟
حدیث میں ہے: زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں 'انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا گیا' آپ نے فرمایا میں" عقوق کو پسند نہیں کرتا ۔ گویا انھوں نے عقیقہ نام سے کراہت ظاہر کیا اور فرمایا : جس کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو ذبح کرے۔(موطا مالک )
اسی مفہوم کی حدیث عمر بن شعیب سے بھی ابوداود اور نسائی میں موجود ہے ' جس میں "عقوق" کے لفظ سے کراہت کے ساتھ ہی بچے کی طرف سے جانور ذبح کرنے کا حکم ہے ۔اس تفصیل کے بعد عمر بن شعیب اور زید بن اسلم کی ان مجمل حدیثوں کا صحیح مفہوم سمجھاجاسکتا ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ ۔مصنف عبدالرزاق اور عقود الجواہر المنہفہ للزبیری وغیرہ میں موجود ہیں جن میں "لاحب العقوق" کے بعد وضاحت منقول نہیں جو موطا امام مالک ،ابو داود اور نسائی میں مذکور ہے۔ اورجس کے بعد عقیقہ کے مسنون ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔اور یہ حقویقت معلوم ہوتی ہے کہ کراہت دراصل صرف لفظ "عقیقہ" کے استعمال سے ہے ،جو "عقق" سے ماخوذ ہے ' جس کے ساتھ ذبیحہ مولود کے علاوہ نافرمانی اور احسان فراموشی کا مفہوم بھی وابستہ ہے ۔اس لیے "عقیقہ " کے بجائے "نسکیہ "اور "ذبیحہ" کا لفظ استعمال کرنازیادہ بہتر ہے دیکھیے : زرقانی شرح موطا، قسطلانی شرح بخاری ۔ محلی شرح از علامہ سلام اللہ، سفر السعادت ازشیخ عبدالحق دہلوی )اس کی مثال یہ ہے کہ صلوۃ عشاء کو صلوۃ عتمہ کہنے سے منع فرمایاگیا ہے حالانکہ دونوں سے نماز عشاء مراد ہے ۔ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ "صلوۃ عتمہ" کا لفظ مشرکین استعمال کرتے تھے اس لیے مسلمانوں کے لیے اس کا استعمال مکروہ بتایاگیا ۔
بعض علماء کا خٰیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے"لااحب العقوق" فرماکر "عقیقہ " کا لفظ استعمال کرنے سے کراہت کااظہار نہیں کیا ہے۔اگر یہ بات ہوتی تو پھر بہت سی حدیثوں میں "عقیقہ " کالفظ خود ان کی زبانی کیوں منقول ہوتا؟(دیکھئے :زرقانی شرح موطا۔مرقاۃ شرح مشکوۃ مخؒی شرح موطا) کراہت دراصل "عقیقہ " (ذبیحہ ) کے بجائے " عقوق" سے ماخوذ ہیں اس لیے غالبا سائل نے گمان کیا کہ "عقوق" (نافرمانی )سے ہے عربی زبان میں چونکہ دونوں ہی "عقق" سے ماخوذ ہیں 'اس لیے غالبا سائل نے گمان کیا کہ "عقوق"(نافرمانی اوراحسان فراموشی) کی طرح "عقیقہ "(ذبیحہ مولود) بھی ناپسندید اور مکروہ ہے، رسول اللہﷺ نے صراحت فرمائی کہ مکروہ دراصل "عقوق" ہے نہ کہ "عقیقہ"
بہ ہرحال مذکورہ بالاتمام روایات سے"عقیقہ "کااستحباب ثابت ہوتا ہے۔علمائے کابھی اس پر اتفاق ہے ۔ان کے درمیان اختلاف صرف اس میں ہے کہ کیا "عقیقہ"کا لفظ استعمال کرنا چاہیے یا نہیں ' فی نفسہ "عقیقہ" کے ثبوت میں کوئی کلام نہیں۔
امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی ساتویں دن عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا مستحب ہے'اور ایک روایت میں یہ ہے کہ مباح ہے۔اگر بکری کی جگہ دنبہ یابھینس یااونٹ ذبح کرے تب بھی جائز ہے۔بلوغت کے بعد کسی کی طرف سے عقیقہ درست نہیں ۔اگر ساتویں دن نہ کرسکے تو چودہویں دن نہ کرے ورنہ پھر اکیسویں دن مولود کے سر کابال بھی اس دن مونڈے ۔اور اس کے وزن کے برابر سونا چاندی صدقہ کرے ۔ذبح کیے ہوئے جانور کی ہڈی توڑنا ،یاہڈی توڑے بغیر جوڑسے الگ کرنا دونوں ٹھیک ہے۔ عقیقہ کا گوشت خود کھائے اور اہل وعیال کو بھی کھلائے اور صدقہ کرے یہ جو مشہور ہے کہ اس کا گوشت بچے کے ماں باپ کو نہیں کھانا چاہیے اس کی کوئی اصلیت نہیں۔مذکورہ بالاتفاصیل کے لیے دیکھئے : ابن عابدین شامی کی ردالمختار 'شعرانی کیمیزان بری 'کرسری کی فتاوی بزازیہ ،ملاعلی قاری کی حرز الثمین شرح حصن حصٰین ۔ چیخ عبدالحق دہلوی کی شرح فارسی مشکوۃ ' شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ بالغۃ۔شاہ محؐد دہلوی اسحاق دہلوی کے مسائل اربعین (مولانا عظیم آبادی نے تمام کتابوں کے اقتباسات درج کے ہیں جن سے احناف کے یہاں عقیقہ کے استحباب کاثبوت ملتا ہے ،یہاں ان سب کا ترجنہ طوالت کاموجب ہوگا تفصیل کے لیے اصل رسالہ ملاحظہ فرمائیں ،)
امام مالک کے نزدیک بھی عقیقہ مستحب ہے خوا ہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک ہی بکری ذبح کی جائے گی، عقیقہ کاذبیحہ قربانی کے ذبیحہ کی طرح ہے لہذا بکری 'اونٹ 'گائے ' بھینس ہر ایک ذبح کرنا درست ہے جیسا کہ ہر ایک کی قربانی ٹھیک ہے ۔اس کے لیے کانے لنگڑے 'کمزور اور بیمار جانور کااختیارکرنا جائز نہیں۔اس کے گوشت اور (چمڑے) میں سے کچھ بھی فروخت نہ کرے ' بلکہ خود کھائے ' گھر والوں کو کھلائے اور صدقہ کرے ۔ بہتر یہی ہے کہ ذبیحہ کی ہڈی (خواہ جوڑ کی ہویا دوسرے جگہ کی )نہ توڑے ۔اگر ساتویں دن سے پہلے یابعد میں جانور ذبح کرے تو عقیقہ نہیں ہوگا ۔اور اگر مولود عقیقہ سے پہلے ہی مرجائے تواس کی جانب سے عقیقہ ساقط ہوجاتا ہے(تفصیل کے لیے دیکھئے :موطا امام مالک ، زرقانی شرح موطا،ارشاد الساری للقسطلانی اور المدخل لابن الحاج )
امامشافعی کے نزدیک عقیقہ سنت مؤکدہ ہے ۔ساتویں دن لٹے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے ۔اگرچہ عقیقہ قربانی کی طرح واجب نہیں پھر بھی عقیقہ کے جانور میں اس کے جنس ' عمر اور عیب سے سلامتی وغیرہ میں قربانی کے جانور جیسی شرائط کالحاظ کرنا چاہیے ۔ذبح کے وقت عقیقہ کی نیت بھی کرے ۔اور اس کا گوشت خود کھائے ۔اپنے اہل وعیال کو کھلائے اور حاجت مندوں پر صدقہ کرے ۔سارا گوشت پکائے مگر ایک ران دائی (خادمہ)کے لئے چھوڑدے ۔اور بہتر ہے کہ ذبیحہ کی ہڈی نہ توڑے 'اور اگر توڑے تو خلاف اولی ہے ۔ایک شافعی عالم رافعی فرماتے ہیں کہ عقیقہ کا وقت بچے کی پیدائش سے اس کی بلوغت تک ہے ،کسی نے اگر اس کی طرف سے عقیقہ کاارادہ کر رکھا ہو تو اس کے بالغ ہونے کے بعد ساقط ہوجاتا ہے ،ہاں اگر وہ خود اپنی طرف سے بالغ ہونے کے بعد عقیقہ کرناچاہتا ہے تو جائز ہے ۔امام شافعی سے منقول ہے کہ بڑے آدمی(بالغ) کا عقیقہ نہیں ہوتا ۔
ایک شافعی عالم بند نیجی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بکری کے علاوہ کوئی دوسرا جانور عقیقہ میں ذبح کرنا جائز نہیں لیکن جمہور علماء اونٹ یا گائے ذبح کرنے کے قائل ہیں ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے : قسطلانی کی ارشاد الساری شرح بخاری )
امام احمد کے نزدیک بھی عقیقہ ایک روایت کے مطابق واجب ،اور مشہورروایت کے مطابق سنت مؤکدہ ہے ۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ۔ ولادت کے ساتویں دن ذبح کی جائے ۔ ذبیحہ کی ہڈی جوڑوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نہیں توڑنی چاہیے (دیکھئے : شعرانی کی میزان کبری )
عقیقہ کے استحباب پر ائمہ اربعہ کے علاوہ تماماہل علم (صحابہ 'تابعین وتبع تابعین )اور فقہاومحدثیبن متفق ہیں ۔ مجھے علم نہیں کہ کسی سے اس کے خؒاف بھی کچھ منقول ہے۔ان کے درمیان اگر اختلاف ہے تو صرف اتنا کچھ اس کے وجوب کے قائل ہیں ،اور کچھ سنت یا مستحب ہونے کے ۔اس کے جواز کے سلسلے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ عقیقہ کی حدیث بہت سے صحابہ کرام سے منقول ہے' جیسے : علی ' عائشہ 'ام کرز' بریدہ ' سمرہ 'ابو ہریرہ 'ابن عمر ۔انس ۔سلمان بن عامر ۔ابن عباس ،اور ہمیشہ سے علماء کا اس پر عمل رہا ہے (دیکھئے :ترمذی)
امام ابو حنیفہ سے جو عقیقہ کا بدعت ہونا نقل کیا جاتا ہے وہ غلط ہے، ان کی طرف اس کی نسبت درست نہیں خصوصا ایسی صورت میں جب کہ اس سے متعلق بہت سی حدیثیں وارد ہیں جن کا انکار دن میں آفتاب کی روشنی سے انکار کے مترادف ہے ۔امام صاحب سے کچھ علماء نے اس کے استحباب اور بعض نے اباحت کا قول نقل کیا ہے ۔امام طحاوی جو امام ابو حنیفہ کے مذہب کے سب سے بڑے واقف کارتھے امام ابو حنیفہ سے اس کا تطوع ہونا نقل کرتے ہیں ۔ یعنی مستحب ومندوب ہے(جیسا کہ ردالمختار میں ابن عابد ین تطوع اور مندوب کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے) اسی قول پر میں اعتماد کرتا ہوں کیونکہ یہاحادیث اور آثار صحابہ کے مطابق ہے۔
بعض علماء نے امام ابو حنیفہ سے جو عقیقہ کا بدعت ہونا نقل کیا ہے ۔اس کے بارے میں علامہ عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : یہ جھوٹ ہے امام صاحب کی طرف اس کا انتساب جائز نہیں ۔ایسا کہنا ان سے بعید ہے، انھوں نے صرف یہ کہا ہے کہ سنت نہیں۔
یہاں سنت نہ ہونے سے سنت مؤکدہ ہونے کی نفی مقصود ہے، نہ کہ سنت غیر مؤکدہ کی ۔لہذا اس سے استحباب کی نفی نہیں ہوتی ۔حنفی مذہب میں "سنت"کا اطلاق الثر سنت مؤکدہ پر ہوتا ہے مستحب پر نہیں ۔ہمارے استاد مولانا نذیر حسین دہلوی نے ہمیں اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ فقہ حنفی کی متعدد کتابوں (ہدایہ ،کنزالدقائق'بنایہ شرح ہدایہ للعینی وغیرہ) میں اور کتب حدیث کے اندر بھی اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ سنت سے سنت موکدہ مراد ہوتا ہے اور اس کی نفی سے مستحب ہونے کی نفی نہیں ہوتی ۔
اگر کسی کے ذہن میں یہ شبہ ہو کہ عقیقہ کی حدیثیں قربانی کی حدیثوں سے منسوخ ہوگئیں ۔ جیسا کہ امام محمد نے دعوی کیا ہے' پھر ان پر عمل کیسے درست ہوگا؟
امام محمد موطا میں فرماتے ہیں : عقیقہ کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ جاہلیت میں اس کارواج تھا۔ابتدائے اسلام میں بھی اس پر عمل رہا ' پھر قربانی نےاس سے پہلے کے ہر طرح کے ذبح کو منسوخ کردیا ؛' جیسے رمضان کے روزے نے ہر طرح کے روزوں کو 'غسل جنابت نے پر طرح کے غسل کو 'اور زکوۃ نے ہر طرح کے صدقہ کو منسوخ کردیا (موطا امام مالک)
مسند امام ابی حنیفہ میں خوارزمی نے محمد بن ا لحنیفہ اور ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے کہ عقیقہ جاہلیت میں تھا۔اسلام میں اسے چھوڑدیا گیا۔امام محمد نے کتاب الآثار میں بھی یہ روایت درج کی ہے۔جیسا کہ مرتضی زبیدی نے عقود الجواہر المنفیہ میں لکھا ہے ،محلی شرح موطا میں شیخ سلام اللہ رامپوری تحریر فرماتے ہیں کہ ابن المبارک ،دارقطنی ، بیہقی اور ابن عدی نے حضرت علی سے بھی اس مفہوم کی روایت نقل کی ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے :کفایہ شرح ہدایہ ،شرح مشکوۃ از شیخ عبدالحق دہلوی ، وشرح سفر السعادات۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت علی کی حدیث (جسے ابن المبارک ،دارقطنی ' بیہقی 'ابن عدی ' نے نقل کیا ہے )صحیح نہیں'اس کی سند میں مسیب بن شریک اور عقبہ بن یقطان دوراوی ضعیف ہیں جیسا کہ علامہ عینی نے بنایہ شرح ہدایہ میں بیہقی اور دارقطنی سے نقل کیا ہے۔۔اگر بالفرض یہ حدیث صحیح بھی مان لی جائے تب بھی اس حدیث سے وجوب عقیقہ کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔نہ کہ سرے سے عقیقہ ہی منسوخ ہے ،جیسا کہ رمضان کے روزے نے عاشورہ کے روزے کی فرضیت ساقط کردی اور غسل جنابت نے ہر طرح کا وضو منسوخ کردیا ۔اسی طرح قربانی نے عقیقہ کا وجوب منسوخ کردیا۔فی نفسہ عقیقہ کی مشروعیت صحیح احادیث سے ثابت ہے اگر ہم یہ کہیں کہ عقیقہ کا استحباب بھی منسوخ ہے تو پھر عاشوراکے روزے کا استحباب بھی منسوخ ماننا پڑے گا۔ظاہر ہے کہ کوئی اس کا قائل نہیں ،علاوہ ازیں نسخ ثابت کرنے کے لیے منسوخ حدیث سے ناسخ کا بعد میں ہونا ضروری ہے ،اور یہاں صورت حال اس کے برعکس ہے ،کیونکہ قربانی 2ھ میں شروع ہوئی ،اور عقیقہ پر عمل 3۔4۔6،8۔9ھ میں قربانی کی مشروعیت کے بعد بھی ہوتا رہا ہے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے حضرت حسین اور حسن کا عقیقہ 3ھ اور 4ھ میں'اپنے بیٹے ابراہیم کا عقیقہ 8ھ یا 9ھ میں کیا۔اور ام کرز غزوہ حدیبیہ کے سال یعنی 6ھ میں عقیقہ کی حدیث روایت کرتی ہیں ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی سے عقیقہ کے منسوخ ہونے کی کوئی حقیقت نہیں ، بلکہ یہ بالکل غلط اور مہمل بات ہے ۔(تفصیلی حوالوں اور اقتباسات کے لیے دیکھئے اصل فارسی رسالہ ' جہاں مولاناعظیم آبادی نے تمام باتوں کے لیے ثبوت فراہم کئے ہیں) میں نے اپنے استاد مولانا بشیر الدین قنوجی سے جب اس موضوع سے متعلق سوال کیا تو انھوں جواب میں تحریر فرمایا کہ"نسخ سے متعلق امام محمد کی دلیل شاید حضرت علی کی وہ حدیث ہے جو دارقطنی وغیرہ میں موجود ہے، اگر یہ صحیح بھی مان لی جائے تو اس سے صرف وجوب عقیقہ کا نسخ ثابت ہوتا ہے اور یہ استحباب عقیقہ کے منافی نہیں ۔(اس لیے کہ اس کا استحباب (دوسری احادیث سے ثابت ہے ) جیسے کہ رمضان کے علاوہ ہر روزہ کے وجوب کے منسوخ ہونے سے عاشورا کے روزے کے استحباب کی نفی نہیں ہوتی 'اور جنابت کے علاوہ ہر غسل کے وجوب ہونے سے غسل جمعہ کے استحباب کی نفی نہیں ہوتی 'اور زکوۃ کے علاوہ ہر طرح کے صدقے کے وجوب کے منسوخ ہونے سے نفلی صدقات کے استحباب کی نفی نہیں ہوتی ۔ علاوہ ازیں بریدہ کی حدیث جو ابوداؤد میں ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقیقہ نہیں بلکہ مولود کا سر ذبیحہ کے خون سے پوتنا (جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا) منسوخ ہوا ہے۔اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قربانی کی مشروعیت 2ھ میں ہوئی ہے'اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن اور حسین کا عقیقہ 3ھ اور 4ھ میں'اور اپنے بیٹے ابراہیم کا عقیقہ 9ھ میں کیا اگر عقیقہ کاحکم منسوخ ہوگیا ہوتا تو خود آنحضرت اس پر عمل کیسے کرتے ؟ اور جس روایت میں یہ آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کو حسن اور حسین کے عقیقہ سے منع فرمایا تھا تو اس سے مقصود یہ ہے کہ ان دونوں کا عقیقہ میں نے کردیا ہے، تمہیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ عقیقہ کے بارے میں ام کرز نے ایک حدیث (جو مشکوۃ وغیرہ میں موجود ہے) حدیبیہ کے سال یعنی 6ھ میں روایت کی ہے ، حضرت ابن عمر اور دیگر صحابہ رسول اللہ ﷺ کے بعدبھی اس پر عمل کرتے رہے ۔یہ صحیح اور مرفوع احادیث ابراہیم نخعی اورمحمد بن حنفیہ جیسے دو ایک تابعی کے کہنے سے منسوخ نہیں ہوسکتیں ۔ نسخ ثابت کرنے کے لیے کوئی صحیح مرفوع حدیث ہونی چاہیے ۔یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیاجائے کہ محمد بن حنفیہ سے روایت کرنے والامجہول ہے،اور حماد بن ابی سلیمان جو ابراہیم نخعی سے روایت کرتے ہیں متکلم فیہ ہیں ۔
میرے نزدیک نسخ سے متعلق مذکورہ بالا حدیث میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکوۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کردیا ۔ گویا صدقہ فطر بھی منسوخ ہے کیونکہ صدقہ فطر کا حکم 2ھ میں زکوۃ سے قبل دیا گیا تھا '(جیسا کہ اسدالغابہ اور تاریخ الخمیس میں مذکور ہے) حالانکہ اس کا وجوب ساقط نہیں ہوا ،بلکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہمیشہ صدقہ فطر ادا کیا جاتا رہا۔اور صحابہ کرام نے بھی بربر اس کا اہتمام کیا ۔امام ابوحنیفہ بھی اس کے وجوب کے قائل ہیں ۔باقی تینوں امام اسے فرض کہتے ہیں (دیکھئے : قسطلانی شرح بخاری )
ان سطور سے حضرت علی کی مذکورہ بالارویت (جسے دارقطنی ' بیہقی 'ابن عدی اور ابن المبارک نےنقل کیا ہے ) کی حقیقت واضح ہوچکی ہوگی ' موطا امام محمد کی روایت سے متعلق اب مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہا' ابراہیم نخعی کا یہ قول کہ (عقیقہ جاہلی دور میں رائج تھا،اسلام آیا تو چھوڑدیا گیا، درست نہیں 'بلکہ صحیح احادیث کے خلاف ہے، کیونکہ بہت سی حدیثوں سے اس کی مشروعیت اسلام میں ثابت ہے، جیسا کہ شروع میں ہم لکھ آئے ہیں ۔ممکن ہے کہ امام نخعی کو عقیقہ کی حدیثیں نہ پہنچی ہوں 'اس لیے انھوں نے ایسا کہہ دیا ہو، بہ ہرحال ان کے قول سے صحیح مرفوع حدیثیں منسوخ نہیں ہوسکتیں ۔۔۔ پھر امام نخعی سے اس کی صحت بھی محتاج ثبوت ہے،(تفصیل کے لیے دیکھئے : میزان الاعتدال للذھبی ،وتہذیب التہذیب لابن حجر ' وتقریب التہذیب لابن حجر وغیرہ )
(احناف میں امام محمدیہ ظاہر استحباب عقیقہ کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ انھوں اپنی "موطا" کتاب الآثار ' اور جامع صغیر " میں تصریح فرمائی ہے ۔ مگرعلامہ ابن عابدین نے ردالمختار میں امام ابو حنفیہ اور امام ابو یوسف کی طرح امام محمد کی طرف بھی عقیقہ کے استحباب یا اباحت کا قول منسوب کیاہے ، گویا ان کے نزدیک بھی دراصل عقیقہ کا وجوب منسوخ ہے نہ کہ اس کااستحباب۔
اس صورت میں ان کی کتابوں کے اندر جو عبارتیں ہیں ان میں "وجوب" کا لفظ مقدر ماننا پڑے گا تاکہ ان کا قول دیگر علمائے احناف کے قول کے خلاف نہ پڑے۔ رسول اللہﷺ کی احادیث کے مطابق بنانے کے لیے ان کے قول کے اندر یہ تاویل کرنا مناسب ہے، ہمارے نزدیک صحیح حدیث میں تاویل کرنے کے بجائے کسی عالم کے قول میں تاویل کرنازیادہ بہتر ہے ۔واللہ اعلم بالصواب
عقیقہ کی مشروعیت کے بارے میں اس گفتگو کے بعد اب چند باتیں مولود سے متعلق دیگر احکام کے سلسلے میں ذکر کی جاتی ہیں ؎۔
(1) ولادت کے بعد مستحب ہے کہ مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے (دیکھئے : جامع صغبر للسیوطی 'الاذکار للنووی ، مرقاۃ المفاتیح للقاری وغیرہ ) بعض حدیثوں میں صرف اذان کا ذکر ہے (دیکھئے :ابوداود اور ترمذی ) لہذا اذان اور اقامت یا صرف اذان دونوں جائز ہے ، لیکن ضروری ہے کہ مولود کے کان کے سامنے کہی جائے اس طرح اس کی آواز کان میں پہنچنے ، یہ جو ہم لوگوں کے یہاں اکثر مقامات پر معمول بنا ہوا ہے کہ مولود کو مؤذن سے دور رکھتے ہیں 'اس کی کوئی اصلیت نہیں۔احادیث سے جو کچھ ثابت ہوتا ہےوہ ہم نے بلاکموکاست بیان کردیا ہے ،
(2) یہ بھی مستحب ہے کہ ولادت کے بعد کسی نیک آدمی کے ذریعہ مولود کے منہ میں تحنیک کرائی جائے ۔ یعنی کسی کھجور کو کچل کر اس کا لعاب بچے کے منہ میں دیاجائے تاکہ اس کا کچھ حصہ اس کے پیٹ میں چلاجائے ،اگر کھجور میسر نہ ہوتو کوئی بھی میٹھی چیز چبا کر منہ میں دی جائے ۔تحنیک مرد اور عورت دونوں سے کرائی جاسکتی ہے ، مگر بہتر ہے کہ کوئی عالم فاضل یانیک شخص ہو۔اگر ایسا کوئی نہ ملے تو پھر کوئی بھی یہ کام کرسکتا ہے ۔یہ بھی مستحب کہ تحنیک کے بعد وہ آدمی بچے کے لیے خیروبرکت کی دعا کرے (اس مفہوم کی حدیثوں کے لیے دیکھے :شرح صحیح مسلم للنوی ،قسطلانی شرح صحیح بخاری )
(3) مستحب ہے کہ ولادت کے ساتویں دن نام رکھ دے۔امام بخاری نے پہلے اور ساتویں دن نام رکھنے سے متعلق احادیث کےدرمیان تطبیق کی یہی صورت بیان کی ہے۔بچے کے لیے کوئی اچھانام رکھے جیسے عبداللہ،عبدالرحمن وغیرہ اور نبیوں کے نام (اس سے متعلق حدیثوں کے لیے دیکھئے :بخاری 'مسلم 'ابوداؤد،نسائی وغیرہ) ۔برانام نہ رکھے جیسا کہ ہمارے ملک میں رائج ہے کہ عبداللہ الرسول ' عبدالنبی ' بندہ علی ،سالار بخش۔مدار بخش ،پیر بخش وغیرہ نام رکھےتے ہیں ۔حیرت ہے کہ جس خدا نے اس مولود کو وجود بخشا'اور اسے ہرطرح کی نعمتوں سے نوازا، لوگ اسے بچہ پیدا ہوتے ہی بھول جاتے ہیں، اور اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے دوسروں کے گن گانے لگتے ہیں ' اور بچے کو اللہ کے بجائے کسی دوسرے کا بندہ غلام اور عطیہ بنادیتے ہیں ۔اتنا نہیں سوچتے کہ یہ صاف شرک ہے ' اور قرآن مجید میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔اللہ کے علاوہ خواہ انبیاء واولیاء ہوں یا شیاطین واصنام ۔کسی دوسرے بندہ یا غلام بننا یا بنانا صریح شرک ہے ۔اگر بالقصد ایسا نام نہیں رکھا گیا۔ تب بھی بوئے شرک سے خالی نہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن تم سب لوگوں کو تمہارے اور تمہارے باپ کے ناموں سے پکارا جائے گا ، لہذا اچھے نام رکھو (ابوداؤد) بہت سے صحابیوں کے برے نام انھوں نے اسی وجہ سے تبدیل کردیے تھے جیسا کہ تذکرہ وتاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے ۔علمائے محققین نے بھی عبدالنبی اور عبدالرسول نام رکھنے سے سخت ممانعت فرمائی ہے اور انھیں شرک بتایا ہے( دیکھئے : شاہ ولی اللہ دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ ۔ابن حجر مکی کی تحفۃ المحتاج 'ملاعلی قاری کی مرقاۃ ۔ان ہی کی شرح فقہ اکبر ' شاہ ولی اللہ کی فتح الرحمن اور البدورالبالغہ ' شاہ عبدالعزیز کی فتح العزیز' شاہ اسمعیل شہید کی تقویۃ الایمان ' منصور بن یونس کی شرح زادالمستنفع' نیز ملخص الانوار' عشرعۃ الاسلام وغیرہ) ۔علامہ بشیرالدین س قنوجی نے اپنی کتاب "الصواعق الالہیۃ لطرد الشیاطین اللہابیۃ " میں ان تمام علماء کے اقوال نقل کیے ہیں ۔اور بدایوں کے بعض مشرکوں نے شاہ اسماعیل شہید کے کلام پر جو اعتراض کیے ہیں ان کا بھی کافی وشافی جواب دیا ہے 'اور خلق خدا کو ان کے پنجہ ضلالت سے محفوظ کردیا ہے ۔ ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب