(1) فرضیت( اس بارے میں ایک روایت حضرت تمیم داری سے سنن بیہقی س 183ج اور دوسری روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنن دار قطنی ص 164 اور سنن بیہقی ص 184 ج 3 میں آئی ہیں (ع۔ح) صلوۃ جمعہ کی قصبات ودیہات میں احادیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟
(2) اور شرائط قیودات واسطے صلوۃ جمعہ جو کتب حنفیہ میں لکھی ہوئی ہیں وہ احادیث صحیحہ سے مستنبط ہیں یا نہیں؟
اور جو بعض لوگ ظہر احتیاطی بعد ادا صلوۃ جمعہ کے پڑھتے ہیں اس کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ان الحكم الالله ّ ،جواب سوال اول یہ ہے کہ صلوۃ جمعہ فرض عین ہے ۔ فرضیت اس کی نص قطعی سے ثابت ہے ۔اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ
ترجمہ : اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو جس وقت کہ پکارا جائے واسطے نماز کے دن جمعہ کے پس جلدی کرو طرف یاد خدا کے اور چھوڑ دوسودا کرنا ۔
اور سنن ابی داود ( ص 412ج 1) میں ہے ۔
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ "، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «طَارِقُ بْنُ شِهَابٍ، قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ شَيْئًا»
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نماز جمعہ فرغ عین ہے ہر مسلمان پر جماعت سے ، مگر چار آدمیوں پر ایک غلام پر' دوسرے عورت پر' تیسرے لڑکے پر ' چوتھے بیمار پر" اور ایسا ہی مسافر پر بھی فرض نہیں ۔ جیسا کہ ترمذی اور احمد نےمقسم عن ابن عباس سے مرفوعا روایت کیا ہے ۔
کہا ابوداود نے ' طارق بن شہاب نے رسو ل اللہ ﷺ کو دیکھا مگر آپ سے کچھ نہیں سنا ۔ تو یہ حدیث مرسل صحابی ہوئی ۔اور حاکم نے اس مسند روایت کیا ہے طارق بن شہاب سے انھوں نے ابو موسی اشعری سے ۔
قال العبد الضعيف ابوالطيب عفي عنه قال الخطابي في معالم السنن ليس اسناد وهذا الحديث بذلك وطارق بن شهاب لايصح له سماع من النبي صلي الله عليه وسلم الاانه قد لقي النبي صلي الله عليه وسلم انتهي قال العراقي فاذا قد ثبتت صحبته فالحديث صحيح وغايته ان يكون مرسل صحابي وهو حجة عندالجمهور وانما خالف فيه ابو اسحق الاسفر ايني بل في الاصابة س في تمييز الصحابة (ص ٢٨١ ج٣) اذا ثبت انه لقي النبي صلي الله عليه وسلم فهو صحابي علي الراحج واذا ثبت انه لم يسمع منه فروايته عنه مرسل صحابي وهو مقبول علي الراحج وقد اخرج له النسائي عدة احاديث وذلك مصرفه الي اثبات صحبته واخرج له ابوداود حديثا واحدا وقال طارق راي النبي صلي الله عليه وسلم ولم يسمع منه شيئا وقال ابوداود الطيالوسي حدثنا شعبة عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب قال رايت النبي صلي الله عليه وسلم وغزوت في خلافة ابي بكر وهذا اسناد صحيح و اخرج البغوي من طريق شعبة عن قيس بن مسلم عن طارق قال رايت النبي صلي الله عليه وسلم الحديث انتهي (ملحضا)
وقال العلامة الزيلعي في تخريج احاديث الهداية ( ص ١٩٩ج ٢) قال النووي في الخلاصة قال ابو داود طارق راي النبي صلي الله عليه وسلم ولم يسمع منه وهذا غير قادح في صحبته فائه يكون مرسل صحابي وهو حجة والحديث علي شرط الصحيحين ورواه الحاكم في المستدرك (ص ٢٨٨ ج١) عن هريم بن سفيان به عن طارق بن شهاب عن ابي موسي مرفوعا وقال هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه وقد احتجابهريم بن سفيان ورواه ابن عيينه عن ابراهيم بن محمد فلم يذكر فيه يذكر فيه ابا موسي وطارق بن شهاب يعد في الصحابه انتهي قال البيهقي رح في سننه (ص ١٨٣ج٣) هذا الحديث وان كان فيه ارسال فهو مرسل جد وطارق من كبار التابعين وممن راي النبي صلي الله عليه وسلم وان لم يسمع عنه ولحديثه شواهد انتهي واخرج البيهقي من طريق الامام محمد بن اسماعيل البخاري من رواية تميم الداري عن النبي صلي الله عليه وسلم الجمعة واجبة الاعلي صبي او مملوك او مسافر ورواه الطبراني في معجمه وزاد ديه المراة والمريض واخرج البيهقي (ص ١٨٤ج٣) عن ابن عمر قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم الجمعة واجبة الا علي ماملكت ايمانكم او علي ذي علة انتهي كلام الزيلعي وقال الحافظ فتح الباري شرح صحيح البخاري عند ابي داود من طريق طارق بن شهاب عن النبي صلي الله عليه وسلم ورجاله ثقالت لكن قال ابوداود ولم يسمع طارق من النبي صلي الله عليه وسلم الاانه راه قد اخرجه الحاكم في المستدرك من طريق طارق عن ابي موسي الاشعري انتهي ّ قال الشوكاني في النيل وقد اندفع الاعلال بالارسال بما رواية الحاكم من ذكر ابي موسي انتهي
پس ان عبارتوں سے صاف ظاہر ہوا کہ حدیث طارق بن چہاب کی صحیح اسنا د ہے ۔اب کوئی محل گفتگو باقی نہ رہا ۔ اور صحیح نسائی میں ہے
، عَنْ حَفْصَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رَوَاحُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِم رواہ النسائی ورجال اسنادہ رجال الصحیح الاعیاش بن عیاش وقد وثقہ اعجلی۔
صحیح نسائی میں باسناد صحیح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کی نماز کے لیے جانا فرض ہے ہر مرد جوان پر۔
ويويد ايضا مااخرجه الدار قطني (ص ١٦٤) والبههقي (ص ١٨٤ ج ٣) من حديث جابر من كان يومن بالله واليوم الاخر فعليه الجمعة الا امراة او مسافرا او عبدا او مريضا وفي اسناده ابن لهيعة ومعاذ بن محمد الانصاري وهما ضعيفان لكن يكفي للاستثهادّ
پس آیت کریمہ اور ان احادیث مرقومہ بالا سے صاف معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کی فرض عین ہے ۔ ہر مرد مسلمان صحیح حر( آزاد) بالغ مقیم پر ۔ خواہ شہر میں ہو خواہ دیہات میں ۔اور اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ہرگز یہ ارساد نہیں فرمایا کہ شہروں میں نماز جمعہ ادا کرو اور گاؤں میں نہ پڑھو۔ بلکہ جمعہ کی فرضیر آیت اور حدیث سے مطلق ثابت ہے ۔ اس میں شہر کی کوئی قید نہیں ہے پھر شہر کی قید بڑھانا زیادتی کتاب اللہ تعالیٰ پر اور نزدیک حنفیوں کے وہ جائز نہیں ہے مگر حدیث مشہور سے ' جیسا کہ بیان مفصل اس میں آگے اتا ہے۔پس جب فرضیت اس کی علمی العموم ثابت ہوئی اور شہر اور دیہات ہر جگہوں میں پھر جو شخص باوجود ثبوت فرضیت کےدیہات میں جمعہ ادا نہ کرے ۔اس کی شان میں یہ وعید شدید وارد ہوئی ہے ۔
عن ابي الجعد الضمري وكانت له صحبة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال من ترك ثلاث جمع تهاونا بها طبع الله علي قلبه رواه ابوداود والترمذي والنسائي
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ۔ جو شخص تین جمعے چھوڑدے گا ، سستی سے مہر کردے گا اللہ تعالیٰ اس کے دل پر۔
وَعن ابی هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ، أَنَّهُمَا سَمِعَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ: «لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ» رواه مسلم ورواه احمد والنسائي من حديث ابن عمر وابن عباس ّ
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ منبر پر فرماتے تھے کہ باز آئیں لوگ نماز جمعہ کے چھوڑینے سے یا مہر کردے گا اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر ' پھر ہوجائیں گے وہ غافلوں سے ۔
عَنْ ابن مسعود، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِقَوْمٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلَى رِجَالٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ بُيُوتَهُمْ رواہ احمد ومسلم
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کی شان میں جو کہ نماز جمعہ میں حاضر نہیں ہوتے البتہ ارادہ کیا میں نے اس بات کا کہ حکم کروں ایک شخص کو کہ پڑھائے لوگوں کو نماز ' پھر جلادوں گھر ان لوگوں کے جو کہ جمعہ میں حاضر نہیں ہوتے ۔
وعن عبدالله ابن ابي او في قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من سمع النداء ولم ياتها ثلاثا طبع علي قلبه فجعله قلب منافق رواه الطبراني في الكبير قال العراقي اسناده جيد
یعنی جس نے جمعہ کی نماز تین مرتبہ ناغہ کی مہر کردی جائے گی اس کے دل پر پس دل اس کا مثل دل منافق کے ہوجائے گا اوران کے سوا بہت ساری احادیث تارکین صلوۃ جمعہ کے بارے میں وارد ہیں ۔اکثر ان احادیث کو حافظ عبدالعظیم منذری ؒ نے کتاب الترغیب والترہیب میں نقل کیا ہے ۔ پس مسلمانوں کو لازم ہے کہ صلوۃ جمعہ کو شعائر اسلام سمجھ کر اس کے ادا میں غفلت وسستی نہ کریں ۔اور وہ لوگ خواہ شہروں میں ہوں یا دیہات میں ۔ فرضیت اس کی ان کے گلے سے اترتی نہیں جس جگہ پر ہوں صلوۃ جمعہ کو جماعت سے ادا کریں ۔ ورنہ مہر شقاوت ان کے دلوں پر لگادی جائے گی اور دل ان کا مثل منافق کے ہوجائے گا۔
اب یہ معلوم کرنا چاہیے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں نماز جمعہ گاؤں میں پڑھی گئی تھی یا نہیں۔ پس جاننا چاہیے کہ ابو داود وابن ماجہ نے روایت کیا ہے
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ قَائِدَ أَبِيهِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ بَصَرُهُ، عَنْ أَبِيهِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ [ص:281] النِّدَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ تَرَحَّمَ لِأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِذَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ تَرَحَّمْتَ لِأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَ: " لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ جَمَّعَ بِنَا فِي هَزْمِ النَّبِيتِ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ فِي نَقِيعٍ، يُقَالُ لَهُ: نَقِيعُ الْخَضَمَاتِ "، قُلْتُ: كَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: «أَرْبَعُونَ» رجلا رواه ابوداود ابن ماجه وقال فيه كان اول من صلي بنا قبل مقدم النبي صلي الله عليه وسلم من مكة
ترجمہ: کعب ابن مالک جب جمعہ کے دن اذان سنتے تو اسعد بن زرارہ کے واسطے دعا مانگتے ۔ان کے بیٹے نے کہا 'کیا وجہ ہے کہ جب تم اذا ن سنتے ہو تو اسعد بن زارہ کے واسطے دعا مانگتے ہو۔انھوں نے کہا ۔اس واسطے کہ پہلے جمعہ انھوں نے قائم کیا ۔ ہزم النبیت میں جو ایک موضع ہے مدینہ میں بنی بیاضہ کے زمینوں میں سے نقیع میں ۔ نقیع وہمقام ہے جہاں پانی بھرا رہتا ہے جس کا نام نقیع الخضمات تھا۔
قال في النيل وحديث عبدالرحمن بن كعب اخرجه ايضا ابن حبان والبيهقي وصححه وقال الحافظ واسناده حسن وهزم النبيت موضع من حرة بني بياضة وهي قرية علي ميل من المدينة وبنو بياضة بطن من الانصار انتغي وقال الحافظ ابن الملقن في البدر المنير ان كان في اسناده محمد بن اسحاق فقد ذكر سماعه له ففي غير سنن ابي داود حدثني قال البيهقي وابن اسحاق اذا ذكر سماعه وكان الراوي عنه ثقة استقام الاسناد قا ل في سننه وهذاحديث احسن الاسناد صحٰح وقال في خلافيات رواته كلهم ثقات وقال الحاكم صحيحعلي شرط مسلم انتهي
اور کہا زیلعی نے ( نصب الراية ص١٩٨ج٢) وفيه محمد بن اسحاق وهو مدلس وقد عنعن لكن رواه البيهقي فصرح فيه بالتحديث قال البيهقي (ص ١٧٧ ج٣) وهذا حديث حسن الاسناد صحيح فان ابن اسحاق اذا ذكر سماعه وكان الراوي عنه ثقة استقام الاسناد
اور روایت کیا ہے امام بخاری (صحیح بخاری میں ) اور ابوداود (سنن ابی داود ص 13ج1)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي الْإِسْلَامِ بَعْدَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، لَجُمُعَةٌ جُمِّعَتْ بِجَوْثَاءَ، قَرْيَةٌ مِنْ قُرَى الْبَحْرَيْنِ»، قَالَ عُثْمَانُ: قَرْيَةٌ مِنْ قُرَى عَبْدِ الْقَيْسِ
ترجمہ : عبداللہ بن عباس سے روایت ہے پہلا جمعہ جو پڑھا گیا اسلام میں بعد اس جمعہ کے جو مسجد نبوی میں وہ جمعہ ہے جو پڑھایا گیا اسلام میں بعد اس جمعہ کے جو مسجد نبوی میں وہ جمعہ ہے جو پڑھاگیا جو اثامیں ۔جواثا ایک گاؤں سے بحرین کے گاؤں میں سے ۔ عثمان نے کہا ۔ وہ گاؤں ہے عبدالقیس کے گاؤں میں سے ،کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ص 486 ج1) میں
قوله بجواثي من البحرين وفي رواية وكيع قريه من قري البحرين وفي اخري عنه من قري عبدالقيس لم يجمعوا الابامر النبي صلي الله عليه وسلم لما عرف من عادة الصحابة من عدم الاستبداد بالامور الشرعية في زمن نزول الوحي ّولانه لوكان ذلك لايجوز لنزل فيه القرآن كم استدل جابر وابو سعيد علي جواز العزل فانهم فعلوه والقرآن ينزل فلم جينهوا عنه وحكي ابن التين عن ابي الحسن اللخمي انها مدينه وما ثابت في نفس الحديث من كونها قرية صحيح مع الاحتمال ان تكون في الاول قرية ثم صارت مدينة انتهي
وقال الحافظ ايضا في الفتح (ص ٤٧٣ ج١) روي عبدالرزاق باسناد صحيح عن محمد بن سيرين قال جمع اهل المدينة قبل ان تنزل الجمعة فقالت الانصار ان لليهود يوما يجتمعون فيه كل سبعة ايام وللنصاري كذلك فهلم فلنجعل يوما نجتمع فيه فتذكر الله تعاليٰ ونصلي ونشكر ه فجعلوه يوم ا لعروبة واجتمعوا الي اسدين زراة فصلي بهم يومئذ وانزل الله تعاليٰ بعد ذلك اذا نودي للصلوة من يوم الجمعة الاية وهذا ان كا ن مرسلا فله شاهدا باسناد حسن اخرجه س احمد وابوداود ابن ماجه وصححه ابن خزيمة وغير واحد من حديث كعب بن مالك قال كان اول من صلي بنا الجمعة قبل مقدم رسول الله صلي الله عليه وسلم المدينة اسعد بن زرارة الحديث فمرسل ابن سيرين يدل علي ان اولئك الصحابة اختار واليوم الجمعة بالاجتهاد ولايمنع ذلك ان يكون النبي صلي الله عليه وسلم بالوحي وهو مكة فلم يتمكن من اقامتها ثم فقدرو فيه حديث عن ابن عباس رضي الله عنه عند دارقطني ولذلك جمع لهم اول ماقدم المدينة كما حكاه ابناسحاق وغيره انتهي كلامه
وقال الحافظ ابن حجر في التخليص الحبير (ص١٣٣) س روي الطبراني في الكبير والاوسط عن ابي مسعود الانصاري قال ممن قدم من المهاجرين المدينة مصعب بن عمير وهو اول من جمع بها يوم الجمعة جمعهم قبل ايقدم رسول الله صلي الله عليه وسلم وهم اثنا عشر رجلا وفي اسناده صالح بن ابي الاخضر وهو ضعيف ويجمع بان اسعد كان امرا وكان مصعب اماما وروي عبد بن حميد في تفسير عن ابن سيرين قال جمع اهل المدينة قبل ان يقدم النبي صلي الله عليه وسلم وقبل ان تنزل الجمعة قالت الانصار لليهود يوم يجمعون فيه كل سبعة ايام فذكر مثل ماتقدم وروي الدار قطني من طريق المغيرة بن عبدالرحمن عن مالك عن الزهري عن عبيدالله عن ابن عباس قال اذن س النبي صلي الله عليه وسلم الجمعة ان يهاجرولم يستطيع ان يجمع بمكة فكتب الي مصعب بن عمير رضي الله عنه اما بعد فانظر اليوم الذي تجهر فيه اليهود بالزبور فاجمعوا نساؤكم وابنائكم فاذا مال النهنا ر عن شطره عند الزوال من يوم الجمعة فتقربوا الي الله بركعتين قال فهواول من جمع حتي قدم لنبي صلي الله عليه وسلم المدينة فجمع عند الزوال من الظهر واظهر ذلك انتهي كلامه وقال الامام البيهقي في معروفة السنن والآثار وروينا عن معاذ بن موسي بن عقبة ومحمد بن اسحاق ان النبي صلي الله عليه وسلم حين ركب من بني عمر وبن عوف في هجرته الي المدينة مر علي بني سالم وهي قرية بين قباء والمدينة فادركته الجمعة فصلي فيهم الجمعة وكانت اول جمعة ملاها رسول الله صلي الله عليه وسلم حين قدم انتهي (عون المعبود ص ٤١٥ج ١) وفيه ايضاعن ابي حمزة عن ابن عباس قال ان اول جمعة جمعت في الاسلام بعد جمعة جمعت في مسجد رسول الله صلي الله عليه وسلم بالمدينة لجمعة جمعت بجوانا قرية من قري البحرين قال عثمان قرية من قري البحرين قال عثمان قرية من قري عبدالقيس اخرجه البخاري في الصحيح وكانوا لايستبدون بامور الشرع لجميل نياتهم في الاسلام فالاشبه انهولم يقيموا في هذه القريه الا بامر النبي صلي الله عليه وسلم انتهي كلام البيهقي رحمه الله تعاليٰ –عون ص ٤’٤ ج١)
ان روایات مذکورہ بالا سے بخوبی واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺکے زمانہ مبارک میں چار مرتبہ متعدد گاؤں میں نماز جمعہ کی پڑھی گئی
اول: ہزم النبیت میں جو ایک گاؤں مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے ۔وہاں حضرت اسعد بن زارہ نے ہمراہ جماعت سحابہ رضی اللہ عنہ کے نماز جمعہ کی پڑھی۔
دوسرے جواثی جو ایک گاؤں ہے بحرین میں ،وہاں صحابہ نے جمعہ پڑھا ۔
تیسرے قبل ہجرت فرمانے رسول اللہ ﷺ کے طرف مدینہ کے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ بھی ایک گاؤں ہی کے حکم میں تھا۔البتہ بعد از ہجرت آبادی اس کی بہت بڑھ گئی ۔ صحیح بخاری کے باب فضل المدینہ میں ہے۔
عن ابی أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ القُرَى، يَقُولُونَ يَثْرِبُ، وَهِيَ المَدِينَةُ
چوتھے رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو بنی سالم میں جو ایک گاؤں ہے' درمیان قبا اور مدینہ کے ،وہاں نماز جمعہ ادا فرمائی ۔
جواب سوال دوم کا یہ ہے کہ شرائط وقیودات واسطے صحت صلوۃ جمعہ کے جو کتب حنفیہ میں مذکور ہیں ،اس کا اثر ونشان احادیث صحیحہ مرفوعہ سے پایا نہیں جاتا اسی واسطے علامہ (شوکانی) یمانی نے کتاب السیل الجرار المتدفق علی حدائق الازہار میں لکھا ہے
عن أن يصح فيه شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ومن طول المقال في هذا المقام فلم يأت بطائل قط ولا يستحق ما لا أصل له أن نشتغل برده بل يكفي فيه أن يقال هذا كلام ليس من الشريعة وكل ما ليس هو منها فهو رد أي مردود على قائله مضروب في وجهه.
قوله: "وثلاثة مع مقيمها".
أقول: هذا الاشتراط لهذا العدد لا دليل عليه قط وهكذا اشتراط ما فوقه من الأعداد.ماالاستدلال باطل لايتمسك به من يعرف كيفسه الاستدلا ل ولو كان هذا صحيحا لكان هذا صحيحا لكان اجتماع المسلمين معه صلي الله عليه وسلم في سائر الصلوة دليلا علي الاشتراط العدد والحاصل ان صلوة الجمعة قد صحت لواحد مع الامام وصلوة الجمعة هي صلوة من الصلوت فمن الشترط فيها زيادة علي ما ينعقد فيه الجماعة فعليه السليل ولادليل وقد عرفنا غير مرة ان الشروط انما تثبت بادله خاصه تدل بما ليس بدليل اسلا فضلا يكون دليلا علي الشرطيه هي مجازفة بالغة وجراة علي التقول علي الله عزوجل وعلي رسوله وعلي شريعته والعجب من كثرة الاقوال في تقدير العدد حتي بلغت الي ستة عشر قولا ليس علي شئي منها دليل يستدل به قط قوله ومسجد في مستوطن اقول وهذا الشرط ايضا لم يدل عليه دليل يصح للتمسك به لمجردالاستحباب فضلا عن الشريطة ولقد كثر التلاعب بهذه العبادة حتي وصل الي حديفني منه العجب والحق ان هذه الجمعة فريضة من فرائض الله سبحانه وتعاليٰ وشعار من شعارات الاسلام و صلوت من الصلوات فمن زعم انه يعتبر فيها مالا يعتبر في غيرها من الصلوت لم يسمع منه ذلك الامجرد موعظة يتواعظ به عبادالله فاذا لم يكن في المكان الارجلان قام احدهما يخطب واستمع له الاخر ثم قاما فصليا صلوة الجمعة س انتهي كلامه بحروف
مگر حنفیوں کا دعوی ہے کہ ماخذ ان شرائط وقیودات کا وہ اثر ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے
لاتشريق ولاجمعة ولافطر ولااضحي الا في مصرجامع ّ
لیکن معلوم کرنا چاہیے کہ یہ قول حدیث مرفوع نہیں ہے۔ جیسا کہ فرمایا امام بیہقی نے معرفۃ الاسلام والآثار میں
قال الشافعي في القديم وقال بعض الناس لاتجوز الجمعة الا في مصر جامع وذكر فيه شيئا ضعيفا قال احمد انما يروي هذا عن علي فاما النبي صلي الله عليه وسلم فانه لايروي عنه في ذلك شئي انتهي
اور تخریج زیلعی میں ہے ۔
قلت غريب مرفوعا وانما وجدنا ه موقوفا علي علي
اور کہا حافظ نے تلخیص میں۔
حديث علي لاجمعة ولاتشريق الا في مصر ضعفه احمد
اور كہا ورایہ تخریج احادیث ہدایہ (ص 131) میں
قال البيهقي لايروي عن النبي صلي الله عليه وسلم في ذلك شئي انتهي
بلکہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ روایت کیا اس کو عبدالرزاق نے مصنف میں ۔
اخبرنا معمر ع ن ابي اسحاق عن الحارث عن قال لا جمعة ولاتشريق الا في مصرجامع ورواه ابن ابي شيبة حدثنا عباد بن العوام عن جهاد عن ابي اسحاق عن الحارث عن علي قال جمعة ولا تشريق ولاصلوة فطر ولا اضحي الا في مصرجا مع او مدينة عظيمة انتهي والحديثان ضعيفان ّالحارث الاعور ضعيف جداور واه عبدالرزاق ايضا انبا الثوري عن زبيده الايامي عن سعد بن عبيدة عن ابي عبدالرحمن سلمي عن علي قال لاتشريق ولاجمعة الاني مصر جامع قال في الدراية (ص ١٣١) اسناده صحيح وقال البهيقي في المعرفة اخبرنا علي بن احمد بن عبدان قال حدثنا شعبة عن زبيد الايامي عن سعد ابن عبادة عن ابي عبدالرحمن السلمي عن علي قال لاتشريق ولاجمعة الا في مصر جامع وكذلك رواه الشوري عن زبيد موقوفا انتهي واخر ج ابن ابي شيبة حدثنا جرير عن منصور عن طلحه بن سعد عن عبيدة بن عبدالرحمن عن علي جمعة ولاتشريق الحديث قال العيني في شرح البخاري سنده صحيح ّ
جواب اس کا یہ ہے کہ اس قول کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ پس جب رسول اللہ ﷺ کا نہیں ہوا۔ پس یہ اثر بمقابل آیت قرآن وحدیث مرفوع الجمعة حق واجب علي كل مسلم کے حجت نہیں ہے ۔البتہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بچند طرق مروی ہے ۔ بعض سند اس کی ضعیف وبعض صحیح ہے ۔ جیسا کہ بیان اس کا مفصلا گزرا اور پھر بعد صحت سند یہ معلوم نہیں ہے کہ جامع کی تفسیر کیا ہے ۔ اسی واسطے کہا امام شا فعی نے ۔
ولاندري ماحد المصر الجامع اخرجه البهيقي في المعرفة اور جو شیخ ابن الہام نے فتح القدیر میں وكفي بعلي قدوة واماما وہ قابل تسلیم نہیں ہے ۔لانه للاجتهاد فيه مسرح فلا ينهض للاحتجاج به ّ اور تعجب سخت ومقام حیرت ہے کہ ائمہ احناف کی تمامی کتب الاصول مالامال ہے اس بات سے کہ خبر احاہ سے تخصیص نص قرآن شریف کی نہیں ہوتی ہے ۔اور زیادتی قرآن پر خبر آحاد سے جائز نہیں ۔جیسا کہ تلویح میں ہے ۔
وانما يرد خبر الواحد في معارضة الكتاب لان الكتاب مقدم لكونه قطيعا متواتر النظم لا شهبة في متنة ولاسند انتهي
اور بھی تلویح میں ہے ۔
لايجوز تخصيص الكتاب بخير الواحد لان خبر الواحد دون الكتاب لاند ظني والكتاب قطعي فلايجوز تخصيصه لان تفسير و تفسير الشئي لايكون الابما يسا ويه او يكون فوقه انتهي
اور اصول الشافعي میں ہے ۔
شرط العمل بخبر الواحد ان لايكون مخالفا للكتاب والسنة المشهورة انتهي ّ
اور نورالانوار میں ہے ۔
ونسخ وصف في الحكم بان ينسخ عمومه واطلاقس ويبقي اصله وذلك مثل الزيادة علي النص فانها نسخ عندنا ولايجوز عندنا الا بالخبر المتواتر والمشهور انتهي
چناںچہ بنا بر اسی اصول مقررہ کے کتنی احادیث صحیحہ مرفوعہ رد کی گئی ہیں۔ اور پھر باوجود اس شدت کے یہ ایک اثر جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا مروی ہے ۔اور خبر مرفوع آحاد کے درجہ میں بھی نہیں ہے ۔ا س ؎سے نص قرآن پر زیادتی اور اس کی تخصیص کی جاتی ہے ۔اوراس سےنص قرآن پر زیادتی اور اس کی تخصیص کی جاتی ہے ۔اور اس کے حکم عام کا یہ اثرنا سخ ٹھہرجاتا ہے ۔ یعنی نص قرآن میں حکم مطلق ہے واسطے صلوۃ جمعہ کے شہر وقصبات ودییہات ہر جگہوں میں۔ س پھر اس حکم مطلق پر یہ زیادتی کرنا کہ دیہات میں صلوۃ جمعہ جائز نہیں۔ اور عموم حکم قرآن کا ناسخ ٹھہرانا بالکل مخالف ہے ان کے اس اصول مقررہ کے وعلی کل حال یہ اثر موقوف قابل احتجاج نہیں۔ کیوں کہ اثر موقوف کو قوت معارضہ خبر مرفوع کے نہیں اور علاوہ اس کے دوسرے اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہ سے مثل حضرت عمر وعثمان وابن عمر وابوہریرہ رضوان اللہ اجمعین کے خلاف اس اثر کے ثابت ہے ۔ یعنی ان صحابہ نے دیہات میں جمعہ پڑھنے کی اجازت دی ہے ۔اور ان کے زمانہ میں گاؤں میں جمعہ پڑھا گیا جیساکہ صحیح ابن خزیمہ میں مروی ہے ۔اور بیہقی نے کتاب المعرفۃ میں صحیح ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے ۔
قال البيهقي روي محمد بن اسحاق نم خزيمه عن علي بن خشرم عن عيسي بن يونس عن شعبد عن عطاء بن ابي ميمونه عن ابي رافع ان ابا هريره كتب الي عمر يسئله عن الجمعة وهو بالبحرين فكتب اليهم ان جمعوا حيث ماكنتم قال البيهقي معناه اي قرية كنتم فيها لان مقامهم من البحرين انما كان في القري قال احمد (يعني البيهقي ) وهذا اثر اسناده حسن انتهي
اور بھی کتاب المعرفہ میں ہے
وحكي الليث بن سعد ان اهل الاسكندر ية ومدائن مصر وسواحلها كانوا يجمعون علي عهد عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان بامرها وفيها رجال من الصحابة انتهي
اور فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے ۔
وعن عمرانه كتب الي اهل البحرين ان جمعوا حيث ماكنتم وهذا يشمل المدن والقري اخرجه ابن ابي شيبه من طريق ابي رافع عن ابي هريرة عن عمر وصحه ابن خزيمه وروي البيهقي من طريق الوليد بن مسلم سالت الليث بن سعد فقال كل مدينة او قرية فيها جماعة امروا بالجمعة فان اهل مصر وساحلها كانوا يجمعون علي عهد عمر وعثمان بامرهما وفيها رجال من الصحابة وعنه عبدالرزاق باسناد صحيح عن ابن عمر انه كان يري اهل المياه بين مكة يجمعون فلايغتب عليهم فلما اختلف الصحابه وجب الرجوع الي المرفوع انتهي كلام الحافظ
اور تخلیص الجبییر میں ہے
قال ابن المنذر في الاوسط روينا عن ابن عمر انه كان يري اهل المياه بين مكة والمدينه يجمعون ولايعيب ذالك عليهم ثم ساقه موصؤلاوروي سعيد بن منصور عن ابي هريرة ان عمر كتب اليهم ان جمعوا حيث ماكنتم انتهي
پس یہ آثار حضرت عمر وعثمان وابن عمر وابوہریرہ رضوان اللہ اجمعین کے مطابق حکم مطلق قرآن وحدیث مرفوع کے ہیں ۔ تو اب اسی پر عمل واجب ولازم ہے
قال اللہ تعالیٰ "لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب ) وقال "َّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ (النساء)
اورعلاوہ اس کے ائمہ احناف نے مصر جامع کی بناء برمسلک کرخی کے جو تفسیر کی ہے م کہ وہ شہر ایسا ہو جہاں حاکم وقاضی رہتا ہو۔اور اس کے سبب اقامت حدود وگیرہ جاری ہو جیسا کہ ہدایہ میں ہے ۔
وجامع الجامع كل موضع له امير وقاض ينفذ الاحكام ويقيم الحدود وهذا عن ابي يوسف وعنه انهم اذااجتمعوا في اكبر مساجدهم لم يسمعهم والاول اختيار الكرخي وهو الظاهر والثاني اختيار البلخي ّ
اور بعضوں نے یوں تفسیر کی کہ وہ ایسا شہر ہو کہ جہاں بازاریں ودکانیں ہوں اور حاکم بھی رہتا ہو ۔ کہ جس سے انصاف درمیان ظالم ومظلوم ہوتا ہو ، جیسا کہ فتح القدیر میں ہے
بلدة فيها سكك واسواق ووال يتنصف المظلوم من الظالم وعالم يرجع اليه في الحوادث ّ
تو ان دونوں تفسیر کے جو بنابر مسلک کرخی کے ہے ۔اس کی کچھ اصلیت کتاب وسنت سے معلوم نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ منقول نہیں کہ صحابہ وتابعین نے زما نہ امارت یزیدین معاویہ میں نماز جمعہ ترک کیا ہو باوجود اس کے کہ ظلم( یہ ابت مولانا نے یزید کے متعلق عام شہرت کی بنا پر کی ہے بغرض الزام نہ کہ بربنائے تحقق فتدبر (ع۔ح) یزید بن معاویہ کا اظہر من الشمس تھا اور ہزاروں خون ناحق اس نے کیے ۔اور پھر انصاف ظالم ومظلوم سے اس کو کیا علاقہ بلکہ بعد وفات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے امارۃ بنی امیہ میں حدود میں نہایت سستی ہوگئی ،اور انصاف ظالم ومظلوم کا بالکل مفقود ہوگیا ،ہاں البتہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت اور بعض عباسیہ کی امارت میں اقامت حدود وغیرہ تھی ، پھر اس کے ساتھ بھی کہیں یہ منقول نہیں کہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین نے نماز جمعہ ترک کیا ہو۔ ورنہ ترک کیا ہو ۔ ورنہ ترک کرنا ان لوگوں کا ضرور منقول ہوتا ، دیکھو مولانا عبدالحئی (بحر العلوم ) لکھنوی نے ارکان اربعہ میں یوں لکھا ہے۔
اختلف الروايات في مذهبنا ففي ظاهر الروايات بلدة بها امام وقاض يصلح لاقامة الحدود وفي فتح القدير بلدة فيها سلك واسواق ووال يتنصف المظلوم من الظالم وعالم يرجع اليه في الحوادث وهذا اخص وحملوا قول امير المومنين علي ما رواه عبدالرزاق لاتشريق ولاجمعة وعلي التفسير الثاني لاتجب فيه الجمعة وعلي التفسير الثاني لاتجب في المصر الذي واليه ظالم لايتنصف المظلوم من الظالم ويرد هذين الروايتين ان الصحابة والتابعين المظلوم من الظالم ويرد هذين الروايتين ان الصحابة والتابعين لم يتركوا الجمعة في زمان يزيد مع انه كان من اشد الناس ظلما لانه هتك حرمة اهل البيت وبقي مصرا عليه وقت الا كان هو بصددالظالم فبعيد منه ك البعد فانهم وان شرط اقامة الحدود وانتصاف المظلوم من الظالم ينفي وجوب الجمعة مع انها من شعائر الاسلام ونحن نقول قد وقع التهاون اقامة الحدود وانتصاف المظلوم من الظالم في امارة بني امية بعد وفاة معاويه الافي زمان عمر بن عبدالعزيز وفي امارة بعض العباسيه ولم يترك الجمعة احد من الصحابة والتابعين ومن تبعهم فعلم انهما ليس بشرطين انتهي ّ
اورعلاوہ اس کے اسعد بن زرارہ نے قبل قدوم (تشریف لانے) رسول اللہﷺ کے نماز جمعہ جو ہزم النبیت میں ہمراہ جماعت صحابہ ادا کیا۔اور پھر رسول اللہ ﷺ نے وقت قدوم مدینہ منورہ بعد خروج از قبا کے صلوۃ جمعہ کو جو بنی سالم میں ادا فرمایا ۔یہ دونوں واقعے مبطل اس مسلک کے کرخی کے ہیں کیونکہ مدینہ منورہ قبل از قدوم اور بھی ابتداء زمانہ قدوم رسول اللہ ﷺ میں دار اقامت حدود تنقید احکام مطابق مسلک کرخی کے ہرگز نہیں تھا۔ جیسا کہ کتب احادیث وسیر سے واضح وظاہر ہے اور تفصیل اس امر کی کتاب النور اللامع فی اخبار صلوۃ الجمعۃ عن النبی الشافع میں انشاء اللہ لکھی جائے گی ۔ ونقي الله تعاليٰ لاتمامك كما وفقني لابندائه وماذلك علي الله بعزيز ّ
اور منجملہ شرائط صحت جمعہ نزدیک ائمہ احناف کے اذن سلطان بھی ہے ۔ اور اس کی بھی کوئی اصلیت نہیں معلوم ہوتی ہے ۔ بلکہ حضرت عثمان اپنے زمانہ فتنہ میں چالیس دن محصور رہے ۔اور وہ یقینا امام حق تھے۔بایں ہمی حضرت علی وطلحہ وایوب وسہل بن ضنیف وابو امامہ رضوان اللہ اجمعین وغیرہ ہم نماز عیدین وغیرہ پڑھاتے رہے ۔اور ازن طلب کرنا ان لوگوں کا حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ سے منقول نہیں ۔ جیسا کہ امام مالک میں ہے
مالك عن ابن شهاب عن ابي سعيد مولي بن ازهر قال شهدت العيد مو علي بن ابي طالب وعثمان محصور فجاء فصلي ثم انصرف فخطب انتهي وهكذا اخرجه الشافعي وابن حبان وقال الرافعي في شرح الوجيزروي ان عليا اقسام الجمعة وعثمان محصور قال الحافظ ابن حجر في التخليص وكان الرافع اخذه بالقياس لان من اقام العيد لاييعد ان يقيم الجمعة فقد ذكر سيف في الفتوح ان مدة الحصار كانت اربعين يوما لكن قال كان يصلي بهم تارة طلحة وتار ة عبدالرحمن بن عديس وتارة غيرها انتهي
اور زرقانی شرح موطا میں ہے ۔
قال ابو عمر اذا كان من السنة ان تقام صلوة العيد بالامام فالجمعة اولي وبه قال مالك والشافعي قال مالك والشافعي قال مالك لله في ارضه فرائض لايسقطها موت الوالي ومنع ذالك ابو حنيفة كالحدود لايقيمها الاالسلطان وقد صلي بالناس في حصر عثمان طلحة وابو ايوب وسهل بن حنيف وابو امامة بن سهل وغيرهم وصلي بهم علي صلوة العيد فقط انتهي /
اور كہا شیخ سلام اللہ ؒ نے محلی شرح موطا میں
قال ابوعبيد ثم شهدت العيد اي الاضحي مع علي بن ابي طالب وعثمان محصور في داره ايام الفتنة وروي انه يوم الناس ايضا في ايام المحاصرة كناية من رؤس البغاة وقد يؤمهم طلحة واحيانا سهل من حنيف انتهي
اور ارکان اربعہ میں ہے۔
ومنها السلطان اوامرة باقامة الجمعة عندالحنيفة خاصة لاعند الشافعيه فانهم يقولون اذا اجتمع مسلموا بلدة وقدموا اماما وصلوا الجمعة خلفه جازت الجمعة والمامور من قبل السلطان افضل ولم اطلع علي دليل يفيد اشتراط امر السلطان وما في الهداية لانها تقدم واحد كما ان رتبة السلطان بظلبها كل احد من الناس فعسي ان تقع المنازعة تندفع باجماع المسلمين علي تقديم واحدكما ان رتبة السلطان يطلبها كل احد من الناس فعسي ان تقع المنازعة فلايصح نصب السلطان لكن تندفع هذه المنازعة باجماع المسلمين علي تقديم واحد فكذا حزا وكما في جماعة الصلوة عسي ان تقع المنازعة في تقيم رجل لكن تندفع باجماع المصلين فكذا في الجمعة ّثم الصحابة اقاموا الجمعة في زمان فتنة بلوي امير المومنين عثمان وكان هواماما حقا محصور اولم يعلم الهم طلبوا الاذن في اقامة الجمعة بل الظاهر عدم الاذن لان هؤلاء الا شقياء من اصحاب الشريم لم يرخصوا اذلك فعلم ان اقامة الجمعة غير مشروطة عندهم بالاذن انتهي
اور ائمہ احناف اوپر اشتراط سلطان کے جو روایت ابن ماجہ کی پیش کرتے ہیں
حدثنا محمد بن عبدالله بن نمير حدثنا الوليد بن بكير حدثني عبدالله بن محمد العدوي عن علي بن زيد عن سعيد بن المسيب عن جابر بن عبدالله قال خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال اعلموا ان الله قد افترض عليكم الجمعة في مقام هذا في يومي هذا في شهري هذا من عامي هذا الي يوم القيامة فمن تركها في حياتي او بعدي وله امام عادل او جائز الحديث ّ
سویہ قابل استدلال نہیں ہے اس لیے کہ یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے ، قابل حجت نہیں۔ایک راوی اس میں عبداللہ بن محمد العدوی ہے ۔ وہ متروک الحدیث ہے ۔اور بعضوں نے واضعین سے اس کو شمار کیا ہے ۔اور بعضوں نے منکر الحدیث کہا ہے ۔ میزان الاعتدال میں ہے ۔عبدالله بن محمد العدوي قال البخاري منكر الحديث واقل وكيع يضع الحديث واقل ابن حبان لايجوز بخبره انتهي
اور بھی میزان میں بذیل ترجمہ ابان بن جبلہ مرقوم ہے ۔
نقل ابن القطان ان البخاري قال كل من قلت فيه منكر الحديث فلاتحل الرواية عنه ّ
اور بھی کہا ذہبی نے بذیل ترجمہ سلیمان بن داؤد الیمامی کے ان البخاری قال من قلت فيه منكر الحديث فلاتحل رواية حديث انتهي
اور تقريب التهذيب میں ہے
عبدالله بن محمد العدوي متروك رماه وكيع بالوضع انتهي
اور علی بن زید جدعان جو شیخ عبداللہ بن محمد العدوی کا ہے وہ بھی ضعیف ہے ۔
قال المنذري في الترغيب والترهيب علي بن زيد بن جدعان قال البخاري وابو حاتم لايحتج به وضعفه ابن عيينه واحمد وغيرها وروي عنه ليس بشئ وروي عنه ليس بذاك القوي وقال احمد العجلي كان يتشع وليس بالقوي وقال الدار قطني لا يزال عندي فيه لين وقال الترمذي صدوق وصح له حديثا في السلام وحسن له غير ماحديث انتهي
اور کہا ذہبی نے میزان میں ۔
قال حماد بن زيد اخبرنا علي بن زيد وكان يقلب الاحاديث وقال الفلاس كان يحيي القطان ينفي الحديث عن علي بن زيد ورافضيا وقال احمد العجلي كان يتشع وليس بالقوي وقال البخاري وابو حاتم لايحتج به قال النووي اختاط في كبره وقال ابن خزيمة لااحتج به لسوء حفظه انتهي
اور خلاصہ میں ہے /
قال احمد وابو زرعه ليس بالقوي وقال ابن خزيمه سئي الحفظ وقال شعبة حدثنا علي ابن زيد قبل ان يخلتلط وقرنه مسلم باخر انتهي
اور عبداللہ بن محمد العدوی شاگرد اعنی الولید بن بکیر بھی کچھ ایسا قوی راوی نہیں ہے تقریب میں ہے ۔
الوليد بن بكير التميمي ابو جناب الكوفي لين الحديث انتهي
اور ميزان الاعتدال ميں ہے ۔
الوليد بن بكير مارايت من وثقه غير ابن حبان وقال ابو حاتم شيخ انتهي
بہر حال یہ حدیث لائق حجت نہیں
اور دوسری تعریف مصر جامع کی بنابر مسلک بلخی کے یہ ہے۔ کہ جس جگہ تین مسجدیں یا زیادہ تین سے ہوں ،اور ایک ان میں بڑی مسجد ہو۔اور وہاں کے رہنے والے لوگ مکلف لوگ اس بڑی مسجد میں گنجائش نہ کرسکیں جیساکہ اوپر ہدایہ کی عبارت سے معلوم ہوا۔اور اکثر علماء حنفیہ نے اسی مسلک بلخی کو مرجح ٹھہرا سی پر فتوی دیا ہے ۔ جیسا کہ درمختار میں ہے ۔
يشترط لصحتها سبعة اشياء الاول المصر وهو مالا يسمع اكبر مساجد اهله المكلفين بها وعليه فتوي اكثر الفقهاء لظهور التواني في الاحكام انتهي
اور بحر الرائق شرح كنز الدقائق ميں ہے
وعليه فتوي اكثر الفقهاء قال ابو شجاع هذا احسن ماقيل فيه وفي الولوالجية وهو صحيح
اور شرح دقایہ میں ہے
وانما اختار هذا دون التفسير الاول لظهور التواني في احكام الشرع لاسيما في اقامة الحدود في الامصار انتهي
اور ارکان اربعہ میں ہے۔
قال قائل الفتوي في مذهبنا الرواية المختارة للبلغي انتهي
لیکن یہ تفسیر بھی مصر جامع کی جو مطابق مسلک بلخی کے ہے کتب لغت یا سنت رسول اللہ ﷺ میں پائی نہیں جاتی ہے کہ لائق حجت ہو ۔ بلکہ جس وقت اسعد بن زرارہ نے اقامت جمعہ کی ہزم البیت میں کیا تھا۔اور پھر رسول اللہ ﷺ نے بنی سالم میں جمعہ پڑھا تھا۔اس وقت مدینہ منورہ میں مساجد متعدد نہ تھی سوائے ایک دو کے ۔ کہ بڑی مسجد میں گنجائش واندازآدمیوں کے انٹنے کا کیاجاتا۔ دیکھو جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ جاتے تھے تو قبا میں جو قرب مدینہ میں واقع ہے ۔ بنی عمر بن عوف کے یہاں بیس دن کے قریب آپﷺ نے اقامت کی تھی ۔ یعنی دو شنبہ وسہ شنبہ چہار شنبہ ' پنج شنبہ ۔اورانھیں کے مکان میں نماز پڑھتے رہے پھر مسجد قبا میں نیوڈالی ۔اس کے بعد آپﷺ جمعہ کے دن روانہ ہوئے اور بنی سالم بن عوف کے یہاں اترے اور ان کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھی ۔ کہ وہ آج تک جمعہ مسجد کرکے مشہور ہے ۔علامہ سمہودی نے خلاصۃ الوفا رہا خباردارالمصطفے میں لکھا ہے ۔
الفصل الثاني في مسجد قباء في الصحيح عن عروة في خبر قدومه وصلي الله عليه وسلم قال فلبث في بني عمروبن عوف بضع عشرة ليلة واسس المسجد الذي علي التقوٰ ي يعني بني عمروبن عوف كام في رواية عبدالرزاق عنه ولابن عائذ عن ابن عباس مكث في بني عمر بنعوف ثلاث ليال واتخذ مكانه مسجد افكاد يصلي فيه ثم بناه بنوعمر وبن عوف فهوالذي اسس علي التقويٰ انتهي
اور بھی خلاصۃ الوفاء میں ہے
الفصل الثالث مسجد الجمعة سبق ان النبي صلي الله عليه وسلم في خروجه من قباء ادركته الجمعة في بني سالم عوف فصلاها في بطن الوادي فكانت اول جمعة صلاها بالمدينة ولابن زبالة فمر علي بني سالم فصلي بهم الجمعة دي العسيب بني سالم وهو المسجد الذي في بطن الوادي وفي رواية له فهو المسجد الذي بناه عبدالصمد ولابن شيبه عن كعب نم عجرة ان النبي صلي الله عليه وسلم جمع اول جمعة حين قدوم المدينة في مسجد بني سالم في مسجد عاتكة وفي رواية له الذي يقال له مسجد عاتكة قال المطري والمسجد في بطن الوادي كان صغيرا اجدا انتهي ّّوقال ابن هشام في سيرته وذكر سفيان بن عيينة عن ذكريا عن الشعبي قال ان اول من بني مسجدا عمار بن ياسر قال ابن اسحاق فاقام رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيت ابي ايوب حتي بني له مسجد ه ومساكنه ثم انتقل الي مساكنه من بيت ابي ايوب انتهي كلام ابن هشام وروي يونس بن بكير في زيادات المغازي عن المسعودي عن الحكم بن عتيه قال لما قدم النبي صلي الله عليه وسلم فنزل بقباء قال عمار بن ياسر مالرسول الله صلي الله عليه وسلم بد من ان يجعل له مكانا يستظل به اذا استيقظ ويصلي فيه فجمع حجارة فبني مسجد قباء فهو اول مسجد بني يعني بالمدينة انتهي ّ وقال ابن هشام ايضا اقام رسول الله صلي الله عليه وسلم بقباء في بني عمر بن عوف يوم الاثنين ويوم الثلاثاء ويوم الاربعاء ويوم الخميس واسس مسجده ثم اخرجه الله من بين اظهر هم يوم الجمعة وبنو عمروبن يزعمون انه مكث فيهم اكثر من ذلك فالله اعلم اي ذلك كان فادركت رسول الله صلي الله عليه وسلم الجمعة في بني سالم بن عوف فصلاها في المسجدالذي في بطن الوادي وادي رالونا فكانت اول جمعة صلاها بالمدينة انتهي كلامه
پس صلوۃ جمعہ کہ عمدہ شعائر اسلام سے ہے اس کی فرضیت اس کی نص قطی سے ثابت ہے ۔ادا کرنا اس کا شہر وقصبات ودیہات ہر جگہ لازم وواجب ہے۔اور محض بنابرتفسیر کرخی یا بلحی کے کہ وہ مقابل دلیل ظنی کے بھی نہیں ہے۔ بلکہ ایک رائے محض ہے تک کرنا امر قطعی کا بالکل نافہمی اور ضعف ایمان کی نشانی ہے۔
اور جواب تیسرے سوال کا یہ ہے کہ ۔ کہ نماز جمعہ فرض عین ہے ۔ فرضیت ظہر اس سے ساقط ہوجاتی ہے ۔اس لیے کہ صلوۃ جمعہ قائم مقام ظہر ہے ۔ پس جس شخص نے ظہر اضتیاطی ادا کیا اس نے ایک صلوۃ مفروضہ کو دوبارہ ایک دن ایک وقت میں بلا اذن شارع ادا کیا ۔اور ممنوع ہے ۔
عن ابن عمر قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول لاتصلوا صلوة في يوم مرتين رواه احمد وابوداؤد والنسائي
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ کہ ایک نماز کو ایک دن میں نہ پڑھو۔" پھر جب جمعہ بالکل قائم مقام ظہر کے ہو، تو اب جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا جائز نہیں ہوا،اور کسی سلف صحابہ صالحین صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین ومحدثین رحمہم اللہ تعالیٰ سے یہ اظہر احتیاطی منقول نہیں۔ نہ ان میں سے کسی نے پڑھا اور نہ حکم پڑھنے کا دیا بلکہ یہ ظہر احتیاطی منقول نہیں۔ نہ ان میں سے کسی نے پڑھا اور نہ حکم پڑھنے کا دیا بلکہ یہ ظہر احتیاطی منقول نہیں۔ نہ ان میں سے کسی نے پڑھا اور نہ حکم پڑھنے کا دیا بلکہ یہ ظہر احتیاطی بدعت ومحدث فی الدین ہے۔ پڑھنے والا اس کا عاصی وآثم ہوگا۔کیونکہ یہ ایک بدعت نکالی گئی ہے دین میں ۔بعض متاخرین حنفیہ نے اس ظہر احتیاطی کو نکالا ہے جیسا کہ بحر الرائق شرح کنز الدقایق میں ہے ۔
وقد افتيت مرارابعدم صلوة الاربع بعدها بنية آخر ظهرا خوف اعتقاد عدم فريضة الجمعة وهو الاحتياطي في زماننا
اور بھی بحرالرائق میں ہے ۔
لهذا قال في فتح القدير في بيان دلائلها ثم قال انما اكثرنا فيه نوعا من الاكثار لما تسمع من بعض الجهلة انهم ينتسبون الي مذهب الحنفيه عدم افتراضها ومنشا غلطهم ماسياقي من قول القدوري ومن صلي الظهر فالحرمة لترك الفرض وصحة الظهر ويكفر جاحدها انتهي اقوال قد كثر ذالك من جهلة بنية الظهر وانما وضعها بعض المتاخرين عند الشك في صحة الجمعة بسبب رواية عدم تعددها في مصر واحد وليست هذه ا لرواية بالمختارة وليس هذا القول اعني اختيار صلوة الاربع بعدها مر ويا عن ابي حنيفة وصاحبة انتهي كلامه
پس مرد متنبع سنت وہ ہے ۔ جو کہ اس بدعت ومحدث فی الدین کی بیخ کنی کرے اور لوگوں کو اس ظہر احتیاطی کے پڑھنے سے روکے ۔
عن عائشة قالت قال النبي صلي الله عليه وسلم من احدث امرنا هذا ماليس منه فهورد " متفق عليه"
وعن جابر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اما بعد فان خير الحديث كتاب الله وخيراالهدي هدي محمد وشرالامور محدثا تها وكل بدعة ضلالة رواه مسلم وآخر الدعوانا ان الحمد لله رب العلمين وصلي الله تعاليٰ علي حبيبه واله واصحابه اجمعين قال العبد الفقير الي الله تعاليٰ ابو طيب محمد المدعو بشمس الحق العظيم آبادي غفر الله له ولوالديه ود تمت هذه الرسالة العجالة الموسومة بالتحقيقات العلي باثبات فرضية الجمعة في القري في الشهر المبارك المعظم رمضان المكرم سنة تسع بعد الالف وثلاثا ثماءة (١٣-٩ه) تمت
الكلام المبين في الجهر بالتائين والرد"علي"القول المتين " (یہ ایک رسالہ کی شکل میں مطبع انصاری دہلی سے 1303ھ میں شائع ہوا تھا)
(آمين بالجهر كامسئله)
الحمدلله الذي هدانا الي سواءالطريق ’والصلوة ولسلام علي رسوله الذي ارسل الي الناس كافة بشيرا ونذيرا وعلي آله واصحابه والمتمسكين بهدية الهادين المهتدن ‘الذي صرفوا سعيهم في اقامة المشروعاتواشاعة الدين المتين ‘حتي لم يبق فيها قلادة لاحد علي احد من المومنين وعلي طائفة من العلماء العادلين الذين جاؤامن بعدهم هسلكون سبيل المهتدين ’ ويجدون الدين ويودوف الشرع المتين وينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتاويل الجاهلين ولايزالون الي يوم القيامه في حجتهم ظاهرين
امابعد عاجز ابو الطیب محمد شمس الحق عطیم آبادی عفا اللہ عنہ ارباب خبرت کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ بددخلقت انسانی سے شیطان دشمن بندگان خدا کارہا۔اور بڑے بڑے حکماء اور عقلمندوں کو فریب میں اپنے لاکر جادہ اعتدال سے ڈگایا گیا ۔ اور طریقہ فریبا کا یہ کیا کہ جب کوئی نبی علیہ السلام مبعوث ہوئے تو نہایت مخبوط ہوا اور تدابیر فریب میں غلطاں اور پیچاں رہا ۔ لیکن زمانہ نبوت تک کوئی تدبیر اس کی بکار آمد نہ ہوئی اور ان نبی علیہ السلام کے بعد ان کے اصحاب اور حواری کا دور دورہ ہوا' چونکہ انہوں نے تمسک سنت اپنے نبی ﷺ کا کیا اور اپنی رائے کو دخل نہ دیا،اس سبب سے طریقہ نبی ﷺ میں کسی طرح کا نقصان نہ ہوا اور شیطان اپنی چال میں شش پنج رہا۔ بعد اس کے شیطان مردود نے یہ خیال کیا کہ جب تک کلام رب العزت اور سنت نبی علیہ السلام پر عمل رہے گا، میرا کوئی فقرہ بکار آمد نہ ہوگا، تب یہ فقرہ گانٹھا کہ علماء کے دلوں سے ان دونوں کے تمسک کو ترک کرائیے تو سب کام پورا ہوگا۔ پس اس امر کی جانب متوجہ ہوا۔لیکن حیران رہا کہ یہ کام کیونکر ہوسکتا ہے ؟ علماء کیوں کر ان دو تمسکات کو چھوڑیں گے؟ پس خیال کیا کہ کسی ترکیب سے کلام معصوم سے غیر معصوم میں ان کو ڈالاچاہیے ۔کیونکہ جب کلام غیر معصوم ہوگا تو اختلاف اور تعارض ہوہی گا ساتھ ہی اس کے یہ سوچا کہ ترک اعلی کا مقابلہ میں ادنی کے دشوار ہے ۔ تو پہلے ان کو سبز باغ ھسن رائے کا پیر تدین میں دکھاؤ تو یہ وسوسہ علماء کے دلوں میں ڈالا کہ تم ایسے اور ویسے اور تم مورد ومحل کو خوب جانتے ہو 'اگر تمہارے علم کا اتنا بھی نتیجہ نہ ہوا کہ تشقیقات شتی پیدا کرو تو علم کا کیا فائدہ ؟ اور جس وقت کوئی شخص تم سے کوئی مسئلہ دریافت کرتا ہے تو تم کیوں کہتے ہو کہ میں نہیں جانتا کیونکہ اقرار جہل سے ذلت تمہاری ہوتی ہے اور تمہار ذلت عین دین کی ذلت ہے ' کیونکہ تم دین کے ستون ہو پس چاہیے کہ ہر مسئلہ کا جواب کچھ نہ کچھ اگرچہ کلام معصوم نہ ہو اپنی رائے وعقل کے زور سے دیا کرو'اور نیز جس وقت تمہارے پاس کسی طرح کا سوال آتا ہے کہ جائز ہے یا ناجائز تو کہتے ہو کہ ناجائز ہے ، بدعت ہے ،یاکبھی کہتے ہو کہ کلام معصوم میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ کیوں ایسا کرتے ہو؟ کیوں نہیں کئی صؤرت جواز کی نکالتے ہو؟ اگر جواز کی صورت نہ پیدا کروگے تو لوگ تم کو حقیر جانیں گے ۔ اور تنگ ہوکر تم سے مسئلہ پوچھنا چھوڑدیں گے۔اور جہلاء اپنی رائے پر عمل کرنے لگیں گے ' پس یہ نقصان تمہارے نامہ اعمال میں مرقوم ہوگااور دین میں آسانی کاحکم ہے' نہ سختی کا پس ایسے وقت میں جہاں کلام معصوم میں نہی آئی ہے اس کو مورد خاص پر محمول کرو'اور جہاں سکوت آیا ہے وہاں اگر تم بھی سکوت کروگے تو نہایت تنگی ہوگی ۔پس قیاس لگاؤ۔
غرض یہ کہ پیرایہ دین میں شیطان نے علماؤں کے دلوں میں انواع واقسام کا وسوسہ راسخ کیا ، بعد اس کے عوام امت کی طرف متوجہ ہوا ان کو اس فریب میں ڈالا کہ تم جاہل ہو تم کو کلام معصوم کی سمجھ بوجھ کاہں ہے' اور تم عام خاص اور مورد محل کو کیا جانو جو علماء کہیں اس پر عمل کرو۔ علماء تو موافق اس کے کہتے ہیں جو کلام معصوم میں ہے اس پر عمل کرنا عین اس پر عمل کرنا ہے ۔
جب یہ کام شیطان نے کرلیا تو مطمئن ہوگیا۔ بعد مرور ایام کے تمسک کلام معصوم چھوٹ گیا،اور لوگ کلام غیر معصوم کے متمسک ہوئے ۔ پس وقت اختلاف آراء کا ہوا'اور اس کا ہونا ضروری تھا، کیونکہ طبائع انسان کے مختلف ہیں اور نیز معصوم نہیں۔اس وقت شیطان نے یہ وسوسہ جمایا کہ تم جس مولوی اور درویش کے معتقد ہو ۔اس کے کلام کو پکڑو ۔ غیروں سے تم کو کیا غرض ؟ کیاجس کے تم معتقد ہو وہ علم نہیں رکھتا ہے؟ اور اگر اس کے کلام کو ترک کروگے تو تحقیر ایک دینی مولوی معتقد کی لازم آوے گی ۔ کیوں کہ ترک مشعر ہوگا اس کے مبطل ہونے کو۔اور تحقیر مولوی دین کی بددینی ہے۔ عوام اس جال میں آکر مقلد اپنے اپنے مولوی کے ہوگئے 'اور تقلید کا گھر آباد ہوگیا 'اور ایک نبی ﷺ کے دین میں سیکڑؤں مذاہب پیدا ہوئے ،اور آپس میں جنگ جدال شروع ہوگیا ۔اور شیطا ن کا مقصد بر آیا
اسی طرح دنیا میں عملدرآمد رہا'آخر نبی الزمان رسول اللہ ﷺ اسی فریب شیطان کے قلع قمع کو مبعوث ہوئے ۔اور کلام رب جلیل نازل ہونا شروع ہوا چنانچہ فرمایا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۗ
اور فرمایا نَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ الخ ۔رواہ مسلم
پس بدو مولد نبی آخر الزمان علیہ السلام سے قرون ثلثہ تک شیطان کا خوب قلع قمع ہوا ۔ آخر شیطان تو بڑا کیاد ہے ،پھر وہی چال قدیم جس میں کامیاب ہوا تھا چلا۔اور اکثر نقوس میں راسخ کیا 'اور اس کید کو اپنے غلط معنی "اختلاف العلماء رحمۃ" اور "خطائے بزرگاں نبا یدگرفت" سے ملمع کیا، چنانچہ اس امت محمدیہ میں یہی اس کا کیدار اس ملمع کے ساتھ چل گیا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں مبعوث ہوگا' اوریہی دین محمدی قیامت تک رہے گا،بنا برآں (اس دین محمدی کے ابقا کے واسطے اللہ تعالیٰ نے حکم قطعی فرمایا کہ کلام معصوم کو مضبوط پکڑو اور غیر معصوم کی طرف توجہ نہ دو۔والا امم سابقہ کی طرح خراب ہوگے ۔اور واسطے تمیز اور ابقائے کلام معصوم کے سند کاسلسلہ جاری کیا۔اور واسطے پرکھنے سند کے ایک طائفہ علماءنقاد دین کو پیدا کیا'تامابین رطب یابس کے فرق کریں ۔اور معطل اور جارح کو جانچیں کہ کس مرتبہ کا ہے ۔اور اصل کو نقل سے جدا رکھیں ۔اور جو لوگ اصل تمسک کو بوجہ کیک برعایت اپنے مقتد کے جعلی قرار دیں ۔اور جعلی کو اصل ان کے اس کید کو دفع کریں ۔اور جو لوگ اپنی رائے سے کچھ اس کو رد کریں ۔بخلاف امم سابقہ کے کہ وہاں یہ سلسلہ سند کا نہ تھا۔ چھان بین نہ تھی ،یاروں نے خوب اپنا کام کیا'آخر اصلی اور جعلی میں خلط ملط ہوا۔اور بمقتضائے وسواس شیطان سوء ادب سمجھ کر پچھلوں نے اگلوں کی خطا کو خطا تصور نہ کیا بلکہ جہاں خطا بین تھی وہاں اور پردہ پوشی کی 'اور سلسلہ جرح وتعدیل اور وقدوح کا جاری نہ ہوا بلکہ خطا کے مقلد ہوگئے آخر اصل تمسک ناپید ہوا۔ اور دین نبی علیہ السلام گم ہوگیا ۔ یہی وجہ سارے ادیان کے بگڑنے کی ہوئی ' چنانچہ نمونہ اس کا تورات وانجیل مطبوعہ قدیم اور جدید کے دیکھنے سے یہ بات ظاہر ہے۔
سو الحمدللہ اس دین محمدی میں یہ سلسلہ جرح تعدیل اور رد قدح کا جاری رہا'اور صحیح سقیم میں وہ علماء نقا دین تمیز کرتے رہے اس سبب سے اصل اپنے حال پر رہا'یاروں کی کارستانی نہ چلی ۔جب ایک مولوی نے کوئی بات کہی تو دوسرے نے اس کو اصل معیار حق پر جانچا،اگر خطا معلوم ہوئی فورا اس پر لے دے کر دی ۔اور صواب خطا سے ممتاز رہا 'اور "خذ ماصفا ودع ماكدر" پر ان نقادین کا عمل رہا۔
اور صحیح معنی" اختلاف العلماء رحمۃ " اور "خطائے بزرگان نبا یس گرفت " کے مرکوز خاطر عام مسلمین مہتدین کے ہوا، یعنی علماء کے ردوبدل کھرے کھوٹے میں بلامزد محنت تمیز ہوئی اور کیدکیاد کھل گیا' یہ رحمت اللہ تعالیٰ کی ہے۔اور بزرگوں کی خطا کو تمسک نہ پکڑنا چاہیے۔ نہ وہ معنی کہ ہر اقوال مختلفہ میں خطا ہو یاصواب رحمت ہے' اور بزرگوں کی خطا کو خطا نہ تصور کرنا چاہیے کیونکہ یہی وجہ تو امم سابقہ کے بگڑنے کی ہوئی ہے ۔ جس کے قلع قمع کے واسطے نبی آخر الزمان علیہ السلام مبعوث ہوئے ۔اور قرآن نازل ہوا اور سند کا سلسلہ جاری ہوا۔اور جرح تعدیل اور تمیز صحیح سقیم مسلک علماء اخیار ٹھہرا۔
بعد التہیا واللتی بقول شخصے " چور چوری سے گیا کیا میرا پھری سے بھی کھل گیا ہیرا پھیر سے بھی گیا" شیطان تو اس کید قدیم کو لوگوں کی خاطر نشین کرتا پھرتا ہے ۔اورعلماء حقانی اس کید کا قلع قمع کرتے چلے آتے ہیں 'تاہم اکثر نفوس میں وہ کید جاگزیں ہے ۔ بدین لحاظ اکثر خواص وعوام کے زبان زد ہورہا ہے کہ اس پرعمل کرنا عین اس پر عمل کرنا ہے' اور یہ طریقہ قدیم ہے' نبی آخر الزمان کے پہلے سے یوں ہی چلاآیا ہے ،اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا مزہب جدید ہے ۔اور اتنا نہ خیال کیا کہ یہ طریقہ اگرچہ باعتبار اس کید کے جدید ہے ۔لیکن ایسے شخص کا طریقہ ہے کہ جس کے سبب سے تمام ادیان سابقہ حقہ منسوخ ہوگئے چہ جائیکہ کید باطل بالذات اسی کے مٹانے کو تو نبی آخر الزمان مبعوث ہوئے ہیں' پس اس وسواس میں پڑ کر اصل تمسک باضابطہ قرآن مجید اور حدیث رسول حمید کو چھوڑ بیٹھے ' بلکہ برعایت مذہب اپنے مقتداء کے اصل باضابطہ میں کھوٹ نکالنے کے درپے ہوئے 'اور یوں کہنے لگے کہ کون حدیث ہے جو مجروح نہیں ہے؟ اور مقولہ مقتداء بلاجرح موجود ہے ۔ پس انھوں نے اصل تمسک کو تابع اور جعلی قراردیا۔اور بے اصل کو متبوع اور اصل ۔ جہاں کوئی حدیث پیش نظر ہوئی تو فکر کرنے لھے کہ آیا یہ ہمارے مقتداء کے مقولہ کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر مطابق ہوئی تو خیر درجہ تابع میں رہی 'والامر دود ہوئی ۔اور مقتدا کے قول پر اڑگئی ، بلکہ اس پر اکتفاء نہ کرکے غضب یہ کیا کہ حدیث کی بیخ کنی کے پیچھے پڑے ۔ بقول شخصے"نہ رہے بانس بجےبانسلی " اور یہ خیال نہ کیا کہ امم سابقہ اسی چال سے خراب ہوئے۔اور اس زمانہ میں اگر غیر ملت والے سے مناظرہ اور مذاکرہ پڑے تو کیونکر حقیقت اپنے مذہب کی ثابت کریں ،مخالف تواصل تمسک کو طلب کرے گا، نقل اس کی تسکین خاطر نہ ہوگی ۔
بلکہ مخالف وقت فقدان اصل الاصول کے غالب آوے گا۔ منعم ماقيل : بیوقوف دوست سے عقل مند دشمن بھلا " انا لله وانا اليه راجعون
اب ان دنوں ایک رسالہ "القول المتين في اخفار التامين" جو واقع میں انھیں کیدوں کی بنا پر مؤلف ہے ۔نظر سے گذرا'اور عجب پر عجب یہ ہوا کہ ایک وکیل محمد علی صاحب مرزا پوری کی تالیف ہے کجا وکیل ضلع ؟اور کجا جرح تعدیل؟ آپ نے معاملات دینوی کا پاس کرکے قصد کیا کہ عدالت عالیہ میں بھی درخور کرکے وہاں کی بھی سارٹیفکٹ حاصل کیجیے
تو کار زمین رانکو ساختی کہ برآسماں نیز پر داختی
اور وکیل صاحب نے وکالت ضلع کا پاس کرکے امور ماتقدم کا لحاظ نہ کیا اور منقولہ حالیہ خدام عدالت عالیہ سے بےخبر
اگر گلیم وگر غنچہ پاک دامانیم نہ دست بردن گلچیں بہ نزع شیطانی
بہیع زائغہ بروالہوا گزرنکمتد بباغ ماکہ کند علم غیب رضوانی
اور نیز خلاف تہذیب کلمات سے مہذب ہوئے افسوس صد افسوس۔
بہر حال میں موافق حکم عدالت عالیہ(ادفع بالتی ھی احسن ) کے پاسخ تحریر وکیل صاحب دیتا ہوں ' والله الموفقّ اور اس رسالہ کا نام "الكلام المبين في الجهر بالتامين والرد علي القول المتين "کہا۔اگر وکیل صاحب اس رسالہ کو اول سے آخر تک بغور ملاحظہ فرماویں گے تو حقیقت اس مسئلہ کی ان پر ظاہر ہوجاوے گی ۔
قوله: واضح ہو
اقول:اجی جناب کب کا واضح ہوچکا ہے آپ ذرا رسائل اہل حدیث کو مطالعہ فرمائیے
قولہ: کہ اس فرقہ جدید
اقول: اے جناب! یہ فرقہ اہل حدیث کا تیرہ سو برس سے ہے 'موافق آپ کے قاعدے کے بھی تمادی عارض ہوئی 'اب نالش فریاد غیر مسموع ہے 'البتہ آپ کے موکل کا مسلک متکلم فیہ ہے ۔اور نیز نسبت اس کی برابر استغاثہ عدالت عالیہ میں ہوتا چلاآیا ہے ۔اور ڈگری بحق اہل حدیث ہوتی رہی۔ہاں اس کید باطل کے لحاظ سے بیشک یہ چلن ایل حدیث کا جدید ہے ۔ لیکن آخر کید قدیم کید ہے ۔
قولہ :لامذہب نے۔
اقول : عدالت میں ایسے الفاظ نازیبا ہیں اور میں حکم ماسبق عدالت کا پابند ہوں والا بمقتضائے
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
کے خصم آپ کا آپ کو بد مذہب کہہ دے تو کیسے ہو؟
قولہ: عجب شور وغل مچارکھا ہے ۔
اقول: اے وکیل صاحب! یہ اسی فیصلہ مذکور الصدر کی اجرائے ڈگری ہورہی ہے کوئی نیا مقدمہ نہیں ہے۔ آپ کیوں گھبرائیے؟ابھی تو اطلاع نامہ جاری ہوا ہے قرقی اور وانٹ کی نوبت نہیں آئی۔ موکلوں کو فہمائش کیجیے کہ ڈگری تسلیم کرلیں 'جھگڑاچکے 'لیکن آپ وکیل ہیں کب چوکتے ہیں 'اجرائے ڈگری کے وقت بھی ایک عذر داری کراہی دیا۔ مردہ دوزخ میں جائے یا بہشت میں اپنے حلوے مانڈے سے غرض ہے۔
قولہ:بیچارے سیدھے سادھے مسلمانوں کو عمل بالحدیث کا دھوکا دے کر حیران بنا رکھا ہے ۔
اقول: اجی دھوکا کیسا بلکہ اصل 'باضابطہ موجود ہے ۔ مگر آپ تو شان وکالت سے دھوکا ہی کہیے گا۔ لیکن جناب خوب غور فرمائیے کہ مقابل قانون کے نظائر اور رسم ورواج کااعتبار نہیں ہوتا ہے۔
باگل سرخ کہ اصلش عرق روئے نبی ست رتبہ لالہ نعماں نہ برابر گیرند
قولہ:منجملہ اور باتوں کے ایک مسئلہ جہر آمین ہے اس پر بھی اس فریق کو بڑا یقین ہے ،
اقول: اجی جناب غور فرمائیے یہ اسی فیصلہ کی ایک شاخ ہے اور نیز اس مقدمہ میں بڑے بڑے علماء حنفیہ نے تسلیم کیا ہے کہ جہر آمین سے چارہ نہیں'اور اپنے شاہد مدعا کوقابل استشہاد نہیں تصور کیا ہے پس آپ کے خصم نے خاص اس مقدمہ میں ڈگری مسلمہ فریق ثانی حاصل کی ہے ۔اس میں اب کیا کلام ہے ۔اگر یہ فیصلہ قابل یقین نہ ہوگا تو اور کون ؟ آپ ہی فرمائیے ۔
قولہ:یہاں تک کہ جو پکار آمین نماز میں نہیں کرتا اس کو تارک سنت ، بلکہ بدعتی اور مشرک اور جانے کیاکیا۔
اقول: اے حضرت ! ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جو فریق مقدمہ نہ ہو اس پر ڈگری جاری کرائی جائے کوئی عاقل اس بات کو آپ کی تسلیم کرے گا'ہرگز نہیں ،ان بیچاروں سے کیا سروکار ان کو ایسے کلمات کیوں کہےجاویں گے ؟البتہ ایسے لوگوں کو جو فریق مقدمہ میں اور ڈگری کو تسلیم کرکے حیلہ حوالہ کرتے ہیں اور تعمیل نہیں کرتے تارک سنت کہا جاتا ہوگا۔
اور جو لوگ اب تک باوجود فیصلہ ہوجانے کے سرکشی اور عناد کرتے ہیں ۔اور حکم عدالت کی تعمیل نہیں کرتے اور کوئی عذر بھی نہیں کرتے بلکہ صاف حکم عدالت کے جان بوجھ کر منکر اور مٹانے کے درپے ہیں ۔ شاید ان کو یہ دو الفاظ اخیر کہاجاتا ہوگا'اگرچہ اہل حدیث کی یہ عادت نہیں مگرآپ ہی فرمائیے کہ اگر یہ الفاظ کہے گئے تو کیا مضائقہ ہوا؟ کای ایسے شخص کا یہ لقب عدالت عالیہ سے نہیں مقرر ہوا ہے؟ پھر جو لقب جس کا مقرر ہوا ہے اس کرکے کسی نے خطاب کیا تو کیا جرم ہوا؟ والا آپ ہی فرمائیے کہ آخر یہ القاب مقررہ عدالت کاموصوف کون ہے؟ اور کیا جو کوئی بغاوت کرے گا اس کو باغی کہنا جرم ہوگا ہرگز نہیں۔ پس جو شخس غیر کے قول کو مثل قول رسول اللہ ﷺ سمجھے گا وہ بیشک مشرک بالرسالہ کر مقلب ہوگا۔ چہ جائیکہ جو شخص قول رسول ﷺ سے بغاوت کرے۔ یہی حکم عدالت عالیہ کا ہے ۔آپ کیوں نہیں اپنے موکلوں کو فہمائش کرتے کہ حکم عدالت کے پابند ہوجائیں اور نبی ﷺ جی کا دم بھریں ۔ مثل مشہور ہے کہ "جس کا کھائیے اسی کی گائیئے نہ یہ کہ" دانہ دہد کسے وسواری کند کسے۔ کلمہ تو نبی ﷺ کا پڑھیں اور شفاعت کے امیدوار'اور قلاہ دوسرے کا گلے میں ڈالیں پس جس وقت حکم عداوت کے پیرو ہونگےم فورا سرکار والا جاہ سے خطاب عالیہ عطا ہوگا یعنی مقلب بلقب "محمدی" ہوں گے۔
قولہ : لکھ کر اپنے نامہ اعمال کو سیاہ اور ان پڑھوں کو فریب دے کر تباہ کرتے ہیں
اقول: ایسے کلمات ہر فریق اپنے مقابل کو کہہ سکتا ہے ' لیکن میں پابند حکم مذکور الصدر کا ہوں ۔
قولہ: منجملہ اور بلادودیار کے اس شہر مرزا پور میں۔
اقول : جناب من! جب قانون عدالت سے جاری ہوا تو بمرود ہر جگہ ضرور پہنچے گا اور متعلقین عدالت کو ضرور ے کہ پہنچانے میں سعی بلیغ کریں ۔تاکہ خیر خواہ قرار دیےجائیں ، مرزا پور میں بھی نظر خیر خواہی قوم کسی نے پہنچایا تو کیا عجب ہے ؟ ایسا ہی چاہیے تھا کیا شہر مرزا پور عدالت عالیہ کے تحت میں نہیں ہے؟یاغیرقانونی ملک ہے؟مجھ کو تو یہی معلوم ہے کہ سب ملک عدالت عالیہ کے تحت میں ہے،اور کوئی ملک غیر قانونی نہیں'اور سب ملکوں پر یکساں حکم اس عدالت کا جاری ہے
قولہ: محمد سعید نو مسلم نے فتور برپا کردیا۔
اقول: آپ نے لفظ مسلم تسلیم کرکے فتور برپا کرنے کی نسبت ان کی طرف کیا یہ آپ کی شان ہے 'اور جب وہ شیطان کے کید قدیم سے ہوشیار ہوکر اسلام لائے تو وہ بھی متعلقین اسی سرکار عالیہ کے ہوئے تو ان پر بھی فرض منصبی ہوا کہ سب بھائیوں کو خبردار کریں ، تاکہ القاب عالیہ کے مستحق ہوں بلکہ ان کو اس امر میں زیادہ کوشش چاہیے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ نئے خادم کو زیادہ خیر خواہی کی ضرورت ہے تاکہ عمدہ عمدہ منصب جلد حاصل ہوں۔ اس بنا پر انھوں نے اس کام میں سبقت کی 'اب حضرت رشک سے کیا ہوتا ہے ، فذلك فضل الله يوتيه من يشاٰء
اور آپ تو طرف ثانی کے وکیل تھے 'آپ کا منصب کہاں تھا؟اور وہ اجرائے ڈگری کے واسطے گئے ہوں گے ۔آپ نے پہلے ہی سے کیوں نہیں بندوبست ڈگری کاموکلوں سے کرایا کہ یہ نوبت نہ پہنچتی ،بلکہ اور عذداری کردیا ، حضرت من یہ ڈگری توجاری ہو ہی گئی ،اگر آپ کے موکلوں باغیوں کے حق میں فتور ہو۔والله متم نوره ولوكره المجرمونّ
اور خبردار ہوجائیے کہ آپ مرتکب ایک جرم سنگین کے ہوئے ہیں، یعنی جو القاب مولوی کا ان کو سرکار والا جاہ سے عنایت ہوا ہے اس کو آپ نے حذف کرکے لفظ قبیح فتور کی نسبت ان کی طرف کی۔اس کا استغاثہ سرکار عالیہ میں دائر ہوا ہے۔ افسوس تو مجھ کو یہی ہے کہ نئے خادم سرکار عالیہ سے عمدہ عمدہ منصب حاصل کریں اور پرانے لوگ بہ سبب بدچلنی کے مرتکب جرایم ہوکر ماخوذ ہوں ۔یا تقدیر بانصیب
قولہ: عبدالغفور بن محمد جان کو مقدمہ بازی میں مہرہ پر دھردیا ' چنانچہ ایک مسجد کا دعوی دائر عدالت ہوا۔
اقول: اے صاحب ! فرقہ اہل حدیث پابند قانون ہے، پس جب مقلدین نے اللہ کی یاد کرنے سے مسجدوں میں'ان کو روکا ہواگ، تب مولوی محمد سعید صاحب نے یہ صلاح دی ہوگی کہ دعوی دایر عدالت کرو، فوجداری کرنا اہل حدیث کی شان نہیں عجیب لطف ہے کہ مقلدین حق بھی غصب کریں اور جب استغاثہ دائر کیا جاوے تو شکایت کریں ،
جی جناب آپ کا تو نفع ہوا، اور دعوی دایر عدالت ہونے سے ایک یہ بھی نفع ہے کہ عدالت والوں کو بھی ابلاغ احکام ہوجاوے ،۔واللہ وہاں کون جاکر ابلاغ کرتا اور کیونکر سمع عالی تک پہنچتا ' پس آپ لوگوں کی ہدایت کے واسطے یہ طریقہ نکلا ہے ۔بہرحال آپ کا ہر طرح نفع ہے۔ شکایت کی جائے نہیں ' شکریہ کیجیے
قولہ :ظفر المبین مصنفہ محی الدین نومسلم سے منجملہ اکیس حدیث جہر آمین کے گیارہ حدیثوں کو نہایت صحیح اور قوی سمجھ کر پیش کیا۔
اقول: کیوں صاحب ہمارے گیارہ شاہد عادل تو مقبول نہ ہوں ۔اور طرف ثانی استحسان اور استحبہ العلماء پر کامیاب ہو؟ واہ انصاف ہو تو ایسا ہو زیادہ کیا عرض کروں ۔ فهم من فهم
عبدالغفور نے یہ تصوف كيا کہ طرف ثانی کےپاس گواہ ضعیف ،اور ہمارے گیارہ گواہ عادل متفق اللفظ ہیں، ان کی گواہی کافی ہے۔ زیادہ گواہ سنانا تضیع اوقات عدالت والا ہے ۔ بنا بریں اسی قدر پر اکتفا کیا ہوگا ۔نہ اس وجہ سے جوآپ نے رجما بالغیب فرمایا کیونکہ دس گواہ باقی بھی اسی قسم کے عادل ہیں
قولہ: ان احادیث پر جرح وقدح کرکے ان کے دعوائے جہر کو توڑدیا۔
اقول : آپ تو وکیل ہی طرف ثانی کے ٹھہرے ۔ کیسے ہی سچے گواہ ہونگے آپ تو جرح وقدح کرینگے تاکہ موکل راضی رہے ۔ باقی اس جرح کا مقبول ومردود ہونا آگے معلوم ہوگا ابھی سے یہ حکم آپ کا کہ (توڑدیا ) مصداق (آنچہ وشکم ونامش مظفر) کا بنتا ہے
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
قولہ: اس لیے میں مشرق سے لے کر مغرب تک کے تمام غیر مقلدوں کو اشتہار دے کر مطلع کرتا ہوں ۔
اقول: آپ کو تو فقط ایک ضلع ماتحت کی وکالت کا پاس ہے ۔اور ہائی کورٹ کے امتحان میں آپ فیل ہیں پس تمام عدالتوں مٰں جانے کے کہاں مجاز؟ اے جناب ! مدت ہوئی کہ ا شتہار جاری ہوئے ، آخر فیصلہ ہوگیا'آپ فقط ایک ضلع ماتحت کے وکیل ہیں۔ آپ کو نہیں معلوم ہوا ہوگا آپ عدالت مافوق سے دریافت فرمائیں ۔معلوم ہوجاوے گا میں سابق میں تحریر کرچکا ہوں کہ فیصلہ ہوچکا ۔اب اجرائے ڈگری کی نوبت ہے۔اب عذداری سے کام نہیں چلتا۔
قولہ: آنحضرت ﷺ ہمیشہ دم آخر تک نماز میں آمین کو پکارتے کر کہتے تھے ۔الخ
اقول : اے جناب !مقدمہ آمین بالجہر میں تو باقر بڑے بڑے علماء حنفیہ کے اہل حدیث نے ڈگری حاصل کی ہے جیسا کہ میں گزارش کرچکا 'اب صرف ثانی کا ثبوت طلب کرنا بے فائدہ ہے ' فرض کیجیے کہ خصم آپ کا، ثبوت نہ لاسکتا تھا لیکن جب دعوے کا اقرار ہوگیا تو اب چون وچرا فضول ہے۔ آپ کسی مداری اور سلامی کے اغوا میں آگئے خود تدبر فرمائیے اور آپ کو معلوم نہیں کہ عدالت کاحکم جب ایک دفعہ کسی امر میں صادر ہوگیا تو تافسخ ہمیشہ اسی حکم کی پابندی کرنی پڑے گی ۔باربار صادر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اہل حدیث سنت موکدہ اور دوام کے مدعی نہیں تھے آپ چھیڑ کر سنت موکدہ کی بھی ڈگری اپنے موکلوں پر کرائیں گے،آپ وکیل ہوکر ایسی بات فرماتے ہیں ۔ تعجب ہے ۔
خیر انشاء اللہ یہ بھی کردیا جائے گا ایسا ہی عمل رہا ہے ویسا نہیں ۔ لیکن آپ تو فرمائیے کہ اس دوام کے ساتھ سنیت کسی سنت مذہبی کی ثابت کرسکتے ہیں۔ ذرا شرح وقاریہ وہدایہ وغیرہ کو ملاحظہ فرمائیے کہ سنت کس کو کہتے ہیں؟ اگر اس دوام کے ساتھ نہ ثابت کیا تو دروغ لا الزام آئے گا۔
قولہ: فی حدیث بیس روپے ۔
قول: اجی جناب بیس پچیس دینے سے چھٹکارا نہیں ہوگا اب تو پوری ڈگری جاری ہوگی ' یہ حق سرکاری ہے۔ معافی کی بھی گنجائش نہیں۔
قولہ: انعام پاوے گا۔
اقول: اے حضور اصل دام دام بیباق تو ہوتا ہی نہیں ،انعام کی کیا امید ہے ۔
قولہ : حدیث صحیح قطعی الدلالہ
اقول: حضور والا ویسی ہی لیجیے مع مہر دستخط حاکم مافوق کے۔ فافهم ولاتكن من الممترين
مگر جناب بے ادبی معاف رہیں آپ جھونپڑی میں ایک اور خواب دیکھیں محل کا؟ العاقل تکفیہ الاشارۃ
قول: غیر منسوخ
اقول: اے جناب ! ازراہ عنایت ایک اور بات یاد کرلیجئے کہ جب آپ کسی حدیث کے منسوخ ہونے کے مقرر ہوئے تو اس حدیث کے ثبوت کا تو اس حدیث کا تو اقرار ہوہی چکا ،ان نسخ کا ثابت کرنا آپ کے ذمہ پر لازم ہواپس جناب کوئی ناسخ ایسی ہی سہی لائے ہوتے جیسے جب کوئی مقروض ادائے قرض کا دعوی کرے تو وہ قرض کا مقرر تو ہوہی چکا اور قرض اس پر ثابت ہوگیا'اب ادائے قرض کی وجہ ثبوت اس سے مدلل طلب کی جاوے گی ۔آپ تو ماشاء اللہ وکیل ہیں ۔ شاید وقت اس تحریر کے ہجوم متخاصمین کا ہوگا'اس لیے اس طرف ذہن خالی نہ گیا ہوگا مجبوری میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔
قولہ: کسی اہل حدیث کو کلام نہ ہو
اقول: جب آپ مقرر ہوئے تو اور کسی کا اقرار یا انکار کب فائدہ اور نقصان دے گا اور خصم سے آپ ایسی حدیث طلب کرتے ہیں کچھ اپنی بھی خبر ہے ؟ تہذیب مانع ہے کیا عرض کروں فانهم ولاتكن من القاصرين
قولہ: گیارہ حدیث مسمی عبدالغفور الخ
اقول: اس بیچارے کے پاس سوائے حدیث کے کون گواہ عادل تھا جو پیش کرتا۔ منیہ قنیہ کو تو وہ گواہ عادل نہیں جانتا تھا۔خیر جناب اب کی انشاء اللہ تعالیٰ ایسے گواہ جن سے آپ کی تسکین ہو پیش کیے جاویں گے یعنی کالم محقق حنفیہ شیخ عبدالحق دہلوی 'اور مولانا عبدالعلی لکھنوی کا۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ ان سب پر بھی جرح کیجئے
قولہ: اور کسی حدیث کے سلسلہ سند کو بیان نہیں کیا، صرف اخیر راوی کا نام لیا۔
اقول : اے جناب یہکوئی نئی بات نہیں ہے آپ ذرا مشکوۃ کو ملاحظہ فرمایئے اس میں ایسا ہی صاحب مشکوۃ نے کیا ہے۔اس بیچارے پر کیا الزام ہے؟خدا کے واسطے ذرا بھی تو انصاف فرماتے
قولہ: اس پر طرہ یہ کہ بخاری مسلم کی اس میں سے کوئی حدیث نہیں
اقول: کسی ذی علم نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ انحصار احادیث صحیحہ کا صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے ' بلکہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ صحیحین میں جتنی احادیث ہیں وہ سب بلاشبہ صحیح ہیں ۔پس اگر حدیث "مدبها صوته"کی صحیحین میں نہیں ہے تو یہ اس کے موجب قدح کا نہیں ہے۔ دیکھیے امام بخاری نے خود اس کی تصحیح کی ہے ، جیسا کہ اس کا بیان آگے آوے گا
اور بالفرض اگر وہ حدیث صحیحین میں بھی ہوتی تو کیا آپ اس پر عمل کرتے ؟ ہرگز نہیں رفع الیدین ' جو صحیحین کی اور تمام کتب حدیث کی روایت ہے کیا اس پر عمل کرتے ہیں ؟
قولہ حدیث ابوداود: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، «أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَهَرَ بِآمِينَ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ خَدِّهِ»
اس حدیث کا ایک راوی علی بن صالح ہے اس کی نسبت میزان الاعتدال کے صفحہ 204 میں لکھا ہے : محمد بن مثنی نے کہ نہیں سنا عبدالرحمن بن مہدی نے علی سے حدیث بیان کرتے ہوئے کوئی شی اور محمد وعبدالرحمن دونوں علمائے ثقات صاحب جرح وتعدیل مقبولہ محدثین ہیں لہذا اس حدیث پر احتمال ضعف بموجب کلیہ مسلمہ "اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال " ہوگیا'صحیح بلاجرح باقی نہ رہی ،استدلال نہیں ہوسکتا ہے ۔
اقول: علي بن صالح جو راوي اس حديث كا ہے ، وہ ثقہ ہے ۔ توثیق کی اس کی امام احمد بن حنبل اور یحیی بن ،معین ونسائی نے
فرمایاحافظ شمس الدین ذھبی نے میزان الاعتدال فی نقد الرجال میں: علي بن صالح بن حي اخوال الهمداني ابو محمد الكوني في اخوحسن ثقه عابد انتهي
اور کہا حافظ ابوالفضل ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں : علي بن صالح بن حي الهمداني ابو محمد الكوني في اخوحسن ثقه عابد انتهي
اور کہا علامہ صفی الدین احمد بن عبداللہ الخزرجی الانصاری نے خلاصۃ تذہیب الکمال فی اسماء الرجال : علي بن صالح بن صالح بن حي الهمداني ابو محمد الكوفي عن سلمه بن كهيل وسماك ومنصور’ وعنه ابن نمير وكيع وابو نعيم ’وثقة احمد ابن معين قال ابن المديني له يخوثما نين حديثا انتهي
اور معترض نے جو حوالہ میزان الاعتدال کا دے کر اس کا ترجمہ کیا ہے اس میں اس نے اپنی خیانت اور لیاقت علمی ظاہر کی ہے ۔ دیکھو اصل عبارت میزان الاعتدال کی یہ ہے کہ : وقال محمد بن مثني ماسمعت عبدالرحمن بن مهدي يحدث عن علي بشئ قلت لايدل هذا علي قدح ’انتهي
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ محمد بن مثنی جو شاگرد عبدالرحمن بن مہدی کے ہیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ابو عبدالرحمن بن مہدی کے ہیں ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن کو علی سے روایت کرتے ہوئے نہیں سنا پس اس سے ضعف علی بن صالح کا کہاں ثابت ہوا؟ کیونکہ محمد بن المثنی اپنے علم کی نفی کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن کو بروایت علی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔اور محمد بن مثنی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن مہدی نے علی بن صالح کی حدیثوں کو ساقط الاحتجاج سمجھا ہے ۔اس لیے روایت ان سے نہیں کی ۔
اور معترض نے اس عبارت کا ترجمہ یوں کیا کہ کہا محمد بن مثنی نے کہ نہیں سنا عبدالرحمن نے علی سے حدیث بیان کرتے ہوئے کوئی شے ،حالانکہ محمد بن مثنی یہ نہیں کہتے ہیں کہ عبدالرحمن نے علی سے حدیث نہیں سنا ' بلکہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو بروایت علی حدیث کرتے نہیں سنا، پس اس میں محمد بن مثنی نے نفی سماعت اپنی کی نہ یہ کہ نفی سماعت عبدالرحمن کی علی بن صالح سے
ہدایۃ النحو کاپڑھنے والابھی سمجھے گا کہ اس عبارت ' یعنی "قال محمد بن مثنی": قا ل سمعت عبدالرحمن بن مهدي يحدث عن علي بشئ ’ میں محمد بن مثنی کے قول کا مقولہ کیا ہے ۔اور لفظ ماسمعت میں جو ضمیر متکلم کی ہے اس کا متکلم کون ہے؟ بھلا جو شخص اس قدر بھی نہیں سمجھ سکتا ہے وہ تنقید حدیث کیا کرسکتا ہے؟
یہ بیان معترض صاحب کی استعداد علمی کا ہوا،اب اس کی چالاکی اور بہادری کو دیکھے کہ میزان الاعتدال کے اوپر کی عبارت یعنی قال(محمد) سے ( عن علی بشئ) تک نقل کیا اور اس کے بعد ذہبی کی عبارت جو یہ ہے ( قلت :لايدل هذا علي اقدح ) اس کو چھوڑدیا اور یہ نہیں سمجھا کہ جو میزان الاعتدال کی طرف مراجعت کرے گا وہ اس عبارت کو دیکھے گا اور معلوم کرے گا محمد بن مثنی کی نفی سماعت علی بن صالح کی قدح پر دلالت نہیں کرتی ہے۔
پس جب کہ عبدالرحمن بن مہدی سے ان کی تصنیف ثابت نہیں ہوئی بلکہ ابن معین واحمد بن حنبل ونسائی سے ان کو توثیق ثابت ہوئی ، تو اب یہ حدیث بہت صحیح وقوی ٹھہری 'اور مجرد آپ کے خیالات کاسدہ سے تو سب حدیثیں صحیح بھی ضعیف ہوجاویں گی ، کیونکہ ہر حدیث صحیح پراحتمال ضعف جاری ہوسکتا ہے اور اس صورت میں دین میں بڑی بڑی خرابیاں واقع ہوں گی ّاعوذ باالله من هذه الصنيع السوء ومن وسواس الشيطان الرجيم الحمدلله کہ ثقاہت علی بن صالح اور باقی رواۃجو اس حدیث میں ہیں ان کے احوال کو بھی بیان کردیتا ہوں تاکہ ہر کسی کو اس حدیث کی صحت پر پورے طور سے وثوق حاصل ہوجائے تو معلوم کرنا چاہیے کہ :
اول : راوی اس کا مخلد بن خالد الشعیری ہے۔کہا خلاصہ میں:مخلد بن خالد الشعيري ابو محمد العسقلاني ثم الطرسوسي عن ابن عينيه وابي معاوية وعنه مسلم و ابوداود وثقه انتهي
اور کہا حافظ ابن حجر نے تقریب میں : مخلد بن خالد بن يزيد الشعيري تزيل طرسوس ثقة منالعاشرة انتهي
اور کہا امام ذہبی نے میزان میں: صدوق فاضل تزيل طرسوس ويعرف بالشعير ي انتهي
دوسرا راوی اس کا علی بن صالح ہے ۔ وقد مرترحمته
تیسرا راوی اس کا سلمہ بن کہیل ہے ،کہا ابن حجر نے تقریب میں : سلمة بن كهيل الحضرمي ابو يحيٰ الكوفي ثقه من الرابعة ّانتهي
اور کہا ذہبی نے کاشف میں: سلمة بن كهيل ابو يحٰي الحضرمي ‘ شقه امام له مائتان وخمسون حديثا انتهي
چوتھا حجر بن عنبس ہے کہا تقریب میں : حجر بن العنبس الحضرمي الكوفي ’ صدوق مخضوم من الثانية
اور کہا حافظ نے تلخیص الجبیر میں : هو شقهّ معروف قيل له صحبة ووثقه يحيي بن معين وغيره انتهي
اور کہا خلاصہ میں : حجر بن العنبس عن وائل بن حجر ’ وعنه سلمة بن كهيل وعلقمة بن مرثد وثقه ابن معين انتهي
پانچواں راوی اس کا وائل بن حجر اور وہ صحابی جلیل القدر ہیں ، کہا حافظ امام اب اثیر نے جامو الاصول میں: وائل بن حجر بن ربيعة بن وائل الحضرمي ‘ بشر به النبي صلي الله عليه وسلم اصحابه قبل قدومه وقال: ياتيكم وائل بن حجر من ارض بعيدة من حضر موت طائعار اغباني الله عزوجل في رسوله هو بقيه ابنا ء الملوك فلما دخل عليه رحب وادناه من نفسه ويسط له ردائه فاجلسه عليه وقال اللهم بارك في وائل وولده وولد انتهي مختصرا
اور کہا ابن حجر نے تقریب میں :صحابي جليل وكان من ملوك اليمن انتهي
پس ثابت ہوا کہ : یہ حدیث بہت صحیح وقوی ازروئے سندومتن کے ہے ۔ کوئی راوی اس کا ضعیف نہیں۔اور یہ حدیث حجت قاطع ہے اوپر منکرین بالجہر کے۔ وباللہ الوفیق
قولہ حدیث دوم: نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا تَلَا {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7]، قَالَ: «آمِينَ»، حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّل
اس حدیث کا راوی بشر بنرافع تقریب کے صفحہ 51 میں ضعیف الحدیث لکھا گیا ہے 'اور ابو عبداللہ ابن عم ابی ہریرہۃ کو میزان الاعتدال کے صفحہ265 میں لکھاہے کہ سوائے بشر بن رافع کے ابوعبداللہ سے حدیث روایت کرتے ہوئےکسی دوسرے راوی کو نہیں سنا اس حدیث کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں رہا
اقول: بشر بن رافع کی اگرچہ بعض محدثین نے تصنیف کی ہے مگر بعض محدثین نے ان کی توثیق بھی کی ہے ۔ فرمایا امام حافظ عبدالعظیم منذری نے کتاب الترغٰب والترھیب میں: بشر بن رافع ابوالاسباط النجراني ضعفه احمد وغيره ’ وقواه ابن معين وغيرة وقال ابن عدي :لاباس باخباره لم ارله حديثا منكراانتهي
اور کہاخلاصہ میں: بشر بن رافع الحرثي ابو الاسباط امام مسجد بخران عن يحيي بن ابي كثير وعنه حاتم بن اسمعيل وعبدالرزاق‘ وثقه ابن معين ّ وابن عدي ’وقال البخاري :لايتابع انتهي
اب میں یہ کہتا ہوں کہ علاوہ اس امر کے ضعف بشر بن رافع کا متفق علیہ نہیں' مختلف فیہ ہے ، غایۃ مافی الباب یہ ہے کہ یہ حدیث بانفرادہ قابل حجت نہ ہوگی 'لیکن بانضمام حدیث اول جس کی صحت کامل طور پر اوپر ثابت ہوچکی 'وباجتماع دوسری احادیث صحیحہ کے جن کا بیان آگے آوے گا ضعف اس کا مرتفع ہوجاوے گا۔اور وہ حدیث اس حدیث کی شاہد و متابع قوی سمجھی جاوے گی ۔ کیونکہ جب مجموعہ چند احادیث ضعہفہ کا بسبب تعدد طرق نزدیک بعض علماء کے درجہ حسن کو پہنچ جاتا ہے ، تو اب اس حدیث کو بدرجہ اولی تقویت حاصل ہوگی اس لیے کہ اسباب آمین بالجہر میں جو احادیث کہ مروی ہیں ۔اگرچہ بعض ان میں ضعیف ازروئے سند کے ہیں مگر اکثر ان میں صحیح وقوی ہیں ، پھر اب اس کی تقویت میں کیا کلام رہا ۔
دیکھو کہا شیخ عبدالحق دہلوی نے رسالہ اصؤل حدیث میں: الاحتجاج في الاحكام بالخبر الصحيح مجمع عليه ’ وكذلك بالحسن لذاته عند عامة العلماء وهو ملحق بالصحيح في باب الاحتجاج وان كا له دون في المرتبة والحديث الضعيف الذي بلغ بتعدد الطريق مرتبة الحسن لغيره ايضا محتج وما اشتهر ان لحديث الضعيف معتبر فضائل الاعمال لافي غيرها المراد مفرداته لامجموعها ‘لانه داخل في الحسن لافي الضعيف ‘ صرح به الائمة وقال بعضهم ان كان الضعيف من جهتد سوء حفظ او اختلاط او تدريس مع وجود الصدق والد يانه ’ ينجبر بتعدد الطرق وان كان من جهته اتهام الكذب والشذوذاو فحش الخطاء لاينجير بتعدد طرق والحديث محكوم عليه بضعف ومعمول به في فضائل الاعمال وعلي مثل هذا اينبغي ان يحمل ماقيل ان لحوق الضعيف بالضعيف لايفيد قوة والانهدادالقول ظاهرا الفساد انتهي
اور بھی کہا شیخ عبدالحق نے اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ میں: حتجاج دراحکام بخبر صحیح لذاتہ مجمع علیہ است 'وہمچنین حسن لذاتہ نزد عامۃ علامء وآں ملحق صحیح است دراحتجاج اگرچہ دردتبہ کمتراست ' وچوں حدیث ضعیف بتعدد طرق بمرتبہ حسن برسداں نیز مجتمع بہ است وآں کہ مشہور است کہ حدیث ضعیف درفضائل اعمال معتبر است نہ در غیرآں مفرد اتش مراد است نہ مجموع آں کہ بتعدد طرق داخل حسن است نہ ضعیف صرح بہ الائمۃ ۔ وبعض گفتہ اند۔ اگر ضعف بجہت سوء حفظ بعض رواۃ یا اختلاط 'یا تدریس بود'با وجود صدق ودیانت منجبر میگر ددبتعدد طرق۔واگر از جہت اتہام کذب راوی یاشذ وذوفحش خطا بود'اگرچہ تعدد طرق واشتہ باشد منجبر نگردد دحدیث محکوم بضعف باشد ودر فضائل عمال معمول وشاید کہ بریں صورت محمول خواہد بو(آنچہ بعض گفتہ اند کہ لحوق بضعیف افادۃ نمی کند قوت رادالاریں سخن ظاہر الفساد است انتھی
اور ایسا ہی شیخ سراج احمد سرہندی نے شرح جامع ترمذی میں: وچوں حدیث ضعیف بتعدد طرق بمرتبہ حسن رسدآں نیز محتج بہ است وآنکہ مشہور راست کہ حدیث ضعیف درفضائل اعمال معتبر است بجہت ترغیب نہ در غیران مفرد اتش مراداست نہ مجموع کہ آن بتعدد طرق در محل حسن است نہ ضعیف انتہی
اور کہا علامہ قسطانی نے مقدمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں: قد يكون كل من المتابع لااعتمادعليها فباجتماعها تحمل القوة انتهي
اور کہا امام نووی نے شرح مہذب میں: الضعيف اذا تعددت طرقه صارحسنا لغيره انتهي مختصرا
اور کہا امام نووی نے شرح مسلم کتاب الادب میں : قولہ: عن عبيدالله بن عمر واخيه عبدالله الخ هذا صحيح لان عبيدالله ثقه حافظ ضابط مجمع علي الاحتجاج به داما اخوه عبدالله ضعيف لايجوز الاحتجاج به فاذا اجمع بينها الراوي جازووجب العمل بالحديث اعتماد علي عبيدالله انتهي
حاصل کلام یہ ہوا کہ جب کوئی حدیث چند طرق سے مروی ہو ان میں بعض طرق کے رواۃ ضابطہ 'عادل ثقہ ہوں اور بعض طرق کے ضعفاء تو اب اعتماد اسی حدیث صحیح پر ہوگا'اور اس حدیث ضعیف کو اس حدیث صحیح کے سبب سے قوت حاصل ہوجاوے گی 'اور مسئلہ مبحوث عنہا میں یہی صورت واقع ہے ،کیونکہ آمین بالجہر میں چند حدیث بسند صحیح مروی ہیں چنانچہ ایک کا بیان گزرا اور باقی کا آتا ہے ۔
تو اب ماورائے ان کے جواحادیث کہ ضعیف ہیں ان کا ضعف کچھ مضر مطلب و ندعا کے نہ ہوگا کیونکہ اصالۃ اعتماد انہیں احادیث صحیحہ پر ہے اوراحادیث ضعیفہ اسی کی متابعات شمار کی جاتی ہیں 'اور جس جماعت کی رائے پر حدیث ضعیف تعدد طرق سے درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے اس کے نزدیک تو ضعف باقی ہی نہ رہا ۔
قولہ حدیث سوم ابوداود: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ {وَلَا الضَّالِّينَ} ، قَالَ: «آمِينَ»، وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ
حدیث ہذا کے راوی محمد بن کثیر کی نسبت تقریب میں کثیر الغلط لکھا ہے اور میزان الاعتدال میں محمد بن کثیر الغلط لکھا ہے اور میزان الاعتدال میں محمد بن کثیر کو ثقہ نہیں ہے ۔لکھا ہے ۔لہذا یہ حدیث بھی ضعیف ثابت ہوئی ۔
اقول: سبحان اللہ معترض کیا غافل اور نا آشنا ہے فن رجال ہے ۔اس کو تمیز نہ ہوئی کہ یہ محمد بن کثیر بن ابی عطاء الشقفی الصعانی یا محمد بن کثیر العبدی البصری ،اس نے جس محمد بن کثیر کو تقریب میں ضعیف پایا اس کو راوی اس حدیث کا قرار دیکر ضعیف لکھ دیا
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت رامی شناسم
میں اب تحقیق اس کی بیان کرتا ہوں ۔ سنو کہ: محمد بن کثیر جورای سفیان ثوری سے اس حدیث میں ہے ۔ وہ محمد بن کثیر العبدی البصری ہے۔۔اور ان کی توثیق کی ہے اور صدوق کہا ہے امام احمد بن حنبل 'وابو حاتم وابن حبان نے۔اور روایت کیا محمد بن کثیر سے امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان میں : حدثنا محمد بن كثير قال اخبرني سفيان عن ابي خالد
کہا ہے امام احمد بن حنبل 'وابو حاتم وابن حبان نے'اور روایت کیا محمد بن کثیر سے امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان میں: حدثنا محمد بن كثير قال اخبرني سفيان عن ابي خالد
کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں : حدثنا ابن كثير هوالعبدي اخبرني سفيان هو الثوري انتهي
اور کہا قسطلانی نے ارشاد الساری شرح بخاری میں: محمد بن کثیر یفتح الکاف وبالمثلثہ العبدی بسکون الموحدۃ البصری الموثق من ابی حاتم المتوفی سنة ثلاث وعشرين وماءتين قال: اخبرنا سفيان الثوري انتهي
اور اگر معترض کوشرح بخاری نصیب نہ ہوئی تھی تو بھلا بخاری شریف کے حاشیہ ہی کو دیکھ لیا ہوتا کہ جناب مولوی احمد علی علیہ الرحمۃ والغفران نے کیا لکھا ہے، دیکھو عبارت ان کے حاشیہ کی یہ ہے کہ : محمد بن كثير يفتح كاف وكسل المثلشة العبدي االبصري شقه مات ٢٢٣ه هوابن سعيد الثوري انتهي
اور وہ جو محمد بن کثیر الثقفی الصنعانی ہے اسکی شان میں حافظ نے کثیر الغلط لکھا ہے اوربخاری وابوداود نے اس کی تصنیف کی ہے۔ پھر بخاری باوجود ضعیف کہنے کے کیونکر اپنی صحیح میں لاسکتا ہے ؟ اور ابوداود باوجود ضعیف کہنے کے کیونکر اپنی صحیح میں لاسکتا ہے ؟ اور حال یہ ہے کہ ابوداود نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے اور ابوداود اپنی سنن میں جس حدیث پر سکوت کرتا ہے وہ حدیث اس کے نزدیک بلاضعف ہے ۔ پس اب قطعا معلوم ہوا کہ یہ محمد بن کثیر العبدی ہے نہ الثقفی الصنعانی ۔دیکھو خلاصہ میں لکھا ہے : محمد بن كثير بن ابي عطاء الثقفي مولاهم ابو يوسف الصنعاني ثم المصيصے’ وثقه ابن سعد’وابن معين ’ وضعفه ابو داود وقال البخاري لين جدا ومحمد بن كثير العبدي ابوعبدالله البصري ’ عن اخيه سليمان وشعبة والثوري ’ وعنه اللبخاري وابو داود والذهلي ’ قال ابن حبان : كان ثقة فاصلاً
اور حافظ ذھبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے : محمد بن كثير العبدي البصري عن اخيه سليمان وشعبة والثوري ’ وعنه البخاري وابوداود يوسف القاضي وخلق ’قال ابو حاتم : صدوق وروي احمد بن ابي خيثمه قال لنا ابن معين لا تكتبوا عنه لم يكن بالثقة قال ابن حبان : كان تقيا فاصلا انتهي
اور کہا حافظ ابن حجر نے ہدی الساری مقدمہ فتح الباری میں: محمد بن كثير العبدي البصري من شيوخ البخاري ّقال ابن معين لم يكن بالثقة وقال ابو حاتم صدوق ووثقه احمد بن حنبل انتهي
اب ان سب روایتوں سے ظاہر ہوا کہ مراد محمد بن کثیر سے العبد البصری ہے نہ والثقفی الصنعانی
اور جو ابن معین نے لم یکن بالثقہ کہا ہے اس کو محدثین نے رد کردیا ہے ۔کہا حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں: محمد بن كثير العبدي البصر ثقه لم يصب من فعفه انتهي
اور امام بخاری کا محمد بن کثیر سے روایت کرنا اور امام احمد بن حنبل وابو حاتم وابن حبان کا ثقہ وصدوق کہنا حجۃ قاطعہ ہے اوپر توثیق اس کی 'اور مقابلہ میں اتنے معدلین کے، فقط قول یحیی بن معین کا مقبول نہ ہوگا کیونکہ باب جرح رواۃ میں انکی شدت ظاہر وآشکار ہے ۔
وعلامہ جلال الدین سیوطی نے زہر الربی علی سنن المجتبی میں لکھا ہے :ان كل طبقة من نقاد الرجال لايخلوا من متشدد و موسط ‘ فمن الاولي : شعبة وسفيان الثوري وشعبة اشد منه ومن الثانية يحيي القطان وعبدالرحمن بن مهدي ويحيي اشد من عبدالرحمن ومن الثالثة يحيي بن معين واحمد بن حنبل ويحي اشد من احمد ومن الرابعة ابو حاتم والبخاري وابو حاتم اشد من البخاري انتهي
پس یہ حدیث بھی صحیح ٹہھری کیونکہ اس حدیث کے کل راوی ثقہ ہیں
اول محمد بن کثیراالعبدی جن کی ثقاہت اور عدالت ابھی ثابت ہوچکی ہے ۔
دوسرے سفیان ثوری جن کے حق میں حافظ امام ابن الاثیر جزری نے جامع الاصول فی احادیث الرسول میں لکھا ہے : سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري الكوفي امام المسلمين وحجة الله علي خلقه جمع زمنه بين الفقة والاجتهاد والحديث والزهد والعبادة والورع والثقة ’واليه المنتهي في علم الحديث وغيره من العلوم اجمع الناس الائمة المجتهدين واحد اقطاب الاسلام وار كان الدين انتهي ملحضا
اور کہا حافظ ابن حجر نے تقریب میں: سفيان بن سعيد بن سروق الثوري ابو عبدالله الكوفي ’ثقة حافظ فقيه عابد امام حضة من رؤس الطبقة السابعة وكان ربما ولس انتهي
اور کہا خلاصہ میں : سفيان بن سعيد بن مسروق بن حبيب ابن رافع الثوري ابوعبدالله الكوفي احد الائمة الاعلام عن زياد بن علاقة وزيد بن اسلم وخلائق’ وعنه الاعمش وابن عجلان من شيوخه وشعبة ومالك من اقرانه وابن المبارك ويحي القطان وابن مهدي وخلق’ قيل روي عنه عشرون الفا قال ابن المبارك ماكتبت عن افضل من سفيان قال العجلي كان لايسمع شيئا الاحظة قال الخطيب : اكن الثوري اماما س من ائمة المسلمين وعلما من اعلام الدين مجمع علي امامته مع الاتقان والضبط والحفظ والمعرفة والورع انتهي مختصرا
تیسرے سلمۃ بن کہیل ' چوتھے حجر بن العنبس پانچویں وائل بن حجر صحابی اور ترجمہ ان تینوں کا بیان حدیث اول میں گذرا۔
اور ترمذی نے سفیان کی حدیث کو حسن کہا ہے ۔ عبارت ان کی یہ ہے کہ : قال ابو عيسي حديث وائل بن حجر ’حديث حسن
اور تصحیح کی حدیث سفیان کی امام بخاری اور ابو زرعہ نے ،کہا ترمذی نے جامع میں: قال ابوعيسي سمعت محمدا يقول حديث سفيان اصح من حديث شعبة وسالت ابازرعة عن هذا الحديث فقال : حديث سفيان في هذا اصح انتهي
اور علامہ امام ابن سید الناس نے بھی اس کی تصیح کی ہے جیسا کہ ہے نیل الاوطار میں: وقدر حجت رواية سفيان بمتابعة اثنين بخلاف شعبة فلذلك جزم التقاء بان روايته اصح كما روي ذلك عن البخاري وقد حسن الحديث الترمذي قال ابن سيد الناس ينبغي ان يكون صحيحا انتهي
اور امام دارقطنی نے بھی حدیث سفین کو صحیح کہا ہے اور بیان اس کا بجواب اعتراض حدیث پنجم آوے گا اور حافظ ابن حجر نے تلخیص الجبیر میں لکھا ہے: وفي رواية ابي داود ورفع صوته وسنده صحيح وصحهه الدار قطني انتهي
اور امام ابن القيم نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے : رواه الترمذي وغيره واسناده صحيح انتهي
اگر معترض تقلیدا لمحمد شاہ پنجابی یہ شبہ پیش کرے کہ سفیان ثوری مدلس ہیں ' حدیث ان کی بغیر تصریح سماع مقبول نہ ہوگی تو جواب اس کا نچند وجوہ ہے
اول یہ کہ " عموما یہ قول کہ عنعنہ مدلسین بلاتصریح کے سماع کے مقبول نہیں غیر مسلم ہے،امام حافظ مبارک بن محمد بن محمد بن عبدالکریم الشہیر بابن الاشیرازی نے مقدمہ جامع الاصول من احادیث الرسول میں تدلیس کی چھ قسمیں لکھی ہیں
النوع الرابع ’ وهوالثاني من المختلف فيه رواية المدلسين اذا لم يذكروا سماعهم في الرواية فيقولون قال فلان ممن هو معاصرهم اولم يروه
ولايكون لهم عنهم سماع ولااجازة ولاطريق الرواية فيوهمون بقولهم قال فلان انهم قد سمعوا منه ’ اواجازة س لهم او غير ذلك فيكونون في قولهم "قال فلان" صادقين لانهم يكونون قد سمعوه من واحد او اكثر منه عنه ‘ وهذا يسمعونه بينهم قد ليسا لابهم حصل فيه ّ وقد جعله قوم صحيحا مجتبايه منهم: ابو حنيفة وابراهيم’وحماد بنابي سليمان وابو يوسف ‘ ومحمد بن الحسن ومن تابعهم من ائمة الكوفة ’ وجعله قوم غير صحيح ولامحتج به منهم الشافعي وابن المسيب والزهري والاوزاعي واحمد بن حنبل ومن تابعهم من ائمة الحجاز واهل الحديث لايعد ونه صحيحا ولامجتبابه ’ وهو علي مستة اصناف انيتهي
اس سےمعلوم ہوا کہ امام ہمام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور صاحبین 'اور ایک جماعت ائمہ کوفہ کے نزدیک عنعنہ مدلس کا مقبول ہے۔ تو اب معترض اس سے سرتابی نہیں کرسکتا ہے۔
دوم یہ کہ ائمہ محققین نے اس امر کو تسلیم کرلیا ہے کہ عنعنہ مدلس کا مقبول ہے ۔ وہ حمل کیا جاوے گا اوپر ثبوت سماع کے 'اگرچہ ہم کو اس کا علم نہ ہو 'دیکھو فرمایا حافظ امام ابوعمر وعثمان بن عبدالرحمن المعروف بابن الصلاح نے مقدمہ میں :انه محمول علي ثبودالسماع من جهته اخري ‘ولولم لظلع عليه تحسينا للظن لصاحب للصحيح انتهي مختصراً
اور کہا امام محی الدین ابو ذکریا نووی نے منہاج شرح مسلم بن الحجاج میں: واعلم ان مافي الصحيحين عن المدلس بعن ونحوها فمحمول علي ثبوت السماع من جهتد اخري انتهي
اسی طور پر جب امیر المومنین فی الحدیث امام الجرح والتعدیل محمد بن اسماعیل البخاری اور ابو زرعہ وترمذی ودارقطنی رضی اللہ عنہم نے حدیث سفین کی تصیح وتحسین کی' تو یہ عنعنہ اب حمل کیا جاوے گا اس بات پر کہ ان ائمہ نقادین کے نزدیک سماع ثابت ہوگیا ہے۔
سوم یہ کہ سفیان ثوری اس روایت میں سلمۃ بن کہیل متنفر نہیں۔ بلکہ متابعت کی ہے ان کی علی بن صالح الہمدانی اور علا بن صالح التیمی اولاسدی الکوفی اور محمد بن سلمۃ بن کہیل نے۔ روایت علی بن صالح کی بیان حدیث اول میں گذری 'اور روایت علاء بن صالح کی ترمذی میں ہے: ثناء ابوبكر محمد بن ابان عبدالله بن نمير عن العلاء بنالصالح الاسدي عن سلمة بن كهيل نحورواية سفيان انتهي
اور دارقطنی میں نے سنن میں لکھا ہے : قال شعبة واخفي بها صوته ويقال انه وهم فيه لان سفين الثوري ومحمد بن سلمه بن كهيل وغيرها روده عن سلمة فقالوا:ورفع صؤته بامين وهو الصواب انتهي
اور کہا علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں: وقد حجت رواية سفيان بمتابعة اثنين انتهي
علاوه اس کے شعبہ سے بھی حدیث جہر کی روایت کی گئی ہے ۔ فرمایا حافظ جمال الدین زیلعی نے نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں ہے : اخرج البيهقي في سنة عن ابي الوليد الطيالسي ثنا شعبة عن سلمة بن كهيل سمعت محمدا اباعنبس يحدث عن وائل الحضرمي انه صلي خلف النبي صلي الله عليه وسلم فلما قال :ولاالضالين قال آمين ’رافعا بهاصوفة قال: فهذه الزيادة توافق رواية سفيان وقال البيهقي في المعرفة اسناد هذه الرواية صحيح انتهي
پس جب اتنے لوگوں نے سفیان ثوری کی متابعت کی تو اب حدیث ان کی ازروئے اسناد کے حس لغیرہ سے تو کم نہ ہوگی کہا حافظ ابن حجر نے شرح ننختہ الفکر میں: ومتي توبع السئي الحفظ بمعتبر كان يكون فوقه اومثله لادونه وكدا المختلط الذي لايتميز والمستور’والاسناد المرسل ’وكذا المدلس ’اذلم يعرف المحذوف منه صارحد يشهم حسنا لالذاتدبل وصفه بذلك باعتبار المجموع من المتابع والمتابع انتهي
اور ايسا ہی ہے شرح القیہ عراقی اور مقدمہ شیخ عبدالحق دہلوی وغیرہ میں
حاصل یہ کہ حدیث سفی
کی ازروئے متن کے بہت صحیح ہے اور کسی مقتد مین یا متاخرین کی جرح حدیث سفین میں نظر سے نہیں گزری بلکہ بڑے بڑے نقاد دین جو رکن علم حدیث کے ہیں جیسے بخاری 'وابو زرعہ' وترمذی ودارقطنی وغیرہ ان کا اتفاق اس کی صحت پر ثابت ہوا ، اور امام ابن القیم وعلامہ ابن سید الناس 'وحافظ ابن حجر وقاضی شوکانی نے اس کی صحت کو تسلیم کیا۔
قولہ حدیث چہارم نسائی "اخبرنا محمد بن عبدالله بن الحكم عن شعيب ’ حدثنا الليث ’حدثنا خالد ’ عن ابي هلال ’ عن نعيم ’قال :صليت وراء ابي هريرة رضي الله عنه فقرا‘بسم الله الرحمن الرحيم ‘ثم قرا بام القرآن ‘حتي اذا بلغ :ولالضالين "قال :آمين ’فقال الناس:آمين ’بقول كلما سجد الله اكبر واذاقام من الجلوس في الاثنين قال: الله اكبر ’ثم اذاسلم قال: والذي نفسي بيده اني لاشبهكم صلوة برسول الله صلي الله عليه وسلم انتهي ّ
روايت كيا نسائي ني قراة بسم الله الرحمن الرحيم میں 'باب جہر آمین میں نہیں ہے،
اول تو اس حدیث میں جہر وعدم کا کچھ ذکر نہیں ہے' صرف "قال آمین"ہے اور قول سے جہر ثابت نہیں ہوتا ہے' ورنہ قولوا التحیات سے التحیات کو بھی پکار کر پڑھنا چاہیے
دوم اس کے سلسلہ میں ابو ہلال ہے جس کو تقریب وغیرہ میں "لین الحدیث" لکھا ہے یعنی ضعیف ،
سوم اس حدیث کو باب قراۃ بسم الله كا ذكر ہے ' جس کو اتفاق کرکے بہت سے محدثین نے رد کیا ہے ۔حدیث صحیحین اس کے لیے شاہد عدل ہیں
اقول: نسائی جو اس حدیث کو باب قراۃ بسم اللہ میں لایا تو کیا اب یہ مختص ہوگئی قراۃ بسم اللہ میں؟ اور کسی مسئلہ کاحکم اس سے مستخرج نہیں ہوسکتا ہے؟ یہ ایک امر عجیب وغریب قابل مضحکہ کے ہے 'اجی معترض صاحب ! خواب غفلت سے بیدار ہوئیے ،آنکھیں کھولیے آپ کو ابھی تک اس کی بھی خبر نہیں کہ ایک ایک حدیث سے کتنے کتنے مسائل مستخرج ہوتے ہیں !اور یہ کہنا کہ اس میں جہر وعدم کا ذکر نہیں ،صرف قال آمین ہے اول دلیل ہے اوپر غبادے دسو ، فہمی آپ کی ' کیونکہ نعیم کہتا ہے کہ میں نے ابو ہریرہ کے پیچھے نماز پڑھی ۔پس پڑھا ابو ہریرہ نے بسم الله الرحمن الرحيم پھر پڑھا سورۃ فاتحہ یہاں تک کہ جب پہنچے "ولاالضالين" تک 'کہا ابوہریرہ نے آمین پس کہا مقتدیوں نے آمین، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ اور مقتدیوں نے آمین کو بآواز بلند کہا۔ ورنہ نعیم نے ابوریرہ کے آمین کو اور پھر مقتدیوں کے آمین کو کیونکر سنا؟اگر یہ بات خیال شریف میں نہ آئے تو اپنی عقل ودانش پر روئیے ۔
اور نعیم مجمر سے ابوہلال روایت نہیں کرتا ہے ، بلکہ سعید بن ابی ہلال روایت کرتا ہے 'اور جو بعض نسخ نسائی میں ابو ہلالی لکھا ہے وہ سہو کا تب ہے ، مگر معترض ان تحقیقات سے بے بہرہ ہے ۔ دیکھو حافظ جمال الدین زیلعی نے نصب الرایہ میں لکھا ہے : رواه النسائي في سنته فقال: اخبرنا محمد بن عبدالله بن الحكم ‘ ثنا شعيب ثنا الليت بن سعد عن خالد بن يزيد عن سعيد بنب ابي هلال عن نعيم المجرانتهي ّ
اور سنن دار قطنی میں ہے : حدثنا ابوبكر النساء بوري ثنا محمد بن عبدالله بن عبدالحكم قال حدثنا ابي وشعب بنب الليث قالا اخبرنا الليث بن سعد عن خالد بن يزيد عن سعيد بن ابي هلال عن نعيم المجهرانه قال : صليت وراء ابي هريرة ’آخر الحديث ‘ اور بعد روايت اس حديث کے کہا :هذا صحيح كلهم ثقات
اور شرح معانی الآثار امام ابو جعفر طحاوی میں ہے : حدثنا صالح بن عبدالرحمن قال ثنا سعيد بن ابي مريم قال انا الليث بن سعد قال اخبرني خالد بن يزيد عن سعيد بن ابي هلال عن نعيم بن المجمر قال صليت وراء ابي هريرة الحديث ّ
اور ایک نسخہ صحیحہ عتتیقہ سنن نسائی کا جو ہمارے الشیخ الاجل محدث الہند قدوۃ العارفین امام الہدی والیقین مولانا السید محمد نذیر حسین الدہلوی کے پاس ہے ،اس کی طرف میں نے مراجعت کی' اس میں بھی یہی عبارت پائی یعنی 'حدثنا خالد عن ابن ابي هلال"
پس معلوم ہوا کہ لفظ "ابن" کا کاتب نسخہ مطبوعہ نسائی سے سہوارہ گیا ہے ۔والله اعلم بالصواب
اور سعيد بن ابي هلال :ثقة معروف في الكتب الستة يروي عن نافع ونعيم المجمر ’ وعنه سعيد المقبري احد شيوخه قال ابن حزم وحده ليس بالقوي انتهي
اور کہا علامہ صفی الدین نے خلاصہ میں: سعید بن ابی ھلال اللیثی مولاہم ابوالعلاء المصری احد المکثرین عن جابر مرسلا وعن نافع وبعیم بن المجر وزید بن اسلم ' وعنہ سعید المصری ویحیی بن ایوب واللیث موثق انتھی
اور کہا حافظ امام ابن حجر نے ہدی الساری مقدمہ فتح الباری میں :سعید بن ابی ھلال اللیثیی ابو العلاء المصری اصلہ من المدينة ونشا بها ثم سكن مصر وثقه ابن سعد والعجلي وابو حاتم وابن خزيمة والدار قطني وابن حبان وآخرون ‘ وشذ الساجي فذكره في الضعفاء ‘ ونقل عن احمد ابن حنبل انه قال ماادري اي شئي حديث يخلط في الاحاديث وتبع ابو محمد ابن حزام الساجي فضعف سعيد بن ابي هلال مطلقا ولم يصب في ذلك والله اعلم احتج به الجماعة انتهي
پس ثابت ہوا کہ راوی نعیم سے سعید بن ابی ہلال ہے اور جمہور محدثین نے مثل ابن سعد وعجلی وابو حاتم وابن خزیمۃ ودار قطنی وابن حبان وبہیقی وغیرہم نے اس کی توثیق ہے اور بڑی اول دلیل اس کی ثقاہت پر یہ ہے کہ بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الوضوء میں روایت کیا ہے :
حدثنا يحي بن بكير قال ثنا الليث عن خالد عن سعيد بن ابي هلال عن نعيم اكمجمراالحديث
اور زیلعی نے بعد نقل کیا روایت نسائی کے لکھا ہے: ورواه ابن خزيمة في صحيحة والحاكم في مستدركه وقال انه علي شرط الشيخين ولم يخرجاه والدار قطني في سنته وقال حديث ورواته كلهم ثقات والبهيقي في سننه وقال اسناده صحيح وله شواهد وقال في الخلافات رواته كلهم ثقات مجمع علي عدالتهم مجتمع بهم في الصحيح بهم في الصحيح انتهي
اور ابو ہلال جس کے حق میں حافظ ابن حجر نے تقریب میں " صدوق فيه لين کہا ہے وہ محمد بن سلیم ابو ہلال الراسبی البصری ہے ۔ وہ بھی متفق علی ضعفہ نہیں ہے ۔ابوداؤد نے ثقہ کہا اور ابن معین وغیرہ نے صدوق کہا ' جیسا کہ میزان میں مذکور ہے ۔اور حافظ نے بھی فقط لفظ "لين الحديث " جیسا کہ معترض نے نقل کیا ہے نہیں لکھا ہے بلکہ لفظ " صدوق فیہ لین " لکھا ہے
اور بسم الله الرحمن الرحيم کے جہر سے مطلقا انکار نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ جہر بسم الله میں احادیث بہت وارد ہیں اگرچہ اکثر ان میں ضعیف ہیں مگر تین چار حدیثیں ان میں صحیح وقوی ہیں اور منجملہ ان کے ایک حدیث یہی ہے ،اور اس میں شک نہیں کہ اکثر معمول رسول اللہ ﷺ کا یہی تھا کہ بسم اللہ کو سرا پڑھتے تھے ۔ مگر بعض اوقات اس کے ساتھ جہر بھی کرتے تھے اور یہی مذہب ہے علمائے محققین کا۔
قولہ : حدیث پیجم : دار قطنی۔اس حدیث کی نسبت ہم بتصریح عنوان میں لکھ چکے ہیں ' فانظر اور یہ کہنا "حسنه الحاكم وصحة " کافی نہیں ۔حاکم کی تصحیح معلوم ہے ۔
اقول : آپ نے عنوان میں یہ تحریر کیا ہے کہ کتاب دار قطنی باوجود تلاش کے اس شہر میں بہم نہ پہنچی 'اگر مستدل صاحب کتاب دارقطنی دکھلا ویں گے یاحدیث کے راویوں کا نام بتادیں گے تو ان کی بھی کیفیت حال سن کر اپنے دعوی سے باز آویں گے ؟ واہ حضرت،واہ کیوں نہیں شاباش یوں ہی چاہیے ۔ابھی تک آپ کو سنن دارقطنی دیکھنے کی نوبت تو آئی نہیں۔ اور آپ نے رجما بالغیب اس پر حکم ضعف کا بھی لگادیا ۔ خیر اگر آپ اس کے مطالعے سے محروم ہیں اور تحسین حاکم پر اکتفا نہیں کرتے ہیں تو میں پوری سند اس کی پیش کرتا ہوں 'اور اقوال علمائے ثقات صحت پر اس حدیث کی ہدیہ گذرانتا ہوں ۔
دیکھیے روایت کیا امام حافظ ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنی نے سنن میں : ثنا محؐد بن اسماعیل الفارسی ثنا یحی بن صالح ثنا اسحق بن ابراہیم حدثنی عمر وبن الحارث حدثنی عبداللہ بن سالم عن الزبیری حدثنی الزھری عن ابی سلمه وسعيد عنا بي هريرة قال كان النبي صلي الله عليه وسلم اذا فرغ من قراءة ام القرآن رفع صوته وقال آمين هذا اسناد حسن انتهي
اور کہا حافظ ابن حجر نے درایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں: واخرجه ابن حبان بلفظ اذافرغ من القراءة ام القرآن رفع صوته وقال آمين وصححه الحاكم وحسنه الدار قطني انتهيّ
اور بھی کہا حافظ نے تلخیص الجبیر فی تخریج احادیث رافعی الکبیر میں: کان یشیرالی ما رواہ الدار قطنی والحاکم من طریق الزبیدی عن الزھری عن سعید وابی سلمه عن ابي هريرة قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا فرغ من القراءة ام القرآن رفع صوته وقال آمين ّ قال الدارقطني اسناده حسن وقال الحاكم صحيح علي شرطها والبيهقي حسن انتهي ّ
دیکھو تصحیح کی اس حدیث کی دارقطنی وبیہقی وحاکم سبھوں نے اور اقرار کیا اور صحت اس کی حافظ ابن حجر اور بھی علامہ شوکانی نےنیل الاوطار میں۔
اور دوسری روایت دار قطنی کی یہ ہے : حدثنا عبدالله بن ابي داؤد السجستاني حدثنا عبدالله بن سعيد الكندي ثنا وكيع والمحاربي قالا ثنا سفيان عن سلمه بن كهيل عن حجرابي العيس وهوابن عنبس عن وائل بن حجر قال سمعت النبي صلي الله عليه وسلم اذاقال غير المغضوب عليهم ولاالضالين قال آمين يمد بها صوته رواه الدارقطني وقال هذا صحيح
اور کہا حافظ ابن حجر نے تلخیص میں: وفي رواية ابي داؤد درفع بها صوته وسنده صحيح وصحه الدار قطني
اور ایسا ہی ہے نیل الاوطار میں۔
اور تیسری روایت یہ ہے : حدثني يحي بن محمدبن صاعد حدثنا ابن زنجويه حدثنا الفريابي ثنا سفين عن سلمة بن كهيل عب حجر عن وائل بن حجر سمع النبي صلي الله عليه وسلم يرفع صوته بآمين اذاقال غير المغضوب عليهم ولاالضالين
اور اس حدیث کے بھی سب رواۃ ثقات ہیں سوائے ان تین طرق کے اور چند طرق سے دارقطنی نے روایت کیا ہے جس کو شوق ہو اس کے مطالعہ سے مشرف ہو۔
قولہ حدیث ششم ابن ماجہ : حدثنا عثمان بن ابي شيبه ثنا حميد بن عبدالرحمن ثنا ابن ابي ليلي عن سلمة بن كهيل عن حجيه بن عدي علي رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم اذآ قال ولاالضالين قال آمين انتهي ّ
حمید بن عبدالرحمن کو میزان الاعتدال میں مجہول لکھا ہے ۔لہذا بوجہ مجروح ہونے راویان کے حدیث ضعیف ثابت ہوئی ، ہرگز قابل استدلال نہیں ہے
اقول: حمید بن عبدالرحمن جو شیخ ہے عثمان بن ابی شیبہ کا وہ حمید بن عبدالرحمن بن حمید الرواسی الکوفی ہے۔ اور وہ راوی ہے صحاح ستہ کا،اس کی ثقاہت میں کچھ شک نہیں لہا خلاصہ میں: حميد بن عبدالرحمن بن حميد الرؤسي بضم الراء وفتح الهمزة ابو علي الكوفي عن الاعمش وهشام ب عروة وطائفة وعنه احمد وقتتيه وابوبكر وعثمان ابنا ابي شيبة وثقه ابن معين انتهي
اور تقریب میں ہے: حميد بن عبدالرحمن بن حميد بن عبدالرحمن الرؤاسي الكوفي ثقة انتهي
اور وہ حمید جس کو معترض نے میزان الاعتدال سے نقل کیا ہے وہ حمید دوسرا ہے کہ جس کو مجہول لکھا ہے ، دیکھو عبارت میزان الاعتدال کی یہ ہے : حميد ب عبدالرحمن عن ابيه عن جدة قالابوبكر الخطيب مجهول انتهي
معترض بالکل ناآشنا ہے علم حدیث سے ۔اس کو اتنی بھی تمیز نہ ہوئی کہ یہاں پر کون حمید بن عبدالرحمن ہے،اس نے اپنی نصرت کے لیے جس حمید کو ضعیف پایا اس کو راوی ابن ابی لیلی قرار دیا۔ نعوذ باللہ من ہذا الجہل
باقی رہا حجیہ بن علی وہ بھی ثقہ ہے ۔ دیکھو میزان الاعتدال کے پوری عبارت یہ ہے : حجية بن عدي الكندي عن علي قال ابو حاتم شبه مجهول لايحتج به قلت روي عنه الحاكم وسلمة بن كهيل وابو اسحق وهو صدوق ان شاء الله تعالي قد قال فيه العجلي وثقه
معترض کی چالاکی دیکھو کہ فقط لفظ مجہول کو اس نے نقل کردیا اور ذہبی نے جو اس کا جواب دیا ہے اس سے بالکل سکوت کرگیا ۔ پس ثابت ہوا کہ حجیۃ بن عدی ثقہ ہے' اور جہالت بھی اس کی مرتفع ہوگئی ، کیونکہ تین شخصوں نے یعنی حکم اور سلمہ اور ابو اسحق نے اس روایت کیا ہے ۔اور جس سے دویا تین ثقہ روایت کریں اس کی جہالت مرتفع ہوجاتی ہے ۔ فرمایا امام حافظ ابوعمر ابن عبدالبر نے۔الاستذكار لمذاهب علماء الامصار فيما تضمند الموطا من معاني الراي والآثار میں : فمن روي عنه ثلثة وقيل اثنان ليس بمجهول انتهيّ
اور فرمايا امام زيلعي ني نصب الرايه كے باب الریاء میں: قال المنذر ي في مختصر ه وقد حكي عن بعضهم انه قال زيد ابو عياش مجهول وكيف يكون مجهولا وقد روي عنه اثنان ثقتان عبدالله بن يزيد مولي الاسود ابن سفيان وعمر ان بن انس انتهي
اور کہا حافظ ابن حجر نے ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری میں: ان الحكم بن عبدالله ابو النعمان البصري قال ابن ابي حاتم عن ابيه مجهول قلت ليس بمجهو ل من روي عنه اربع ثقات ووثقة الذهلي انتهي ملحضا
اور کہا علامہ شمس الدین سخاوی نے شرح الفیہ عراقی میں: قال الدارقطني من روي عنه ثقتان فقد ارتضعت جهالته وتثبت عدالته انتهي
باقی رہے اس میں تین راوی : اول عثمان بن محمد بن ابی شیبۃ دوم محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی ' سوم سلمۃ بن کہیل ۔
پس عثمان بن ابی شیبۃ رجال سے سے بخاری ومسلم وابو داود ونسائی وابن ماجہ کے ہیں اور اخراج شیخین کا اس کی ثقاہت کے لیے کافی ہے ۔اور کہا ابن معین نے ثقہ امین اور کہا خلاصہ میں: عثمان بن محمد بن ابي شيبة ابراهيم ابن عثمان العيسي ابو الحسن الكوفي في الحافظ عن شريك وابن مبارك وابن عيينة وعنه خ م د س ق وابو زرعة وزكريا بن يحي وطلق ّقال ابن معين ثقه امين وقال ابو حاتم صدوق وانكير عليه احمد احاديث انتهي مختصرا
اور کہا تقریب میں عثمان بن محمد ابو الحسن بن ابي شيبة ثصة حافظ شهير وله ادهام وقيل كان لايحفظ القرآن انتهي مختصرا
اور ؐھمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی بھی صدوق ہے اگرچہ ضعف میں اس میں من قبل حفظہ ہے کہا امام ابو عیسی ترمذی نے آخر سنن میں :هكذا من تكلم في ابن ابي ليلي انما تكلم فيه من قبل حفظه قال يحي بن سعيد روي شعبة عن ابن ابي ليلي عن اخيه عيسي عن عبدالرحمن بن ابي ليلي عن ابي ايوب عن النبي صلي الله عليه وسلم قال يحي ثم لقيت ابن ابي ليلي فحدثناه عن اخيه عيسي عن عبداالرحمن بن ابي ليلي عن علي عن النبی صلي الله عليه وسلم قال ابوعيسي ويرري عن ابن ابي ليلي نحو هذا غير شي كان يروي الشئي مرة هكذا ومرة بكذا يغير الاسناد وانما جاء هذا من قبل حفظه لان اكثر من مضي من اهل العلم كانوا يكتبون ومن كتب منهم انما كان يكتب لهم بعد السماع وسمعت احمد بن الحسن يقول سمعت احمد بن حنبل يقول ابن ابي ليلي كايجتمع به وكذلك من تكلم من اهل العلم في مجاهدين سعيد وعبدالله بن ليعة وغيرهما انما تكلموا فيهم من قبل حفظهم وكثرة خطائهم وقد روي عنهم غير واحد م الائمة فاذا تفرد احد من هولاء بحديث ولم يتابع عليه لم يجتمع نه كماقال احمد بن حنبل ابن ابي ليلي لايحتج به انما عني اذا تفرد بالشي انتهي
اور کہا تقریب میں: محمد بن عبدالرحمن بن ابي ليلي الانصاري الكوفي القاضي ابو عبدالرحمن صدوق سئي جد انتهي
اور کہا خلاصہ میں : محمد بن عبدالرحمن بن ابي ليلي الانصاري قاضي الكوفة واحد الاعلام عن اخيه عسي والشعبي وعطاء ونافع وعنه شيبة وسفيانان ووكيع وابو نعيم قال ابوحاتم محله صدق شغل بالقضاء فساء حفظه وقال النسائي ليس بالقوي وقال العجلي كان فيها صاحب سنة جائز الحديث انتهي
پس معلوم ہوا کہ ضعف ابن ابی لیلی کا من قبل حفظ ہے اور ظاہر ہے کہ ابن ابی لیلی سلمۃ بن کہیل سے روایت کرنے میں متنفر نہیں ہے بلکہ علاء بن صالح الہمدانی و محمد بن کہیل وسفیان ثوری نے وشعبہ نے مطابق روایت سنن بیہقی کے اس کی متابعت کی ہے ،اب یہ حدیث حسن لغیرہ ہوگئی اور قابل حجت کے ٹھہری ۔اور بیان اس کا اتم بجواب اعتراض حدیث دوسری کے ہوچکا ہے ۔
اور دیکھو کہا امام نووی نے شرح مسلم میں : فصل في معرفة الاعتبار والمتابعة والشاهد والافراد فاذا روي حماد مثلاً حدثنا عن ايوب عن ابن سيرين عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم ينظر هل رواه ثقة غير حماد عن ايوب او عن ابن سيرين غير ايوب او عن ابي هريرة غير ابن سيرين او عن النبي صلي الله عليه وسلم غير ابي هريرة فاي ذلك وجد علم ان له اصلا يرجع اليه فهذا النظر والتفتيش سيمي اعتبار واما المتابعة فان يرويه عن ايوب غير حماد وعن ابن سيرين غير ايوب او عن ابي هريرة غير ابن سيرين او عن النبي صلي الله عليه وسلم غير ابي هريرة فكل واحد من هذه الاقسام يسمي بمتابعة واعلاها الاولي وهي متابعة حماد وفي الرواية عن ايوب ثم مابعدهاعلي الترتيب واما الشاهد فان يروي حديث آخر بمعناه وتسمي المتابعة شاهدا‘ ولايسمي الشاهد متابعة فاذا قالوا في نحو هذا تفرجه ابو هريرة اوابن سيرين او ايوب او حماد كان مشعراء بانتقام وجود المتابعات كلها انتهي
قولہ حدیث ہفتم ترمذی وابوداؤد حدثنا بندارنا يحي بن سعيد وعبدالرحمن بن مهدي قال نا سفيان عن سلمة بن كهيل عن حجر بن العنبس عن وائل بن حجر قال سمعت النبي صلي الله عليه وسلم قراء غير مغضوب عليهم ولاالضالين قال امين ومد بها صوته انتهي
صفحہ 142 میزان الاعتدال میں بندار کو کذاب لکھا ہے یہ حدیث غلط وضعیف ثابت ہوئی ۔
اقول :سچ ہے
تامرد سخن نگفتہ باشد عیب وہنر ش نہقہ باشد
سبحان اللہ آپ کی قابلیت ظاہر ہوئی اور مبلغ علم معلوم ہوا۔آپ کو یہ بھی اب تک خبر نہیں کہ بندارا کس کا لقب ہے؟ اور اس کا اصل نام کیا ہے؟دیکھئے وہ بندارا جس کو آپ نے میزان سے نقل کیا ہے وہ بنداربن عمر الرویانی س شیخ الفقییہ المقدسی ہے جس کے حق میں ذہبی نے کہا ہے قال النجشی کذاب ۔اور یہ بندار بن عمر الرویانی راوی صحاح ستہ کا نہیں ہے،صحاح ستہ میں کہیں اس سے روایت نہیں۔بلکہ وہ بندار جو راوی صحاح ستہ کا ہے وہ محمد بن بشار بندار ائمہ ستہ نے اس سے روایت کیا ہے ،اس کی ثقاہت وعدالت حجمع علیہا ہے اور بعض محدثین نے جو اس پر بلاسبب جرح کیا ہے اس کو نقاد دین نے تسلیم نہیں کیا۔ دیکھو کہا حافظ شمس الدین ذہبی نے میزان میں: محمد بن البشار البصري الحافظ بندار ثقه صدوق كذبه الفلاس فما اصغي احدا الي تكذيبه ليتفنهم ان بندار الصادق امين وقال عبدالله بن الدور في كنا عنه يحيي بن معين فجري ذكر بتدار فرايت يحي لايعبابه ويستضعفه وقال ابن سيار وهو ثقه وقال ابوداؤد وكتبت عن بندار نحوا من خمسين الف حديث ولولاسلامة فيه لتركت حديثه وقال ابوحاتم وغيره صدوق قلت كان من اوعية العلم روي عنه الائمة الستتة واب خزيمة وابن ساعد والناس قال العجلي كثير الحديث وقال ابن خزيمة في كتاب التوحيد حدثنا امام اهل زمانه في العلم والاخبار محمد بن بشار بندار انتهي مختصرا
اور کہا حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں: محمد بن بشار البصري المعروف بنداراحد الثقات المشهورين روي عنه الائمة الستة وثقه العجلي والنسائي وابن خزيمة وسماه امام اهل زمانه والفرهياني والذهلي ومسلمة وابو حاتم الرازي وآخرون وضعفه عمر وبن علي الفلاس ولم يذكر سبب ذلك فما مرجوا علي تجريحه قال القواريري كان يحي بن معين يستضعفه انتهي
اور کہا حافظ نے تقریب میں : محمد بن بشار بن عثمان العبدي البصري ابوبكر بندار ثقه انتهي ّ
اور کہا علامہ صفی الدین نے خلاصہ میں: محمد بن بشار بن عثمان العبدي ابوبكر البصري الحافظ بندار احداوعية السنة قال الخطيب كان يحفظ حديثه وقال ابن خزيمة حدثنا الامام محمد بن بشار وقال العجلي بندار ثقة كثير الحديث وقال ابو حاتم صدوق وقال النسائي لاباس به وقال الذهبي انعقد الاجماع بعد علي الاحتجاج بندار نتهي
اور امام ترمذي نے اس حدیث کو حسن کہا ہے : قال ابوعيسي حديث وائل بن حجر حديث حسن انتهي
اور بھی ترمذی نے بیت جگہوں میں اس کی حدیث کو صحیح وحسن کہا ہے ' چنانچہ کہا: باب ماجاء في كراهية ان يبا در الامام في الركوع والسجود حدثنا بندار ثنا عبدالرحمن بن مهدي نا سفيان عن ابي ابي اسحق عن عبدالله بن يزيد قا ل ثنا البراء عالي آخر الحديث ’ اور پھر کہا: وقال ابوعيسي حديث البراء حسن صحيح انتهي
پس ثابت ہوا کہ محمد بن بشار بندار ثقہ وصدوق بلاشک وشبہ ہے ۔ابن خزیمہ وابن سیار فرہیانی وترمذی وابوداؤد وابو حاتم ونسائی وذہلی ومسلمہ وخطیب اور ایک جماعت محدثین نے اس کی توثیق کی ہے 'اور شیخین نے اپنی صحیحین میں اس سے روایت کی ہے 'یہاں تک کہ کہا ذہبی نے کہ اجماع منعقد ہوگیا ہے اوپر احتجاج حدیث محمد بن بشار کے ۔ اور یہی حق صریح ہے فماذا بعدالحق الاضلال
واگر مطلق جرح معتبر ہو اور جارح اس کا کیسا ہی ہو تو اس صورت میں سب راوی مجروح ہوجاویں گے ' کوئی جرح سے خالی نہیں رہے گا۔اور بھلا کوئی ذی عقل وشعور اس کو پسند کرے گا۔ فرمایا علامہ زیلعی نے نصب الرایہ میں بیچ بیان جہریہ بسم اللہ کے: مجرد الكلام في الرجل لايسقط حديثه ‘ ولو اعتبرنا ذلك لذهب معظم السنة اذلم يسلم من كلام الناس الا من عصمه الله انتهي
اب باقی ر ہ گئے اس حدیث میں چھ راوی
اول یحی بن سعید پس سنو کہ حافظ ابن حجر نے تقریب میں : يحي بن سعيد بن فروخ التميمي ابو سعيد القطان البصري ثقة مثقن حافظ امام قدوة من كبار التاسعة انتهي مختصرا
اور کہا خلاصہ میں : يحي بن سعيد بن فروخ التميمي ابو سعيد الاحول القطان البصري الحافظ الحجة احداائمة الجرح والتعديل عن اسمعيل بن ابي خالد وهشام بن عروة وبهزبن حكيم وخلق وعني شعبة وابن مهدي واحمد واسحق وابن المديني وابن بشار وخلق قال احمد مارات عينامي مثله وقال ابن معين يحي اثبت ‘من ابن مهدي وقال محمد بن بشار حدثنا يحي بن سعيد امام اهل زمانه انتهي
دوم عبدالرحمن بن مہدی پس کہاحافظ نے تقریب میں : عبدالرحمن بن مهدي بن حسان العنبري مولاهم ابوسعيد البصري ثقة ثبت حافظ عارف بالرجال والحديث قال ابن المديني مارايت علم منه
اور کہا خلاصہ میں: عبدالرحمن بن مهدي بن حسان العنبري مولاهم ابو سعيد البصري اللؤلؤي الحافظ الامام عن عمر بن ذرو عكر مة بن عمار وشعبة والثوري ومالك وخلق وعنه ابن المبارك وابن وهب واحمد وابن معين وعمر وبن علي قال ابن المديني اعلم الناس بالحديث ابن مهدي وقال ابو حاتم امام ثقة اثبت من لاقطان واتقن من وكيع وقال احمد اذا حدث ابن مهدي عن رجل فهو حجة وقال القواريري اصلي علينا ابن مهدي عشرين الفا من حفظه انتهي مختصرا
باقی ترجمہ چار راویوں کا پس اوپر گذرا
قوله حديث هشتم ابوداؤد: حدثنا اسحق بن ابراهيم بن راهويه نا وكيع عن سفيان عن عاصم عن ابي عثمان عن بلال رضي الله عنه قال يارسول الله صلي الله عليه وسلم لاتسبقي بامين انتهي
اسحق راوی کو صفحہ 27 کتاب تقریب میں تغیر قبل اور میزان الاعتدال کے صفحہ 73 میں اختلاط فی آخر عمرہ میں لکھا ہے 'پس اس حدیث کا راوی مجروح ۔ یہ بھی ضعیف ہوئی اور کوئی لفظ جہر وغیرہ بھی نہیں ہے اور قیاس مفید نہیں۔
اقول: معترض نے تو قیامت برپا کردیا۔انا لله وانا اليه رجعون بھلا اگر اسحق بن ابراہیم ۔ بن راہویہ کی حدیث ضعیف ٹھیرے گی تو پھر کس کی حدیث قابل حجت کے ٹھہرے گی؟ ابن راہویہ وہ شخص ہےجس کی شان میں نقاد ین نے " احدالائمة الاعلام مجتهد حافظ ثقة حجة مامون امام من ائمة المسلمين’ کہا ہے اور یہ سب اعلی درجے کی تعدیل ہے ۔ کہا حافظ ذہبی نے مقدمہ ذہبی نے مقدمہ میزان الاعتدال میں: فاعلي العبارات في الرواة المقبولين ثبت حافظ وشقة متقن ثم ثقة شم صدوق انتهي
ہاں پانچ مہینے قبل از اوقات ان کے حافظے میں کچھ تغیر ہوگیا تھا مگر یہ مفید مطلب معترض نہیں'اس واسطے کہ ائمہ خمس یعنی بخاری ومسلم وابوداؤد وترمذی ونسائی کی کتابوں میں جتنی احادیث ان سے ہیں وہ سب اختلاط کے ہیں ' دیکھو ابو داؤد نےخود کہا ہے کہ اسحق بن راہویہ سے جو روایت ہم نے حالت اختلاط میں کیا ہے اس کو پھینک دیا ہے ' جیساکہ میزان الاعتدال میں ہے: قال ابو عبيدة الاجري سمعت اباداؤد يقول اسحق بن راهويه تغير قبل ان يموت بخمسة اشهر وسمعت منه في تلك الايام فرصيت به انتهي
اس سے صاف ظاہر ہوا کہ سنن ابی داؤد میں جتنی روایتیں اسحق بن راہویہ سے ہیں وہ سب اختلاط کے ہیں کیونکہ اسحق کے حالت اختلاط کی جو روایتیں ابوداؤد کے پاس تھیں اس کو انھوں نے پھینک دیا
اب سنیے ترجمہ بن ابراہیم کا ۔ فرمایا حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں :اسحق بن ابراهيم بن مخلد الحافظ ابو يعقوب الحنظلي ابن راهويه احد الائمة الاعلام شقة حجة عن معتمر بن سليمان وعبد العزيز وعنه الجماعة سوي ابن ماجه قال سمعت ابا عبدالله يقول سئل عن اسحاق يسئل عنه اسحق عندنا امام من ائمه المسلمين وقال النسائي ثقة مامون وقال احمد بن سلمة سمعت ابا حاتم يقول ذكرت لابي زرعة اسحق بن راهوية وحفظه للاسانيد والمتون فقال ابوزرعة ماراي احفظ من اسحق انتهي
اور کہا حافظ نے تقریب میں: اسحق بن ابراهيم بن راهوية ثقة حافظ مجتهد قرين احمد بن حنبل ذكر ابوداؤد انه لغير قبل موته بسيرا مختصرا
اور خلاصہ میں ہے : اسحق بن ابراهيم بن ابراهيم بن مخلد الحنظلي ابن راهوية الامام الفقيه الحافظ العلم عن معتمر بن سليمان رابن عيينة وخلق رع نه البخاري مسلم وابوداؤد والترمذي والنسائي وقال ثقه مامون احد الائمة قال احمد لااعلم لاسحق نظير ا اسحق عندنا من ائمة المسلمين واذا حدثك ابو يعقوب امير المومنين فتمسك به وقال الخفاف اعلي علينا اسحق احد عشر الف حديث من حفظه ثم قراها يعني في كتابه فما ذاد ولانقص وقال ابراهيم بن ابي طالب اعلي اسحق المسند كله من حفظه انتهي مختصرا
اور معني "لاتسبق بآمين" کے یہ ہیں کہ کہا بلال رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اے رسول اللہ کے ! آپ سبقت نہ کیجئے مجھ پر آمین کہنے میں' یعنی مثلاً اگر ایسا واقعہ ہو کہ میں کسی کام میں جیسے تسویہ صفوف وغیرہ میں مشغول رہوں اور یہاں تک مجھ کو توقف ہوجاوے کہ آپ سورۃ فاتحہ پڑھ لر آمین کہہ لیوے 'ایسا نہ کیجئے کیونکہ اس صورت میں میری آمین امام کی آمین کے ساتھ فوت ہوجاوے گی اور انھوں نے اس امر کی استدعاء رسول اللہ ﷺ سے اس واسطے کی کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اذا امن الامام فامنوا فانه من وافق تا مينه تامين الملائكة غفرله ماتقدم من ذنبه رواه مالك وغيره يعني فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جب آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین مل جاوے گی فرشتوں کی آمین سے بخشے جاویں گے اگلے گنا ہ اس کے ۔ تو بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی آمین کو رسول اللہ ﷺ کی آمین کے ساتھ فوت ہوجانے کو نہ چاہا کیونکہ اس میں محرومی خیر کثیر سے ہے ، پس لفظ "لاتسبق بآمين " سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ آمین کو پکارکر کہتے تھے ورنہ آپ کا آمین کہنا بلال رضی اللہ عنہ کو کیونکر معلوم ہوا کہ انھوں نے استدعاء عدم سبقت کی کی؟ وباللہ التوفیق
باقی رہ گئے اس حدیث میں پانچ راوی
اول وکیع بن السراج نے پس کہا حافظ نے تقریب میں : وكيع بن الجراح ابو سفيان الكوفي ثقة حافظ عابد من
اور کہا خلاصہ میں: وكيع وبولالجرح بن مليح الراي ابو سفيان الكوفي الحافظ احد الاقلام قال احمد مارايت او علي منه والاحفظ و كان عام المسلمين في وقته انتهي
دوسرے سفیان ثوری اور ترجمہ ان کا اوپر گذرا
تیسرے عاصم بن سلیمان التمیی ابو عبدالرحمن بصری اس سے ائمۃ ستہ نے روایت کیا ہے اور یہی امر اس کی ثقاہت کے لیے کافی ہے ۔اور کہا سفیاب ثوری واحمد بن حنبل نے ثقہ حافظ اور ثقہ کہا ان کو ابن متین وعجملی وحلی بن المدینی وبزار نے حسن بصری سے
کہا حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں : عاصم بن سلیمان لاحول ابو عبدالرحمن البصری من صغار التابعین قدمہ شعبۃ فی ابی عثمان التھدی علی فتاوۃ وعدہ سفیان الثوری رابع اربعۃ من الحفاظ ادرکہم ووصفه بالثقة واحفظ احمد بن حنبل فقيل ان يحي القطان يتكلم فيه فعجب ووثقه ابن معين والعجل وابن المديني وابن عمار والبرا انتهي
اورکہا خلاصہ میں: عاصم بن سليمان التميمي مولاهم ابو عبدالرحمن البصري الاحول عن انس وعبدالله بن سرجنس والشعبي وابي عثمان التهدي وخلق وعنه قتادة حماد بن زيد وزائد وشريك قال ابن المديني له نحو مائة و حسين حديثا ووثقه ابن معين وابو زرعة قال احمد ثقه من الحفاظ انتهي
چوتھے عبدالرحمن بن مل ابو عثمان الہندی الکوفی ، کہا حافظ نے تقریب میں عبدالرحمن بن مل ابو عثمان التہدی بفتح النون وسکون الیاء مشہور بکینۃ مخضرم من كبار الثانية ثقة من الحافظ انتهي
اور کہا خلاصہ میں : عبدالرحمن بن هل بضم اوله وكسر ابن عمر و بن عدي النهدي ابو عثمان الكوفي اسلم وصدق ولم يسرا لنبي صلي الله عليه وسلم عن عمر وعلي وابي ذروعنه قتادة وايوب وابو التياح والجريري و خلق وثقه ابنب المديني وابو حاتم والنسائي انتهي
اور ائمہ ستہ نے ان روایت کیا ہے
پانچویں بلال بن رباح مؤذن صحابی رضی اللہ عنہ
پس اس حدیث کی صحت میں اب کسی طرح کا کلام باقی نہ رہا
قولہ :حدیث نہم ابن ماجہ : حدثنا اسحق بن منصور اخبرنا عبدالصمد بن عبدالوارث ثنا حماد بن سملة ثنا سهيل بن ابي صالح عن ابيه عن عائشه رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال ماحمد تكم اليهود علي شئي ماحمد تكم علي السلام والتامين
حديث دهم ابن ماجه : حدثنا عباس بن الوليد الخلال اله مشقي ثنا خالد بن يزيد بن صبيح ثنا طلحة بن عمر وعن عطا عن ابن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ماحسدتكم اليهود علي شئي ماحسد تكم علي آمين فاكثروا ممن قول آمين
اس حدیث کے راوی طلحہ بن عمر کو تقریب میں بلفظ متروک لکھا ہے لہذا ضعیف ثابت ہوئی ۔علاوہ بریں حدیث نہم ودہم میں کوئی لفظ جہر ورفع صورت نہیں جس سے مخالف کا مدعا ثابت ہو ۔اس ضدیث اور اگلی حدیث کو دعوے سے کچھ بھی لگاؤ نہیں ایسی احادیث کو پیش نظر کرنا غیر مقلدوں کی کج فہمی کی دلیل ہے اور لفظ باب الجہر بالتامین جزوحدیث نہیں بلکہ از طرف ابن ماجہ ہے
اقول :حديث حضرت عائشه کی صحيح ہے: فرمايا حافظ عبدالعزيز منذري نے کتاب الترغیب والترغیب میں: عن عائشه عن النبي صلي الله عليه وسلم ماحسدتكم اليهود علي شئي ماحسدتكم علي الاسلام والتامين رواه ابن ماجه باسناد صحيح وابن خزيمة في صحيحه واحمد
اور یہ کہنا کہ حدیث نہم ودہم میں کوئی لفظ جہر ورفع صوت نہیں ہے۔ جہل مرکب وعبادت ہے ۔ یہ ظاہر اور مطابق عقل سلیم کے ہے کہ جب مسلمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے تھے تو یہود لو گ اس سلام اور اتحاد ومحبت پر ان کے حسد کرتے تھے ۔آیا کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ سلام آہستہ کہتے تھے ؟ اسی طرح جب لوگ نماز میں آمین پکار کر کہتے تھے تو یہود اس آمین کی آواز پر جو جماعت کثیرہ کی زبان سے نکلتی تھی حسد کرتے تھے اور یہ آواز ان کے کان میں مثل کانٹے کے چھبتی تھی ۔ اور کوئی عاقل یہ نہیں سمجھے گا کہ ان کے آہستہ آمین کہنے پر یہود حسد کرتے تھے ۔ کیونکہ ان کو کیا خبر کہ مسلمانوں نے آمین کہی یا نہ کہی ؟ اور علاوہ اس کے بہت چیزیں نماز میں آہستہ پڑھی جاتی ہیں پھر اس پر کیوں نہیں حسد کرتے تھے ؟ تو اس سے صاف معلوم ہوا کہ اشخاص متعددہ کی زبان سے جب آواز آمین سنتے تھے تو یہ آواز ان ہی کو معلوم ہوتی تھی اور وہ غصہ میں آجاتے اور حسد کرتے ۔وهذا ظاهر علي من له ادني فطانة ّ۔اسی واسطے ابن ماجہ نے اس حدیث کو باب الجہر بالتامین میں استدلال ذکر کیا گیا ہے ، اگر آپ کی فہم ناقص میں یہ بات نہ آوے تو اپنی فہم پر رویئے
وكم من عائب قولاصحيحا وآفته من الفهم السقيم
اور اس حدیث کو حضرت عائشہ کی سوائے ابن ماجہ کے اور محدثین نے بھی روایت کیا ہے ۔ فرمایا حافظ عبدالعظیم نے کتاب الترغیب میں: رواه ابن ماجه باسناد صحيح وابن خزيمة في صحيحة واحمد ولفظه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم ذكرت عنده اليهود فقال انهم لم يحسدونا علي شئي كما حسدونا علي الجمعة التي هدانا الله وضلوا وعلي القبلة التي هدانا الله لها وضلوا عنها وعلي قولنا خلف الامام آمين ورواه الطبراني في لاوسط باسناد حسن ولفظه قال ان اليهود قد سمؤا دينهم وهم قوم حسد ولم يحسدوالمسلمين علي افضل من ثلاث ردالسلام واقامة الصفوف وقولهم خلف امامهم آمين انتهي
اور حدیث حضرت عباس بروایت طلحہ بن عمر واگرچہ ضعیف ہے مگر یہ آپ کی مفید مدعا نہیں ، کیونکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ جو صحیح ہے اس سے تقویت حاصل ہوجائے گی۔
قوله:حدیث یاز دہم ابن ماجہ : عن بشر بن رافع عن ابي عبدالله بن عم ابي هريرة ترك الناس التامين وكان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذاقال غير المغضوب علهم ولاالضالين قال آمين حتي سمعها اهل الصف الاول فيرتجح بها المسجد
اس حدیث کا راوی بشر بن رافع ضعیف الحدیث تقریب کے صفحہ 51 میں اور ابی عبداللہ بن ابی ہریرۃ میزنا لاعتدال کے صفحہ 252 میں کہ سوائے بشر بن رافع کے ابی عبداللہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے کسی دوسرے نے نہیں سنا ۔ لہذا یہ حدیث ضعیف ثابت ہوئی ہرگز قابل استدلال نہ رہی ۔
اقول: عبارت جس طرح کی خبط ہے وہ ظاہر ہے، خیر بہرحال بشر بن رافع کی اگرچہ بعض محدثین نے تضعیف کی ہے مگر بعضوں نے توثیق بھی کی ہے مگر بعضوں نے توثیق بھی کی ہے جیسا کہ بیان اس کا دوسری حدیث کی بحث میں گذرا،
باقی رہا ابو عبداللہ بن عم ابی ہریرۃ اس کے حق میں بعضوں نے لفظ "لايعرف " کا لکھا ہے مگر ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے ۔ کہا حافظ ابن حجر نے تلخیص الجبیر میں : وابن عم ابي هريره قيل لايعرف وقد اثقه ابن حبان
اور کہا حافظ نے تقریب میں : ابو عبدالله الدوسي ابن عم ابي هريرة مقبول من الثالثه انتهي
اور کہا خلاصہ میں : عبدالرحمن بن الصامت عن ابن عمه ابي هريرة وعنه ابو زبير وثقة ابن حبان انتهي
قوله : علاوہ اس کے حضرت کی مسجد کی چھت کھجور کے پتوں سے پٹی تھی اس کا ارتحاج یعنی گونجتا چہ معنی دار؟ ابو عبداللہ یابشری کی گھڑت ہے ،
اقول: الفاظ بیہودہ زبان پر نہ لائے ۔
زکس گرنتری سی بترسی ازخدا
بشرین رافع کو کسی محدث نے وضاعین یا کذابین میں سے شمار نہیں کای ہے بلکہ ابن معین وابن عدی نے اس کی توثیق کی ہے اور امام احمد وامام بخاری نے بھی کا ذب وواضع الحدیث نہیں کیا ہے بلکہ صرف لفظ جعیف کا۔ اور ابو عبداللہ کی ابنحبان نے توثیق کی ہے اور حافظ نے مقبول کہا ہے اور کسی نے آج تک اس کو وضاعین میں شمار نہیں کیا ہے۔اس کی قدر قلت حیاء وادب معترض کو سزا وار نہیں ۔
اور ار اتحاج کے معنی معترض نے جو گونجنے کے سمجھا ہے وہ اس کی جہالت وسو فہمی ہے ' لغت میں کہیں گونجنے کے معنی نہیں لکھا ہے ۔ بکہ اصل معنی ارتجاح کے اضطراب وتحرک کے ہیں ' یعنی مسجد ہل جاتی تھی بسبب آواز آمین کے ۔اور یہ حقیقت پر محمول نہیں بلکہ بطور مبالغہ کے کہاگیا ہے۔ اور مراد اس سے اجتماع رفع اصوات ہے ۔اوراس طرح کا محاورہ عرب میں بہت شابع ہے ۔دیکھو صحیح بخاری کتاب العیدین میں :باب التكريم ايام مني واذا غدا الي عرفة وكان عمر يكبر في قبته بمعني ويكبر اهل المسجد ويكبر اهل السوق حتي ترنج مني تكبير انتهي
يعني حضرت عمر رضي الله عنه تکبیر کہتے تھے خٰمہ کے اندر منی میں ۔ پس سنتے تھے اس تکبیر کو مسجد کے لوگ ' پس وہ لوگ تکبیر کہتے تھے اور تکبیر کہتے تھے سارے بازاری لوگ 'یہاں تک کہ منی تکبیر کہنے سے ہل جاتا تھا۔ اور مراد ہل جانے سے یہ نہیں کہ منی حقیقتا ہل جاتا تھا ، بلکہ مراد اس سے اجتماع رفع اصوات ہے۔کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں: قوله ترتجح بتثقيل الجيم اي تضطرب وتتحرك وهي مبالغة في اجتماع رفع الصوت اتهي
اور کہا علامہ قسطانی نے شرح صحیح بخاری میں : ويكبر اهل الاسواق بتكبيره حتي ترتج مني بتشديد الجسيم اي تضطرب وتتحرك مبالغة "في اجتماع رغع الاصوات انتهي ّ
اور ايسا ہی کہا جلال الدین سیوطی نے توثیح حاشیہ بخاری میں ،اور کہا علامہ محمد طاہر فتنی نے مجمع بحارالانوار میں: ارتج اي اضطراب افتعل من الرج وهو الحركة الشديد ة منه نفخ الصور فترتج الارض بارضها اي تضطرب انتهي
اور کہا منتہی الارب في لغات العرب : ارتجاج لرزيدون وموج زدن دريا ‘ ومنه الحديث من ركب البحرمين يرتح دلاذمة اي اذا اضطربت امواجة انتهي
پس جبکہ منی جو ایک میدان تھا اور اس میں چھت وغیرہ کچھ نہیں تھی اس میں ارتجاج ممکن ہوا تو ارتجاج مسجد رسول اللہ ﷺ جس پر چھت کھجور کے پتے کی تھی کیا مستعبد ہے؟
قولہ: اور واضح رہے کہ ترمذی میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے اس کیاصل عبارت لکھی جاتی ہے : اخرج عن شعبة عن سلمة بن كهيل عن حجر ابي اذا العنبس عن علقمة بنوائل عن ابيه وائل بن حجرانه صلي مع رسول الله عليه وسلم فلما بلغ غير المغضوب ولاالضالين قال آمين واخفي بهاصوته
اور اعتراض عدم سماع عقمہ کو خود ترمذی نے کتاب الحدود میں بایں عبارت : علقمه بن وائل بن حجر سمع من ابيه وهو اكبر من عبدالجبار بن وائل وعبدالجبار لم يسمع عن ابيه " رفع كرديا ہے ۔
اقول: علقمہ کی سماعت وائل بن حجر سے مختلف فیہا ہے، بعض ائمہ حدیث کہتے ہیں کہ سماعت ثابت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ سماعت ثابت نہیں۔اور امام ترمذی کے کلام میں تعارض واقع ہے۔ کیونکہ سنن ترمذی کےکتاب الحدود میں لکھا ہے : وعلقمه بن وائل بن حجر سمع عن ابيه وهو اكبر من عبدالجبار بن وائل وعبدالجبار ولم يسمع من ابيه انتهيّ
وعلل کبیر میں اس کے خلاف لکھا ہے ' جیسا کہ امام جمال الدین زیلعی نے نصب الرایۃ کہا: واعلم ان في الحديث علة اخري ذكرها الترمذي في علله الكبير فقال سالت محمد بن اسماعيل هل سمع علقمة من ابيه فقال انه بعد موته ابيه بسمعه اثهر انتهي ّ
اورحافظ ابن حجر تقریب میں لکھے ہیں : علقمة بن وائل بن حجر بضم الحملة وسكون الجيم الحضرمي الكوفي صدوق الا انه لم يسمع من ابيه انتهي
اور حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں لکھتے ہیں : علقمة بن وائل بن حجر بضم المهملة وسكون الجيم الحضرمي الكوفي صدوق الا انه لم يسمع انتهي
اور کہا شیخ کمال الدین ابن الہام نے فتح القدیر شرح ہدایہ میں: وفيه علة اخري ذكرها الترمذي في علله الكبيرانه سال البخار ي هل سمع علقمة عن ابيه فقال انه ولد بعد موت ابيه بستة اشهر انتهي
خیر قطع نظر اس کے علقمہ کو سماع ثابت ہو یا نہ ہو یہ حدیث شعبہ کی قابل حجت کے نہیں ہے کیونکہ اتفاق کیا ہے حفاظ حدیث نے مثل بخاری وغیرہ کے کہ شعبہ سے اس حدیث میں چند وہم ہوگئے ہیں،
اول یہ کہ کہا شعبہ نے حجر ابوالعنبس وحال یہ کہ وہ حجر بن العنبس ہے اور کنیت اس کی ابو السکن۔
دوم یہ کہ زیادہ کیا شعبہ نے سند میں عقمہ بن وائل کو ' وہ حال یہ کہ اس سند میں علقمہ واقع نہیں ہے ۔ بلکہ حجر ابن العنبس روایت کرتا ہے وائل بن حجر سے۔
تیسرے یہ کہ بجائے لفظ "مدبھا صوتہ " کے "خفض بہا صوتہ " کہہ دیا اور خود شعبہ نے سفیان کو احفظ کہا ہے 'اور کہا یحی بن سعید القطان اور یحی بن معین نے کہ جس وقت اختلاف واقع ہو درمیان شعبہ وسفیان کے تو قول سفیان کا مرجع ہوگا اوپر قول شعبہ کے خصوص ایسے حالات میں کہ علی بن صالح اور علاء بن صالح اور محمد بن سلمۃ بن کہیل یہ سب سلمہ بن کہیل سے مثل سفیان ثوری کے روایت کرتے ہیں ' تو اب اس وقت میں روایت شعبہ کی مخالفت پڑی روایت اتبے حفاظ کے ۔
اور علاوہ اس کے ابو الولید الطیالسی نے شعبہ سے بھی مثل حدیث سفیان کے روایت کی ہے، پس اب یہی روایت ان کی قابل قبول ہوگی کیونکہ یہ روایت مطابق پڑتی ہے روایت اور حفاظ کے :اور وہ روایت "خفض بها صوته " کی مخالف ہے روایت جمیع حفاظ کے،
کہا امام ترمذی نے سنن میں : قال ابو عيسي سمعت محمد ا يقول حديث سفيان اصح من حديث شعبة في هذاواخطا شعبة في مواضع من هذا الحديث فقال عن حجر ابن العنبس ويكني ابا السكن و زاد فيه علقمة بنوائل وليس فيه عن علقمة انما هو حجر بن عنبس عن وائل بن حضر وقال وخفض وانما هو مدبها صوته قال ابو عيسي وسالت ابازرعة عن هذا الحديث فقال حديث سفين في هذا اصح قال روي العلابن صالح الاسدي عن سلمة بن كهيل نحو رواية سفيان انتهي
اور کہا امام دار قطنی نے سنن میں : ثنا يحي بن محمد بن صاعد ثنا انو الاشعث ثنا يزيد بن وائل او عن واكل بن حجر قال صليت مع رسول الله صلي الله عليه وسلم فسمعته حيب قال غير المغضوب عليهم ولاالضالين قال آمين واخفي بها صوته ووضع يده اليمني علي اليسري وسلم عن يمينه وعن شماله كذا قال شعبة واخفي بها صوته ويقال انه هم فيه ويقال انه وهم فيه لان سفين الثوري ومحمد بن سلمة بن كهيل وغيرهما وروه عن سلمة رووه عن سلمة فقالوا اورفع صوته بآمين وهوالصواب انتهي
اور کہا جمال الدین زیلعی نے نصب الروایۃ میں: قال الدار قطني هكذا قال شعبة واخفي بها صوته ويقال انه وهم فيه لان سفيان الثوري ومحمد بن سلمة بن كهيل وغيرهما رووه عن سلمة فقالوا ورفع بها صؤته وهو الصواب انتهي وطعن صاحب التنقيح في حديث شعبة هذا بانه قد روي عنه خلاقه كما اخرجه البيهقي في سنة عن ابي الوليد الطيالسي شعبة عن سلمة بن كهيل سمعت حجرا ابا عنبس يحدث عن وائل الخضرمي انه صلي خلف النبي صلي الله عليه وسلم فلما قال ولاالضالين قال آمين رافعا بها صوته قال غهذه الرواية توافق رواية سفيان وقال البهيقي في المعروفة اسناد هذه الرواية صحيح وكان شعبة يقول سفيان احفظ وقال يحٰي بن معين اذا خالف شعبة سفيان فالقول قول سفيان قال وقد اجمع الحفاظ البخاري وغيره علي ان شعبة اخطا فقد روي من ارجه فجهر بها انتهي
اور امام ابن القیم نے حدیث سفیان کو حدیث شعبہ پر چھ وجہوں سے ترجیح دیا ہے م جیساکہ اعلام المعوقین عن رب العلمین میں : المثال التاسع والخمسون ترك السنة المحكمة الصحيحة في الجهر بآمين في الصلوة كقوله في الصحيحين اذا امن الامام فامنوا من وافق تامينه تامين الملائكة غفرله ولولا جهره بالتامين لما امكن الماموم ان يومن معه ويوافقه في التامين واصرح من هذا حديث سفيان الثوري عن سلمة بن كهيل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذآ قال آمين ورفع بها صوته وفي لفظ وطول بها رواه الترمذي وغيره واسناده صحيح وقد خالف شعبة سفين فقال الترمذي سمعت محمد بن اسماعيل يقول حديث سفين الثوري عن سلمة بن كهيل في هذاالباب صح من حديث شعبة واخطا شعبة في هذالحديث في مواضع فقال عن حجر ابي العنبس وانما كنيته ابو سكن وزاد فيه علقمة بن وائل وانما هو حجر بن عنبس عن وائل بن حجر ليس فيه علقمة وقال خفض بها صوته والمصيح انه جهرباه صوته قال الترمذي سالت ابا زرعة عن حديث سفيان وشعبة هذا فقال حديث سفيان اصح من حديث شعبة وقد روي العلاء بن صالح عن سلمة بن كهيل نحو رواية سفيان وقال الدار قطني كذا قال شعبة واخفي بها صوته ويقال انه وهم فيه لان سفيان الثوري ومحمد عن سلمة بن كهيل وغيره روو ه عن سلمة فقالوا ورفع صوته بامين وهو الصوب وقال البيهقي لااعلم اختلافا بين اهل العلم بالحديث ان سفيان وشعبة اذا اختلفا فالقول قول سفيان وقال يحي بن سعيد ليس احد احب الي شعبة ولايعد عندي احد واذا خالفه اخذت بقول سفيان وقال شعبة سفيان احفظ مني فهذا ترجيح لروايتة سفيان عترجيح ثان وهو متابعة العلاء بن صالح ومحمد بن سلمة بن كهيل له وترجيح ثالث وهو ان ابا لاوليد الطيالسي وحسبك به رواه عن شعبة بوفاق الثوري في متند فقد علي شعبة كما تري قال البيهقي فيحتمل ان يكون تبنه لذلك فعاد الي الصواب في مثنہ وترك ذكر علقمة في اسناده وترجيح رابع وهوان الروايتين لو تقاد متا لكانت رواية الرافع متضمنة لزيادة وكانت اولي بالقبول وترجيح خامس وهو موافقتها وتفسير لحديث ابي هريرة اذا من الامام فا منوا فان الامام يقول آمين والملائكة تقول آمين فمن وافقت تامينه المالائكة غفرله وترجيح سادس وهو ارواه الحاكم باسنا د صحيح عن ابي هريرة قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذافرغ من قراءة ام القران رفع صوته بآمين ولابي داؤد بمعناه وزاد بيانا فقال قال آمين حتي يسمع من يليه من الصف الاول وفي رواية عنه كا ن النبي صلي الله عليه وسلم اذا قال غير المغضوب عليهم ولاالضالين وعنده ايضاعنه ان النبي صلي الله عليه وسلم اذا قرا ولاالضالين رفع صوته بآمين وعند ابي داؤد عن بلال قال للنبي صلي الله عليه وسلم لاتسبقني بآمين قال الربيع سئل الشافعي عن الامام هل يرفع صوته بآمين قال نعم ويرفع بها من خلفه اصواتهم فقلت وماالحجة قال انا مالك وذكر حديث ابي هريرة المتفق علي صحته ثم قال ففي قول رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا امن الامام فامنوا دلالة انه اجل الامام ان يجهر بآمين لان من خلفه لايعرفون وقت تامينه الا بان يسمع تامينه ثم بينه ابن شهاب فقال وكان رسو ل الله صلي الله عليه وسلم يقول آمين فقلت للشافعي فانا لكره للامام ان يرفع صؤته بآمين فقال هذا اخلاف ماروي صاحبنا وصاحبكم عن رسول الله صلي الله عليه وسلم ولو لم يكن عندنا وعندهم علم الا هذا الحديث الذي ذكرناه عن مالك فينبغي ان يستدل ان النبٰي صلي الله عليه وسلم كان يجهر بآمين وانه امر الامام ان يجهر بها فكيف ولم يزل اهل العلم عليه وروي وائل بن حجر ان النبي صلي الله عليه وسلم كان يقول آمين يرفع بها صوت ويحكي بمدة اياها وكان ابو هريرة يقول للامام لاتنبقني بآمين وكان يؤذن له انا مسلم بن خالد عن ابن جريح عن عطاء كنت اسمع الائمة ابن زبير ومن بعده يقولون آمين ومن خلفهم آمين حتي ان للمسجد للجة وقوله كان ابو هريرة يقول للامام لاتسبقي بآمين يريد ماذكره البيهقي باسناده عن ابي رافع ان ابا هرهرة كان يؤذن لمر وان بن الحكم فاشترطان لايسبقه بالضالين حتي يعلم ان قد وصل الصف فكان مروان اذاقال ولاالضالين قال ابوهريرة آمين يمدبها صوته وقال اذا وافق تامين اهل الارض تامين اهل السماء غفرلهم وقال عطاء ادركت مائتين مناصحاب النبي صلي الله عليه وسلم في هذاالمسجد اذاقال الامام غير المغضوب عليهم ولاالضالين سمعت لهم رجة تامين
اور کہا حافظ ابن حجر نے درایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ میں: وفي الباب عن علقمة بن وائل عن ابيه انه صلي مع صلعم فلما بلغ غير المغضوب وليهم ولاالضالين قال آمين واخفي بها صوته اخرجه احمد والدارقطني والحاكم وابو يعلي والطبراني والطيالوسي قال الدار قطني يقال ان شعبة وهم فيه فان الثوري رواه عن شيخ شعبة فيه فقال ورفع بها صوته وقد روي ابو داؤد الطيالسي عن شعبة مثل رواية الثوري فعلي هذا فقد اختلف فيه علي شعبة ورواية ابي الوليد عند البيهقي ورواية الثوري عند ابي داؤد والترمذي ونقل عن البخاري وابي زرعة ان رواية شعبة ثم اخرجه من وجه آخر موافق لرواية الثوري بلفظ صلي فجهور آمين انتهي
حاصل کلام یہ ہوا کہ روایت شعبہ کی جس میں " خفض بها صوته" ہے وہ مرجوح اور شاذ ہے اور وہ روایت شعبہ کی جس میں "رفع بها صوته " ہے وہ راجح ہے کیونکہ اس روایت میں شعبہ نے اور حفاظوں کی موافقت کی ہے ،پس یہی روایت احری بالقبول ہوگی
قولہ: حاصل کالم یہ ہوا کہ اس حدیث وائل بن حجر سے حدیث نمبر اول وسوم ونمبر ہفتم کا معارضہ ہوا، پس بحکم قاعدہ مسلمہ اذاتعارض تساقطا۔ بوجہ تعارض حدیث نمبر اول ونمبر سوم ونمبر ہفتم ساقط الاعتبا ر ہوگئیں ،ان سے استدلال کرنا درست نہیں رہا۔
اقول: حدیث وائل بن حجر کی جس کو شعبہ نے بلفظ "اخفي بهاصوته " روايت کیا ہے اس کو صلاحیت معارضہ کی ساتھ ان احادیث صحیحہ کے جن میں لفظ "رفع بهاصوته " کاآیا ہے 'نہیں ہے ۔ کیونکہ معارضہ کے لیے مساوات شرط ہے' اور اوپر ثابت ہوچکا کہ حدیث شعبہ بلفظ "اخفی باھ صوتہ " مرجوع اور شاذ ہے ،پس حدیث مرجوع اور شاذ حدیث راجح کی کیونکر معارض پڑے گی ؟ اس لیے کہ مخالفت حدیث ضعیف حدیث صحیح میں مؤثر نہیں ہوتی ۔
اور بر تقدیر تسلیم صحت حدیث اسرار آمین کے توثیق میں الاحادیث اس طور پر دی جائے گی کہ بسا اوقات آپ نے جہر کیا اور بسا اوقا ت اسرار کیا ۔ اور یہ بر تقدیر ثبوت احادیث سریہ کے ہے ۔اور حال یہ ہے کہ مرفوعا بسند صحیح ثابت نہیں 'پس وہی جہر متعین رہا۔
اور قاعدہ مسلمہ اذا تعارضا تساقطا کو اپنے گھر میں رکھ چھوڑیئے ۔اور شرعیہ میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوسکتا ، بلکہ اطلاق تساقط کا اولہ شرعیہ پر دریدہ دہنی اور بیہودہ گوئی ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں کارخانہ دین کا درہم برہم ہوجاوے گا ۔اسی واسطے ائمہ محدثین رضوان اللہ اجمعین نے اس کے لیے قواعد واصول مقرر کردیے ہیں ۔ خلاصہ ان کے قواعد مقررہ یہ ہے کہ حدیث اس کی مخالف نہ ہوتو اس کو محکم کہتے ہیں ۔اور اگر کوئی اس کا معارض ہوتو اتنی صورتوں سے خالی نہیں۔ یامعارض اس کا مقبول ہوگا مثل اس کے یا معارض اس کا مقبول ہوگا مثل اس کے یا معارض اس کا مردود ہوگا، بر تقدیر ثانی مخالفت حدیث ضعیف کی اثر نہ کرے گی حدیث صحیح میں۔ ا ور برتقدیر اول اس کا مثل اس کے مقبول ہو پس اگر توفیق وتطبیق درمیان ان کے ممکن ہو بغیر تکلف وتعسف کے تو اس کو "مختلف الحدیث " کہتے ہیں ۔اور اگر توفیق ممکن نہ ہو پس دو حالتوں سے خالی نہیں : اول یہ کہ تاریخ معلوم ہو' یعنی ثابت ہوجاوے کہ حدیث متاخر کون سی ہے 'اور حدیث مقتدم کون؟ پس حدیث متاخر کو ناسخ اور متقدم کو منسوخ کہتے ہیں ۔ دوم یہ کہ تاریخ معلوم نہ ہو' پس اس صورت میں اگر کسی وجہ سے بھی منجملہ وجوہات ترجیح جو متعلق ساتھ متن واسناد کے ہیں ترجیح ثابت ہو تو وہ مرجح ٹھہرے گی اور اگر یہ صورت بھی ممکن ہو تو وہاں پر احد الحدثین کے عمل سے توقف کرنا ہوگا ۔ تاوقت ترجیح کے ' جیسا کہ کہا حافظ ابن حجر نے شرح بختہ الفکر میں : ثم المقبول ان مسلم من المعارضة اي لم يات خبر يضاد فهو الحكم وامثله كثيرة وان عورض فلايخلوا اما ان يكون معارضه مقبولا مثله او يكون مردودا والثاني لااثر له لان القوي لايوثر فيه مخالفة الضعيف وان كانت المعارضة بمثله فلايخلوا ماان يمكن الجمع بين مدلو ليلها بغير تعسف اول
پس یہاں پر کتنی وجوہ سے مرجوع ہونا حدیث کا شعبہ کی ثابت ہوچکا ' پھر تعرض واقع ہونے کے کیا معنی ؟
قولہ : اب ہم کو اس موقع پر یہ تحریر کرنا ضرور ہے کہ اگر خود آپ دیکھ سکتے ہیں تو کتاب اسماء الرجال کا مقابلہ کرلیجئے ورنہ امام المحدثین سے تصدیق کرالیجئے دوسرے کسی شاگرد اور نو مسلم کی قیل وقال سماعت نہ ہوگی ۔
اقول: سبحان اللہ! آپ نے ساری احادیث بالجہر کے رواۃ کے بیان میں ایسی ایسی تحریفیں کیں اور خلاف دیانت باتیں لکھیں کہ اگر دنیا بھر کےالفاظ مذمومہ آپ کی شان میں استعمال کیے جاویں تو بجا ہے ۔اب سب کید کا کھول دیا گیا۔ازراہ انصاف آپ اپنے اس جھوٹے دعوے پر اس قدر نازاں ہیں کہ اس کی تصدیق کرلینے کو ارشاد فرماتے ہیں ۔اجی حضرت اگر تلامذہ حضرت شیخ امام المحدثین ادام اللہ فیوضہ علی رؤس الطالبین کے آپ ہم کلام ومخاطب اپنا کریں تو فخر سمجھے اور ایک تلامذہ حضرت شیخ کے ایسے نقاد ہیں کہ کھرے کو کھوٹے سے پہچان لیتے ہیں ' وہ ایسے ایسے خفیف امور میں حاجت استفسار کی اپنے علامہ سے نہیں سمجھتے ہیں ۔
قولہ: تکملہ ہم وہ باقی دس حدیثیں کہ جو محی السین نو مسلم نے جہر آمین کے ثبوت میں ذکر کی ہیں بیان کرکے ان سے استدلال پکڑنا درست کرتے ہیں تاکہ محی الدین کے مریدوں کے دلوں میں ارمان نہ رہ جائے اوران کی زنبیل میں جو کچھ ہے وہ اگل پڑے ۔
اقول: آپ کے اور آپ کے ہم مشربوں کی زنبیل میں جو شے کہ تھی وہ اگل ہی پڑی اب اچھلنے کودنے سے کیا ہوتا ہے؟ اور ابطال استدلال آپ تو کیا کرسکیں گے اگر آپ کے سارے ہم مشرب اکھٹا ہوجاویں جب بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
قولہ: حدیث نمبر 1 عن عطاء قال ادركت ماتين من الصحابة اذا قال الامام ولاالضالين رفعوا اصواتهم بآمين رواه البهيقي وابن حبان في صحيحه
اس کا جواب چندوجہ سے ہے ۔
(اول) تو یہ اسی عطاء کا قول ہے کہ جس کو خود محی الدین نے آمین کے دعا ہونے میں رد کردیا، قولہ ،قولہ صفحہ 174 اور آمین کا دعا ہونا نہ قرآن سے ثابت اور نہ حدیث سے، صرف عطاء تابعی کے قول سے ثابت ہے اور وہ لائق اعتبار اور قابل حجت پکڑنے کے نہیں ، کیونکہ بے دلیل ہے' انتہی پس ہماری طرف سے بھی یہی جواب ہے ۔
(دوم) احادیث صحیحہ وآیات قرآنیہ کے مقابلے میں عطاء کا قول کیا وقعت رکھتا ہے ؟
(سوم) عطاء نے باوجود یکہ بے شمار صحابہ کو دیکھا ان میں سے صڑف چند شخصوں کو آمین پکار کر کہتے تھے
اقول: جواب وجہ اول کا یہ ہے کہ عطاء کا یہ جملہ کہ" ادرکت مائتین من الصحابۃ " یہ تو صحابہ کے حال کی حکایت ہے یعنی عطاء نے جس طور پر صحابہ کو آمین کہتے سنا اس کی حکایت کی ۔اور اجتہاد کو اس میں دخل نہیں ،بخلاف اس قول عطاء کے کہ آمین دعا ہے اس میں اجتہاد میں آمین کا دعا ہونا مرجح ٹھہرا ہے ۔ پس حکایت احوال کو امر اجتہاد پر قیاس مع الفاروق ہے ۔ پس آپ کا خصم آپ کو کہہ سکتا ہے ہم اس اجتہاد کو عطا کے بغیر دلیل نہیں مان سکتے ہیں ۔ بخلاف امر حکایت واخبار کے کہ اس کے قبول کرنے سے نہ مجھ کو چارہ ہے نہ آپ کو۔ کیونکہ اس حکایت وخبر کے قبول نہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ مخبر اور حاکی اس کا کاذب ہے ۔اور جب کہ اس مخبر کی صداقت تسلیم کی جاچکی ہے توا س خبر کی صداقت ضرور تسلیم کرنا پڑے گی ۔ بخلاف اجتہاد کسی صادق ثقہ کے کہ بغیر برہان حجت نہیں۔ افسوس کہ آپ کو اسقدر بھی فرق نہیں معلوم ہوا
بہ بین تفاوت رہ از کجا ست تا بہ کجا
اور یہ عطا وہ شخص ہے کہ جس کی شان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے نہیں ملاقات کیا کسی سے کہ وہ افضل ہو عطا سے ، اور روایت کی ہے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ عطا ء سے بہت سی حدیثیں منجملہ ان کے پچیس حدیثیں مسندا مام اعظم میں جو بروایت حصکی ہے موجود ہیں، عبارت اس کی یہ ہے کہ : ذكر اسناده عن عطاء بن ابي رباح ّ اور بعد اس کے عطاء کی پچیس حدیثیں ہیں کہ جو امام نے ان سے روایت کیں۔ نقل اس کی موجب طوالت ہے۔
اور کہا حافظ ذہبی نے میزان میں : عطا بن ابي رباح سيد التابعين علما وعملا واتقانا في زمانه بمكة روي عن عائشة وابه هريرة وكان حجة اماما كثيرا الشان اخذ عنه ابو حنيفة وقال مارايت نثله انتهي
اور کہا ملا علی قاری نے شرح مسند امام اعظم میں :وعطاء هذا ابن ابي رباح وهو من مشايخ الامام فقد روي الترمذي في كتاب العلل من الجامع الكبير حدثنا محمد بن غيلان عن جرير عن يحي الحماني قال سمعت ابا حنيفة يقول مارايت اكذب من جابر الجعفي ولا افضل منعطاء بن ابي رباح انتهي
اور کہا خلاصہ میں : عطا بن ابي رباح القرشي نزل مكةواحد الفقهاء والائمة كان ثقة عالما كثيرا الحديث انتهت اليه الفتوي بمكة وقال ابو حنيفة مالقيت افضل من عطاء وقال ابن عباس وقد سئل عن شئي يا اهل مكة تجتمعون علي عند كم عطاء انتهي مختصرا
باقی رہا یہ لفظ کہ آمین دعا ہے یا نہیں؟اس کی تحقیق کما حقہ میں نے اپنے رسالہ "فتح المعین فی الرد علی البلاغ المین فی اخفاء التامین" میں کہ رد ہفوات محمد شاہ پنجابی میں بے نظیر لکھا ہے جس کو شوق ہو اس کی سیر کرے ۔
اور جواب وجہ دوم کا یہ ہے کہ اول یہ تو عطا کا قول نہیں ہے' بلکہ عطاحکایت کرتے ہیں فعل صحابہ کی تو آپ کا گستاخی کرنا اس فعل پر دو سو صحابہ کے نہایت امر مذموم ہے ۔اور بالفرض اگر یہ صرف عطاٰ کا قول ہوتا ' یعنی عطا بایں عبارت کہتے ہیں کہ (التامین بالجہر سنۃ) اور کسی حدیث میں آمین بالجہر کا ثبوت پایا نہیں جاتا بلکہ خلاف اس کا ثابت ہوتا ، قوالبتہ تسلیم کرنا قول عطاء کا محل تردد تھا۔اور اس صورت میں عطا پر کیا موقوف ہے کسی اہل علم کا قول جو مخالف حدیث صحیح ہو مقبول نہیں مردود سے ۔اور حال یہ ہے کہ قول عطاء مخالف قو ل رسول اللہ ﷺ نہیں۔ بلکہ موافق احادیث صحیحہ کے ہے جیسا کہ بیان اس کا گذرا اور مطابق آیات کے ہے ۔ فرمایا وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا اور فرمایا اطيعوالله واطيعوالرسول
وجواب عطا سوم کا یہ ہے کہ عطا نے چند شخصوں کو نہیں دیکھا ۔ بلکہ دوسو صحابہ کو دیکھا کہ آمین بالجہر کہتے تھے ۔پس اطلاق چند شخصوں کا دو سوآدمی پر سوائے تعصب اور نفسانیت کے کس چیز پر حمل کیا جائے ؟اجی حضرت آمین بالسر کو آپ بیس صحابہ سے بھی نہیں ثابت کرسکیں گے ۔ پچیس اور پچاس اور ستر تو درکنار رہے اگر روایات آپ کے پاس ہوں تو لائیے برتقدیر صحت الراس والعین ہے ورنہ شرمائے اور پھر ایسا نام نہ لیجیے
قولہ: حدیث نمبر 2وَقَالَ عَطَاءٌ: «آمِينَ دُعَاءٌ» أَمَّنَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: وَمَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «يُنَادِي الإِمَامَ لاَ تَفُتْنِي بِآمِينَ» وَقَالَ نَافِعٌ: «كَانَ ابْنُ عُمَرَ لاَ يَدَعُهُ وَيَحُضُّهُمْ وَسَمِعْتُ مِنْهُ فِي ذَلِكَ خَيْرًا
حدیث نمبر 3 عن عطاء ادركت مائتين من الصحابة في هذاالمسجد اذا قال الامام ولاالضالين سمعت لهم رجة بآمين رواه البيهقي
ان دونوں کا بھی وہی جواب ہے جو پہلے قول کا تھا۔ یعنی یہ صرف عطاء کا قول ہے نہ قرآن ہے نہ حدیث ۔ علاوہ اس کے بیہقی کی کتاب حدیث کی کتابوں میں گھٹیل ہے۔
اقول: معترض نے نمبر 2 میں جو عبارت تعلیقات بخاری کی نقل کرکے سب کو ققل عطا ء قرار دیا ہے وہاس کی جہالت ہے۔ کیونکہ وہ عبادت بخاری چار اثروں پر مشتمل ہے:اثر اول قول یعنی (قال عطاء آمين دعاء) اثر دوم عبداللہ بن الزبیر کی جس کو عطاٰ نے ابن الزبیر سے روایت کیا ہے ۔
اثر سوم ابو ہریرہ کی ،اثر چہارم عبداللہ بن عمر کی ۔
اب میں پورے روایات ان چاروں اچروں کے نقل کرتا ہوں تاکہ لوگ ابلیس ابلیس سے بچیں ۔
سنو کہ اثر اول ودوم وسوم کو عبدالرزاق نے مصنف میں روایت کیا ہے جیسا کہ کہاحافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں:وصله عبدلارزاق عنابن جريج عن عطاء قال قلت له كان ابن الزبير يؤمن علي اثرم القرآن قال نعم ويؤمن من وراءه حتي ان للمسجد للجة ثم قال فما آمين دعاء قال وكان ابوهريرة يدخل المسجد وقد قام الامام فينا ديه فيقول لاتسبقي بآمين انتهي
اور بھی اثر سوم ابوہریرۃ کو بیہقی نے روایت کیا ہے جیسا کہ فتح الباری میں ہے : وقد جاء عن ابي هريرة من وجه آخر اخرجه البيهقي من طريق حماد عن ثابت عن ابي رافع قال كان ابو هريرة يؤذن لمردان فاشتروا ان لايسبقه بالضالين حتي يعلم انما دخل في الصف انتهي
اور اثر چہارم ابن عمر کو عبدالرزاق نے مصنف میں نافع سے روایت کیا ہے ، جیسا کہ کہاحافظ نے فتح الباری میں: وصله عبدالرزاق عن ابن جريج اخبرنا نافع ان ابن عمر كان اذا ختم ام القرآن قال آمين لايدع ان يؤمن اذاختمها ويخصم علي قولها قال وسمعت منه في ذلك خير اوقوله خير ابسكون التحتانية اي فضلاوثوا باهي رواية الكشمنينهي ولغيره خبر ايفتح المواحدة اي حديثا مرفوعا ويشعر به مااخرجه البيهقي به مااخرجه البيهقي كان ابن عمر اذا امن الناس امن معهم ويري ذلك من السنة انتهي
پس ثابت ہوا کہ ان اثروں میں سے یہ قول یعنی(آمین ودعاء) یہ تو البتہ قول عطاء تابعی کا ہے ، باقی رہا وہ جو عطا نے ابوہریرۃ وعبداللہ بن الزبیر اور سارے مقتدیوں کے آمین کہنے کی حکایت کی ،وہ ظاہر ہے کہ عطا ء کا قول نہیں ہے ، بلکہ عطاء مخبر اور حاکی ہیں عبداللہ بنالزبیر اور ابوہریرۃ کے فعل کے، فرق درمیان قول وحکایت کے اوپر معلوم ہوچکا ۔ اب آپ کا یہ جملہ (کہ یہ صرف عطاء کا قول ہے نہ قرآن ہے نہ حدیث) آپ ہی پر عائد ہوا، کیونکہ عطاء کا قول اس میں صرف یہی ہے (آمین ودعا) اب آپ اس کو تسلیم کریں یا خلاف وقرآن وحدیث کے بتلادیں یا جو چاہیں کہیں 'یاآپ کو اختیار ہے کہ فعل ابوہریرہ وعبداللہ بن الزبیر وابن عمر کو بھی خلاف قرآن وحدیث کے قرار دویں ۔ میں تو ایسے الفاظ کو زبان پر نہیں لاسکتا ہوں ۔آپ ہی گستاخی چاہیں کرلیویں ۔
اور نمبر 3 کی حدیث کو روایت کیا بیہقی نے جیسا کہ کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ۔ وروي البيهقي من وجه اخر عن عطاء قال ادركت مائتين من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم في هذا المسجد اذا قال الامام ولاالضالين سمعت لهم رجة بآمين
اور یہ کہنا آپ کا (کہ علاوہ اس کے بیہقی کیکتابوں حدیث کی کتابوں میں گھٹیل ہے ) یہ دریدہ دہنی ہے اور دعوی بلادلیل ۔واگر بیہقی کی کتابوں میں بعض احادیث ضعیف ومنکر ہوں تو اس سے ساری کتاب کا گھٹیل ہونا لازم نہیں آتا چہ جائیکہ بیہقی کی تصنیف میں یہ خوبی ہے کہ اکثر حدیث کی صحت وسقم پر متنبہ کردیتے ہیں ۔اس اعتبار کرکے ان کی کتابین مرجح ٹھیریں گی ان کتابوں پر جو کتابیں اس خوبی کے ساتھ موصوف نہ ہوں ۔۔ یا جن کے مصنف نے التزام اس کی صحت کا نہ کیا ہو۔اور اگر مطلق ابراد بعض احادیث ضعیفہ سے کسی محدث کی کتاب گھٹیل شمار کی جاوے تو پھر شرح المعانی الآثار اور مشکل الآثار اور جو سوائے اسس کے تصانیف امام ابو جعفری طحاوی رضٰی اللہ عنہ اور دوسرے ائمہ محدثین کی ہیں جن میں احادیث ہر قسم کی صحیح وضعیف ومنکر ہیں' وہ سب کتابیں قابل وعمل وقبول کے نہ رہیں گے ۔اور بھلا کوئی عاقل بھی اس کو پسند کرے گا۔
اور بیہقی کے فضائل اور ان کی کتابوں کی مدح محدثین نے بہت ساری لکھی ہیں ۔یہاں مختصر طور پر لکھا جاتا ہے ۔ فرمایا حضرت شیخ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بستان المحدثین میں احوال میں تصانیف بیہقی کے :وچوں درتصنیف کتاب معرفۃ السنن والآثار شروع کردیکی ازراستان وصلحاء یخواب دید کہ امام شافعی درجاری ہستنددرودست ایشان چند جزوازیں کتاب ہست ومیفر مانید کہ امروز ازکتاب فقیہ احمد ہفت جزوہشتم یا خواندیم وفقیہی دیگر نیزامام شافعی رابخواب دید کہ درمسجد جامع برتختی نشستہ اندو میفرانید کہ امروزازکتاب فقیہ احمد یعنی بیہقی فلاں فلاں حدیث استفادہ کرویم محمد بن عبدالعزیز گفتہ کہ روزی نخواب می بینم کہ یک صندوق از زمین بآسمان پریدہ میردد گردا گرد آن صندوق نوری است نہایت درخشندہ کہ چشم راخیرہ می کندہ می پرسم کہ این چہ چہ چیز است فرشنگان می گویندکہ این صندوق تصانیف بیہقی است کہ دربار گاہ کبریا مقبول شہ ندانتجہی مختصرا
اس حدیث عطاء کو صرف بیہقی ہی نے روایت نہیں کیا ہے بلکہ ابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں روایت کیا ہے ۔ عن خالد بن ابي نوف عن عطاء بن ابي رباح قال ادركت مائتين من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم في هذا المسجد يعني المسجدالحرام اذاقال الامام ولاالضالين رفعوا اصواتهم بآمين انتهي
قوله : هديث نمبر ٤‘ عن عبدالجبار بنوائل عنابيه قال صليت مع النبي صلي الله عليه وسلم فلما قال ولاالضالين قال آمين وسمعناها منه رواه ابن ماجه
اس کے چند جواب ہیں۔
اول تو وائل کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے عبدالجبار پیدا ہوئے ہیں جیسا کہ ائمہ حدیث کا قول ہے۔ پھر ان کے پیٹ میں عبدالجبار نے کیوں کر سنا۔
(2) اسی وائل بن حجر نے خفیہ آمین کی بھی حدیث روایت کی ہے اور اس کے راوی معتبر ہیں ۔
(3) اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ہمیشہ ایسا کرتے تھے اور متنازعہ فیہ یہی ہے ۔ ورنہ احیانا تو ظہر کی نماز میں قرات پکار تجویز ہوسکتی ہے ۔
اقول: جواب وجہ اول کا یہ ہے کہ اپنے منہ میں لگام دیجئے 'الفاظ بیہودہ زبان سے نہ نکالیے ۔ عبدالجبار بن وائل راوی ثقیہ ہے اس کی شان ایسے الفاظ ناملائم کہنا کمال بے ادبی ہے، غاية مافي الباب یہ حدیث اس سند خاص سے منقطع ٹھہرے گی ، مگر یہ کچھ مضر مدعا نہیں۔اس لیے کہ حدیث واکل بن حجر کی متعدد طرق سے بسند صحیح متصل مروی ہے ' چنانچہ بیان بعض اسانید کا علی وجہ التفصیل اوپر گذرا'فلانعيد الكلام بذكرها
اور جواب وجہ دوم کا یہ ہے کہ وائل بن حجر سے خفیہ آمین کی جو حدیث ہے وہ ضعیف ہے قابل حجت نہیں۔ اور تحقیق حقیق اس امر کی اوپر گزری ۔ وہاںملاحظہ کیجیئے اب حاجت تکرار نہیں ۔
اور جواب وجہ سوم کا یہ ہے کہ بموجب اس قاعدہ آپ کے یہ بات لازم آتی ہے کہ جن جن جگہوں میں رسول اللہ ﷺ سے جہر ثابت ہے وہ سب احیانا اور اتفاقات پر حمل کیا جاوے گا ' جب تک ان احادیث میں معنی لفظ مداوت کے نہ ہوں ۔ پس اس بناء پر ان احادیث اربعہ مندرجہ ذیل کو کہ جو جہر قرات فجر وعشاء ومغرب میں وارد ہیں ان کوبھی اسی اتفاقات اور احیانا پر حمل کیجئے
حديث اول:عن جبير بن مطعم قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقرا في المغرب بالطور متفق عليه
حديث دوم عن ام الفضل قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقرا في المغرب بالمرسلات عرفا متفق عليه
حديث سوم عن البراء قال سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقرا في لعشاء والعين والزيتون متفق عليه
حديث چہارم : عن عقبة بن عامر ان النبي صلي الله عليه وسلم امهكم بالمعوذتين في صلوة الصبح رواه ابن حبان في صحيحه واحمد في مسنده وابن ابي شيبة في مصنفه والطبراني في معجمة والحاكم في المستدرك
کیونکہ ان احادیث میں صرف یہ مضمون ہے کہ میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے سنا پس بنا بر قاعدہ آپ کے یہ لازم نہیں آتا کہ ہمیشہ ایسا کرتے تھے ۔ بلکہ احیانا ان اوقات میں قرات بجہر کیا کرتے تھے ۔اور حال یہ کہ کوئی فرد بشر امت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتحیہ سے اس کا قائل نہیں۔ پس آپ یا اس کو تسلیم کیجیے یا اس باطل ومردود عوے سے اپنے باز آئیے
اور ظہر کی قرات میں جو رسول اللہ ﷺ نے احیانا بعض آیت کے ساتھ جہر کیا ہے ۔اس جہر پر اس آمین کو قیاس کرنا دلیل غباوت ہے ۔ کیونکہ حدیث ابو قتادہ کی صاف وآشکار اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ امر رسول اللہ ﷺ کا صلوۃ ظہر میں صرف اسرار ہی تھا۔ فقط احیانا بعض آیت کے ساتھ جہر فرماتے ۔ تاکہ معلوم ہوجاوے مقتدیوں کو قرات فرمانا آپ کا دیکھو پوری حدیث ابو قتادہ کی یہ ہے ۔
عن ابي قتاده قال كان النبي صلي الله عليه وسلم يقرافي الظهر في الاولين بام الكتاب وسورتين وفی الرکعتین الاخرین بام الکتاب ویسمعنا الآیۃ احیانا متفق علیہ
بخلاف حدیث آمین بالجہر کے اس میں کسی راوی نے یہ نہیں کیا ہے کہ امر مقرر رسول اللہﷺ یہی اسرار تھا ، صرف احیانا آپ نے جہر کیا ہے، اگر ایسی بات ہوتی تو کوئی راوی بھی تصریح اس امر کی ضرور کرتے ، کیونکہ ایسی جگہوں میں تصریح کی حاجت ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ امر مقرر رسول اللہ ﷺ کا آمین بالجہر تھا نہ اسرار ۔
او بعض نافہمیدہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حکم آمین جہری کا اوائل اسلام میں تھا پھر حکم جہر کا منسوخ ہوگیا تو یہ ان کا غلط ہے ، کیونکہ وائل بن حجر صحابی متاخر الاسلام ہیں اور ان کا اس حدیث کو روایت کرنا دلیل قاطع ہے اس امر پر کہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔ کہاحافظ ابن حجر نے فتح الباری میں : وفيه رد علي من اوما الي النسخ فقال انما كان النبي صلي الله عليه وسلم يجهر بالتامين في ابتدائي اسلام ليعلمهم فان وائل بن حجر اسلم في اواخر الامر انتهي
قولہ: حدیث نمبر 5 جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود کو تمہارے آمین کہنے پر حسد ہے۔ اس کا جواب یہ ہے (1) تو اس سے جہر ثابت نہیں ہوتا اور حسد کے لیے علم شرط ہے نہ جہر
(2) یہ روایات ضعیفیہ ہیں ۔ان کے راوی اکثر ضعیف لوگ ہیں۔
اقول: جواب دونوں وجہوں کامفصلا ومشروحا بجواب حدیث نہم ودہم ابن ماجہ کے گذرا وہاں پر آپ ملاحظہ کیجیے۔ تشفی خاطر ہوجاوے گی ۔اور بیشک حسد کے لیے علم حاسد چاہیے مگر یہ تو فرمائیے کہ امر محسود یہاں پر کیا ہے؟ جہر یااسراور خدا کے واسطے ذرا لفظ (فاکثروا من قول آمین ) کو غور فرمائیے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی لیے فرمایا ہے اور اکثار سرکار کاحکم حاسد کے علم کو کیا فائدہ دے گا۔
قولہ: حدیث نمبر 6،اور نمبر 7 اور نمبر8 بخاری اور مسلم اور نسائی کی تین حدیث میں کہ جن میں اول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو: اذا قال الامام ولاالخالین فقولوا آمین، اور دوسری میں یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے اور فرشتے بھی اسی وقت کہتے ہیں تو اس موافقت سے گناہ بخشے جاتے ہیں ۔اور تیسری میں بھی یہ ہے کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی کہو۔ یہ تینوں احادیث تو حضرت امام ابو حنیفہ کی دلیل ہیں ۔ کیونکہ ان سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام آہستہ آمین کہتا ہے ۔ ورنہ اس کہنے کی کیاضرورت ہے کہ جب امام ولاالضالین کہے تب آمین کہو۔ خداجانے مخالف نے آنکھیں بند کرکے یہ احادیث کیوں نقل کیں؟ مگر اتنی لیاقت کہاں کہ مفید مدعا اور مفید غیر مدعاکو سمجھیں ۔
اقول: وہ تین حدیثیں جن کو آپ نے نمبر 6،7،8، میں قرار دیا ہے وہ یہ ہیں۔
حدیث اول: عن ابي هريرة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اذا قال الامام غير لامغضوب ولاالضالين فقولوا آمين فانه من وافق قوله قول الملائكة غفرله ماتقدم من ذنبه رواه البخاري
وحديث دوم : عن ابي غريرة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اذا قال احدكم آمين وقال الملائكة في السماء آمين فوافقت احداهما الاخري غفرله ماتقدم من ذنبه متفق عليه
وحديث سوم: عن ابي هريرة قا ل قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قال الامام غير المغضوب عليهم ولاالضالين فقولوا آمين فان الملئكة تقول آمين وان الامام يقول آمين فمن وافق تامينه الملئكة غفرله ماتقدم من ذنبه رواه النسائي
پس یہ کہنا آپ کا (کہ یہ تینوں احادیث تو امام ابو حنیفہ کی دلیل ہیں کیونکہ ان سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ (امام آہستہ آمین کہے ) غلط صریح ہے ۔ کیونکہ خاص امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مذہب اس باب میں یہ ہے کہ امام اصلا آمین نہ کہے نہ پکار کے نہ چپکے ' جیسا کہ فرمایا امام محمد نے موطا میں : قال محمد وبهذا ناخذ ينبغي اذا فرغ الامام من ام الكتاب ان يومن الامام ويؤمن من خلف ولايجمرون بذلك ‘فاما ابو حنيفة فقال يؤمن من خلف الامام ولايؤمن الامامّ
پس اس عبارت سےموطا کے صاف ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک امام مطلقا آمین نہ کہے ، اور یہی مذہب ہے امام مالک کا جیسا کہ فتح الباری میں ہے :وخالف مالك في احدي الروايتين عنه وهي روايتين عنه وهه رواية ابن القاسم فقال لايؤمن الامام في الجهرية وفي رواية عنه لايؤمن انتهي
اور نیل الاوطار میں ہے: وقد ذهب مالك الي ان الامام لايؤمن في الجهرية وفي رواية عنه مطلقا وكذا روي عن ابي حنيفة والكوفين ّانتهي
اور دلیل ان دونوں اماموں کی کی یہی حدیث اول ابن ابھی ہریرۃ کی ہے، یعنی " اذا قال الامام ولاالضالین فقولوا آمین" یعنی جب امام ولاالضالین کہے تب تم لوگ آمین کہو اس سے یہ دونوں امام استنباط کرتے ہیں کہ امام آمین نہ کہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے امام کے صرف ولاالضالین کہنے کو ارشاد فرمایا اور یہ نہیں فرمایا کہ جب امام ولاالضالین کہہ کر آمین کہے تب تم لوگ آمین کہو، معترض ایسا بے استعداد وبے لیاقت وقاصر النظر ہے کہ اس مغز سخن کو نپ پہچانا اور اس پر یہ بات آشکار ا نہ ہوئی ۔ خیر فلبیک وعلی نفسہ ۔
لیکن امر محقق وصحیح یہ ہے کہ امام بھی آمین کہے اور ماموم بھی ' کیونکہ خود ابوہریرۃ سے مرفوعا مروی ہے ۔اذا امن الامام فامنوا اور ایک روایت میں یوں ہے ۔اذا امن القاری فامنوا ۔ بلکہ تیسری حدیثٖ بروایت نسائی جس میں اذا قال الامام غير المغضوب عليهم ولاالضالين فقولوا آمين ) ہے اس میں یہ جملہ بھی موجود ہے یعنی (وان الامام یقول آمین) پس یہ روایات منادی ہیں اس امر پر کہ امام بھی آمین کہے ۔اور وہ حدیث یعنی اول ابی ہریرۃ اسی معنی پر حمل کی جاوے گی ' تاکہ مطابقت درمیان سب روایتوں کے ہوجاوے ،اور بیان اس امر کا کہ ان احادیث سے جہر ثابت ہوتا ہے یا اسرار قریب آتا ہے فانتظر
قولہ: حدیث نمبر 9 اور نمبر 10 بھی بالکل مفید مدعا نہیں کس لیے کہ نمبر 9میں یہ ہے کہ جب قاری آمین کہے تم بھی کہو اور نمبر 10 میں یہ ہے کہ جب امام آمین کہے تب تم بھی کہو ۔ نہ یہاں سے پکار کر کہنا ثابت ہوتا ہے نہ آہستہ
اقول: وہ دو حدیث یہ ہیں ۔
حدیث اول : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا؛ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»
حدیث دوم: , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: آمِينَ.
معنی حدیث اول کے یہ ہیں کہ جب قاری آمین کہے تو تم بھی آمین کہو اور دوسری حدیث کے یہ معنی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو پس ابو ہریرۃ کی ان دونوں حدیث ماسبق سے حکم آمین کہنے کا امام اور ماموم کے نکلا، مگر کیفیت آمین کہنے کی مجہول رہی ' کہ پکارکر کہنا چاہیے یاآہستہ ' پس کیفیت اس کی خود ابو ہریرہ کی دوسری حدیث اور دیگر صحابہ مثل وائل بن حجر وعلی بن ابی طالب وبلال وعائشہ وابن عباس رضٰی اللہ عنہم کی حدیثوں سے جو جہر پردال ہیں معلوم ہوئی کیونکہ الاحادیث یفسر بعضھا بعضا۔اور یہی احادیث ماسبق ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی یعنی حدیث (قولوا آمین) وحدیث (اذا امن الامام فامنوا) وحديث واذا قا احدكم آمين) مطلق ہیں ۔اور یہ احادیث جن میں جہر کا ذکر ہے وہ مقید ہیں ۔اور مطلق کو مقید پر حمل کرنا چاہیے ۔ پس بنابر اس قاعدہ کے ان احادیث کو جو مطلق عن التقید ہیں جہر پر حمل کرکے ان پر بھی حکم جہر کا دیا گیا۔
اور یہ مطلق اسرار پر حمل نہیں کیا گیا اس لیے کہ اسرار میں کوئی حدیث صحت کو نہیں پہنچی ،بخلاف احادیث جہر کے متعدد طرق سے مروی ہیں 'اور صحت کو پہنچی ہیں اگرچہ بعض طرق اس کے ضعف ہے۔وباللہ التوفیق
شکر ہے حق سبحانہ تعالیٰ کا کہ اس نے یہ رسالہ اوائل ربیع الاول 1303ھ میں انجام کو پہنچایا ۔اب اس کی بارگاہ میں یہ التجا ہے کہ اس کو قبول فرمائے اور ہم کو اور سارے بھائی مسلمانوں کو استقامت دین پر نصیب کرے ۔اور شرک وکفر ومحرمات وبدعات سے محفوظ رکھے ،اور آپس میں اتفاق واتحاد عطا کرے ۔ اور یہ اختلاف وتحاسد وتباغض وتدابر کو ہم بھائیوں مسلمانوں سے دور کرے اور خالص سنی محمدی متبع سنت بنادے آمین یارب العلمین ۔ فقط
قطع تاریخ طبع رسالہ الکلام المبین فی الجہر التامین والردعلی القول المتین
از مولوی محمد ضمیر احق صاحب آروی
رقم زد چوں این راشمس حق فطین ولبیب وذ کی وادیب
شداز زیور طبع آراستہ بتصحیح وتنفیح وحسن عجیب
ندا داد ہاتف بگوای ضمیر پی سال طبعش عجیب وغریب
ایضا اردو
چھپ گیا جب یہ نسخہ زیبا غم سے دل منکروں کا چور ہوا
لکھے تاریخ طبع میں نے ضمیر حق وباطل کا اب ظہور ہوا
اطلاع
واضح ہو کہ میں نے حق تالیف اس کتاب کا مولوی تلطف حسین صاحب کو ہبہ کردیا ہے لہذا یہ کتاب بموجب قانون بھی رجسٹری گورنمنٹ داخل کرکے ارباب مطابع وغیرہ کی خدمت میں التماس ہے کہ کوئی صاحب بلااجازت مولوی صاحب موصوف قصد طبع نہ فرمائیں
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب