ان الحكم الا الله اگر کوئی شخص اس طور پر خطبہ پڑھے کہ اس میں عبارات عربی مثل آیات قرآنی اور احادیث ۔۔۔۔اور ادعیہ ماثورہ کچھ نہیں ہوں تو یہ صورت جائز نہیں ہے اور اگر ایسا نہیں کرے بلکہ عبارات عربیہ کو بھی پڑھے اور اس کے ط بعد اس کا ترجمہ کردے تاکہ عوام الناس کو اس سے فائدہ پہنچے یہ صورت جواز کی ہے صحیح مسلم میں ہے ۔
جب تك ترجمہ نہیں کیا جائے گا تو عوام الناس کیوں کر سمجھیں گے ۔اور تذکیر کا اختصاص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مقام میں کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے ۔ لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة کافی ووافی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب حرره ابو طيب محمد المدعو شمس الحق العظيم آبادي عفي عنه
بسم الله الرحمن الرحيم ( شب برات سے متعلق یہ تحریر مولانا عظیم آبادی نے مولانا عبدالغفور وانا پوری کے رسالے "ا؛ھدایۃ الی لیلۃ البراءۃ " پر بطور تقریظ لکھی تھی جو مذکورہ رسالہ کے اخیر میں (ص 41/43) شائع ہوئی (مطبع سعید المطالع بنارس 1322ھ اس تحریر کی نشاندہی مولانا عبدالعزیز اعظمی نے کی ) جس کے لیے راقم ان کا ممنون ہے )
نحمدہ ونصلي بیشک ماہ شعبان کی فضیلت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس کی فضیلت کا خیال کرکے اس میں اپنے دستور سےزیادہ روزہ رکھنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ۔
صحیحین میں مروی ہے : عن عائشة قالت مارايت رسول الله صلي الله عليه وسلم اتكمل صيام شهر قط اشهر رمضان وما رايته في شهر اكثر صياما منه في شعبان
اور سنن نسائی میں بسند حسن مروی ہے: عن اسامة بن زيد قال قلت يا رسول الله صلي الله عليه وسلم يل ارك تصوم شهر ما تصوم من شعبان قال ذلك شهر يفعل الناس عنه بين رجب ورمضان وهو شهر ترفع فيه الاعمال الي رب العلمين فاحب ان يرفع عملي وانا صائم
اور سنن ترمذی میں ہے : عن انس رضي الله عنه قال سئل النبي صلي الله عليه وسلم اي صوم افضل بعد رمضان قال شعبان لتعظيم رمضان
اور تین روایتوں کے علاوہ اور روایات بھی اس باب میں وارد ہیں ۔ اکثر روایات ان میں سے حافظ منذری کی کتاب الترغیب میں موجود ہیں ۔
ان حدیثوں سے اتنا ضرور معلوم وا کہ شعبان کا مہینہ بزرگ مہینہ ہے اور اس میں روزوں کی کثرت مسنون ہے اور رسول اللہ ﷺ اس مہینے میں زیادہ روزے رکھتے تھے ۔البتہ اس مہینے میں روزے کے لیے کسی تاریخ یا روز کی تخصیص کسی ایسی روایت سے ثابت نہیں ہے جو قابل احتجاج ہو ۔ اس لیے بالقصد خاص کرکے روزے کے لیے کسی تاریخ کو معین کرلینا چاہیے ۔
باقی رہا نصف شعبان کی شب کو قرآن مجید تلاوت کرنا ۔ ادعیہ ماثورہ اذکار صحیحہ پڑھنا ۔ صلوۃ قافلہ اول شب کو بغیر جماعت اور بغیر ہیئت مخصوصہ کے یا آخر شب کو بجماعت لیکن بغیر ہیئت مخصوصہ کے ادا کر نا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہنا رحمت کی کواستگاری کرنا اور اپنے لیے دعائیں مانگنا اور دعا میں گریہ وزاری کرنا بھی بدعت نہیں ہے ،بلکہ موجب اجر جزیل وچؤاب عظیم ہے اور اس باب میں بھی روایا ت متعدد ہ وارد ہیں ۔
ان روايات كے سوا اور بھی اخبار وآثار اس باب میں مروی ہیں ۔ بخوف طوالت قدر مذکور پر اکتفا کیا گیا ۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ ماہ شعبان میں شب پندرہ بالخصوص بہت بزرگ ہے اس میں نماز پڑھنا دعائیں مانگنا ثواب ہے یہ روایتیں اگرچہ علیحدہ علیحدہ بہت قوی درجے کی نہیں ہیں مگر چونکہ متعدد طرق سے مروی ہیں اس لیے ایک کو دوسرے سے قوت حاصل ہے اور قابل احتجاج وعمل ہے کیونکہ اس سے زیادہ صحیح حدیث اس کی مخالف نہیں وارد ہے اسی بناء پر شیخ ابو شامہ نے کتاب الباعث فی انکار البدع والحوادث میں چند روایتیں بیہقی کی کتا ب الدعوات الکبیر وغیرہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ۔ قال البيهقي في هذا الاسناد بعض من يجهل وكذلك فيما قبله واذا انضم احدهما الي الاخر اخذ بعض القرة انتهي
الحاصل ماہ شعبان کا تمام مہینہ بزرگ ہے اور اس میں روزے رکھنا مسبوب ہے مگر روزے کے لیے کوئی تاریخ معین ومقرر کرنا اور بالتخصیص صرف پندرہویں تاریخ میں روزہ رکھنا احادیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ تیرہ ' چودہ ' پندرہ تاریخوں میں جن کو ایام بیض کہتے ہیں ان میں روزے رکھے اور چاہے تو اس پر بھی زیادتی کرے کیونکہ اس مہینے میں کثرت صیام ثابت ہے اور اس مہینہ میں شب پندرہ بالخصوص زیادہ بزرگ ہے اس میں قیام لیل بغیر کسی ہیئت خاص کے بھی مسنون وموجب اجر وثواب ہے۔البتہ کسی خاص یہئت کے ساتھ نماز پڑھنا یعنی ایک سو رکعت نماز پڑھنا اور ہر رکعت میں بعد سورۃ فاتحہ کے دس بار سورۃ ق ہواللہ پڑھنا وغیرہ ذلک کہیں اخبار وآثار سے ثابت نہیں ہے بلکہ محدث فی الدین ہے اور عامل اس کا بدعتی ہے اور ایسا ہی تمام شب چراغوں کو روشن کرنا اور سارے مکان میں زیادہ روشی کردینا یہ سب فعل منکرونا مشروع ہے۔اور ایسا ہی چودہ شعبان کو یوم عید قرار دے کر اس میں حلوہ پکانا اور اس کوثواب سمجھنا یہ سب بدعت وضلالت ہے اور تفصیل اس کی صراط مستقیم للامام ابن تیمیہ میں ہے وهكذا في الباعث في انكار البدع والحوادث لابي شامه وكتاب المدخل الشيخ ابن الحاج وغير ذلك من ذلك من الكتب المعتبرة
اور فرمایا علامہ مناوی نے فتح القدیر شرح کبیر جامع الصغیر میں بشرح حدیث " ان الله تعاليٰ ينزل ليلةالنصف من شعبان الخ کی قال المجد ابن تیمیہ لیلة النصف شعبان روي في فضلها من الاخبار والآثار مايقتضي انها مفضلة ومن السلف من خصها بالصلوة فيها ‘ وصوم شعبان جاءت فيه اخبار صحيحة اماصوم يوم نصفه مفرد فلا اصل له يكره ’ وكذا اتخاذ مرسما اتضع فيه الحلوي والاطعمة وتظهر فيه الزينة وهومن المواسم المحدثة المبتدعة التي لااصل لها انتهي والله اعلم
حرره العبد الضعيف ابو طيب محمد شمس الحق العظيم آبادي عفي عنه آبائه وعن مشائخه آمين
میں نے رسالہ مولوی عبدالغفور صاحب کو دیکھا اوراس کی صحت کی، فضائل شعبان وغیرہ میں مولوی صاحب نے خوب لکھا ہے واقعی فضائل شعبان میں بہت احادیث صحیحہ آئی ہیں ۔صوم نصف شعبان میں کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ تخصیص اس کی ٹھیک نہیں ' جیسا کہ مولانا عبدالشمس الحق صاحب نے لکھا ہے میں بھی ان کا ہمقال ہوں
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب