بلاشک وشبہ فضیلت وثواب جماعت اولی کا زیادہ ہے بہ نسبت جماعت اخری کے ۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتی ہے کہ تکرار جماعت بعد جماعت اولی ناجائز ہوجاوے ۔ اور کراہت بھی اس کی کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں ،بلکہ جواز تکرار جماعت فی مسجد واحد حدیث صحیح سے ثابت ہے ، اور صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کا بھی اس پر عمل بھی رہا ہے ۔ دیکھو روایت کی ابوداود نے سنن میں:
یعنی ابو سعیف خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا کوئی شخص اس کو صدقہ نہیں دیتا ۔
یعنی جو اس کے ساتھ نماز پڑھے گویا چھبیس نمازوں کا ثواب اس کو صدقہ میں دے دیا اس واسطے کہ جماعت سے نماز پڑھنے سے میں ستائیس نمازوں کا ثواب لکھا جاتا ہے
اور روایت کیا ترمذی نے :
یعنی روایت ہے ابو سعید سےکہا کہ آیا ایک شخص کے ساتھ یعنی اس کے ساتھ شریک ہوجاوے تو جماعت کا ثواب دونوں پاویں ' سو کھڑا ہو اایک مرد اور نماز پڑھ لی اس کے ساتھ ۔
اور مسند امام احمد بن حنبل میں ہے :
اور ایک روایت میں مسند کے اس لفظ کے ساتھ وارد ہے ۔
اور کہا حافظ جمال الدین زیلعی نے تخریج احادیث ہدایہ میں :
ورواه ابن خزيمه وابن حبان والحاكم في صحاحهم قال الحاكم :حديث صحيح علي شرط مسلم ولم يخرجها انتهياور روایت کیا دار قطنی نے سنن مجتبی ہیں
کہا زیلعی نے اس حدیث دار قطنی کے بارے میں : وسنده جيد انتهي
اور بھی روایت کیا ہے دارقطنی نے عن عصمة بن مالك الخطمي قال كان الرسول الله صلي الله عليه وسلم قد صلي الظهر وقعد في المسجد اذ دخل رجل يصلي فقال عليه السلام الا رجل يقوم فيتصدق علي هذا فيصلي معه
اور یہ حدیث اگر چہ ضعیف ہے مگر چنداں مضر نہیں ۔ کیونکہ طرق متعدد ہ سے یہ حدیث ثابت ہے ۔ اور روایت کیا براز نے مسند میں :
اور یہ شخص جو شریک ہوئے اس شخص کے ساتھ نماز میں وہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ کہا حافظ زیلعی نے:
وفي رواية البيهقي ان الذي قام فصلي معه ابوبكر رضي الله عنه انتهي ّاور کہا علامہ جلال الدین سیوطی نے قوت المغتاری میں:
قال ابن سيد الناس :هذا الرجل الذي قام معه هو ابوبكر الصديقّ رواه ابن ابي شيبة عن الحسن مرسلا انتهيپس ثابت ہوا کہ مسجد واحد میں تکرار جماعت جائز ودرست ہے کیونکہ اگر تکرار جماعت مسجد واحد میں جائز نہ ہوتا تو رسو ل اللہ ﷺ یہ کیوں ارشاد فرماتے 'الارجل يتصدق علي هذه فيصلي معهّ
اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہاں پر اقتداء متنفل کی مفترض کے ساتھ پائی گئی اور اس میں کلام نہیں ۔ گفتگو اس میں ہے کہ اقتداء مفترض س کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بہ تکرار جماعت جائز ہے یا نہیں ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ قول رسول اللہ ﷺ "الارجل يتصدق علي هذا ومن يتحر علي هذا فيصلي معه " والارجل يقوم فيتصدق علي هذا فيصلي معه"
عموم پر دلالت کرتا ہے ' خواہ مقتدی متصدق ہو یا مفترض ، اور اگرچہ اس واقعہ خاص میں متصدق اس کا متنفل ہوا ' مگر یہ خصوص مورد قادح عموم لفظ کا نہ ہوگا۔ اور اول دلیل اس پر یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک جو منجملہ رواۃ اس حدیث کے ہیں انھوں نے بھی یہی عمعم سمجھا، چنانچہ انھوں نے بعد وفات رسول اللہ ﷺ کے جماعت ثانیہ ساتھ اذان واقامت کے قائم کی اس مسجد میں جہاں جماعت اولے ہوچکی تھی ۔ صحیح بخاری کے ابب فضل صلاۃ جماعۃ ،میں ہے
وجاء س انس الي مسجد قد صلي فيه فاذن واقام وصلي جماعة ّ انتهيکہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں :
وجاء انس الخ‘ وصله ابو يعلي في مسنده من طريق الجعدار بي عثمان قال: مربنا انس بن مالك في مسجد بني ثعلبه فذكرنحوه ‘ قال : وذلك في صلوة الصبح وفيه : فامر رجلا فاذن واقام ثم صلي باصحابه واخرجه ابن ابي شيبة من طريق عن الجعد وعندالبهيقي من طريق ابي عبدالصمد الاعمي عن الجمعه نحوه وقال مسجد بني رفاعة وقال فجاء انس في نحو عشرين من فتيانه ّانتهيحاصل کلام یہ ہوا کہ یہ سات صحابہ حضرت ابو سعید خدری وانس بن مالک وعصمۃ بن مالک وسلمان وابو امامہ وابو موسی اشعری والحکم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بموجب ارشاد رسول اللہ ﷺ ساتھ اس کے نماز پڑھنے لگے اس مسجد میں جہاں جماعت اولی ہوچکی تھی ۔اور اطلاق اس پر جماعت کا ہوگا کیونکہ الاثنان فما فوقھا جامعۃ سٓ۔ اور حضرت انس نے بعد وفات رسول اللہ ﷺ کے اس پر عمل کیا جیسا کہ روایت سے مسند ابو یعلی موصلی وابن شیبہ وبہیقی کے معلوم ہوا۔ اور امام احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مذہب صحیح وقوی ہے کہ تکرار جماعت بلا کراہت جائز ہے۔
اور فقہائے حنفیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تکرار جماعت ساتھ اذان ثانی کے اس مسجد میں کہ امام ومؤذن وہاں مقررہوں مکروہ ہے ۔اور تکرار اس کا بغیر اذان کے مکروہ نہیں۔ بلکہ امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ اگر جماعت ثانیہ ہیبت اولی پر نہ ہو تو کچھ کراہت نہیں'ا ور محراب سے عدول کرنے میں ہیبت بدل جاتی ہے بحر الرائق شرح کنز الدقایق میں ہے ۔
ومنها حكم تكرارها في مسجد واحد ففي الجمع لايكرها في مسجد محلة باذان ثان وفي المجتبي : ويكره تكرار ها في مسجد باذان واقامة ّانتهي مختصرااور شرح منيته المصلي ميں ہے :
واذالم يكن للمسجد امام وموذن راتب فلايكره تكرار الجماعة فيه باذان واقامة عند نا بل هو الانفل ّاما لو كان له امام ومؤذن فيكره تكرار الجماعة ‘ وعن ابي يوسف رحمة الله عليه اذا لم تكن علي هيئة الاولي لايكره ولايكره وهو الصحيحاور طوالع الانوار حاشیہ در المختار میں ہے :
كراهة الجماعة في غير مسجد الطريق مقيد ة بما اذا كانت الجماعة الثشانية باذان واقامة لاباقامة فقط وعن ابي يوسف رحمة الله عليه اذا لم تكن علي هيئة الاولي لاتكره الاتكره وهو الصحيح ‘ وبالعدول ‘ عن المحراب يختلف الهيئة انتهياور رد المختار حاشیہ درلمختار میں ہے:
یکرہ تکرار الجماعة في مسجد محلة باذان واقامة الا اذا صلي بهما اولا غير اهله ّاو اهله لكن بمخفافته الاذن ولو كره اهله بندونها اوكان مسجد طريق جاز اجماعا كما في مسجد ليس امام ولامومن انتهياور بھی ردالمختار میں ہے
قد علمت بان الصحيح انه لايكره تكرار الجماعة اذالم تكن علي الهئية الاولي ّانتهي مختصراًپس ان روایات سے صاف معلوم ہوا کہ جب جماعت ثانیہ میں عدول محراب سے ہوجائے ، یا تکرار اس کا بغیر اذان کے ہوتو بلاکراہت جائز ہے ، اگرچہ اقامت اس میں کہی جاوے ۔ اور حضرت انس کے فعل سے ثابت ہوا کہ انھوں نے تکرار جماعت ساتھ اذان واقامۃ دونوں کے کیا۔ واللہ اعلم بالصواب
حررہ ابو طیب محمد شمس الحق العظیم آبادی عفی عنہ لله در من اجاب حرره ابو عبدالمجد عبدالصمد بهاري غفرله ولوالديه مااحسن هذا الجواب المقرون بالصدق والصواب حرره الراجي عفوربه القوي ابوالحسنات محمد عبدالحي تجاوز الله عن ذنبه الجلي والخفي اصاب من اجاب حرره محمد حمايت الله جليسري صح الجواب الفقير علي عفا عنه
لله در المجيب حيث اتي بدلايل شافعيه وبراهين قاطعة التي دال عنها شببه المعاذين ودفع بها شكوك المجادلين فليعمل العاملون حرره عاجز البشر ابو ظفر محمد عمر الاڑیسوی عفی عہ
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب