ان دونوں سوالوں کا یہ ہے کہ وجہ ایسی تقلید سخت کی' کہ اگرچہ قول مجتہد کا مخالف قول صاحب شریعت کے ہو واجب سمجھنا تقلید امام معین کی ہر امورات جزئیہ میں ہے اور جبکہ استیصال وجوب تقلید مجتہد معین کا ہوتو مطلب ثابت ہے۔ پس میں کہتا ہوں کہ وجوب تقلید مجتہدین معین کی ہر امور رات جزئیہ میں کسی دلیل سے دلائل اربعہ کے ثابت نہیں ۔ مولانا عبدالعلی بحر العلوم نے شرح مسلم الثبوت میں لکھا ہے :
وقيل لايجب الاستمرار ويصح الانتقال وهذا هوالحق الذي ينبغي ان يومن به ويعتقد عليه لكن ينبغي ان لايكون الانتقال للتهي فان التلهي حرام قطعا في التمذهب كان او غيره اذ لا واجب الا مااوجبه الله تعاليٰ ‘ والحكم له ‘ ولم يوجب علي احد ان يتمذهب بمذهب رجل من الامة فايجاب به تشريع جديه انتهيعلامہ ابن امیر حاج نے شرح تحریر الاصول میں لکھا ہے :
لو التزم مذهبا معينا كابي حنيفة والشافعي قيل : يلزمه ‘ وقيل لا’وهو الاصح انتهيعلامه شر نبلاني ني عقد الفريد ميں لکھا ہے:
ليس علي الانسان التزام مذهب معين ّ انتهياور طوالع الانوار میں مذکور ہے :
وجوب تقليد مجتهد معين لاحجة عليه لامن جهة الشريعة ولامن جهة العقل كما ذكره الشيخ ا بن الهام من الحنفيه في فتح القدير في كتابه المسمي بتحرير الاصؤل وبعدم وجوب صرح الشيخ ابن عبدالسلام في مختصر منتهي الاصول من المالكيه والمحقق عضد الدين من الشافعيه ّ وذكر ابن امير الحاج في التقرير شرح التحرير :ان القرون الماضية من العلماء اجمعوا علي انه لايحل لحاكم ولا مفت بتقليد رجل واحد بحيث لايحكم ولا يفتي في شئي من الاحكام الا بقوله ّ انتهياور اجماع کیا ہے اصحاب رضی اللہ عنہ نے اس بات پر کہ مثلاً جس شخص نے مسئلہ پوچھا حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہ سے۔ وہ مسئلہ پوچھے حضرت ابو ہریرہ ومعاذ بن جبل سے اور عمل کرے قول پر ان دونوں کے بغیر نکیر کے جیسا کہ علامہ قرانی نے تنقیح میں فرمایا ۔
واجمع صحابه علي ان من استفتي ابا بكر وعمر ان يستفتي ابا هريره ومعاذ بن جبل و غيرها ويعمل بقولها من غيرنكير انتهيپس معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص حنفی مذہب بغیر تلہی فی المذہب کسی مسئلہ پر امام شافعی ؒ کے عمل کرے اگرچہ کوئی ضرورت داعی بھی اوپر عمل کرنے مسئلہ مذہب شافعی ؒ کے نہ ہو جائز ودرست ہے ، مثلاً کوئی حنفی المذہب اگر وتر ایک رکعت یا پانچ رکعت محض باتباع سات کے پڑھے تو اس کو ثواب ہوگا،اور معاذ اللہ اڑے رہنا اوپر اس قول امام کے جو صریح مخالف حدیث غیر منسوخ وغیر مودل کے ہو باوجود قدرت رجوع کرنے کے اس طرف ان احادیث صحیحہ کے کہ مخالف قول امام کے ہیں اور نہ چھوڑنا قول امام کا باوجود مخالفت کے اس کی کہ قول نبی صلعم سے' از شرک واتحاذ ارباب من دون اللہ کے ہے ۔ کسی مسلمان کو ایسی تقلید کر نا حلال نہیں ہے ، بلکہ حرام ہے ، حق تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾
اور بھی فرمایا۔﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب
اور بھی فرمایا :﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ... ﴿٥٩﴾... سورةالنساء
اور بھی فرمایا : ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَرفَعوا أَصوٰتَكُم فَوقَ صَوتِ النَّبِىِّ...﴿٢﴾... سورةالحجرات
پس جب کہ بلند کرنے سے آواز پر نبی ﷺ کے منع فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ صریح مخالفت قول نبی ﷺ کو اپنا دین وایمان سمجھتے ہیں ؟ مولانا اسمعیل ؒ تنویر العینیین میں فرماتے ہیں : ليت شعري كيف يجوز التزام تقليد شخص معين مع تمكن الرجوع الي الروايات المنقوله عن انبي صلي الله عليه وسلم الصريحة الدالة علي خلاف قول النبي صلي الله عليه وسلم الصريحة الدالة علي خلاف قول الامام المقلد ‘ فان لم يك قول امامه فضيه شائبه من انشرك كما يدل عليه حديث الترمذي عن عدي بن حاتم انه سال رسول الله عليه وسلم عن قوله اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله والمسيح بن مريم ‘ فقال : يارسو ل الله انا لم اتخذتم احبارنا ورهباننا اربابا فقال: انكم حللتم مااحلوا وحرمتم ماحرموا ّ انتهي
شیخ محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے :
لایجوز ترک ا یة او خبرصحيح بقول صاحب اور امام ‘ ومن يفعل ذلك فقد ضل ضلالامبينا وخرج عن دين الله ‘ انتهي ّعبدالوہاب شعرانی نے یواقیت والجواہر میں لکھا ہے :
وكان الامام احمد يقول : ليس لاحد مع ورسوله كلام لا تقلدني ولاتقلدن مالكا ولا الاوزعي ولاالنخعي ولاغيرهم ‘ وخذ الاحكام من حيث اخذوه من الكتاب والسنةاور فرمایا امام ابو حنیفہ نے اتركوا قولي بخبر الرسول ّ كذا في ميزان الشعراء وردالمختار
اور فرمایا امام شافعی نے اذا صح الحديث فهو مذهبي ّ كذا في شرح مسلم النووي
اور اسی طرح دوسری کتابوں میں مذکور ہے ۔ نقل سب عبارتوں کی موجب طوالت ہے ،اور تحقیق اس مسئلہ کی بسطا وتحقیقات کتاب معیار الحق للمحدث الدہلوی میں موجود ہے، من شاء فلينظر ّ حرره ابو طيب محمد شمس الحق عفي عنه
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب