دونوں سوالوں کا یہ ہے کہ تیجا اور دسواں بیسواں چالیسواں ۔ چھ ماہی برسی اور گیارھویں ، اور فاتحہ مروجہ شب برات کرنا، اور اس طریقہ خاص سے مجتمع ہو کر قرآن پڑھنا' خواہ مکان میں بیٹھ کر خواہ قبر پر 'اور مردے کے دفن کے بعد جمعہ تک قبر پر بٹھانا ، یہ سب بدعت اور گمراہی ہے ۔ کسی حدیث سے ثابت نہیں 'اور نی کسی صحابی کا اس پر عمل ہوا ، اور نہ کسی مجتہد سے استحباب ان افعالوں کا منقول ہے۔ ھاصل یہ ہے کہ یہ طریقے سب ایصال ثواب کے لیے سات تقید اور تعین روز ماہ کے 'اور التزام قیودات مرسومہ کا کسی دلیل سے دلائل شرعیہ کے ثابت نہیں۔ اور کرنے والا ان افعالوں کا مبتدع ہے ،شیخ عبدالحق نے مدارج النبوۃ میں لکھا ہے ۔
دعادت نبویہ کہ برائے میت جمع شوند وقرآن خوانند وختمات خوانند، نہ برسر گو رونہ غیر آن ، وایں مجموع بدعت است ۔ نعم برائے تعزیت اہل میت جمع وتسلیہ 'صبر فرمودن ایشاں راسنت ومستحب است ، ماایں اجتماع مخصوص روز سوم وارتکاب تکلفات دیگر صرف اموال بے وصیت اموال بے وصیت از حق یتامے بدعت است وحرام انتہے۔
وفقیہ محمد بن محمد کردری نے فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے:
يكره اتخاذ الطعام في اليوم الاول والثالث وبعد الاسيوع ‘ ونقل الطعام الي القبر في المواسم ّ واتخاذالدعوة بقراة القرآن وجمع الصلحاء والفقراء للختم او لقرآة سورة الانعام والاخلاص انتهياور فتاوے جامع الروایات میں ہے ۔
في شرح المجنهاج للنووي :الاجتماع علي المقبرة في اليوم الثالث وتقسيم الوردواطعام في الايام المخصوصة كالثالث والخامسه والتاسع والعاشر والعشرين والاربعين والشهر السادس والسنة بدعة مذمومه ّ انتهيشیخ ولی اللہ ؒ نے وصیت نامہ میں لکھا ہے :
دیگر ازعادات شنیعہ مامردم اسراف است ورماتم ہا وسوم وچہلم وشش ماہی فاتحہ سالینہ ، وایں اور عرب اول وجود نبود انتھی
بلکہ امام ابی حنفیہ ؒ کا خاص مذہب یہ ہے کہ قراءۃ قرآن مطلقا قبر کے پاس مکروہ ہے ۔جیسا کہ عبدالوہاب شعرانی نے میزان کبریٰ میں تصریح کی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب