آمین بالجہر کہنا حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا ہے ' جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے
پس ان دونوں حدیثوں سے آمین بالجبر کہنا امام کا ثابت ہوا ۔ لیکن منفرد پس حکم منفرد اور امام کا ہر چیز میں واحد ہے ' جیسا کہ احادیچ صحیحہ میں مرفوعہ سے ثابت ہے ۔پس جبکہ ثابت ہو اور واسطے امام کے ، ثابت ہوا واسطے منفرد کے باقی رہا حکم مقتدی کا پس لکھتا ہوں میں کہ مقتدی کا بھی آمین پکار کر کہنا حدیث مرفوع سے مستنبط ہے ۔اس واسطے کہ رویت ہے حضرت ابن عباس سے۔
یعنی فرمایا حضرات نے کہ نہیں حسد کیا یہود نے تم لوگوں کے ساتھ کسی فعل کے کرنے سے جس قدر کہ حسد کرتے ہیں تم لوگ آمین کہنے سے۔ پس بہت کثرت کرو آمین کہنے کی ۔
اورظاہر ہے کہ جب تک آمین بالجہر کہی نہ جاوے اور کانوں تک یہود کے آواز اس کی نہ پہنچے جب تک صورت حسد کی نہیں ہوسکتی ۔
اور امام بخاری نے باب جہر الاماموم بالتامین میں روایت کی ہے ۔
پس لفظ "قولوا" سے جہر قول بالتامین مراد ہے ۔اور مویدااس کے ہے عمل حضرت ابو ہریرہ کا کہ روایت کیا اس کوشیخ بدرالدین عینی نے کتاب ع مدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں بیہقی سے ۔
وکان ابو ھریرۃ مؤذنا لمروان ' فاشترط ان لا یسبقہ بالضالين حتي يعلم انه قد دخل في الصف ّ فكان اذا قال المروان ولاالضالين قال ابو هريرة "امين يمدبها صوته ‘ وقال :اذا وافق تامين اهل الارض تامين اهل السماء غفرلهم ‘ رواه البهيقي ّ كذا في العينياور امام ترمذی بعد روایت حدیث وائل بن حجر کے فرماتے ہیں
قال ابوعيسي حديث واكل بن حجر حديث حسن ’وبه يقول غيراحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون ان يرفع الرجل صوته بالتامين ولا يخفيها‘ وبه يقول الثافعي واحمد واسحاق انتهيھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب