سوال اول
ایک شخص نے اپنی مرض الموت میں اپنی ایک وثیقہ ہبہ بالعوض اپنی بعض اولاد کے نام سے لکھا اور بعض کو بالکل محروم رکھا پس یہ ہبہ بالعضوض بنام بعض اولاد کے صحیح ہوا یا نہیں ؟
سوال دوم :
اگر کسی شخص نے حالت مرض الموت میں بعض اولاد کو اپنے یا کسی غیر کو ہبہ بالعوض کیا یہ ہبہ اس واہب کے کل مال میں جاری ہوگا یا واہب کے ثلث مال میں ؟ واہب نے اپنے کل مال کو بعض ورثا کو اپنے ہبہ کردیا اوور بعض کو بالکل محروم کیا ہے ۔
سوال سوم : ( ان تینوں سوال وجواب کے لیے دیکھیے : مجموعہ فتاوی (قلمی ) زیر رقم وِ 269 خدا بخش لائبریری پٹنہ ' ورق 4/ب۔12/ب)
ہبہ بالعضوض میں قرآن شریف کا ہبہ کرنا صحیح ہوگا یا نہیں ؟جواب تینوں سوالوں کا کتب فقہ حنفیہ سے بقید مطبع وصفحہ کتاب کے دیا جاوے ۔اول: یہ ہبہ اگر باجازت باقی ورثاء کے ہوا ہے تو صحیح ہواور نہ صحیح نہیں ہوا۔اس لیے کہ ہبہ بالعوض ایک فرد ہبہ ہے جو مرض الموت میں واقع ہے ۔ اور ہبہ جو مرض الموت میں واقع ہوا ہے ، اور ہبہ جو مرض الموت میں واقع ہو حکماً وصیت ہے پس ہبہ مذکور حکماً وصیت ہے ۔ اور وصیت وارث کے لیے بلااجازت ورثاء صحیح نہیں ہے اور ۔ اولاد وارث ہے پس ہبہ مذکور بغیر اجازت باقی اولاد ( اور اگر واہب کا کوئی اور بھی وارث ہوتو بغیر اجازت وارث مذکور صحیح نہیں ہے
( فتاوی قاضی خاں مطبوعہ کلکتہ جلد 4 صفحہ 5۔ 6) لایحور الوصیۃ للوارث عندنا الا ن یجیزھا الورثۃ،
ایضا صفحہ 516) لو وهب شيئا لوارثه في مرضه او اوصي له بشئ او امر بتنفيذه قال الشيخ الامام ابوبكر محمد بن الفضل : كلاهما باطلان نان اجاز بقية الورثه مافعل وقالوا اجزنا ماامر به الميت ينصرف الاجازة الي الوصية لانها مامورة الي الهبة ولو قال الورثة :اجزنا مافعله الميت صحت الاجازة في الهبة والوصية جميعا
(فتاوي عالمگیر مطبوعہ کلکتہ جلد 6 صفحہ 168): اذااقر مريض لامراة بدين او اوصي لها بوصية اووهب لها هبة ثم تزوجها ثم مات جاز الاقرار عند ناوبطلت والهبة
(الدر مختار بر حاشیہ طحطاوی مطبوعہ مصر جلد 4 صفحہ نمبر 219) : وتبطل هبة المريض ووصية لمن نكحها بعدهما اي بعد الهبة والوصية لما تقرر انه يعتبر لجواز الوصية كون الموصي لها وارثا او غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية (طحطاوي مطبوعه مصر جلد نمبر صفحه ٢١٩): وقله " وتبطل هبة المريض ووصية الخ___ اماالوصية فلانها ايجاب مضاف الي بعد الموت وهي وارثته حينئذ والوصية للوارث باطلة بغٰير اجازة وامالهبة وان كانت منجزة صورة فهي كالمضافة الي بعد الموت حكماً لانها وقعت موقع الوصايا لانها تبرع يتقرر حكمه عند الموت ‘ والله تعالي اعلم
جوابب سوال دوم
اگر واہب نے یہ ہبہ اپنے بعض اولاد یا کسی دیگر وارث کو کیا ہے توہبہ مذکورہ بغیر اجازت بقیہ ورثہ باطل وناجائز ہے ۔ نہ یہ ہبہ واہب کے کل مال میں جاری ہوگا ورنہ ثلث مال میں جیسا کہ جواب سوال او ل سے واضح ہوا ۔ اور اگر واہب نے یہ ہبہ کسی غیر وارث کو کیا ہے تو در صورت عدم اجازت ورثہ کے اس ہبہ کو یہ ہبہ واہب کے صرف ثلث مال میں جاری ہوگا نہ کل مال میں ۔ اس لیے کہ ہبہ مذکور حکما وصیت ہے ۔ جیسا کہ جواب سوال اول میں مذکور ہوا۔ اور وصیت بلا اجازت ورثاء صرف ثلث مال میں جاری ہوتی ہے نہ کل مال میں ورنہ زائد از ثلث ہیں۔
(فتاوی عالمگیر ی مطبوعہ کلکتہ جلد 6 صفحہ نمبر 139) : تصحیح الوصیۃ لااجنبي من غير اجازة الورثة كذا في التبين ّ ولا يجوز بما زاد علي الثلث الا ان يجيزه الورث بعد وهم كبار الخّ كذا في لاهداية
(الدارامختار بر حاشيه طحطاوي مطبوعه مصر جلد ٤ صفحه ٣١٥) ويجوز بالثلث للاجنبي عند عدم المانع وان لم يجوز الوارث ذلك لاالزيادة عليه الا ان يجيز ورثته بعد موته ّ والله تعالي اعلم
جواب سوال سوم : ہبہ بالغوض میں بالخصوص قرآن مجید کو عوض میں دیناتو کتب فقہ حنفیہ میں میری نظر سےنہیں گزرا ہے ۔ لیکن کتب فقہ حنفیہ میں یہ امر مصرح ہے کہ ہبہ بالعوض میں عوض شئي يسير بھی کافی ہے ۔ اور شئي يسير میں قرآن مجید بھی داخل ہے ۔
(فتاوی قاضی خان مطبوعہ کلکتہ جلد 4 صفحہ 182): یصح التعویض بشئی یسیر او کثیر
( فتاوی عالمگیر مطبوعہ کلکتہ جلد 4 صفحہ 551): ولوعوض عن جميع الهبة قليلا كان احوض او كثيرا فانه يمنع الرجوع ّ والله تعاليٰ اعلم ّ كتبه (قلمی نسخہ فتاوی میں اس کے بعد کسی کا نام حریر نہیں۔ مگر چونکہ یہ تمام جوابات مولانا شمس الحق عظیم آبادی کے خط لکھے ہوئے ہیں اس لیے کوئی شک نہیں کہ مجیب وہی ہیں۔ )