السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث ہے کہ «مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ وَمَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ» ہمارے پاس صرف عون المعبود اور التلخیص الحبیر کی کتابیں ہیں التلخیص ج اوّل ص ۱۳۶ میں ہے
’’وَقَالَ الْبَیْہَقِيْ وَالصَّحِیْحُ اَنَّہٗ مَوْقُوْفٌ وَقَالَ الْبُخَارِیُّ الاَشْبَہُ مَوْقُوْفٌ وَقَالَ عَلِیٌّ وَاَحْمَدُ لاَ یَصِحُّ فِي الْبَابِ شَیْئٌ وَقَالَ الذُّہَلِیُّ لاَ اَعْلَمُ فِیْہِ حَدِیْثًا وَلَوْ ثَبَتَ لَلَزِمَنَا اِسْتِعْمَالُہٗ وَقَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ لَیْسَ فِي الْبَابِ حَدِیْثٌ یَثْبُتُ‘‘
آپ سے میں ’’مَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ‘‘ کے سلسلے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ جنازہ کو اپنے کاندھوں پر اٹھا چکے ہیں اور تقریباً سب اٹھاتے ہیں کیا وہ دوبارہ وضوء کریں۔ کیا جنازہ کا اٹھانا نواقص الوضوء میں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے اپنے مکتوب میں حدیث «مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ وَمَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ»
ترجمہ ’’جو میت کو غسل دے وہ خود غسل کرے اور جو اس کو اٹھائے وہ وضوء کرے‘‘ کے متعلق التلخیص الحبیر سے چند ایک محدثین کے اقوال نقل کیے ہیں جن اقوال میں اس حدیث کے مرفوع ہونے کو غیر ثابت بتایا گیا لیکن آپ نے اپنے مکتوب میں اس حدیث کو مرفوعاً ثابت قرار دینے والے محدثین کے اقوال کو یکسر نظر انداز کر دیا حالانکہ وہ اقوال بھی اسی تلخیص میں موجود ومذکورہ ہیں ۔ نیز خود مؤلف تلخیص حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ کا رحجان ومیلان اس حدیث کے صحیح ہونے کی طرف ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’فَیَنْبَغِيْ اَنْ یُّصَحَّحَ الْحَدِیْثُ‘‘ اور اس حدیث کے حسن ہونے کی تو انہوں نے تصریح ہی فرما دی چنانچہ ان کا بیان ہے ’’وَفِي الْجُمْلَةِ ہُوَ بِکَثْرَةِ طُرُقِہٖ اَسْوَأُ اَحْوَالِہٖ اَنْ یَکُوْنَ حَسَنًا‘‘
جناب نے تلخیص کے صفحہ ۱۳۶ کا حوالہ دیا ہے اگر آپ صفحہ ۱۳۷ اور ۱۳۸ کا بھی ذرا گہری نگاہ سے مطالعہ فرما لیں تو اس سلسلہ میں آپ کی الجھن یقینا دور ہو جائے گی امید کی جاتی ہے آپ تلخیص کے ان دونوں صفحوں کو ضرور پڑھیں گے ۔ شیخ البانی حفظہ اللہ نے بھی ارواء الغلیل الجزء الاوّل رقم الحدیث ۱۴۴ صفحہ ۱۷۳ میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ تو مذکور بالا حدیث حسن سے کم درجہ کی نہیں ہاں اس میں غسل کا امر ندب اور استحباب پر محمول ہے اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : «لَیْسَ عَلَیْکُمْ فِيْ غُسْلِ مَیِّتِکُمْ غُسْلٌ» الحدیث(التلخیص بحوالہ بیہقی)’’ تم پر میت کو غسل دینے سے کوئی غسل واجب نہیں‘‘ حافظ ابن حجر اس حدیث پر بیہقی کی جرح کا جواب دینے کے بعد لکھتے ہیں :
’’فَالْاِسْنَادُ حَسَنٌ فَیُجْمَعُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْاَمْرِ فِيْ حَدِیْثِ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ بِاَنَّ الْاَمْرَ عَلَی النَّدْبِ اَوْ الْمُرَادَ بِالْغُسْلِ غَسْلُ الْاَیْدِيْ کَمَا صُرِّحَ بِہٖ فِيْ ہٰذَا قُلْتُ وَیُؤَیِّدُ اَنَّ الْاَمْرَ فِیْہِ لِلنَّدْبِ مَا رَوَی الْخَطِیْبُ الخ‘‘ ’’اَقُوْلُ : اِنََّ حَمْلَ قَوْلِہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِيْ حَدِیْثِ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ عَلٰی غَسْلِ الْاَیْدِيْ لَیْسَ بِصَوَابٍ کَمَا لاَ یَخْفٰی عَلٰی اُوْلِی الْاَلْبَابِ‘‘ ۔
وَمَنْ حَمَلہٗ الخ کے اہل علم نے متعدد معانی ذکر کیے ہیں ان سے میرے نزدیک صحیح معنی یہ ہے ’’جو میت کو اٹھائے وہ وضوء کرے‘‘ یہ مطلب نہیں جو میت والی چارپائی اٹھائے وضوء کرے باقی رہا میت کو اٹھانے کا ناقض وضوء ہونا نہ ہونا تو اس کا مجھے علم نہیں اتنی بات واضح ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو میت اٹھائے وضوء کرے‘‘ تو ہمیں اس حدیث کے ثابت ہو جانے کے بعد بلا چوں وچرا اس امر نبوی ﷺ کی تعمیل کرنی چاہیے ۔ شیخ البانی اور دیگر کئی اہل علم اس امر وضوء کو بھی ندب واستحباب پر محمول کرتے ہیں مگر مجھے ابھی تک اس کی کوئی دلیل نہیں ملی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب