کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ باپ نے اپنی لڑکی کا نکاح حالت صغر میں کردیا ۔آیا یہ نکاح صحی+ح ہوا یا نہیں ؟اگر سحیح ہوا تو لڑکی کو بعد بلوغ کے فسخ کا اختیار ہے یا نہیں؟
ان الحکم الا للہ۔ صورت مسئولہ عنھا میں بہہ نظر دلائل قویہ مصلہ ذیل کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نکاح صحیح ہوا'اور لڑ کی بلوغ کے اس نکاح پر راضی رہی تو تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے ۔اور اگر وہ لڑکینابالغہ بعد بلوغ کے اس نکاح پر راضی نہ ہو تواس کو فسخ نکاح کا اختیار ہے ۔
صحت نکاح نابالغہ کی تحریر اول یہ آیات کریمہ ہے ۔ قال الله تبارك وتعاليٰ
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مطلقات کی عدت بیان فرمائی ہے اور انھیں مطلقات میں ان عورتوں کی جواب تک حائض ہوتی ہیں بلکہ نابالغہ ہیں عدت تین مہینے بیان فرمائی ہے ۔ یہ آیت صحت نکاح نابا لغہ پر نہایت صاف اور واضح دلیل ہے ۔امام الائمہ محمد بن اسماعیل البخاری نے بھی اپنی صحیح میں اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے ،باب انكاح الرجل ولده الصغار ّلقوله تعاليٰ واللائي لم يحصن فجعل عدتها ثلاثة اشهر قبل البلوغ انتهي۔ دوسری استدلال نابالغہ کی صحت نکاح پر اس آیت کریمہ سے ہے' قال الله تعاليّٰ فان خفتم ان لاتقسطوا في اليتماي فانكحوا ماطاب لكم مثني وثلث وربع ‘الآية یعنی اگر تم لوگوں کو یتیم بچوں سے نکاح کرنے میں یہ خوف ہو کہ ان میں قسط وانصاف نہ کرسکو تو دوسری عورتوں سے کرو جو تمہیں پسند ہوں ۔ دو عورتوں سے ،خواہ تین عورتوں سے ،خواہ چار سے ۔اس حکم کے مخاطب وہ اولیاء ہیں جن کی تولیت میں ان کا جان ومال ہو۔
اس آیت کریمہ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اگر قسط وعدل کا یقین ہو تو ان اولیاء کو نابالغہ یتیموں سے سے نکاح کرنا درست ہے ۔ پس باپ کا اپنی نابالغہ ک انکاح کردینا بدرجہ اولی جائز ہوگا ۔
اس آیت کریمہ میں یہ شبہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ" الیتامی" سے مراد وہ یتیم عورتیں ہیں جو اب نابالغ ہوچکی ہیں ' بدروجہ :
اول اس لیے کہ اولاً شرع میں یتیم کا حقیقتاً اطلاق نابالغ پر ہوتا ہے ۔اور بالغ پر اس کا اطلاق مجاز آ ہے ۔ پس جب تک معنی حقیقی ممتنع نہ ہو مجازی معنی نہیں لیا جاسکتا ہے۔وقال شيخ شيخنا العلامة الالوي في تفسيره روح المعاني: وفي الاية دليل لجواز النكاح اليتيمة وهي الصغيرة اذ يقتضي جوازه الاعند خوف الجور انتهي ّ
ثانیا عام عورتوں سے نکاح کرنے میں عدل نہ ہونے کا خوف ہو تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے علیحدہ کرکے اسی کو بیان فرمایا ہے ۔ بقولہ :
اس سے معلوم ہوا کہ سابق الذکر حکم صرف ان نابالغہ لڑکیوں کا ہے جو شرعاً یتیم کا اطلاق صحیح ہے ۔
تیسری دلیل صحت نکاح نابالغہ کی یہ ہے کہ جو صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اس روایت سے معلوم ہوا کہ نابالغہ لڑکی کا نکاح اگر باپ کردے تو صحیح ہے،اس واقعہ پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ کا ہے اور صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ان النبي صلي الله عليه وسلم قال :لاتنكح الايم حتي تستامر ‘ولاتنكح حتي تستاذن ‘انتهي ‘ اور یہ حدیث مدنی ہے 'پس حضرت عائشہ کا واقعہ قبل ورود الامر بالاستیذان پر محمول ہوگا۔ اور حدیث نھی علی حالہ باقی رہے گی۔ کما ذکرہ الامام الحافظ ابن حجر فی فتح الباری 'وتبعه العلامة الشوكاني في النيل ۔
لیکن یہ احتمال مخدوش ہے اور حدیث ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے خلاف واقعہ نکاح حضرت عائشہ کے عدم صحت نکاح نابالغہ پر استدلال لانا صحیح نہیں ہے بووجہ:
اول یہ کہ اگرچہ نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں ہوا ہے لیکن مسئلہ مبحوث عنھا یعنی صحت نکاح نابالغہ کی تائید سورۃ نساء کی تائید کی آیت : فان خفتم الا تقسطوا" اور سورة طلاق كي آيت :والائی یئسن من المحیض " سے ہوتی ہے اور وہ دونوں سورۃ مدنیہ ہے
دوم یہ کہ حدیث ابو ہریرۃ میں اگر "لاينكح "کا مفہوم عدم صحت نکاح لیا جائے توکل نکاح بصورت عدم استمار اور عدم استیذان کے فاسد وباطل ٹھہرے گا۔حالانکہ احادیث صحیحہ سے چند واقعات ایسے ثابت ہیں کہ عورتوں کا نکاح ان کے اولیاء نے بغیر اذن بلکہ خلاف مرضی ان کے کردیا تھا' اس کو رسول اللہ ﷺ نے فاسد وباطل نہیں کیا ' بلکہ عورت کو اختیار دیا کہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے ۔ كما احمد ابو داؤد ابن ماجه والدار قطني عن ابن عباس ان جارية بكرااتت النبي صلي الله عليه وسلم فذكرت ان اباها زوجها وهي كارهة‘ فخيرها النبي صلي الله عليه وسلم وهذا الحديث قوي الاسناد ليس فيه علة قا دحة ّكما حققته في عون المعبود شرح سنن ابي داود ّواخرج ابن ماجه والنسائي واحمد عن عبدالله بن بريدة عن ابيه قال: جاءت فتاة الي رسول الله صلي الله عليه وسلم فقالت :ان ابي زوجني ابن اخيه ليرفع بي خسيسه ‘قال : فهعل الامر اليها‘ فقالت : قد اجزت ماصنع ابي ولكن اردت ان اعلم النساء ان ليس الي الاباء من الامر شئ انتهي ‘واسناد حديث ابن ماجه صحيح ‘واسناد النسائي حسن وقال الشوكاني في النيل :اخرجه ابن ماجه باسناد درجاله رجال الصحيح ‘وقال العلامة احمد بن ابي بكر البوصيري تلميذ الحافظ ابن حجر في كتاب زوائد ابن ماجه علي الكتب الخمسة:اسناد صحيح ۔ان روایات صحیحہ سے ثابت ہوا کہ صرف عدم استمساء وعدم استئسذان مفسد ومبطل نکاح نہیں ہے بلکہ نکاح صحیح ہوجاتا ہے اور اس کے جواز وفسخ کا اختیار عورت کو ہے ۔
چوتھا استدلال صحت نکاح نابالغہ پر اس حدیث سے ہے' :عن ابن عباس: قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم :الثيب احق بنفسها من وليهاّوالبكر تستاذن في نفسها‘واذ نها حمماتها ّرواه مسلم واصحاب السنن
اس حدیث سے ائمہ مالک وشافعی واحمد ولیث وابن ابی لیلی واسحاق بن راہویہ نے اس امر پر احتجاج کیا ہے کہ باپ بغیر اذن حاصل کیے ہوئے لڑکی کا نکاح کردے سکتا ہے،اور یہ احتجاج نہایت صحیح اور قابل تسلیم ہے۔وان رده العلامة الشوكانيّ وجہ استدلال یہ ہے کہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ (لانكاح الا بويي) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ (ايما امرآة نكحت بغير اذن وليها فنكاحها باطل ّّّّالخ) اور پھر روایت مذکور ہ ابن عباس میں یہ لفظ ہے(الثیب احق بنفسھا من ولیھا'والبکر تستاذن فی نفسھا) پس ان روایات کو جمع کرنے سے دو بات ثابت ہوئیں ۔ایک یہ کہ عورتوں کے نکاح میں ولی کوبھی حق حاصل ہے اور عورت کو بھی حق حاصل ہے ۔نہ عورت بغیر اذان واطلاع ولی کے اپنا نکاح آپ کرلینے کی مجاز ہے کہ فتنہ وفساد لا دروازہ کھل جائے اور نہ ولی کو خلاف مرضی اور اجازت عورت کے نکاح کردینے کا حق ہے کہ ظلم وتعدی کا راستہ جاری ہوجاوے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ دونوں حق یعنی عورتوں کا حق ثیب اور بکر میں یکساں اور مساوی نہیں ہے ۔ بلکہ فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ ثیب میں ولی کا حق کم ہے اور خود عورت ثیبہ کاحق زیادہ ہے۔ یعنی نکاح کا کل معاملہ عورت ثیبہ کے اختیار میں ہے ،لیکن ولی کو علم واطلاع ہوجانا ضرور ہے ۔بخلاف بکر کے اس میں ولی کا حق زیادہ ہے ۔اور عورت بکر کا حق کم ہے ، یعنی نکاح کا کل معاملہ ولی کے متعلق ہے ۔عورت بکر صرف علم واطلاع ہوجانا کافی ہے ۔ یہ اس صورت میں ہے کہ عورت اور اس کے ولی کے منشاء میں اختلاف نہ ہو ،اور بصورت اختلاف ولی کو حق جبر نہیں ہے،نہ ثیب پر ،نہ باکرہ پر ،اور جب باکرہ کے نکاح میں حقیقت ولی کو ہے اور اس کا سب معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو اگر ولی نے عقد نکاح بغیر استیذان اس کے کردیا تو عقیدہ صحیح ہوگیا۔رہا حکم استیذان اوور عورت کو اطلاع اس کی وہ بعد نکاح کے رخصتی کے یا خلوت کے وقت ہوہی جائے گی ۔اس وقت اگر وہ ساکت رہی تو نکاح باقی رہے گا۔اور اگر وہ ساکت رہی تو نکاح باقی رہے گا'اور اگر انکار کیا تو نکاح فسخ ہوجائے گا ،بخلاف ثیب کے کہ اگر اس نے اپنے اختیار سے نکاح کرلیا۔اور ولی سے اذن نہیں لیا تو رخصتی یا خلوت کے وقت ممکن ہے کہ ولی کو اس کی اطلاع بھی نہ ہوتی تو اس صورت میں ولی کے اذن کا حکم بالکل مفقود ہوجائے گا جو انسداد فتنہ کی غرض سے امر ضروری قرار دیا گیا تھا۔
الحاصل ثیب کو اپنے نکاح کے معاملے میں ولی سے زیادہ حق ہے ،مگر ولی کو علم و ہوجانا ضرور ہے ۔اور باکرہ کے نکاح میں اس کے ولی کو زیادہ حق ہے کہ دیانتہ سے نکاح کردینا لڑکی کے حق میں بہتر سمجھے کردے۔اور جب بالغہ باکرہ کے نکاح میں ولی کو زیادہ حق ہے تو نابالغہ کے حق میں ولی کو پورا حو بدرجہ اولی حاصل ہے ۔ مگر یہ ضرور ہے کہ لڑکی اس سے کارہ اور ناخوش نہ ہو اور کراہت وناخوشی کا اعتبار لڑکی کو شعور وعلم واطلاع ہونے کے وقت سے ہے۔ اگر لڑ کی وقت نکاح کے بالغہ ہے اور اسی وقت اس کو علم واطلاع بھی ہوئی تو اسی وقت کی ناراضی وکراہت اس کی قابل اعتبار وسبب فسخ نکاح ہوگی ۔اور وقت نکاح اگر وہ نابالغہ ہے تو جب وہ بالغ ہو اور اس کو شعور ہو اور نکاح پر مطلع ہو،اس وقت اس کو اختیار ہوگا کہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت مذکور بالا(لاتنكح الايم حتي تستامر ولا تنكح البكر حتي تستاذن) سے اگر یہ شبہ کیا جاوے کہ بغیر اذن بکر کے اس کا نکاح صحیح نہیں ہوتا ہے'اور نابالغہ میں صلاحیت اذن کی نہیں ہے، اس لیے تا وقت بلوغ اس کا نکاح کردینا درست نہیں ہے۔ تو یہ شبہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ بہت سے واقعات احادیث سے ایسے ثابت ہیں کہ عورت کا نکاح بغیر اذن بلکہ خلاف مرضی اس کے ولی نے کردیا 'اور اس نکاح کو رسول اللہ ﷺ نے باطل نہیں فرمایا بلکہ عورت کو نکاح رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار دے دیا‘كما مر
پس مطلب حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا جو آیت قرآن مجید وجملہ روایات کے ملانے سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ بقائے نکاح اور اس کا نفاذ بغیر امرابیم کے اور بغیر اذن بکر کے نہیں ہوسکتا،تو اگر کسی باکرہ کا نکاح اس کے ولی نے بغیر اپنی مرضی کے کردیا اور وقت عقدع لڑکی کو ا سکی اطلاع نہ ہوئی ،یا اس سے اجازت نہیں لیا تو وہ عقد صحیح ہوگیا لیکن اس کے باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار لڑکی کو حاصل ہے۔ پس جب بالغہ با کرہ کا نکاح بغیر اس کے اذن اطلاع کے ولی کردے اور شرعاً وہ نکاح باطل وفاسد نہیں ہوتا ہے تو نابالغہ کا نکاح ولی کے کردینے سے بدرجہ اولیٰ فاسد وباطل نہیں ہوگا ۔البتہ بعد بلوغ وعلم نکاح کے فسخ کا اختیا ر لڑکی کو ہے، كما هو مذهب جماعة من الائمة ‘ وهو من حيث الدليل ّ والله اعلم بالصواب
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب