السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب یہ معلوم ہے کے مردوں کو مسجد میں دفن کرنا جائز نہیں ہے اور جس مسجد میں قبر ہو اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے تو پهر رسول اللہ ﷺ اور بعض صحابہ کرام کی قبر کو مسجد نبوی میں داخل کرنے کی کیا خکمت ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!قبر پر مسجد یا مسجد میں قبر بنانا دونوں صورتیں حرام اور ناجائز ہیں،جس کا احادیثِ نبویہ سے واضح ثبوت ملتاہے۔ اس سلسلے میں جہاں ممانعت اور حرمت کی بے شمار دلیلیں ہیں،وہیں بعض لوگوں نے کچھ شکوک اور شبہات بھی پیدا کئے ہیں قبروں پر مسا جد بنانے کی دلیل پکڑی ہے ۔جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا تعلق ہے، جو مسجد نبوی میں شامل ہے، تو یہ سبھی جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد آپ کی وفات سے پہلے تعمیر کی گئی تھی یعنی مسجد نبوی قبر پر نہیں بنائی گئی اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن نہیں کیا گیا تھا بلکہ آپ کو تو اپنے گھر میں دفن کیا گیا تھا جو مسجد سے الگ تھا۔ ولید بن عبدالملک نے اپنے عہد میں امیر مدینہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو سن ۸۸ھ میں خط لکھا کہ مسجد نبوی کو منہدم کر کے ازواج مطہرات کے حجروں کو اس میں شامل کر دو۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سرکردہ لوگوں اور فقہاء کو جمع کیا اور انہیں امیرالمومنین ولید کا خط پڑھ کر سنایا تو یہ ان پر بہت گراں گزرا اور انہوں نے کہا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑنا زیادہ موجب نصیحت ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کو مسجد میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی گویا آپ اس بات سے ڈرے کہ قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس موقف کے بموجب ولید کو لکھ کر آگاہ کیا مگر ولید نے جواب میں اپنے حکم کے مطابق عمل پر زور دیا، لہٰذا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد میں نہیں بنایا گیا تھا اور نہ مسجد نبوی کو قبر پر بنایا گیا تھا تو مسجدوں میں دفن کرنے والوں یا قبروں پر مسجدیں بنانے والوں کے لیے یہ بات دلیل نہیں بن سکتی۔ ھذا ما عندی والله اعلم بالصوابفتویٰ کمیٹیمحدث فتویٰ |