السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک بیوی نے اپنے شوہر سے خلع لینے کیلیے عدالت میں دعویٰ دائر کیا، عدالت کے بار بار طلب کرنے کے باوجود شوہر پیش نہیں ہوا۔ عدالت نے اب یکطرفہ طور بیوی کے حق میں فیصلہ جاری کرتے ہوئے نکاح فسخ کر دیا ہے۔ کیا شریعیت اسلامیہ کی روشنی میں یہ درست ہے؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!خلع سے مراد وہ حق ہے جو شریعت اِسلامیہ نے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کو مرد سے علیحدہ ہونے کے لیے دیا ہے۔ اس لیے کہ جب مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ عورت کو رکھنا پسند نہیں کرتا تو طلاق کے ذریعے سے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح یہ ضرورت عورت کو بھی پیش آسکتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے مرد کو ناپسند کرے اور محسوس کرے کہ وہ اس کو ناپسند کرنے کی وجہ سے خاوند کے وہ شرعی حقوق (حدود اللہ) ادا نہیں کرسکتی جو شریعت نے اس پر عائد کئے ہیں تو وہ اس صورت میں خاوند کا دیا ہوا حق مہر واپس کردے اور اس سے طلاق حاصل کرلے، اسی کا نام خلع ہے۔ لیکن یہاں بھی اکثر و بیشتر مردوں کا معاملہ شریعت ِاِسلامیہ کی ہدایات کے خلاف ہی ہوتا ہے بلکہ بہت سے جامد فقہاء و علماء عورت کے اس حق خلع ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ قرآنِ کریم اور اَحادیث ِصحیحہ و قویہ کی صریح نصوص سے ثابت ہے۔ اکثر مرد عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجتاً معاملہ عدالت میں لے جانا پڑتاہے اور فریقین عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں،بلکہ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باوجود عدالت کے بار بار سمن جاری کرنے کے خاوند عدالت ہی میں حاضر نہیں ہوتا، بالآخر عدالت یک طرفہ فیصلے پر مجبور ہوجاتی ہے اور وہ خلع کی ڈگری جاری کرکے عورت کی گلو خلاصی کراتی ہے۔یہاں بھی جامد فقہا یہ موشگافی کرتے ہیں (اللہ ان کو ہدایت دے) کہ خاوند کے طلاق دیئے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ کیا یہ مفتی حضرات یہ چاہتے ہیں کہ ایسی عورت یوں ہی بے یاروومدد گار بیٹھی خون کے آنسو روتی رہے اور کہیں سے اس کی داد رَسی نہ ہو۔ بہرحال عام حالات میں خُلع خاوند کی رضا مندی ہی سے ہوگا، لیکن جہاں خاوند ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کے جائز مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کو اور اس کے اہل خانہ کو پریشان کرنے والا رویہ اختیار کرے گا،ایسی صورت میں مجاز افسر،قاضی، یاعدالت ہی کے ذریعے سے خلع حاصل کیا جائے گا۔ خاوند راضی ہویا نہ ہو، وہ طلاق دے یا نہ دے، عدالت کا فیصلہ ہی طلاق کے قائم مقام ہوگا اور خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد عدت گزار کر ولی کی اجازت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔ ھذا ما عندی والله اعلم بالصوابفتویٰ کمیٹیمحدث فتویٰ |