السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!
میرے نماز سے متعلق چند سوالات ہیں۔ ١ ۔ جب مسجد میں جماعت ہو جائے تو کیا بعد میں ( کسی وجہ سے لیٹ ہو جانے کی وجہ سے ) جا کر جماعت کروائی جا سکتی ہے؟ ٢۔ میں امارات میں مقیم ہوں ۔ یہاں پہلی دفعہ ایسا ہوتے دیکھا ہے کہ جماعت نکل جانےکے بعد کوئی فرد آتا ہے اور اکیلا ہی اقامت کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے ، بعض اوقات کوئی اور آنے والا اس کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتا ہے اور کبھی وہ اکیلا ہی اپنی نماز ختم کرتا ہے۔اس کا کیا حکم ہے؟ ٣۔سوال نمبر دو میں جس فرد کے متعلق پوچھا ہے کیا وہ فرد اگر جہری نماز میں ہے تو کیا وہ اکیلا ہی اونچی آواز میں فاتحہ و سورہ پڑھے گا یا آہستہ ہی؟ ٤۔کیا کوئی ایسا شخص جماعت کروا سکتا ہے کہ جس کے پاؤں کا مسئلہ ہو اور وہ اس سے ذرا سا معذور ہو (کسی حادثہ کی وجہ سے ) وہ اس پاؤں سے چلتا بھی ہو اور لیکن ایسے ہو کہ جیسے ٹانگ چھوٹی ہے۔جماعت وہ کھڑے ہو کر اچھے انداز سے ہی کروائے ۔ جبکہ اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کی نسبت اس کی قراءت بھی اچھی ہو اور علم دین بھی۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں: 1۔ ایک جماعت کے بعد دوسری،تیسری جماعت بھی کروائی جا سکتی ہے۔لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہئے اور پہلی جماعت میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔دوسری جماعت کی دلیل ترمذی شریف کی یہ حدیث مبارکہ ہے۔ نبی کریمﷺ نماز پڑھا چکے تھے کہ اس شخص مسجد میں داخل ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: «أيكم يتجر علىٰ هذا؟ » کہ ’’تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟‘‘ بعض روایات میں ہے: « من يتصدق علىٰ هذا فيصلي معه » کہ ’’کون اس کے ساتھ نماز پڑھ کر اس پر صدقہ کرے گا؟‘‘ تو ایک صحابی کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ نماز پڑھی۔( ترمذی:220) 2۔اکیلے جماعت بھی کروائی جا سکتی ہے، اس وقت پیچھے فرشتے صفیں بنا لیتے ہیں۔ 3۔اگر جہری نماز ہو گی تو وہ جہری قراءت ہی کرے گا۔ 4۔معذور اگر زیادہ علم والا ہے تو وہی جماعت کروانے کا حقدار ہے۔ معذوری جماعت کروانے کے کئے کوئی شرعی مانع نہیں ہے۔ ھذا ما عندی والله اعلم بالصوابفتویٰ کمیٹیمحدث فتویٰ |