السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!
بینک کے سیونگ کارڈ جائز ہے یا نہیں؟ پرائز بانڈ کا کیا حکم ہے؟ وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!!سیونگ کارڈ کا حکمکسی بھی معاملہ کے حلال و حرام ہونے کا مدار درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم کی واپسی نہ کرسکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام سے سود ادا کروں گا۔ جس طرح سود کا لینا دینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہے، اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔ پرائز بانڈ کا حکمانعامی بانڈز بیچ کر درحقیقت حکومت عوام سے قرض لیتی ہے، اور بانڈز کے نام سے قرض کی رسید جاری کرتی ہے ، قرض دینے پر لوگوں کو آمادہ کرنے کیلئے حکومت نے یہ اسکیم بنائی ہے، کہ پرائز بانڈ خرید نے والوں کو ان کی اصل رقم کی واپسی کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی بطور انعام دی جاتی ہے ،لیکن تمام قرض دہندگان کو نہیں، بلکہ وہ رقم بذریعہ قرعہ اندازی بعض خریداروں کو دی جاتی ہے ، اس میں سے جو رقم ملتی ہے ،وہ یقینی طور پرسود ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اس میں سود ، جوا ، بیع ما لا یملک ، تینوں قباحتیں شامل ہیں ۔حکومت عوام سے لی گئی اس رقم کو سودی و غیر سودی کاروبار میں لگاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود کو لفظ "انعام" استعمال کر کے مختلف افراد میں تقسیم کرتی ہے۔ لہذا اس میں سود کا گند بھی شامل ہے ۔ اسی طرح جوئے کی جس طرح اور بہت سی اقسام ہیں انہی میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ مختلف افراد ایک جیسی رقم ایک ہی کام پر لگائیں اور ان میں سے کسی کو منافع زیادہ حاصل ہو اور کسی کو کم یا کسی کو ملے اور کسی کو نہ ملے ، پرائزبانڈز میں یہی عمل کار فرما ہوتا ہے لہذا اس میں جوا بھی ہے ۔ اور پھر ان پرائز بانڈز کو آگے سے آگے بیچا جاتا ہے ۔ یعنی اصل زر بائع کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اسکی رسید ہوتی ہے اور وہ اس رسید کو ہی فروخت کردیتا ہے ۔ یہ بھی شریعت اسلامیہ میں ممنوعہ کام ہے ۔ ان تین بڑی بڑی قباحتوں کی بناء پر یہ بانڈز اور انکا کارو بار ناجائز و حرام ہیں ۔ ھذا ما عندی والله اعلم بالصوابفتویٰ کمیٹیمحدث فتویٰ |