کیافرماتے ہیں علماءکرام بیچ اس مسئلہ کے کہ بنام حاجن فوت ہوگیاجس نے ورثاءمیں ایک ماں ،دوبہنیں،ایک بھائی اوردوبیویاں چھوڑیں۔بتائیں کہ شریعت محمدیہ کےمطابق ان میں سےہرایک کوکتناکتناحصہ ملے گا؟اس کےبعدمسمات رانی فوت ہوگئی جس کوباقی سب حصے داروں نے اپنااپناحصہ ہبہ دیاپھرمسمات رانی نے فوت ہوتے وقت3بیٹیاں اورایک شوہرکووارث چھوڑا۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ فوت ہونے والے کی ملکیت میں سےسب سےپہلےمیت کے کفن دفن کاخرچہ کیاجائے گا۔دوسرےنمبرپراگرقرضہ ہے تواسے اداکیاجائے گاپھراگرفوت ہونے والے نے وصیت کی تھی توکل مال کے تیسرے حصےتک کی وصیت کوپوراکیاجائے گا۔اس کے بعد کل ملکیت (خواہ منقولہ ہویاغیرمنقولہ)اس کوایک روپیہ قراردےکرتقسیم اس طرح ہوگی۔فوت ہونے والے حاجن کی کل ملکیت ایک روپیہ0-1ورثاء میں سے ماں کو2آنےآٹھ پیسےدوبیویاں کو4آنے،دوبہنوں کومشترکہ طورپر4آنے8پیسےایک بھائی کو4آنے8پیسےملیں گے۔
نوٹ:......مسمات رانی کوتمام حصہ داروں نے اپنااپناحصہ ہبہ کردیاتھاجس پر کافی عرصہ سےرانی کاقبضہ بھی ہے اس کی مالک مسمات رانی ہی ہوگی اس کے بعدرانی فوت ہوگی اس کی ساری ملکیت کو ایک روپیہ قراردیاجائےگا۔
وارث حاجن جمن کو4آنےبیٹیوں کوصالحان قابل اورکاملہ کومشترکہ طورپر10آنے16پیسےمشترکہ طورپر۔
موجودہ اعشاری فيصدنظام میں یوں تقسیم ہوگا
میت حاجن ترکہ100روپے
مال6/1/16.666
2بہنیں عصبہ29.17
1بھائی عصبہ29.17
2بیویاں4/1/25
میت مسمات رانی
ترکہ100
شوہر4/1/25
3بیٹیاں3/2/75