سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نافرمان بیوی کو طلاق

  • 14943
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2179

سوال

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!

میری بیوی میری بات نہیں مانتی جھگڑا رہتا ہے اور نافرمانی بھی کرتی ہےوالدین سے بتمیزی بھی کرتی ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!!

جب کسی کی بیوی اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کی ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔

۱) …پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے ، ا س کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہے تو سمجھابجھا کر

صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا، عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو …

۲)… دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے بیوی کا بستر اپنے سے علیٰحدہ کردے اور اس سے علیٰحدہ سوئے۔ یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگئی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو…

۳)… تیسرے درجے میں خاوند کومعمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو… مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، ا سلئے اس درجہ پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے ۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہوگیا، صلح صفائی ہوگئی، تعلقات بحال ہوگئے، تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔

اللہ ہم سب بہنوں کو اپنے خاوندوں کا فرمانبردار بناےآمین

دو آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی ۔ ایک اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آ جائے ۔ اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اس کی فرمانبردار بن جائے

(السلسلة الصحيحة : 288 ، ، صحيح الجامع : 136 الألباني: حسن صحیح)

میاں بیوی کا رشتہ باہمی ہمدردی اور ایک دوسرے کی خیر خواہی جیسے محبت بھرے جذبات پر استوار ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس رشتے میں کانٹے اگ آئیں اور محبت کی جگہ نفرت پیدا ہوجائے ،اور میاں بیوی کا باہمی طور پر اکٹھا رہنا مشکل ہو جائے تو شریعت نے اس اضطراری حالت میں طلاق کے ذریعے دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جانے کا اختیار دے رکھا ہے۔ آپ نے جو صورت حال بیان کی ہے ،اس کا بہترین حل یہی ہے کہ خاندان کی بزرگوں کو اس میں ڈالا جائے ،اگر معاملہ درست ہو جائے تو ٹھیک ،ورنہ طلاق کا آپشن آپ کے پاس موجود ہے۔

هذا ما عندی والله اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ