مندرجہ ذیل حدیث سےلوگوں نے استدلال کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شراب نوشی کرتے تھے کیااس روایت ک تحت ان کایہ مئوقف درست ہے؟
دراصل اس روایت کے معنی کو غلط سمجھنے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہےکہ‘‘ثم ناول ابي’’کے بعد‘‘ثم قال’’ کاقائل سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ کوقراردیاگیاہےحالانکہ عربی ترکیب کے مطابق یہ صحیح معلوم نہیں ہوتاکیونکہ
‘‘ثم قال’’ثم ناول پرمعطوفہ ہے۔اور‘‘ناول’’کافاعل یقیناسیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ ہیں لہذا‘‘ثم قال’’کافاعل بھی وہی ہوں گے نہ کہ سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ اوراس روایت کے مطابق کوغلط سمجھنے کادوسراسبب یہ ہے کہ شراب سےمرادخمرلیاگیاہے۔حالانکہ یہ صحیح نہیں شراب عربی زبان کالفظ ہے جوکہ مشروب کےمعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی کوئی بھی مشروب(پینے کی چیز)جب کہ اپنی سندھی زبان یااردومیں شراب سےحرام خمرمرادلیاجاتا ہےوگرنہ عربی زبان میں اس کایہ مطلب قطعا نہیں۔قرآن کریم میں ہے:
‘‘پھردیکھ اپنےطعام اورپینے کے پانی کی طرف(کہ یہ سوسال گذرجانے کےبعدبھی متغیرنہیں ہوئے)۔’’
دوسری جگہ پرارشادفرمایا:
‘‘شہد کی مکھی کےپیٹ سے پینےکی چیز(شہد)نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہیں اوراس میں لوگوں کے لیے شفاہے۔’’
ایک اورجگہ فرمایا:
‘‘یعنی اپنے پاوں کو زمین پرماریں توغسل کے لیےٹھنڈاپانی اورپینے کاپانی ظاہرہوجائے گا۔’’
صحیح حدیث میں ہےکہ روزےدارکےمتعلق اللہ تعالی فرماتاہےکہ:
‘‘یعنی روزےدارمیرےلیے کھانے پینےکومیرےلیےچھوڑتاہے۔’’
مثال توب شمارہیں لیکن یہاں پرچند امثلہ سےآپ کوبخوبی معلوم ہوگیاکہ شراب کامطلب مطلق پینے کی چیزہےنہ کہ خاص خمرحرام ہی اس کامطلب ومعنی ہے۔یہ حدیث امام احمدکی مسندکے علاوہ دوسری کسی کتاب میں نہیں ملتی اورالمسند کی کوئی مبسوط شرح نہیں الفتح الربانی میں یہ روایت لائے ہیں لیکن اس کے تحت متعلق بہت قلیل لکھاہےجوبھی ناکافی اورغیرصحیح ہےلہذایہاں پرجوکچھ لکھ جارہاہوں وہ اس احقرالعبادہی کی تحقیق ہے۔
لہذااگرصواب ہے تویہ اللہ سبحانہ وتعالی کی مہربانی ہے جس نے مجھ گنہگارکواس کی تلقین فرمائی اوراگرغلط ہےتویہ میرےعلم کے قصوراورمیرےنفس کی غلطی ہے۔
بہرحال مذکوربالابحث کو ذہن میں رکھنے کے بعداس روایت کامطلب یہ ہوگا کہ عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ میں اورمیرےوالدسیدنابریدہ رضی اللہ عنہ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں داخل ہوئےجس نے ہمیں بچھونے پربٹھایااورپھرہمارےلیےطعام لایاگیاجوکہ ہم نےتناول کیااس کے بعدمشروبات لذیذہ(شربت وغیرہ)بھی لایاگیاسب سےپہلےمعاویہ رضی اللہ عنہ نے نوش جان کیا۔یہ ذہن میں رکھناچاہئے کہ سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ نے وہ مشروب واپس نہیں کیا تھا اورنہ ہی ایساکوئی لفظ ادافرمایاجس سےایسامعلوم ہوتا ہوکہ انہوں نے اس مشروب کے پینے سےانکارکیاکیونکہ ایسایااس مطلب پردلالت کرنے والاکوئی لفظ اس روایت میں بالکل بھی موجود نہیں۔
اب یہ ہوسکتا ہے کہ سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ کودل میں کھٹکااورشبہ پیداہواہوکہ کہ مشروب مسکرات میں سےتونہیں اوراس خیال وارادے سےسیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف استفسارانہ نظروں سےدیکھاہواوران(بریدہ رضی اللہ عنہ) کی ہئیت سےمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اندازہ لگایاہوکہ شاید اسےکوئی شک پیداہواہے اس لیے ان کے پوچھنے سےپہلے ہی حفظ ماتقدم کی خاطرخودہی وضاحت فرمائی کہ وہ مسکر(شراب)جب سے رسول اکرمﷺنے حرام کیا ہے میں نےنہیں پیا‘‘ثم’’تراخی اورمہلت کے لیے آتا ہے اس سےیہی مطلب نکل رہاہےجوہم اوپرکی سطورمیں رقم کرآئے ہیں۔
اورانسان کبھی کبھی دوسرے انسان کی عندیہ کوکچھ آثاروقرائن یاموجودہ ہئیت سےمعلوم کرلیتاہے،اس لیے اس کے کچھ کہنے سےپہلے ہی ا س کے شک وشبہ کواچھے طریقے سےدفع کرنے کی سعی کرتا ہے۔
فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے ہاں آئے توابراہیم علیہ السلام نے ان کومہمان جانااوربچھڑابھون کرلےآئےجب انہوں نے طعام سےکچھ بھی تناول نہ کیاتوابراہیم علیہ السلام کوخوف پیداہوا:
‘‘پس جب ان کے ہاتھوں کودیکھاوہ نہیں پہنچ رہے تھے اس کی طرف توان کی طرف سےخوفزدہ ہوگئےاورانھوں نے کہاکہ آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔’’
فرشتے عالم الغیب تونہ تھے ابراہیم علیہ السلام کےچہرےاورکچھ دیگرقرائن سےمعلوم کرگئےکہ یہ ہم سےخوف زدہ ہواہےاس لیےانہوں نے اصل حقیقت سےآگاہ کرکےآپ علیہ السلام کےخوف وشک وشبہات کو دورکردیا۔بعینہ اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی بریدہ رضی اللہ عنہ کی موجودہ کیفیت سےاندازہ لگالیاکہ شایدان کو کوئی شک پیداہواہے کہ یہ الفاظ کہہ کراس شبہ کودورکردیا‘‘حرمة’’میں ضمیرمنصوب یعنی(ہ)مسکرکی طرف راجع ہے کیونکہ سیاق کلام سےیہی معلوم ہوتاہےاگرکوئی شخص یہ اعتراض کرےکہ اس روایت میں مسکرکاتذکرہ ہی موجودنہیں پھرضمیراس کی طرف کیسےراجع ہوسکتی ہے تواس کاجواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ پرہے کہ:
اسی طرح سورۃ فاطر45)میں ارشادفرمایاکہ:
ان دونوں آیات میں﴿عَلَيْهَا﴾اور﴿ظَهْرِهَا﴾میں﴿هَا﴾کی ضمیر زمین کی طرف راجع ہے۔حالانکہ قریب میں زمین کاکوئی ذکرہی موجود نہیں ہے۔سورۃ ص 32میں:
میں﴿تَوَارَت﴾کی ضمیرکواکثرمفسرین نے شمس(سورج)کی طرف راجع کیاہے۔
حالانکہ یہاں پرسورج کاذکرموجودہی نہیں ۔یہ اس لیےکہ عربیت کےقانون کےمطابق قرینہ حالیہ یاقرنیہ مقالیہ یاسیاق وسباق سےکوئی بات یاامرمعلوم ہورہاہےتواس کی طرف ضمیرعائد کی جاسکتی ہے۔اسی طرح یہاں پر بھی قرینہ حالیہ موجودہےکہ سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ کےنمونہ کیفیت سےمعاویہ رضی اللہ عنہ کوخیال ہواکہ اسے شایدکچھ شک وشبہ ہواہےکہ وہ مشروب مسکرہے۔اس لیے اس دل میں سوچے ہوئے مسکرکی طرف ضمیر(ہ)کوحرمہ میں داخل کرکےاس کی راجع کردیا۔
بہرحال سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے سلسلہ کلام کو مزید جاری رکھتے ہوئے فرمایاکہ میں توقریش کاجوان وجمیل تھااورمیرے دانت عمدہ مضبوط تھے یعنی بڑھاپے کاکوئی اثراس پرنہ ہواتھاتب بھی دودھ کے علاوہ کسی دوسری چیز میں مجھے کوئی لذت حاصل نہیں ہواکرتی تھی وغیرہ یعنی پھراب بڑھاپے میں میں کس طورپرمسکرپیئوں گاخاص طورپررسول اکرمﷺنےاسےحرام قراردیاہےمیں نےاصلانہیں پیایعنی یہ مسکرمشروب نہیں بلکہ کوئی لذیزمشروب وغیرہ ہے۔لہذاآپ اس کےپینے سےہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔
اس طرح اس روایت کے تمام قطعات آپس میں مل جاتے ہیں اورمعنی ومطلب میں کوئی خرابی بھی پیدانہیں ہوتی،لیکن اگر((ثم قال ماشربته منذحرم......الخ.))کو سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ کامقولہ قراردیاجائے توپھرثم قال معاویہ میں جوبات سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نےبیان فرمائی ہےوہ اگلے جملے سےبالکلیہ غیرمتعلق رہ جائے گی اوریہ دونوں جملے ایک دوسرےسےاجنبی بن جائیں گےاوراصلاکچھ مطلب بھی بن نہ پائے گااس پرخوب غورکریں۔