سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121)لیس منا" کامفہوم"

  • 14907
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3423

سوال

(121)لیس منا" کامفہوم"
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں آیا ہے جودھوکہ دیتا ہے‘‘فليس منا’’جوچھوٹوں پر رحم نہیں کرتااوربڑوں کا ادب نہیں کرتااس کے بارے میں آیا ہے‘‘فليس منا’’اس کاکیا مفہوم آیاوہ امت محمدیہﷺسےخارج ہوکرکافرہوگیایااورکوئی مفہوم ہے۔مہربانی فرماکرقرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دھوکہ وفراڈکرنے والے چھوٹوں پررحم نہ کرنے والے،بڑوں کی عزت وتوقیرنہ کرنےوالوں کے متعلق وعیدیں واردہوئی ہیں لیکن احادیث مبارکہ میں یہ الفاظ نہیں کہ ‘‘فهوليس من أمتى.’’یعنی وہ میری امت میں سے نہیں بلکہ‘‘فليس منا’’کےالفاظ واردہوئے ہیں یعنی ہمارے بتائے ہوئے راستہ پر نہیں اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ ہماری امت میں سے نہیں اگریہ مطلب لیا جائے تواس کا مطلب یہ ہواکہ ان کے کاموں کامرتکب کافرہوگیااوروہ کبھی بھی جہنم سے نہیں نکالاجائے گا۔

حالانکہ خودقرآن مجید فرماتا ہے کہ مشرک کے علاوہ باقی کبیرہ گناہ جسے اللہ تعالی چاہےابتداہی میں معاف کردےیابالآخرمعافکردے۔لہذااگران کاموں کامرتکب امت سےخارج ہے اورکافرہوچکا ہے تواس کی مغفرت ہرگز نہ ہوگی اوریہ بات نص قرآنی اورکتنی ہی صحیح احادیث کے خلاف ہے۔

لہذااس کا یہ مطلب نہیں بلکہ یہ اس طرح ہے جس طرح کسی نالائق بچے کواس کاوالد یہ کہتا ہے کہ تومیرابیٹا ہی نہیں تواس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تومیراحلالی بیٹاہی نہیں اورمیری اولاد سےخارج ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تومیرالائق اورنیک وصالح بیٹا نہیں ہرزبان میں کلام مبالغہ اورزورپیداکرنے کے لیے اس طرح افعال بدکواستعمال کیا جاتا ہے،یعنی اگرتومیرابیٹا ہوتا تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک نہ کرتااوراس قدرمیری نافرمانی نہ کرتاگویاکہ تومجھے اپنا باپ ہی تسلیم نہیں کرتا۔

اس طرح کی عبارات ہرزبان میں  کلام میں مبالغہ اوراہمیت ظاہرکرنے کے لیے موجودہیں جومجازیا استعارہ یا تشبیہ بلیغ وغیرہ میں پیش کی جاتی ہیں اوراہل لسان کہنے والے جسے کہاگیا ہے اورکس حالت میں کہا گیا ہے ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر پھر اس کا صحیح مطلب اخذکرتے ہیں۔

حسدکرنے والے کے متعلق صحیح حدیث میں اس طرح ہے کہ :

‘‘حسدانسان کی نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہےجس طرح آگ لکڑیوں کوکھاجاتی ہے۔’’

باقی سائل کے نقل کردہ الفاظ مجھے یادنہیں،مخلوق کو تکلیف دینے والے کے متعلق صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ مسلمان وہ  ہےجس کی زبان اورہاتھ سے دیگر لوگ محفوظ ہوں اورفرمایاوہ شخص کامل مومن نہیں جس کی شرارتوں سےاس کا پڑوسی محفوظ ومامون نہیں۔

باقی آگے سائل نے نماز وغیرہ کے متعلق لکھا ہے اس لیے عرض ہے کہ پہلے لکھ چکاہوں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کسی پر ذرہ برابربھی ظلم نہ کرے گا۔لہذا ان کاموں کےمرتکب کی نماز(اگراس نے صحیح طریقےپرپڑھی ہے اوراللہ سبحانہ وتعالی کافرض سمجھ کراس کی رضاکےحصول کے لیے اداکی ہے تووہ نماز)اوردیگر اس طرح کے کام ضائع نہیں ہوں گے۔بلکہ اصل معاملہ اس طرح ہوگا کہ اگرکسی شخص نے کسی کے ساتھ بھی ظلم وزیادتی کی ہوگی اوراس کی زندگی میں اس کا حق تلف کیا ہوگاتواگراس نے اس سے معافی طلب نہیں کی توآخرت میں اس کے اعمال میں سے مظلموں کوظلم کے بقدردیا جائے گا۔پھراگرمظلوموں میں نیکیوں کی تقسیم کے بعد بھی اس کی کوئی نیکی بچ گئی تونجات پاجائے گااوراگرکوئی نیکی نہ رہی بلکہ سارےکےسارے اعمال مظلوموں میں تقسیم ہوگئے تووہ جہنم  میں داخل کردیا جائے گا۔پھربعدایمان اورتوحید پر مستقیم رہنے کی وجہ سے اللہ تعالی کے خصوصی فضل وکرم سےنجات پاجائے گااوریہی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 468

محدث فتویٰ

تبصرے