کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی نے منع کرنے کے باوجودپہلے بھی کافی دفعہ گالی گلوچ کی ہے 1986۔4۔1گھرمیں جھگڑاہوامیں نے اپنی بیوی کو کہا کہ گالی مت دےلیکن وہ گالی دینے سے نہ رکی تومیں نے اسے تین سےبھی زیادہ دفعہ طلاق کے الفاظ کہہ دیئے اورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ آج کے بعدتومیری ماں ہے ۔میری یہ وٹے سٹے کی صورت میں ہوئی تھی اب سامنے والوں نے بھی طلاق دینے کی تیاری کرلی ہے صرف میری طلاق کی وجہ سے تین اورطلاقیں بھی واقع ہورہی ہیں،لہذااگرقرآن وحدیث میں میری اس طلاق کا کوئی حل ہے توبتائیں تاکہ میں اپنی بیوی کو اپنے گھرلے آوں؟
مذکورہ سوال میں دوباتیں ہیں پہلی یہ کہ ایک ہی مجلس میں کئی طلاقیں دی گئی ہیں۔دوسری یہ کہ اپنی بیوی کوماں کادرجہ دیا ہے جوکہ ظہارکامسئلہ ہے۔
پہلےمسئلہ کے متعلق معلوم ہونا چاہئے کہ آنحضرتﷺکے دورمیں ایک ہی مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں ایک ہی شمارہوتی تھیں۔جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی مسندمیں بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے حسن سند سےایک روایت مذکورہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺکے زمانہ میں رکانہ بن عبدیزیدنامی ایک شخص نے اپنی بیوی کوایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں جس کےبعدکافی غمگین ہواپھریہ معاملہ نبیﷺکی مجلس میں پیش کیاتوآپﷺنے رکانہ سےدریافت کیا کہ آپ نےکیسے طلاق دی تورکانہ نے کہا کہ میں نےتین طلاقیں دی ہیں توآپﷺنے دوبارہ دریافت کیا کہ کیا ایک ہی مجلس میں توصحابی نے جواب دی جی ہاں!توآپﷺنے فرمایا(اگرتونےایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تویہ ایک ہی ہے)لہذااگرآپ چاہیں تورجوع کرسکتے ہیں توعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ رکانہ نے اپنی بیوی سےرجوع کرکے اسے واپس لے آئے۔’’
اسی وجہ سےعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا مئوقف تھا کہ تین طلاقیں تین طہر(پاکیزگی کےایام)میں دینی چاہئیں۔یعنی اگرکوئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے توہرمہینے پاکیزگی کےایام میں ایک طلاق دےاس طرح تین مہینوں میں طلاقیں ہوں گی۔اوراگرایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیتے ہیں تویہ تین طلاقیں ایک ہی شمارہوگی اورایک اوردوطلاقیں رجعی ہوتی ہیں۔لہذاطلاق کی عدت تین ماہ ہے اس مدت کے اندراندرخاونداپنی بیوی سےرجوع کرسکتا ہےاوراگرتین مہینوں کی مدت گرزجائے تونکاح ٹوٹ جائے گا،لیکن پھربھی طرفین کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔یہ بھی اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر مہربانی ہے کہ طلاق جیسے مبغوض معاملے میں بھی تحمل والامعاملہ اپنایااورجلد بازی نہیں کی۔حالانکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں ہوتابلکہ کبھی غصہ اورپریشانی کی وجہ سے جلدبازی میں اپنی بیوی کوکئی طلاقیں دے دیتا ہے اوراس طرح جتنی طلاقیں دی ہیں اگراتنی ہی شمارکی جائیں توطلاق دینے والے کو سوچنے اورغوروفکر کا موقع بھی نہ ملے۔بعض مرتبہ مطلقہ عورت خاوندکی محبوبہ بھی ہوتی ہے لیکن اب ان کو گھرآبادکرنے کا کوئی موقع حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔اس لیےشریعت مطہرہ نے ایک مجلس کی کئی طلاقوں کوایک ہی شمارکیا ہے تاکہ طلاق دینے والے کوغوروفکرکرکے صحیح فیصلے کا موقع مل سکے،اگرخاوند کو بیوی سےجداہونا بھی توبھی اسےسوچنے سمجھنے کا موقع ملے گا۔
بہرصورت مسئولہ اگرچہ سائل نے اپنی بیوی کو کتنی ہی طلاقیں دی ہیں۔وہ سب ایک وہ شمارہوگی۔اس لیے جس تاریخ کو طلاق دی ہے اس سےتین ماہ تک دوعادل گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی سےرجوع کرسکتا ہے ۔مسئلہ ظہارکے بارہ میں قرآن مجید کے اٹھائیسویں پارے کی سورۃ المجادلۃ کے پہلے رکوع میں جوحل بیان فرمایاہےوہ یہ ہےکہ ظہارکرنےوالے مردکےپاس اگرغلام ہے تواپنی بیوی کوہاتھ لگانے سے پہلے پہلے اس کو بطورکفارہ آزادکردے۔لیکن چونکہ اب غلام نہیں ہیں اس لیے اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔اسی لیے غلام کی عدم موجودگی کی صورت میں دوسری صورت بھی بیان فرمائی ہے کہ بغیرناغہ(لگاتار)کیےدوماہ کے مسلسل روزےرکھنے پڑیں گے جن کے درمیان انقطاع(فاصلہ)نہیں کیا جائے گایہ کام بطورکفارہ عورت کوچھونے سے پہلے کرنا ہےاورجومسلسل دومہینوں کے روزوں پر عمل کی طاقت نہیں رکھتا اس کےلیے تیسری صورت بیان کی ہے کہ اس آدمی کو 60ساٹھ مسکینوں کوکھاناکھلانا پڑے گااب اگرصورت مسئولہ میں سائل کولگاتاردومہینوں کے روزوں کی استطاعت ہے تومسلسل دومہینے روزےرکھنے پڑیں گے اوراگرطاقت نہیں ہے تو 60ساٹھ مسکینوں کوکھاناکھلادے۔اب سائل کے لیےمناسب یہی ہے کہ پہلے دوگواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی کو واپس اپنے گھرلےکرآئےاورپھردومہینے روزےیاساٹھ مسکینوں کوکھاناکھلاکراپنا گھرنئے سرے سےآبادکرے۔