سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100)وٹہ سٹہ کی شادی

  • 14885
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1365

سوال

(100)وٹہ سٹہ کی شادی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شریعت اسلامیہ میں شغارکسےکہتے ہیں کیامہرکی موجودگی کے ساتھ ادلےبدلےپربھی شغارکانام صادق آتاہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شغارکےمتعلق مختصراعرض پیش خدمت ہے کہ ہمارے خیال بلکہ تحقیق کے مطابق شغارکامطلب ہی یہ ہے کہ وہ تبادلہ بغیرمہرکےہو۔باقی اگرمہردونوں طرف سےمقررہےتوپھرایسےتبادلہ اوروٹہ سٹہ میں کچھ بھی قباحت وحرمت نہیں اورنہ ہی وہ ممنوع شغارکےباب میں سےہے۔اس کی دلیل ابوداودوغیرہ میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جوشغارکی ممانعت میں ان الفاظ سےواردہوئی ہے:

((قلت لنافع ماالشغارقال ينكح إبنة الرجل وينكحه بنته بغيرصداق وينكح أخت الرجل فينكحه أخته بغيرصداق.)) سنن أبى داودمع عون المعبودطبع ملتاني’ج٢’ص١٨٧.

شغارکی یہ تفسیراگرچہ تابعی نافعؒ سےمروی ہے لیکن نافع ابن عمررضی اللہ عنہ کاتلمیذرشیدہےاس نے یہ تفسیرضرورابن عمررضی اللہ عنہ سےمعلوم کی ہوگی۔اس تفسیرکی مئویدایک مرفوع حدیث بھی ہےجوابی بن کعب رضی اللہ عنہ سےمروی ہےانھوں نے نبی اکرمﷺسےروایت بیان کی کہ آپﷺنےفرمایا:

((لاشغارقالوايارسول الله وماالشغارقال نكاح المرأة بالمرأة لاصداق بينهما.))

‘‘یعنی(دین اسلام میں)شغار(ادلہ بدلہ،وٹہ سٹہ)نہیں انھوں نے کہا اے اللہ

کے رسولﷺشغارکیاہےآپﷺنےفرمایاشغاریہ ہے کہ ایک عورت کانکاح دوسری عورت کے بدلے میں بغیرمہرکےکیاجائے۔’’

اس روایت کی سنداگرچہ ضعیف ہے لیکن ایسے مقام یاامورمیں اس سےاستیناس کیاجاسکتا ہے کیونکہ اس جگہ شغارکی تفسیرکرنامدنظرہےاوریہ تفسیرصحیح سندسےنافع اورامام مالک رحمہااللہ سےثابت ہے اورصحیح بات یہ ہے کہ نافع نے یہ تفسیرابن عمررضی اللہ عنہ سےبیان کی ہے،لہذایہ روایت اس کی تقویت کاباعث بنے گی اورمحققین کسی ایک پہلویامعنی کومتعین کرنےکےلیےضعیف حدیث سےاستدلال کرتے ہیں اوراکثرعلماء کے نزدیک اس کی تقویت کاباعث بنےگی اورمحققین کسی ایک پہلویامعنی کومتعین کرنے کے لیےضعیف حدیث سےاستدلال کرتے ہیں اوراکثرعلماء کے نزدیک بھی شغارکی یہی تفسیرمعتبرہے۔باقی معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث تودرحقیقت ہماری ہی مئویدہےاگرچہ اس کو مولوی حصاری صاحب وغیرہ نےاپنے مسلک کے اثبات میں پیش کیا ہے تاہم اس  میں ان کی عدم توجہ اورعدم تدقیق کودخل ہے۔معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:

((ان العباس بن عبدالله بن العباس أنكح عبدالرحمن بن الحكم ابنته’وانكحه’عبدالرحمن بنته’وكاناجعلاصداقافكتب معاوية إلى مروان يامره’بالتفريق بينهما.))(سنن ابى داود’كتاب النكاح)

‘‘یعنی عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمن بن الحکم سےاپنی بہن کا نکاح کرایااورعبدالرحمن بن الحکم نے عباس بن عبداللہ کواپنی بہن نکاح میں دی اورانھوں نے مہرمقررکی تھی تومعاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کوخط لکھا(اس خط میں یہ بھی  تھاکہ)کہ انھوں نے مروان کو ان دونوں میں تفریق کاحکم دیاہواتھا۔’’

دراصل ان حضرات کو‘‘وكاناجعلاصداقا’’کےالفاظ سے غلطی لگی ہے اوپرجوہم نے ان الفاظ کامعنی لکھاہے وہ ان ہی حضرات کا کیا ہوا معنی ہے ان الفاظ کا مذکورہ معنی قواعدکےخلاف ہے کیونکہ اس صورت میں‘‘جعل’’کادوسرامفعول ہے ہی نہیں حالانکہ جعلدومفعولوں کو چاہتاہےکمافی کتب النحو.صحیح بات یہ ہے کہ اس جگہ اس کا دوسرامفعول  محذوف ہے۔اس کی تقدیر اس طرح ہے‘‘كاناجعلاالنكاح كل واحدمنهماالآخرابنته’صداقا.’’ (كذافي عون المعبودج١٢ص١٨٧) طبع ملتان یعنی ان دونوں نے ایک دوسرے کے  نکاح ہی کومہرٹھہرایاہے،اس معنی کی دلیل مسندابی یعلی کی یہی روایت ہے جومعاویہ رضی اللہ عنہ سےصحیح سندسےمروی ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں:‘‘جعلاه صداقا.’’اب دیکھئے اس میںجعلکامفعول اول‘‘ه.’’موجودہےاوریہ بالکل واضح ہےکہ یہ ضمیرانكاحمصدرکی طرف راجع ہے جوانكاحمیں ہے‘‘كماقالوااعدلواهو(العدل)اقرب للتقوي’’بہرحال مقصد یہ تھا کہ  انھوں نے ان کے اس تبادلہ ہی کوصداق بنایا،اس لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺکےفرمان واجب الاذعان کے مطابق ان دونوں میں تفریق کا حکم صادرفرمایانہ کہ اس لیے کہ وہ محض وٹہ سٹہ تھا۔والاحاديث تفسيربعضه بعضا.لہذامسندابی یعلی کی حدیث ابوداودوالی حدیث کی تفسیرکررہی ہے اورجعلاکےمفعول اول کی تعیین بھی کرتی ہے۔مولاناحصاری وغیرہ کوجعلکےمفعول اول سےصرف نظرکرنے کی وجہ سےغلطی لگی ہے باقی کچھ حضرات اس ادلے بدلے کومفاسدکی وجہ سےممنوع قراردیتے ہیں اس کے متعلق گزارش ہے  کہ یہ مفاسدمحض جہالت اوربے علمی کی وجہ سےوقوع پذیرہوتے ہیں ورنہ جوسمجھدارلوگ ہیں وہ ان کا شکارنہیں ہوتے اگرمفاسدہی کودلیل بنایاجائے توایسے مفاسدجہالت کی وجہ  سے صرف ایک ہی نکاح میں بھی آسکتے ہیں بلکہ

ایسے مفاسدمشاہدہ میں بھی آئے ہیں رشتےداراپنی بچی کا ایک جگہ نکاح کردیتے ہیں لیکن بعدمیں کچھ اغراض کی خاطراپنی بچی روک دیتے ہیں یا فضول اورغیرشرعی شرائط لگادیتےہیں یہ باتین قبول کروورنہ ہم اپنی بچی واپس نہیں کریں گےتوپھرایسے جہال کوکیاکیاکریں؟

درحقیقت وٹہ سٹہ نہ مفاسدکاسرچشم ہے نہ ہی اس میں کوئی خرابی ہے مگریہ خرابیاں محض جہالت کی  وجہ سے پیش آتی ہیں یہ تووٹہ سٹہ نہ ہونے کی صورت میں بھی ممکن ہیں بلکہ واقع ہوچکی ہیں بہرحال میری تحقیق یہ ہے کہ شغارممنوع وہ ہے جوبلاصداق ہواوریہ ہی شغارکی صحیح تفسیر ہے ۔سردست اسی پر اکتفاکی جاتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 440

محدث فتویٰ

تبصرے