سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72)نہری اور برساتی زمین میں فرق

  • 14857
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1632

سوال

(72)نہری اور برساتی زمین میں فرق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ زمین جونہرکے پانی سے پلائی جائے اوروہ زمین جسے بارش سےآبادکیاجائے ان کی پیداوارپرکتنی زکوۃ فرض ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ

((عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال فيماسقت السماءوالعيون وكان عشرياالعشروماسقى بالنضح نصف العشر.)) صحيح البخارى:كتاب الزكوة باب العشرفيمايسقى من ماء السماء والماءالبخارى’رقم الحديث’١٤٨٣.

 ‘‘یعنی آپﷺنےفرمایاکہ جس زمین کوبارش یاچشموں کے ذریعے پانی پلایاجائے یا ایسے درخت ہوں جن کی جڑیں خوبخودزمین سےاپنی حاصل کریں(یعنی ان کو اوپرسےپانی پلانے کی ضرورت نہ ہو)توان سب کی پیداورپرعشر(دسواں حصہ)زکوۃ لاگوہوگی۔’’

اورفرمایاکہ جس زمین کو جانوروں وغیرہ کی محنت سےسیراب کیاجاتاہو(یعنی کھینچ کرپانی پلایاجائے)تواس صورت میں اس کی پیداورپرنصف العشریعنی بیسواں حصہ زکوۃ لاگوہوگی۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس زمین کوبارش سیراب کرےاس کی پیدوارپرعشر(دسواں حصہ)زکوۃ ہے۔

باقی رہاسوال کادوسراحصہ یعنی وہ زمین جسے نہرسےپانی پلایاجائے ۔اس کی پیداورپرکتنی زکوۃ ہےتوظاہر ہے کہ ایسی زمینیں ان زمینوں سےتعلق رکھتی ہیں،جن کے متعلق  حدیث میں ہے کہ ان کوجانوروں کے ذریعے پلایا جائے ان کی پیداورپربیسواں حصہ زکوۃ لاگوہوگی۔کیونکہ شریعت اسلامیہ نے اس مسئلہ میں انسان کی  محنت ومشقت کو مدنظررکھاہے

یعنی جس زمین کو سیراب کرنے کے لیے پانی لانے میں زیادہ مشقت اورتکلیف درکارہےاس کی پیدارپربیسواں حصہ اورجس زمین کوآبادکرنےکے لیے پانی لانے میں زیادہ  مشقت ومحنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ پانی  ازخوداوپرسےاترتاہے اورزمین کو سیراب کردیتا ہےمگراس کےبرعکس جس زمین کو سخت محنت جھیل کرانسان سیراب کرتا ہے توشریعت نے اس کی محنت پر رحم وکرم کرتے ہوئے اس پر زکوۃ بھی کم رکھی ہے۔چونکہ آپﷺکے زمانہ مبارک میں نہروں والے پانی کا سسٹم نہیں تھا بلکہ جانوروں کے ذریعے پانی نکال کرزمینیں سیراب کی جاتی تھیں اس لیے آپ نے ان کے متعلق ارشادفرمایامگرعلماء حقہ نہروں والے پانی سے سیراب کی گئی زمینوں کو ان کے ساتھ ملحق سمجھا ہے ،کیونکہ ان میں بھی سخت محنت کرنی پڑتی ہےجیساکہ نہرکی کھدائی ،صفائی اورآبیانہ دیناجس کا مطلب ہے کہ پانی پیسوں کےساتھ خریدناپڑتا ہے لہذا اگراتنی محنت اورخرچ کے بعدبھی اس پر اتنی زکوۃ مقررکی جائے توپھرآبادگاروں کے لیے تکلیف مالایطاق بن جائے گی اورشریعت کسی پر بھی اس کی طاقت سےزیادہ بوجھ نہیں ڈالتی:

﴿لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرة:٢٨٦)

‘‘اللہ تعالی کسی پربوجھ نہیں ڈالتامگراس کی طاقت کے مطابق۔’’

لہذاایسی زمینوں پربیسواں حصہ زکوۃ لاگوہوگی کافی عرصہ پہلے مولاناحافظ عبداللہ صاحب روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سےتنظیم اہلحدیث اخباربھی ایسافتوی دلائل کے ساتھ شائع ہواتھاوہ مضمون میں نے پڑھاتھاممکن ہے کہ دفترتنظیم اہلحدیث سےوہ شمارہ مل جائے۔

بہرحال علماء اہلحدیث کے محققین موجودہ سرشتہ زمینوں پربھی نصف عشربیسواں حصہ زکوۃ سمجھی ہے اوردلائل سے بھی یہ مسلک صحیح سمجھ میں آتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 398

محدث فتویٰ

تبصرے