میت کوثواب پہنچانے کے لیے قرآن مجیدکی تلاوت کرواناکیساہے؟
میت کوثواب پہنچانے کےبارے میں(ہرمیت کے بارے میں خواہ وہ میت باپ ہوماں ہویا کوئی اجنبی)علماء حق کا اختلاف ہے ۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ وغیرہ اس طرف گئے ہیں کہ ہرمیت کو ثوب پہنچایاجاسکتا ہے اورہرکوئی پہنچاسکتا ہے یعنی وہ میت کا کائی عزیز ہویااجنبی جیساکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ کی کتاب‘‘کتاب الروح’’میں واضح طورپرمعلوم ہوتاہے۔
موجودہ اہلحدیث میں سےبھی بعض کایہی خیال ہے لیکن راقم الحروم احقرالعبادکودلائل کے لحاظ سے یہ سمجھ میں آیا ہے کہ میت اگرماں ،باپ میں سے ہوتاان کے لیے ایصال ثواب جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث سےمعلوم ہوتاہے کسی صحابی نے اپنی والدہ کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اس کی طرف سےصدقہ کرتوکیااس کا اجراسے ملے گا؟آپﷺنےارشادفرمایاکہ ہاں اوریہ ارشادقرآن حکیم کی اس آیت کریمہ:
‘‘ہرانسان کےلیے صرف وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔’’
کی مخالفت نہیں کیونکہ اولادخودماں باپ ک کسب ہے اس لیے اولاد کے اعمال کااجروثواب والدین کو مل سکتا ہے کیونکہ اولادکافعل خودوالدین کافعل ہی ہے کیونکہ وہ انہی کی محنت سے پیداہوئی۔لہذااولادکاکسب بعینہ والدین کاکسب ہی ہے۔البتہ احادیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص فوت ہوجائےاس پر روزے کی قضاہوتواس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھےاس طرح کی احادیث میں لفظ ولی زیادہ عموم کا متقاضی ہے اوراس سے کھینچ تان کرکے اگرکسی دوسرے وزیزوقریب کے لیے ایصال کے لیے مستدل بنایاجائے توایساہوسکتا ہےلیکن ہےپھر بھی کھینچ تان لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر اس سے بالکلیہ اجنبی کے لیےایصال ثواب پراستدلال کرنا محض سینہ زوری کی بات ہے البتہ قیاس کیا جائے تواوربات ہےلیکن جولوگ قیاس کے انکاری ہیں توان کے لیے توکوئی حجت نہیں۔
خیرالقرون کے دورمیں ایسی امثلہ نہیں ملتیں کہ کسی اجنبی کے لیے کسی نے ایصال ثواب کوجائز سمجھا ہویااس کے لیے قرآن خوانی کی ہو۔البتہ اولادکا والدین کے لیے صدقہ کرنا وغیرہاکسی امثلہ موجودہیں اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ اجنبی کے لیے ایصال ثواب سے اجتناب کیا جائے اوران کے لیے صرف دعامغفرت وترجم وغیرہ پراکتفاکیاجائے ،یعنی جس قدرشریعت میں وارد ہوا ہے اس سے آگے نہ بڑھاجائے۔
تاہم جولوگ اجنبی کے لیے بھی جوازکے قائل ہیں ان ےک نزدیک بھی کئی شروط ہیں جن کی پابندی لازمی طورپرکرناہوگی مثلاکسی دن وغیرہ کو خاص کردیناجیسا کہ جاہل لوگ گیارویں،بارویں،عرس وغیرہ کرتے ہیں اس طرح کے نمونے ہرگزنہیں ہونے چاہئیں اوران کاموں میں سے کسی کام کو کسی خاص مقررہ صورت میں اداکرنامثلا چارمولوی منگواکرقرآن خوانی کروانااوراس کے بعدان کی لذت ولطف کا انتظام کرنا ان باتوں اوران کےعلاوہ اس طرح کی دیگر باتوں سےان مجوزین من اہل الحق کے نزدیک بھی پرہیزکرناواجب ولازم ہے ۔اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اولاد اپنے والدین کے لیے قرآن خوانی کرواسکتی ہے اس کا جواب یہ ہے ۔
(وباللہ تعالی التوفیق)حدیث میں والدین کے لیے عام صدقہ کرنے کا اثبات ہے اورصحیح حدیث میں جوبخاری ومسلم میں ہے جوواردہوئی ہے کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
((الكلمة الطيبة صدقه.)) (الحديث)‘‘یعنی آپﷺنے پاک اورطیب کلمہ کوبھی صدقہ قراردیا ہے۔’’
اورقرآن حکیم سے بڑھ کردوسراکلمہ طیبہ کامصداق کیا بن سکتا ہے ۔
بہرحال راقم الحروف کی سمجھ کے مطابق اولاداپنے والدین کے لیے قرآن خوانی کرسکتی ہے لیکن اس طرح کہ خودپڑھ کرثواب ان کے سپردکردےاس طرح نہیں کہ پیٹ کے پجاریوں کوبلاکران سےپڑھواکراورپھر ان کے لیے اکل وشرب کاانتظام کیاجائے بلکہ خودپڑھے اوراس کےلیے کوئی خاص دن یاوقت مقررنہ کرےکیونکہ
اللہ تعالی اورمقدس رسولﷺسے اس طرح ثابت نہیں۔