سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(63)دعائے قنوت قبل رکوع یا بعد الرکوع

  • 14848
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1410

سوال

(63)دعائے قنوت قبل رکوع یا بعد الرکوع
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وتروں میں دعائےقنوت رکوع کےبعدپڑھنی چاہیےیارکوع سےپہلےہاتھ اٹھاکریاہاتھ باندھ کریاکھلےچھوڑکراورتین رکعت وترکی دوسلام سےپڑھتےوقت نیت کس طڑح ہو؟صرف قرآن وحدیث کےعین مطابق جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(١)۔۔۔۔وترمیں قنوت رکوع سےپہلےبھی آئی ہےرکوع کےبعدبھی آئی ہےجیساکہ نسائی شریف وغیرہ کتب حدیث سےصحیح طورپرمعلوم ہوتاہےیونی یہ دونوں امرجائزہیں۔

البتہ میری تحقیق بخاری وغیرہ کی حدیث سےیہی ہےکہ اکثرطورپروترمیں قنوت رکوع سےقبل پڑھنی چاہیےاورفرض نمازمیں رکوع کےبعد۔لیکن حدیث کی روسےدونوں باتیں واردہیں باق اگررکوع سےقبل قنوت پڑھےتوہاتھ باندھ کراوراگررکوع کےبعدتوہاتھ چھوڑکر۔

(٢)۔۔۔۔خاص طورپروترمیں دعائےقنوت کےلیےنبی کریمﷺسےکوئی حدیث تاحال ایسی دیکھنےمیں نہیں آئی جس میں یہ واردہوکہ اس میں آپ ہاتھ اٹھاکرپڑھاکرتےتھےیاہاتھ نہیں اٹھاتےتھے،البتہ فرض نمازمیں قنوت پڑھنےکےلیےہاتھوں کےاٹھانےکی حدیث صحیح۔امام احمدکےمسندوغیرہ  میں واردہے۔لہٰذامجھ سےجوپوچھتاہےکہ وترکی دعاقنوت میں ہاتھ اٹھانےچاہئیں یانہیں تومیں ان کویہ جواب دیتاہوں کہ جوکام فرض نمازمیں جائزہےوہنوافل میں بھی جائزہےجب فرض نمازمیں قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانےثابت ہیں تووترجوصحیح مسلک قرآن وحدیث کےمطابق فرض نہیں ہےبلکہ نفل ہےتواس میں بھی ہاتھ اٹھانےجائزہوتےہیں یونی اگرکوئی اٹھائےتواس کوبھی جائزکہناچاہیےالبتہ اس کوضروری یانبیﷺکی واردہ سنت تصورنہیں کرناچاہیے۔البتہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سےوترمیں ہاتھ اٹھانےکےآثارہیں لہٰذامیں تواس کوصرف جائزسمجھتاہوں اورہفتہ میں صرف ایک مرتبہ رکوع کےبعدقنوت پڑھتاہوں اورہاتھ بھی اٹھالیتاہوں۔والله اعلم

(٣)۔۔۔۔وترکاطریقہ اکثرطورپردوسلام سےہی صحیح حدیثوں میں واردہےالبتہ ایک سلام سےبھی حدیث میں آیاہےلیکن اس صورت میں دوسری رکعت پربھی تشہدکےلیےبیٹھنانہیں ہےبلکہ تیسری اورآخری رکعت میں بیٹھ کرتشہدوغیرہ پڑھ کرسلام پھیردیناچاہیےجیساکہ احادیث میں واردہےاورحدیث میں(سنن دارقطنی)وغیرہ میں یہ بھی آیاہےکہ وترکومغرب نماز کےمشابہہ نہ بناؤ۔لہٰذااگروترایک سلام سےپڑھےتوبیچ میں قعدہ نہ کرے،کیونکہ اس صورت میں وترمغرب نمازسےمشابہہ ہوگا۔بعض لوگ کہتےہیں کہ وترقنوت سےمغرب نمازسےممتازہوجائےگا۔لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ قنوت نازلہ نبی کریمﷺسےصحیح حدیثوں میں پانچوں فرائض‘‘جن میں مغرب بھی آجاتی ہے’’مٰں واردہے،لہٰذاقنوت سےوترکی مغرب سےمشابہت ختم نہیں ہوگی یہ مشابہت صرف اس صورت میں ختم ہوگی کہ بیچ مٰں قعدہ نہ کیاجائےیااحناف جودعائےقنوت پڑھتےوقت ہاتھ اٹھاکراللہ اکبرکہہ کرپھرہاتھ باندھ کرقنوت پڑھتےہیں اورسمجھتےہیں کہ اس طرح مغرب سےمشابہت ختم ہوگئی یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ طریقہ محدثہ ہے،نبی کریمﷺسےاس طرح ثابت نہیں۔باقی نیت رہی تویہ ابتداءہی میں پہلی رکعت کےشروع کرتےوقت تین رکعات ہی کی کی جائےگی رہابیچ میں سلام کاتخلل تویہ اللہ کےرسولﷺکی سنت کی وجہ سےہےاورہم یہ کرتےبھی سنت کی وجہ سےہی ہیں۔ہمیں حکم بھی سنت کےاتباع کاہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 333

محدث فتویٰ

تبصرے